حسنین اخلاق
پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی وہ پٹی جو جنوب میں دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے جنوبی پنجاب کہلاتی ہے۔ یہ علاقہ ملتان، رحیم یار خان، بہاولپور، بھکر، لیہ، راجن پور، میانوالی، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ ، خوشاب، لودھراں، وہاڑی، بہاولنگر ، خانیوال ، ساہیوال اور پاکپتن پر مشتمل ہے ، یہاں پرزیادہ تر نواب، وڈیرے ،بخاری، خان ، مزاری، گورچانی، گیلانی، کھر، نوانی ، شہانی ، لغاری، ڈھانڈلہ، روکھڑی، شادی خیل، اعوان، اولکھ، سیال، شیخ ، رانا اور گجر برادریوں کے سردار عرصہ دراز سے عوام کے سیاہ و سفید کے مالک ہیںاور بات صرف سیاست پر ہی موقوف نہیںیہاں کی معیشت پر بھی انہیں کا سکہ رائج ہے۔ جنوبی پنجاب کے کئی بڑے نام وزیر اعلیٰ ، گورنر اور وزیر اعظم کے عہدے پر تعینات رہے ہیں، اس کے باوجود وہ یہاں کے عوام کی محرومیوں کے ازالہ کے لیے موثر اقدامات نہ کرسکے ۔ قصہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا، سینٹ، قومی اور صوبائی اسمبلی کے ایوانوں میں آج تک گنتی کے ایک دو ناموں کے سواکسی نے یہاں کے باسیوں کے حقوق کے لیے نہ تو آواز بلند کی اور نہ ہی حکومت وقت سے کوئی موثر مطالبہ کرنے کی جسارت کی ۔ پاکستانی سیاست کے عجب رنگ ہیںیہاں خونی رشتوں میں گندھی اہم سیاسی شخصیات کو بھی ایک دوسرے کے مد مقابل آنا پڑتا ہے۔گزشتہ انتخابات پر نظر ڈالیں تو کہیں باپ بیٹا آمنے سامنے رہے تو کہیں بھائی بہن مخالف جماعتوں کی جانب سے میدان میں اترے یہی حال جنوبی پنجاب کا بھی تھا ۔سابق گورنر پنجاب اور مسلم لیگ ن کے ناراض رہنماءسردار ذوالفقار کھوسہ کا ڈیرہ غازی خان کی صوبائی نشست پر اپنے ہی بیٹے سے مقابلہ ہوا،سردار سیف کھوسہ پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنے والد سردار ذوالفقار کھوسہ کے امیدوار تھے جبکہ سیف کھوسہ انتخابات سے کچھ عرصے پہلے مسلم لیگ نون کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ جنوبی پنجاب کے سیاست دانوں کی ترقی کی ایک اور مثال ڈیرہ غازیخان سے مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ناظم اعلیٰ حافظ عبدالکریم ہیں جو ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور آ ج کل بطور وفاقی وزیر مواصلات کابینہ کا حصہ ہیں ان کی کہانی بذات خود متاثر کن ہے کہ کس طرح ایک مدرسے سے بطورموذن اپنے عملی کرئیر کا آغاز کیا اور اس وقت پاکستان کے سب سے امیر پارلیمینٹرینز میں شامل ہیں ۔اسی طرح سابق وزیر اعلی پنجاب غلام مصطفی کھر اور ان کے چھوٹے بھائی غلام ربانی کھر نے جنوبی پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ سے دو الگ الگ حلقوں سے انتخاب میں حصہ لیا۔غلام مصطفی کھر نے جو آ ج کل پی ٹی آئی کاحصہ ہیں مسلم لیگ فنکشنل جبکہ ان کے بھائی غلام ربانی کھرنے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا،یاد رکھنا چاہئیے کہ ربانی کھر سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے والد ہیں۔کھر برادران کی طرح جنوبی پنجاب کے علاقے بہاولپور کے مخدوم برادران میں مخدوم علی حسن گیلانی کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ملا جبکہ ان کے بھائی سمیع اللہ گیلانی نے نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا۔ 2013ءکے عام انتخابات میں جنوبی پنجاب کی قومی اسمبلی میں 43اور پنجاب اسمبلی میں 92نشستیں انتہائی اہمیت کی حامل رہیں۔جنوبی پنجاب، ملتان سے لے کر رحیم یارخان تک 3ڈویڑنوں میں تقسیم ہے،جس میں 11اضلاع آتے ہیں۔قومی اسمبلی کی سیاست میں اگر ہم پچھلے عام انتخابات پر نظر ڈالیں تو یہاں سے پیپلزپارٹی کا پلڑا بھاری رہا ۔اس نے2008ءکے انتخابات میں 43میں سے 21نشستیں حاصل کی تھیں۔مسلم لیگ(ن) نے 8،جبکہ مسلم لیگ(ق) نے 12نشستیں جیتیں۔فنکشنل لیگ نے ایک اور ایک نشست آزاد امیدوار نے جیتی۔اسی طرح پنجاب اسمبلی کی 92نشستوں میں سے پیپلزپارٹی نے 40، مسلم لیگ(ن) نے 18، مسلم لیگ(ق) نے 20، فنکشنل لیگ نے 3، ایم ایم اے نے 1اور 10نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب رہے۔