حنا سعیدبی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
29 دسمبر 2017
پاکستان میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب میں نظام عدل کے منتظم اعلیٰ، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے بی بی سی اردو سے خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ مقدمات کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ججوں کی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض مقامات پر عدالتیں بیت الخلا جیسے ماحول میں فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے موجودہ نقائص کے حوالے سے عدالتوں میں بار اور بینچ کے درمیان خلا، زیرالتوا کیسز اور چیف جسٹس بننے کی ذمہ داری اور ان سے جڑے مسائل پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔
بینچ اور بار ہی مل کر سائلوں کو جلد اور سستا انصاف مہیا کرسکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ اس بارے میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ‘بینچ کی حد تک تو ہم دن رات محنت کر رہے ہیں، ججوں کو تربیت دے رہے ہیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی لے آئے ہیں۔ ہم نے خواتین اور بچوں کے لیے الگ عدالتیں بھی بنائی ہیں۔
’لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے دوسرے حصہ دار (بار) اس میں ہمارے ساتھ نہیں۔ جب ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی لائے تو بار کے ممبران نے کہا کہ یہ کس لیے لے آئے کمپیوٹر سب ڈیٹا سامنے رکھ دے گا۔ کئی لوگ (مقدمہ) چھپانے اور نہ لگانے کے بھی پیسے لیتے ہوں گے۔ تو اس حوالے سے ہمیں بار سے کوئی خاص رسپانس نہیں ملا۔’
جسٹس منصور علی شاہ وکلا کی جانب سے ہڑتال اور چھٹی کرنے کے رجحان سے خوش نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے ملک کے حالات ٹھیک نہیں اور یہ ہڑتال کر رہے ہیں۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق پنجاب کے 36 اضلاع میں یکم فروری 2017 سے 31 اکتوبر تک 11 لاکھ سے زائد مقدمات ہڑتالوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس کو شکایت ہے کہ نظام عدل کو بہتر بنانے میں وکلا کوئی زیادہ کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس منصورعلی شاہ نے سال 1991 میں وکالت کی پریکٹس شروع کی اور 2009 میں لاہور ہائی کورٹ میں جج کے طور پر تعینات ہوئے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے جسٹس منصورعلی شاہ نے جون 2016 میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا عہدہ سنبھالا۔
جج سے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا سفر اور زندگی میں کیا تبدیلی آئی، اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ گالی بھی چیف جسٹس کو پڑتی ہے اور تعریف بھی انھی کی ہوتی ہے لیکن دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
پاکستان میں عدلیہ پر دباؤ کے حوالے سے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں بڑے فیصلے ہونے کے باوجود کسی قسم کا بیرونی دباؤ نہیں ہے۔
