تحریر: محمد علی جڑ
لاہور : پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اورمسائل بھی اتنے ہی بڑے ہیں، حکمران عوام کو درپیش عام مسائل حل کرنے کی بجائے میگا پراجیکٹس پر زیادہ زور لگا رہے ہیں جو کہ بظاہر دیکھنے میں تو بہت خوبصورت اور الیکشن مہم میں بھی کامیابی کے ضامن تصورکئےجاتے ہیں لیکن عوام کوان سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچ رہا۔
جیسا کہ نندی پور پاور پراجیکٹ جوکہ 58 ارب روپے کی لاگت سے بنا لیکن پیدوار نہ ہونے کے برابرہے اسی طرح میٹروبس سروس 30 ارب روپے سے بنی جس سے فائدہ تو چند لاکھ افراد کو ہو رہا ہے لیکن ماہانہ ایک ارب روپے کی سبسڈی بھی دینا پڑرہی ہے یہی صورتحال قائداعظم سولر پارک کی ہے،،،بات یہیں ختم نہیں ہوئی ابھی ملتان میٹرو بس سروس بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، ان بھاری بھرکم منصوبوں سے عواک کو کتنا اورکب ریلف ملے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اب تک کے تجربات سب کے سامنے ہیں جن پر خزانہ تو لٹایا گیا لیکن فائدہ کم دکھائی دیتاہے۔
دوسری جانب پورے صوبے میں صحت و تعلیم صفائی، نکاسی آب اور سڑکوں اور گلیوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے، جب کہ اسپتالوں میں مریض زیادہ ہیں، بستروں کی تعداد کم ہے اور ادویات اور مفت ٹیسٹ کی سہولیات بھی میسر نہیں۔
،اس کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں پنجاب بھر کی 788 چھوٹی سکیمیں ایسی ہیں کہ جن کیلئے ابھی تک فنڈزکااجراء نہیں ہوسکا جبکہ حکمرانوں کی اولین تجیح لاہوراورنج لائن،سگنل فری کوریڈور،ملتان میٹروبس،دیہی روڈزپروگرام ،ساہیوال کول پاوراوربہاولپورقائداعظم سولر پارک جیسےمیگا پراجیکٹس کیلئے خزانے کے منہ کھول دیئے گئے ہیں، حتی کہ اب تو یہاں تک کوشش ہو رہی ہے کہ تمام چھوٹے منصوبوں کا بجٹ بھی ان میگا پراجیکٹس پرلگا دیا جائے۔
میگا پراجیکٹس حکومت کی اولین ترجیح بننے پر بیوروکریسی نے بھی اپنارخ عوام کو درپیش مشکلات اور مسائل سے موڑلیا ہے وہ بھی ان کے حل کیلئے مکمل چپ سادھے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بنیادی مسائل کے حل کیلئے فنڈز کی عدم دستیابی پر عوام کی مشکلات بڑھ گئی ہیں اوران کا کوئی پرسان حال نہیں۔
صوبے میں صحت اورتعلیم کی حالت دگر گوں ہے، حکمرانوں کی ترجیحات بدلنے کے ساتھ ساتھ نااہلی بھی سامنے آرہی ہے، گزشتہ سال ترقیاتی کاموں کیلئے 345 ارب روپے رکھے گئے مگر سو ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ ہی نہ کی جاسکی جس کی وجہ سے انتہائی اہمیت کے حامل منصوبے التواء کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔
عوامی حلقوں کی رائے ہے کہ حکمران میگا پراجیکٹس کو الیکشن مہم کا حصہ ضرور بنائیں لیکن اربوں روپے خرچ کرنے