2010
ڈاکٹر ایم اے صوفی…………….
خان عبدالغفار خان عرف سرحدی گاندھی جس نے اپنے آپ کو عدم تشدد No violence کے اصول میں مہاتما گاندھی کی پہچان کے ساتھ منسلک کیا اور ساری زندگی گاندھی جی کے افکار کے ساتھ اکثر ان کے آشرم میں گزاری۔ انکے ننگے لباس کو تبرک خیال کیا۔ انکے ساتھ سیر کی‘ اکثر گاندھی جی دو لڑکیوں کا سہارا لیکر سیر کرتے تھے۔ سرحدی گاندھی ان کا ساتھ دیتے تھے۔ غفار خان کو سرحدی گاندھی سرحد کیلئے مہاتما گاندھی جی نے اس لئے مقرر کیا تھا کہ وہ اپنے گائوں اتمان زئی میں آشرم بنائیں گے اور لوگوں کو پٹھانوں کو عدم تشدد کا پرچار کریں گے۔ اصل میں گاندھی جی کے نزدیک تقسیم ہند گائو ماتا کو ذبیح کرنے کے برابر تھا۔ لہذا عبدالغفار خان بھی تقسیم ہند کیخلاف تھے اور وہ دلی خواہش رکھتے تھے ہندوستان کی تقسیم نہ ہو۔ اگر ہو جائے تو شمالی مغربی صوبہ سرحد بھارت کا حصہ بن جائے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے صوبہ سرحد کا دورہ 1947ء کو کیا۔ دیکھا کہ لوگ تو بھارت کیخلاف ہیں۔ پاکستان کے حق میں ہیں۔ میں نے ریفرنڈم کا اعلان کیا اس پر غفار خان سرخ پوش رہنما نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر دیا اور پختونستان پختون خوا کا اعلان کر دیا۔
سرحد میں ریفرنڈم 12-17 جولائی 1947ء ہوا۔ لوگوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالے اور بھارت کو مسترد کر دیا لہذا صوبہ سرحد پاکستان کا حصہ ہو گیا اس پر غفار خان خفا ہوئے اور گاندھی جی کو گلا کیا آپ اور نہرو صاحب نے تقسیم ہند قبول کر کے ہمیں پنجابی بھیڑیوں کے سامنے ڈال دیا ہے اور پختونستان پختون خوا کا مسئلہ کھڑا کر دیا جو انگریز کی اور کابل حکومت کی ملی ہوئی سازش تھی۔
پس منظر :
پختون خوا کا مدعا پختونوں کے پڑوسی‘ کچھ پاکستان کے پشتو بولنے والے اضلاع کی افغانستان کے پشتو بولنے والے اضلاع میں کو ملا کر نئی پختونوں کی ریاست کی تعبیر تھی۔ حالانکہ ڈیورنڈ لائن ایک مستقل معاہدہ ہے جو 12 نومبر 1893ء میں اس وقت انگریز کی حکومت کے سیکرٹری Sir Mortimer Durand اور بادشاہ امیر عبدالرحمٰن خان کے درمیان کابل میں طے پایا اور دونوں حکومتوں کے حضرات نے دستخط کئے ہیں اور اس کا نقشہ تیار کیا گیا اور افغانستان بھر میں اعلان کیا گیا۔ اس معاہدہ کی رو سے Demakcation اپریل 1894ء میں شروع ہوئی جو مئی 1896ء میں مکمل ہوئی اور اس تاریخی دستاویز میں سات مختلف معاہدوں پر دستخط ہو گئے۔
-1 21 نومبر 1894ئ‘ 26 فروری 1895ء 8 مارچ 1895ء 19 اپریل 1895ء 15 اپریل 1895ء اور 13 مئی 1896ء میں طے پائے امان اللہ خان نے جہاد کی ٹھان لی۔ اس پر دو مزید معاہدے طے پائے۔