‘میں تو لاہور ہائی کورٹ کی ہی بات کر سکتا ہوں۔ مجھے تو آج تک کسی نے فون نہیں کیا ہے۔ بطور چیف جسٹس نہ میں کسی جج کو کچھ کہہ سکتا ہوں اور نہ کہا ہے کہ کیس کا فیصلہ کیسے کرنا ہے۔ ہر جج خود مختار ہے۔ بڑے بڑے فیصلے ہوئے ہیں شوگر ملوں کے۔ کسی نے اگر کہا بھی ہو کسی شادی پر، محفل میں بھی کہہ دیا ہو ذرا دیکھ لیں، تو یہ (جج) آپ پر انحصار ہے کہ اپنی آزادی کو کیسے قائم رکھتے ہیں۔’
تو کیا چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بھی عام لوگوں کی طرح ٹی وی دیکھتے ہیں، اخبار پڑھتے ہیں اور باہر آتے جاتے ہیں؟
اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم بھی انسان ہیں، ٹی وی بھی دیکھتے ہیں اور اخبار بھی پڑھتے ہیں لیکن ہم اثر نہیں لیتے۔ کئی معاملات جو عدالت میں چل رہے ہوتے ہیں، ان سے متعلق ٹی وی پر بحث ہو رہی ہوتی ہے۔ جو اصولاً ٹھیک نہیں ہے لیکن مجھے ذاتی طور پر اور میرے جج صاحبان کو اب عادت ہوگئی ہے۔ جب عدالت میں ہم جج کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ایسا نظام ہے کہ اس وقت یہ سارے اثرات ختم ہو جاتے ہیں۔ آپ صرف بحث اور شواہد کی بنیاد پر اپنا فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں۔’
کیا چیف جسٹس منصور علی شاہ سوشل میڈیا پرموجود ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ تو موبائل صرف واٹس ایپ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
سال 2017 کے اختتام پر پنجاب میں عدالتوں کی کارکردگی اور زیر التوا کیسز کے حوالے سے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا کہنا ہے ‘پنجاب کی ضلعی عدلیہ میں اس وقت 11 لاکھ مقدمات سے زائد ہیں جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں یہ تعداد 1 لاکھ 47 ہزار ہے۔ اس سال 30 نومبر تک نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد لوئر کورٹس میں 20 لاکھ اور لاہور ہائی کورٹ میں 1 لاکھ 43 ہزار سے زائد ہے۔
انھوں نے کہا کہ زیر التو مقدمہ کی بنیادی وجہ ہے ججوں کی کم تعداد۔ لوئر کورٹس میں ججز کی منظورشدہ تعداد 2600 ہے جبکہ 1770 اس وقت فعال ہیں۔ اتنا آسان نہیں ہوتا جج لینا۔ اسی طرح لاہور ہائی کورٹ میں ججوں کی منظورشدہ تعداد 60 ہے جبکہ 50 جج صاحبان اس وقت کام کر رہے ہیں۔’
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ مقدمات بڑھ رہے ہیں، جج نہیں۔
‘حالیہ مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آبادی 11 کروڑ ہے۔ اس حساب سے صوبے میں 62 ہزار افراد کیلئے ایک جج میسر ہے اور ہر جج کےحصہ میں 657 مقدمات آتے ہیں۔ یہی تعداد ترقی یافتہ ممالک میں فی جج صرف 250 تک محدود ہوتی ہے۔ ہم تو کہہ رہے ہیں کہ پانچ چھ ہزار جج لگائیں۔’
پاکستان کے نظام عدل میں انصاف کے حصول کے لیے کئی لوگ ساری زندگی قانونی جنگ لڑتے ہیں اور کئی افراد کی تو نسلیں بھی مقدمات کے فیصلے کی منتظر رہتی ہیں۔ چیف جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کا فوری حل ہے کیس مینیجمنٹ۔
