15/07/2017 ناصر صلاح الدین 920
مشرقی پنجاب میں ہونے والے ظلم وستم کی تفاصیل بہت سی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ اس میں سے ایک موثر کتاب خواجہ افتخار مرحوم کی معروف تصنیف ’جب امرتسر جل رہا تھا‘ کے عنوان سے ہے۔ معروف کارٹونسٹ اور پنجابی کہانی کار انور علی نے اپنی خودنوشت میں لدھیانہ پر گزرنے والی قیامت کو انسان دوست نقطہ نظر سے قلم بند کیا ہے۔ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے ”مشترکہ ورثہ“ کے نام سے ایک نہایت عمدہ کتاب شائع کی ہے لیکن اس کے لکھنے والے مثلاً شائستہ اکرام اللہ، خوشونت سنگھ، شہلا شبلی ، مختار زمن، ارونا آصف علی، محمد علی صدیقی ، برج کمار نہرو اور پنڈو چنتا منی ایسے اعلیٰ ظرف اور روادار افراد ہیں کہ ان سے دو ٹوک اور تلخ تاریخی حقائق کے بیان کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
اسی طرح برصغیر کے ممتاز محقق اور مورخ احمد سلیم نے دو جلدوں میں تقسیم ہند اور بعد ازاں تقسیم پاکستان (بنگلا دیش کی آزادی) کے انسانی پہلوﺅں کا احاطہ کرنے کی قابل قدر کوشش کی ہے۔ پہلی کتاب کا نام ہے The Land of Two Partitions and Beyond جب کہ دوسری کا عنوان Reconstructing History ہے۔ تاہم احمد سلیم کی مرتب کردہ دونوں کتب میں شامل مصنفین کا بنیادی زور سیاسی تجزیے اور تاریخی واقعیت کی بجائے مختلف فرقوں میں ہم آہنگی اور رواداری کی روایت نیز آئندہ امن اور بھائی چارے کے امکانات پر ہے۔ یہ پہلو بجائے خود نہایت ارفع ہونے کے علی الرّغم تاریخی معروضیت اور سیاسی تجزیے میں زیادہ مدد گار نہیں۔