افغانستان میں امیر عبدالرحمٰن کے بعد امان اللہ خان برسر اقتدار آئے انکی خواہش ٹھہری کہ وہ پختونوںکے علاقہ افغانستان کو پشاور اور Derajat ڈیرہ جات دریائے سندھ تک ملایا جائے۔ مگر اس وقت کی برطانوی حکومت نے سختی سے ردعمل کیا اور امان اللہ خان نے دوبارہ اس پر ردعمل 8 اگست 1991ء میں راولپنڈی میں فیصلہ کیا جو معاہدہ پہلے امیر عبدالرحمٰن نے کیا تھا وہ برقرار رہے گا اور ان علاقوں کی حد بندی کی جائے جن کی ابھی رہتی ہے اور مغربی خیبر کے حصوں تک حد بندی کی جائے۔ انگریز نے یہ علاقے رنجیت سنگھ حکومت سے فتح کئے تھے اور اس سے قبل صوبہ سرحد اور کابل کے کچھ حصوں تک سکھوں کی حکومت تھی جو 1848ء کو انگریز کے قبضہ میں آ گئی اسی طرح اس معاہدہ کی منظوری 22 نومبر 1921ء میں ہوئی۔
دوبارہ کابل میں دستخط کئے گئے کہ راولپنڈی والا معاہدہ اسی طرح منظور ہوا ہے اور فیصلہ ہوا خیبر کے مغربی حصہ کی باونڈری کی جائیگی۔ اس پر کمیشن نے ستمبر 1919ء معاہدہ کو مثبت قرار دیا۔ کبھی کبھار باڈرز کے مسائل ابھرتے رہے اور 11 جولائی 1932ء کو ایک مزید معاہدہ یوں طے پایا کہ جو عمل 1893ء میں شروع ہوا۔ 1934ء یعنی چالیس برسوں تک چلتا رہا۔ وہی جاری رہے گا۔
ہندوستان میں آل انڈیا نیشنل کانگریس پارٹی 1884ء میں لارڈ ہیوم نے بنائی اور 30 دسمبر 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ڈھاکہ میں نواب سرسلیم اللہ خان کی رہائش گاہ پر ہوا۔ ان دونوں تحریکوں کے وجود میں آنے کے بعد آزادی وطن کی تحریک آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کی ہندوستان کی تقسیم کیلئے چلتی رہیں کانگریس کا خیال تھا کہ تقسیم ہند نہ ہو۔ مگر مسلم لیگ تقسیم ہند چاہتی تھی جب لارڈ مائونٹ بیٹن نے 3 جون 1947ء کی تقسیم ہند کا فارمولا پیش کیا۔ تو غفار خان نے افغانستان حکومت نے تجویز کو نامنظور کیا کہ 1921ء کے معاہدہ افغانستان اور ہندوستان انگریزی حکومت نے دستخط کئے تھے یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کہ دونوں جدا ملک ہیں۔ انگریز نے کہا دونوں ملکوں کی بائونڈری ہیں اس پر انگریز حاکم ہیں اور ایک پرافغان حاکم ہیں۔
کہ کسی دوسرے ملک (افغانستان) کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے ملک کی دھرتی‘ نظام میں مداخلت کرے۔ ریفرنڈم ان ہی علاقوں کا حق ہے جو ہندوستان کے اندر ہیں۔ ہندوستان کی انگریز حکومت ہر گز کسی غیر حکومت کو مداخلت کرنے نہیں دیتی۔ جب آزادی ہند کی تحریک چلی اور ہندوستان کی عبوری حکومت 1946ء میں پنڈت جواہر لعل نہرو‘ بیرونی وزارت کے سربراہ تھے اور لیاقت علی خان وزارت خزانہ کے سربراہ تھے۔ افغانستان حکومت کی ناجائز ڈیمانڈ کو مسترد ہی نہ کیا بلکہ خلاف قانون قرار دیا۔ 4 جولائی 1947ء کو پنڈت نہرو نے لیاقت علی خان کی موجودگی میں اخباری بیان یوں دیا تھا ’’کہ ایک ماہ قبل سے افغانستان ریڈیو سے نشر کیا جا رہا ہے کہ سرحد کے پٹھان افغان ہیں وہ انڈین نہیں ہیں۔ دونوں حصوں کے پٹھانوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ اور مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتے ہیں۔ ان کو اس عمل سے روکا نہیں جا سکتا اور ہونے والے ریفرنڈم سرحد میں یہ فیصلہ ہو کہ آیا پٹھان افغان جدا ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ یا وہ اپنی مادر وطن افغانستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں اس طرح کا بل ریڈیو نے صوبہ سرحد کے ریفرنڈم کو ہچکولا بنایا اور پٹھانوں پختونوں کی نئی ریاست کا خواب دیا۔ جس کا اعلان عبدالغفار خان نے 3 جولائی 1947ء کے ریفرنڈم سرحد میں کیا تھا۔ اسی دوران ایلف کیرو سرحد کے گورنر تھے۔ انہوں نے ایک بڑی ضیخم کتاب ’’دی پٹھان‘‘ تحریر کی اور عبدالغفار خان کو لقمہ پختونستان کا دیا۔ جب یہ پراپیگنڈہ کابل ریڈیو سے عام ہوا تو برطانوی حکومت نے اس کو سنجیدگی سے سوچا اور عمل تیار کیا‘ حکومت (برطانیہ) ہندوستان نے کابل کے اس کلیم کو غلط قرار دیا بلکہ حکومت ہند نے اسے Predentis کہا کہ افغانستان کو کس طرح ڈیورنڈ لائن سے ہٹ کر دریائے سندھ تک پٹھانوں کا علاقہ قرار دیا جائے کہ آزاد پٹھانوں کی ریاست بنائی جائے اور صوبہ سرحد کے معاملہ میں افغانستان کی حکومت کا مداخلت کرنا درست نہیں اور ہز میجسٹی حکومت نے افغانستان حکومت کو خبردار کیا کہ اپنے اندرونی حالات کو درست کریں۔ دوسرے ملک میں مداخلت کرنا درست نہیں‘ کابل ریڈیومسلسل پٹھانوں اور پختونوں کے حق میں غلط تاثر دیتا رہا۔
چنانچہ برطانوی حکومت نے اس سلسلہ میں مزید 5 جولائی کابل کو مطلع کیا ’’ کہ وہ علاقہ جو برطانوی حکومت کے زیر اثر ہے۔ معاہدہ ڈیورنڈ لائن اینگلو افغان معاہدہ 1921ء میں درج ہے۔ لہذا حکومت ہند نے افغان حکومت کو واضح کر دیا کہ ایسی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائیگی۔ اس طرح کی کہانی بنائی کہ افغانستان پختون اور پاکستان کے حصوں کے پختون ملک کر اپنی آزاد ریاست بنائیں۔ یہی وجہ ہے کہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو افغانستان پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کی مخالفت کی اور عبدالغفار خان نے پاکستان کو قبول نہیں کیا۔ ڈاکٹر خان صاحب 22 اگست 1947ء تک سرحد کے وزیراعلیٰ رہے۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستانی جھنڈے کو سلامی نہیں دی۔ یہ وہ سازش ہے جو چلتی جا رہی ہے۔ پختون خوا کا مدعا یہی ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے پٹھان‘ افغان ایک ہیں پٹھان نہ انڈین ہیں نہ پاکستانی ہیں یہ وہی جذبہ عبدالغفار خان کی اولاد اور ماننے والوں کا ہے۔
نیشنل عوامی پارٹی جب کوئی تقریب کرتی ہے تو تمام ورکرز سرخ لباس اور سرخ ٹوپی پہنتے ہیں اور اپنی پارٹی کے نام کے آگے پاکستان نہیں لگاتے اس وقت سرحد کی حکومت نے اپنے دفاتر میں عبدالغفار خان کی تصویر رکھی ہے لہذا ڈیورنڈ لائن جو ایک تاریخی معاہدہ ہے۔ دونوں حکومتوں کے درمیان ریکارڈ پر دستخط 12 نومبر 1893ء میں ہوئے اور بعد میں 1921ء میں ہوئے اس معاہدہ کو توڑنے اور جدا پختون ریاست بنانے کی سازش ہے۔