‘پہلے ایک جج ہر طرح کے کیس سنتے تھے، کرائم، فیملی، بزنس۔ لیکن اب ہم نے کورٹس کو مخصوص کر دیا ہے۔ جج صاحبان اب روزانہ کی بنیاد پر ایک ہی کیٹگری کے کیس سن رہے ہیں تو بہتر اور جلد فیصلے سنائے جا رہے ہیں۔ جو پرانے زمانے کا فائل ورک ہے اس کی جگہ اب آن لائن سب ڈیٹا مل جاتا ہے۔ ہم نے اینڈرائڈ ایپلیکیشن بھی لانچ کی ہے۔ پنجاب کے چھوٹے شہروں میں بیٹھے افراد پہلے لاہور آکر لسٹ میں اپنا کیس ڈھونڈتے تھے لیکن اب گھر بیٹھے اس ایپلیکیشن کے ذریعے کیس کی تفصیلات پڑھ لیتے ہیں۔ 1134 پر کال کر کے لوگ اپنے زیر سماعت کیسز سے متعلق معلومات بھی حاصل کر سکتے ہیں اور شکایات بھی درج کروا سکتے ہیں۔ پانچ مہینے پہلے یہ کال سینٹر قائم کیا گیا تھا اور اس میں 1528 شکایات درج ہوئیں جبکہ 1490 کو حل کر لیا گیا۔’
صوبہ پنجاب کی عدالتوں کی کارگردگی کا اگر دوسرے صوبوں کے ساتھ موازنہ کریں تو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منصور علی کا کہنا کہ پنجاب میں مقدمہ سازی کی شرح 96 فیصد ہے۔
‘خواتین جج اور لوئر عدالتوں کے جج ایسے حالات میں کام کر رہے ہیں کہ بالکل ٹوائلٹس نما ہیں۔ ایسے ہے جیسے بالکل سڑک پر ہی جج بیٹھی ہوئی ہیں۔ تو سوچیں سڑک پر کیسے انصاف ہوگا۔’
عوام کا اعلیٰ عدلیہ کے مقابلے میں ضلعی یا سیشنز کورٹس سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ عوام کا سیشن عدالتوں پر یقین کم ہے۔
‘اعتماد کا اندازہ تو نئے درج ہونے والے مقدمات کی تعداد سے ہوگا۔ مقدمات تو بڑھ رہے ہیں ہر سال۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ حکومت سے نالاں ہیں یا اداروں سے تو وہ عدالت کا رخ کرتے ہیں۔ ہر آدمی عدالت آتا ہے کہ کوئی اور ان کی سنتا نہیں ہے۔ مقدمات کے بروقت فیصلے ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے ہم نے اے ڈی آر یا مصالحتی عدالتی نظام متعارف کر وایا ہے کہ فریقین اکٹھے بیٹھ کر ایک ہی دن میں کیس پر فیصلے تک پہنچ جائیں۔ یہ نظام چھ مہینے پہلے پنجاب میں متعارف کروایا تھا اور اس وقت چھتیسں اضلاع میں چل رہا ہے، جس میں اب تک پانچ ہزار سے زائد کیسز کے فیصلے ہو چکے ہیں۔ 15 سال سے لٹکے ہوئے کیسز کا فیصلہ ایک دن میں کیا گیا ہے۔’
پراسیکیوشن کے مسائل، کمزور شواہد اور تفتیشی عمل کے ساتھ ساتھ پولیس کے نظام میں مسائل عدالتی فیصلوں پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں؟
ان کا جواب تھا کہ ‘پراسیکیشن کی قابلیت، معیار اور مدد اس سطح کی نہیں ہے۔ دونوں سسٹم میں بہت زیادہ پرابلم ہیں لیکن وہ حکومت کو دیکھنا ہے۔’
صوبہ پنجاب میں ماڈل عدالتوں کا آغاز کیا گیا، یہ کیا ہیں اور کیا ان سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکے؟
اس سوال کے جواب میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ ‘عدالتی نظام کے لیے اہم ہے کہ سب اپنا کام کریں۔ وکیل کیس کو ملتوی نہ کروائے، پولیس کا کام گواہ پیش کرنا ہے۔ پراسیکیشن نے بحث کرنی ہے۔ اگر سب آجائیں کیس والے دن تو کیس ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ہے وہ نظام جو ہم نے ماڈل کورٹس کے ذریعے متعارف کروایا ہے۔ اگر یہ نظام پورے صوبے تک پھیل جائے گا تو ایک سال میں تمام زیر التوا کیسز نمٹ جائیں گے۔’
مِس کیرج آف جسٹس کے مقدمات میں معاوضے کا نظام کیوں نہیں؟ ان کا اصرار تھا کہ اگر مس کیرج آف جسٹس ہو تو عام طور پر اپیل اس کو صحیح کر دیتی ہے لیکن ان مقدمات میں جہاں کسی کے ساتھ زیادتی ہوگئی ہے تو آخر میں اس کی لاگت یا معاوضہ دینے کا نظام یہاں رائج اتنا نہیں ہے۔