By محمد اسد On اپریل 15, 2010
صوبہ سرحد کے بڑے حصہ پر مشتمل ہزارہ ڈویژن کی عوام کا علیحدہ شناخت کا مطالبہ کوئی نئی بات نہیں. صوبہ سرحد اور پنجاب کے چند مشترکہ علاقوں پر مشتمل ہزارہ صوبے کے قیام کی سیاسی جدوجہد کافی عرصہ سے جاری تھی لیکن صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے کے فیصلہ کے بعد گذشتہ دو ہفتوں میں ہونے والے پرتشدد واقعات کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں ملتی. گو کہ سیاسی حلقوں نے نئے نام پر باہمی رضامندی کا اعلان تو کردیا، لیکن ہزارہ ڈیویژن میں بسنے والے لوگ اس نام پر متفق نظر نہیں آتے جس کی بڑی وجہ اس میں لسانیت کی آمیزش ہے. کئی سال کی محنت ضائع ہوجانے اور اپنے اوپر کسی اور قومیت کا نام مسلط ہونے پر لوگوں کا غم و غصہ تو ایک طرف، سب سے حیران کن کردار ان سیاسی جماعتوں کا ہے جنہوں نے نام کے چھوٹے سے معاملہ کو لے کر بے حسی، ضد اور ہڈدھرمی کی انتہاء کردی ہے.
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام چھوٹی بڑی جماعتیں سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کا قطعاَ کوئی تجربہ نہیں رکھتیں. تبھی موجودہ معاملہ کو پرامن اور بہتر طریقہ سے سلجھانے کے بجائے اسے سیاسی و لسانی فرقہ واریت کا روپ دے کر مزید الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے. ایسے میں کہ جب ملک کے بڑے سیاسی گروہ سیاسی انتقام اور قوت کے مظاہرہ کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کر رہی ہیں متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف کے سربراہان کی جانب سے اس مسئلہ کو پرامن طور پر حل کرنے کی دو قدرے مختلف آراء سامنے آئیں جو کہ بہرحال ان سیاسی جماعتوں کی بنسبت بہتر قدم کے جن کی وجہ سے آج ہزارہ ڈیویژن ہڑتالوں اور مظاہروں کی زد میں ہے.
متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہونے کے بجائے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے اور گول میز کانفرنس کے انعقاد کا مشورہ دیا تاکہ تمام سیاسی قوتیں افہام و تفہیم اور مذاکرات کا راستہ اپنا کر کسی ایک فیصلہ پر متفق ہوسکیں. آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد سے پچھلے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں کو بھی اس مسئلہ پر اپنا موقف پیش کرنے کا موقع میسر تو آسکتا ہے، لیکن یہاں سوال ہزارہ میں بسنے والے لوگوں کی ترجمانی کا ہے کہ وہ جماعتیں جو آئینی کمیٹی کا حصہ تھیں اور وہ جنہوں نے قومی اسمبلی میں نئے نام کے حق میں ووٹ دیا وہ اب کیسے کسی نئے نتیجہ پر پہنچ پائیں گے؟
دوسری طرف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس اہم مسئلہ پر ریفرنڈم کی تجویز پیش کی ہے. کیونکہ ان کے مطابق یہ مسئلہ کسی لسانی اور قومی بنیاد سے بالاتر ہوکر خطہ میں بسنے والے عوام کے خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ صوبہ سرحد کے نئے نام یا ہزارہ صوبے کے قیام پر لوگوں سے براہ راست رائے لی جائے. اور اس کا سب سے بہترین حل ریفرنڈم کی صورت میں موجود ہے. گو کہ ریفرنڈم کی آئین میں گنجائش موجود ہے اور ماضی میں دو صدور اپنے انتخاب کے لیے ریفرنڈم کرواچکے ہیں لیکن اس کے باوجود ریفرنڈم کا اہتمام اور انعقاد ایک بڑا اور وقت طلب کام ہے.
موجودہ حالات میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو ان دو آپشنز کے علاوہ کوئی تیسرا آپشن زیادہ موثر نظر نہیں آتا. اس لیے ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو چاہیے کہ معاملہ کو طول دینے اور سیاسی شدت پسندی کو تقویت ملنے سے قبل ہی اس مسئلہ کو حل کرنے کی سعی کریں. کیوں کہ اکثر درست فیصلہ صرف خراب ٹائمنگ کی وجہ سے ایک بڑی غلطی کا روپ دھار لیتے ہیں.
Source, https://www.urdublog.pk/hazara-maslay-ka-hal-conference-ya-referendum/