پنجاب کے بارانی علاقوں کے مسائل
“ پاکستان کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے“ یہ ایسا فقرہ ہے جو کہ ہم بچپن سے سْنتے آ رہے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق مْلک کی تقریباً 70 فیصد معیشت زراعت سے وابستہ ہے۔ صوبہ پنجاب میں دْنیا کا سب سے بڑا نہری نظام اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ پاکستان کی زراعت کا ایک بڑا حصہ پنجاب میں واقع ہے اور اس نہری علاقے کے ساتھ ساتھ چار اضلاع، جہلم، چکوال، اٹک اور راولپنڈی کا شمار بارانی علاقوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کے رہنے والوں کا سب سے بڑا ذریعہ معاش کاشتکاری اور پاک فوج میں ملازمت ہے۔ جہاں تک کاشتکاری کا تعلق ہے تو بارانی علاقہ ہونے کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار کا دارومدار بارشوں پر ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تمام خطے میں بارش کی مقدار میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ یہاں کے لوگ معاشی طور پر اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ جدید کاشتکاری، اور آبپاشی کے طریقے اپنا سکیں۔ پوٹھوہار کے اس خطے کو پاکستان میں ہر لحاظ سے مرکزی حیثیت حاصل ہونے کے باوجود بھی سیاسی طور پر پس ماندہ رکھا گیا ہے اور یہاں کے عوامی نمائندوں کو اپنے علاقے کے عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کرنے دی جاتی۔ اس علاقے میں نہ تو زراعت کے جدید طریقے متعارف کرائے جاتے ہیں، نہ کھادوں اور بیجوں پر حکومت کی طرف سے سبسڈی دی جاتی ہے اور نہ ہی کھیت سے منڈی تک سڑکوں کی صورتحال اس قابل ہے کہ بروقت فصلیں، پھل اور سبزیاں مارکیٹ تک پہنچائی جا سکیں۔
اس علاقے کی بڑی فصلوں میں گندم اور مونگ پھلی شامل ہیں جبکہ ان کے علاوہ بے شمار پھل اور سبزیوں کے لیے بھی یہ علاقہ سازگار ہے لیکن سہولیات کے فقدان کے باعث یہاں کے زمیندار صرف دو بڑی فصلوں یعنی گندم اور مونگ پھلی پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ صرف اگر مونگ پھلی کی بات کر لی جائے تو یہ ایسی فصل ہے کہ زمیندار کے سارے سال کے اخراجات کا دارومدار بھی اسی ایک فصل پر ہی ہوتا ہے۔ خاص طور پر چکوال اور تلہ گنگ جوکہ مونگ پھلی کی کاشت کے لحاظ سے سرِفہرست ہیں زیادہ ہی پس ماندگی کا شکار ہیں۔پاکستان میں مونگ پھلی کی کاشت کا رقبہ 108 ہزار ایکڑ اور مجموعی پیداوار 112 ہزار ٹن تک ہے جبکہ کاشت کے حوالے سے پنجاب کا رقبہ 92 فیصد، خیبر پختونخوا کا 7 فیصد اور سندھ کا1 فیصد تک ہے۔ 87 فیصد مونگ پھلی چکوال، اٹک، جہلم، راولپنڈی سے حاصل کی جاتی ہے اور باقی پیداوار صوابی، کوہاٹ، پارا چنار، مینگورہ، سانگھڑ، لاڑکانہ سے حاصل ہوتی ہے۔محکمہ زراعت کے مطابق مونگ پھلی بارانی علاقوں کی موسم خریف کی اہم ترین اور نقد آور فصل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مونگ پھلی کے بیج میں 44 سے56 فیصد اعلیٰ معیار کا خوردنی تیل اور22 سے30 فیصد لحمیات پائے جاتے ہیں، اس لیے اس کا غذائی استعمال انسانی صحت و تندرستی کو بر قرار رکھنے کے لیے مفید ہے جبکہ اس کا خوردنی تیل ملکی معیشت کیلیے بہت اہمیت رکھتاہے کیونکہ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے ہر سال کثیر زرمبادلہ خرچ کرکے خوردنی تیل درآمد کیا جاتا ہے۔مونگ پھلی کی فصل کیلیے گرم مرطوب آب و ہوا موزوں ہے اور دوران بڑھوتری مناسب وقفوں سے بارش اس کی بہتر نشوونما کیلیے بے حد مفید ہے۔ بارانی علاقوں کے زمینی و موسمی حالات میں یہ دونوں خصوصیات موجود ہیں۔ مونگ پھلی کے زیر کاشت رقبے کا بیشتر حصہ بارانی علاقہ جات پر مشتمل ہے اور مونگ پھلی کی بیشتر اقسام کی پیداواری صلاحیت و پیداوار میں اچھا خاصا فرق موجود ہے۔ جبکہ اس فرق کی بنیادی وجہ جدید زرعی ٹیکنالوجی کے رہنما اصولوں سے کاشتکاروں کی لاعلمی اور عدم دلچسپی ہے جس کے نتیجے میں پیداوار میں اس حد تک کمی پائی جاتی ہے۔ کاشتکار جدید زرعی ٹیکنالوجی کے رہنما اصولوں پر عمل کرکے اپنی پیداوار میں دو سے تین گنا اضافہ کرسکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بارانی علاقے کے کاشتکار اس قابل نہیں کہ وہ جدید طریقہ کار اپنا کر فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کریں۔ اس کے لیے حکومت کی سرپرستی بہت ضروری ہے مگر آج تک یہاں کے کسی بھی عوامی نمائندے کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اعلیٰ حکام تک یہاں کے غریب کسانوں کی آواز پہنچا سکے۔
اسکے علاوہ گندم کی فصل کا 73 فیصد پنجاب کا، 14 فیصد سندھ کا اور 9 فیصد خیبر پختونخواہ کا حصہ ہے۔ اور سارے پاکستان کی گندم کی پیداوار کا 10 فیصد پنجاب کے بارانی علاقے کا حصہ ہے جو کہ ایک اچھی خاصی مقدار ہے لیکن حکومتی عدم توجہی اور یہاں کے کاشتکاروں کی جدید مشینری سے لاعلمی کی وجہ سے کم ہے اور اس میں اضافہ ایک صورت میں ممکن ہے کہ یہاں کے غریب کسانوں کو مفت بیج، کھادیں اور ادویات فراہم کی جا جائیں کیونکہ بارانی علاقے کے زمیندار معاشی طور پر اتنے مستحکم نہیں کہ یہ اخراجات برداشت کر سکیں۔ جس کے نتیجے میں لوگ کم سے کم زمین پر گندم کی کاشت کرتے ہیں۔ اور ایک اور بنیادی وجہ گندم کے کم ریٹ بھی ہیں اسی لیے لوگ بس اپنے گھر کے لیے ہی گندم کاشت کرتے ہیں یعنی کہ تھوڑے پیمانے پر۔ اگر یہاں کے کسانوں کو سہولیات فراہم کی جائیں تو نہ صرف گندم اور مونگ پھلی کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اور بھی پھل اور سبزیاں کاشت کی جاسکتی ہیں جس سے نہ صرف کسان خوشحال ہو گا بلکہ ملکی پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔بارانی علاقے کے منتخب عوامی نمائندوں کو یہاں کے غریب کاشتکاروں کے حقوق کے لیے لڑنے کی ضرورت ہے جو کہ بدقسمتی سے پچھلے ستر برس تو ممکن نہ ہو سکاکیونکہ عوامی نمائندے صرف اور صرف ذاتی مفادات کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔
امجد طفیل بھٹی