2013ءکے انتخابات میں ملک کے دیگر صوبوں کی طرح ن لیگ نے جنوبی پنجاب میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے جبکہ آزاد حیثیت سے کامیاب ارکان نے بھی برسراقتدار جماعت میں شمولیت ہی کو ترجیح دی۔اگر نئی حلقہ بندیاں نہ ہوئیں توایک بار پھر آنے والے انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کی نظر قومی اسمبلی کی ان 43 نشستوں پر ہوگی ۔2008ءکے عام انتخابات میں ضلع خانیوال سے مسلم لیگ(ن) قومی اسمبلی کی 4اور پنجاب اسمبلی کی 8نشستوں میں سے کوئی بھی نشست حاصل نہیں کر پائی تھی۔ مظفرگڑھ اور لودھراں بھی جنوبی پنجاب کے ان اضلاع میں شامل ہیں، جہاں مسلم لیگ(ن) ناکام ہوگئی تھی۔اسی طرح سابق حکمران جماعت پی پی پی ڈیرہ غازی خان کی کوئی قومی اور نہ ہی صوبائی نشست نہیں جیت سکی جبکہ پی پی پی کے بعد مسلم لیگ(ق) کی پوزیشن بہتر تھی ۔بہاولپور کے گردیزی اور رحیم یارخان سے مخدوم احمد محمود کی فیملی کے پیپلزپارٹی میں آنے سے پارٹی کو فائدہ ہوا ہے۔گزشتہ انتخابات میں ملکی سیاست میں تیسری بڑی قوت کے طور پر ا±بھرنے والی جماعت تحریک انصاف کو بھی جنوبی پنجاب میں اچھے امیدواروں کی تلاش رہے گی کیونکہ اس بار امیدواروں کی بڑی تعداد ان ٹکٹ کے حصول کے لیے سرگرداں ہے اصل معرکہ جیتنے والے امیدواروں کا چناﺅ ہے۔اگر دیکھا جائے تو اپر پنجاب میں کہیں میٹرو ، اورنج ٹرین ، موٹر وے تو کہیں میڈیکل کالجز بنائے جارہے ہیں، شومئی قسمت کہ جنوبی پنجاب کے ممبران اسمبلی میگا پراجیکٹ لانے کی بجائے ایک دوسرے کا مینڈیٹ چوری کرنے ، دوسروں کے منصوبوں پر سیاست چمکانے ، اور سٹے آرڈر کی سیاست میں مصروف رہتے ہیں۔جنوبی پنجاب سہولیات کے اعتبار سے اپر پنجاب کی نسبت کم ترقی یافتہ ہے ، صوبے کا سارا بجٹ صوبائی مرکز پر لگانے کی وجہ سے جہاں جنوبی پنجاب کی محرومیوں میں اضافہ ہوا وہیں یہاں کے نوجوان بے روزگاری کی دلدل میں پھنس کر یا تو منشیات فروشی یا پھر جرائم کی دنیا میں جارہے ہیں۔ویسے ہم سرائیکی صوبہ کے حق میں نہیںجوکہ زبان کی بنیاد پر تشکیل پائے ، لیکن حکومت وقت کے ناروا رویہ اور یہاں کی محرومیوں کو دیکھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کے باسی کیوں الگ صوبہ کا مطالبہ کررہے ہیں، ایسی صورت حال میں وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور سرداروں سے نجات کے لیے عوام کا ساتھ دینا ہوگا ورنہ آئندہ انتخابات میںانہیں اس بات کا اندازہ ہوجائے گا کہ یہاں کے عوام کی اصل ضرورت کیا ہے۔روزنامہ خبریں نے جو کہ جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے اخبار کا درجہ برقرار رکھے ہوئے ہے ، ایک بار پھر سبقت لیجاتے ہوئے بہاولپور اور گرد و نواح کے علاقوں کوبھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کے نام پر دریا ستلج کاپانی روکنے سے ہونے والے نقصان کے حوالے سے سیمینار کا اہتمام کیا ۔تقریب میں علاقے کی معروف شخصیات کی شرکت اور ان کی اس حوالے سے سنجیدگی دیکھ کر یہ اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں تھا کہ وہ اس ناانصافی سے کس قدر پریشان اور اپنے سیاسی لیڈران کی بے اعتنائی پر کتنے نالاں ہیںکہ جو اس معاہدے کے تحت بننے والی نہریں بنانے میں بھی غیر سنجیدہ رہے اوریہ امر بھی آئندہ انتخابات پر یقینی طور پر اثر انداز ہوگا۔ صرف ستلج ہی نہیں تونسہ بیراج کی تعمیر کے وقت جنوبی پنجاب کے پسماندہ ترین علاقے راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کیلئے نہری پانی کیلئے جو حصہ مختص کیا گیا تھا وہ بھی آج تک فراہم نہیںکیا گیا اسی طرح تونسہ بیراج سے کچھی کنال کو نکالاگیا جو ڈیرہ غازی خان اور راجن پور سے گزر کر سندھ اور بلوچستان کو پانی فراہم کرنے کیلئے ہے۔اس میں سے اگر پانی کا کچھ حصہ ان اضلاع کو دے دیا جائے تو نہ صرف علاقے کی لاکھوں ایکڑ اراضی کشمور سندھ تک آباد کرنے سے کسان خوشحال ہونگے بلکہ حکومتی ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا۔لیکن اس طرح صوبوں میں تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے پنجند کی سرزمین نہ تو مکمل طور پر آباد ہو سکی اور نہ ہی تونسہ بیراج سے ضرورت کا پانی مہیا کیا جاسکا۔