62 سال پاکستان کے معرض وجود میں آئے گزر گئے مگر یہ لوگ حکومت بھی کرتے ہیں مگر اپنی روش پختون خوا کی نہیں بدلتے‘ یہ وہ قدیم سازش ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے پختونوں کی پختونستان کی ریاست بنائی جائے جو ناممکن ہے۔ صوبہ سرحد میں چند اضلاع میں پشتو زبان بولی جاتی ہے اور چند اضلاع چارسدہ‘ مردان کی دیہی آبادی‘ مالاکنڈ ہشت نگر پختون نہیں اپنے اضلاع کو اکٹھا کر کے ان کا نام تبدیل کریں کسی ضلع کا نام زبان‘ ذات پر نہیں ہے۔ سب کے سب تاریخی اور جغرافیائی نام ہیں۔ ڈویژن ہزارہ جدا علاقہ ہے اس علاقہ کی ثقافت‘ تمدن‘ رہن سہن تاریخ زبان مختلف ہے۔ لباس جدا ہے کاغان کا علاقہ جات میں سردی ہے‘ لباس گہرا ہے۔ ہند کو زبان جدا ہے۔ ایبٹ آباد سر ایبٹ کے نام پر آباد ہے۔ اسکی تاریخ جدا ہے۔ مانسہرہ مان سنگھ کے نام پر ‘ ہری پور‘ ہری سنگھ کے نام پر ہے۔ اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں سرائیکی طرز کی زبان ہے۔ کلچر جدا ہے‘ آب و ہوا مختلف ہے۔ ثقافت‘ شعر وادب جدا ہیں کوہاٹ شہر اور علاقہ جات کی اپنی ادا ہے۔ ان لوگوں میں پختون کم ہیں۔ پشاور شہر کی ثقافت میں چاشنی ہے۔ پشاوری زبان میں مٹھاس ہے۔ ثقافت میں فارسی کا دخل ہے اور مختلف اقوام رہائش پذیر ہیں۔
لہذا صوبہ سرحد میں ایک زبان نہ تو پشتو ہے نہ ہندکو‘ نہ ہی سب لوگ پختون ہیں اعوان‘ جاٹ‘ راجپوت مختلف زبانیں‘ مختلف تہذیبیں ہیں۔ اس وجہ سے ان علاقوں کو نہ تو نام پختون خوا‘ خواہ ہزارہ پختون خوا ہو منظور نہیں ہو گا۔ میری جائے پیدائش ہری پور ہزارہ 28 جولائی میں ہوئی۔ میں نے آنکھ ایک منفرد ماحول میں کھولی‘ اب میں کیسے اپنے آپ کو پٹھان بنا سکتا ہوں۔ خود کیسے پشتو بولوں گا اور اولاد کو کیسے سکھا دونگا؟ جو لوگ پٹھان نہیں وہ کیسے اب بن سکتے ہیں؟ یہ علاقہ سب قوموں کا ہے۔ پختون خوا ہزارہ لالی پاپ کی طرح شوشہ چھوڑا گیا۔ اگر نام تبدیل کرنا مقصود ہے تو جغرافیائی نام رکھے ’’اباسین‘‘ اس علاقے میں دریائے سندھ کو اباسین کہتے ہیں درہ خیبر تاریخی درہ ہے۔ مسلمان فاتح اس علاقے سے وارد ہوئے‘ گندھارا کی تہذیب ہے اور تمام ہم لوگ پٹھان‘ پشاوری‘ ہزاروی مسلمان ہیں‘ اسلامیان بہتر ہے ہر آدمی کو اپنی شناخت پر رہنا چاہئے نہ زبان اور نہ ذات پات ہو‘۔
ہم تو قائداعظم محمد علی جناحؒ کی 15 جون 1948ء تقریر جو بلدیہ کوئٹہ میں فرمائی تھی اس کو حقیقت سمجھتے ہیں ہم سب پاکستانی ہیں نہ بلوچ ہیں نہ پٹھان‘ نہ سندھی‘ نہ بنگالی اور نہ پنجابی ہمیں صرف پاکستانیوں کی حیثیت سے متعارف ہونے پر فخر ہونا چاہئے۔ اور کسی حیثیت سے نہیں۔ حضور نبی کریمؐ کا حج الوداع کا خطبہ بھی ہماری رہنمائی کر سکتا ہے۔ کالے کو گورے پر فوقیت نہیں‘ عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں اللہ کے نزدیک وہ مقرب ہو گا جس کا کردار بلند ہو گا۔ قرآن حکیم نے بھی یہی کہا ’’ہم نے ذات پات اس لئے بنائی تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اللہ کے نزدیک مقرب وہی ہوگا جو زیادہ تقویٰ دار ہو گا۔