پاکستان میں آج کل نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے کئے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں سرائیکی صوبے کے قیام اور بہاولپور کی صوبے کی حیثیت کی بحالی کا سب سے زیادہ چرچا سننے میں آ رہا ہے۔
سندہ میں مہاجر صوبے اور جناح پور کی بازگشت بھی سنی جاتی ہے جبکہ بلوچستان میں آباد پختون جنوبی پختونخوا کے نام سے الگ صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک طرف ہزارہ ڈویژن کے عوام الگ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب خیبر پختونخوا سے ملحقہ قبائلی علاقوں کے عوام بھی قبائلستان کے نام سے الگ صوبے کے قیام یا پھر قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم کر کے انہیں پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقے وفاق کے زیر کنٹرول ہیں لیکن یہاں کے انتظامی اور دیگر تمام سول افسران کے تعیناتی کا فیصلہ صوبہ خیبر پختونخوا حکومت کرتی ہے۔ ڈوئچے ویلے نے خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر قانون بیرسٹر ارشد عبداللہ سے قبائلی علاقوں کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دینے کے بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا:”یہ تو ان کی پارٹی کا موقف ہے کہ قبائلی علاقوں کو صوبہ پختونخوا میں نمائندگی دی جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ ایک گرے ایریا ہے۔ یہاں گھپ اندھیرا ہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ اس گھپ اندھیرے کو ختم ہونا چاہیے، یہاں پر تمام قوانین لاگو ہونے چاہییں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں تمام افسران صوبائی حکومت فراہم کرتی ہے۔ ایسے میں اگر پختونخوا اسمبلی میں قبائل کی نمائندگی ہو، تو ان افسران کا احتساب بھی قبائل خود کر سکیں گے اور ترقیاتی کاموں اور دیگر امور کا جائزہ بھی خود لینے کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کے حقوق کے لیے آواز بھی اٹھا سکیں گے۔
دوسری جانب وفاقی حکومت نے حال ہی میں قبائلی علاقوں میں رائج فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے قوانین میں چند تبدیلیوں کی منظوری دی ہے، جس سے110 سال بعد قبائلی عوام کو دی جانے والی سزاؤں کے خلاف اپیل کرنے کے حق کے ساتھ قبائلی علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن قبائلی عوام کا کہنا ہے کہ اگر گلگت بلتستان کیلئے منتخب پارلیمنٹ بن سکتی ہے، تو قبائلی علاقوں کیلئے منتخب اسمبلی کیوں نہیں۔ قبائلی علاقوں میں باقی ملک سے الگ قوانین لاگو ہیں اور یہاں صوبائی حکومت کا عمل دخل نہیں ہے جبکہ یہاں کام کرنے والے تمام سرکاری افسران کا تعلق صوبے سے ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں ابھی تک انگریز دور کا قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن نافذ ہے، جس کے تحت انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات روز کا معمول ہیں۔
جب ڈوئچے ویلے نے قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی یا علیٰحدہ صوبے کا درجہ دینے کے بارے میں قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے سابق رکن ہارون الرشید سے بات کی، تو انہوں نے کہا:’’قبائلی علاقوں کے مستقبل کے بارے میں پاکستان کی دس سیاسی جماعتوں کا مشترکہ فیصلہ ہے کہ یہ رائے یا تو براہ راست قبائلی عوام سے ریفرنڈم کی شکل میں لی جائے کہ وہ الگ صوبہ چاہتے ہیں یا پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی چاہتے ہیں۔ یا پھر انتخابات کر کے ایک شوریٰ بنائی جائے، جو اس بارے میں فیصلہ کرے۔‘‘
قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان اور پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ 1998 کی مردم شماری کے مطابق قبائلی علاقوں کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ تھی۔ اب تیرہ سال بعد یہ ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کر گئی ہو گی اور حال ہی میں مختلف قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد سے قبائلی علاقوں کی آبادی کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔
قبائلی علاقے بھی پاکستان کے سا تھ ہی آزاد ہوئے تھے تاہم یہاں آج بھی 110سال پہلے انگریز حکمرانوں کے قوانین رائج ہیں۔ اب جب کہ پاکستان میں نئے صوبے بنانے کی ہوا چل پڑی ہے تو قبائلی عوام بھی اپنے لئے الگ صوبے یا پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی دیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور
ادارت: امجد علی