| تحریر: عمر رشید |
مارکس وادیوں کیلئے محنت کش طبقے کی جدو جہد عالمگیر اہمیت کی حامل ہے۔ کسی بھی ملک، قوم، رنگ، نسل، مذہب اور علاقے کے پرولتاریہ کی تحریک خواہ وہ ماضی کی ہو یا حال کی، جیت ہو یا ہار، انقلابیوں کی تاریخی جدوجہد کا حصہ ہوتی ہے۔ تنگ نظر قوم پرستی کو پروان چڑھانے کے لئے مظلوم قوم کے حکمران طبقات ظالم قوم کے حاکموں کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے مجموعی طور پر پوری قوم کو ظالم اور جابر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورمحنت کش طبقے کی یکجہتی اور طاقت کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاشرے میں حقیقی تضاد طبقاتی ہے۔ اسی تضاد کو دبانے اور زائل کرنے کیلئے ساری بورژوا سیاست مصروف عمل رہتی ہے اور جعلی تضادات گھڑے جاتے ہیں۔ پاکستا ن میں بھی سرمایہ داری پر یقین رکھنے والے تنگ نظر او ر لبرل قوم پرست رہنما سارے مسائل کا ذمہ دار ’پنجابیوں‘ کو ٹھہراتے ہیں۔ ایسے میں ’پنجابیوں‘ کے اندر موجود طبقاتی تقسیم اور ایک عام پنجابی محنت کش اور کسان کا پنجابی سرمایہ دار اور جاگیر دار کے ہاتھوں استحصال پسے پشت ڈال دیا جاتا ہے اور ظالم اور مظلوم قوم کے محنت کشوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ’تقسیم کر کے حکومت کرو‘ ہر عہد میں حکمرانوں کی بنیادی پالیسی رہی ہے۔ پاکستان میں طبقاتی استحصال کے ساتھ ساتھ قومی بنیادوں پر استحصال ایک حقیقت ہے۔ بلاشبہ پاکستانی ریاست اور حکمران طبقات میں پنجابی سرمایہ داروں اور بیوروکریسی کا حاوی کردار ہے لیکن قوم پرستی کی سیاست کرنے والے مظلوم قوموں کے حکمران طبقات بھی ان کی کاسہ لیسی میں مصروف عمل رہتے ہیں اور قومی استحصال میں کمیشن ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں۔
محنت کشوں کا کوئی وطن اور قوم نہیں ہوتی کیونکہ ایک طبقاتی نظام میں ان کا استحصال ہر جگہ اور ہر رنگ و نسل کے حکمران طبقات کے تحت جاری و ساری رہتا ہے۔ پنجاب کی سرزمین بھی محنت کشوں اور نوجوانوں کی انقلابی روایات کی امین ہے۔ لیکن یہاں کے حکمران طبقات نے نئی نسل کو ان روایات سے کاٹنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ تاہم پنجاب میں مظلوم طبقات کی مزاحمت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی بیرونی تسلط کی۔ عبداللہ بھٹی عرف ’دُلا بھٹی‘ مغل سلطنت کے لئے کئی سال درد سر بنا رہا۔ شاہ جہاں 12سال کیلئے لاہور آگیا تھا تاکہ اس کی سرگرمیوں کو کچلا جائے۔ دلا بھٹی مظلوموں کی پکار تھا۔ آخر کار1599ء کو لاہور میں اسے پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ انگریز نے 1848ء میں پنجاب پر قبضہ کیا۔ عمومی تاثر کے برعکس 1857ء کی جنگ آزادی میں پنجابی سپاہیوں نے ہراول کردار ادا کیا۔
آریہ سماج تنظیم
یہ پانچ دریاؤں کی دھرتی قدرتی دولت سے مالا مال ہے اسی وجہ سے ماضی میں اور آج بھی اس خطے کی بہت اہمیت رہی ہے۔ 1900ء اور1905ء کے درمیان زرعی زمین کے تبادلے، تقسیم اور حق نفع کے حوالے سے انگریز سرکار نے جو قوانین واضع کئے اس کا مقصد مذہبی منافرت پھیلانا اور ہندوکسانوں کے مقابلے میں مسلمان کسانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا تھا کیونکہ 16 اکتوبر1905ء کو بنگال کو تقسیم انقلابی قوتوں کے خوف سے کیا گیا تھا۔ پنجاب میں قومی آزادی کی سوچ کا ابھار بنگال سے آنے والے باغیانہ لٹریچر کی وجہ سے ہورہا تھا۔ لالہ لجپت رائے اور سری دیوی کسانوں کے مقبول راہنما تھے۔
لالہ لجپت رائے
آغاز میں یہ تحریکیں لاہور، امرتسر، فیروزپور، راولپنڈی، سیالکوٹ اور لائل پور(فیصل آباد) تک محدود تھیں۔ تاہم انگریز سرکار نے نہری رقبے کے انتظامی معاملات میں تبدیلی کی تجاویز پیش کیں اور آبیانہ کی شرح میں اضافہ کیا تو پنجاب کے دیہی علاقے بھی اس تحریک کا حصہ بنے۔ کینال کالونیز بل( نہری زمین کو بسانے کا قانون) نے زمین سے کسان کا صدیوں پرانا رشتہ توڑ دیا۔ کسانوں کو پنجاب کے مرکزی علاقوں سے بے دخل کرکے مغربی اضلاع میں بنجر زمینیں کاشت کرنے کو کہا گیا۔ ان اقدامات سے کسانوں میں سرکار کے خلاف نفرت اور بے چینی پیدا ہوئی۔ 1907ء میں جب گورنر سر چارلس ریواز امرتسر میں ایک الوداعی تقریب میں شریک ہوا تو خالصہ کالج کے طلبہ نے اس کا استقبال احتجاجی مظاہروں کے ساتھ کیا۔ اسی دوران راولپنڈی میں پرُتشدد احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 21 اپریل 1907ء کو ایک جلسے میں اجیت سنگھ نے زمین پر ٹیکس کے اضافے پر حکومت کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا ’’یہ کسان زمین ہی نہیں اس ملک کے بھی حقیقی حکمران ہیں۔ یہ تمام راجے مہاراجے ان کے ’کمّی‘ ہیں۔ ڈپٹی کمشنر اور پولیس ان کے ملازم ہیں۔ اب جبکہ بنگال کے بعد پنجاب کے عوام خواب غفلت سے بیدار ہوچکے ہیں تو کسانوں کو چاہیے کہ اس وقت تک ہل نہ چلائیں جب تک سرکار اضافہ واپس نہیں لیتی‘‘۔ اس تقریر پر لالہ لجپت اور اجیت سنگھ کو گرفتار کرلیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 10 مئی 1907ء کو 1857ء کی جنگِ آزادی کی پچاسویں سالگرہ تھی جس پر حکومت بوکھلاہٹ کا شکار تھی کیونکہ 26ویں پنجاب انفنٹری کے سپاہی مظاہرین کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے اور باغیانہ گفتگو کرتے تھے۔ لائل پور میں ایک جلسے میں سابق سکھ فوجیوں نے شرکت کی۔ اسی طرح فیروزپور میں ہزاروں نوجوانوں نے ان احتجاجی جلسوں میں شرکت کی اور آزادی کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔
گوجرانوالہ کے ایک اخبار ’’ہندوستان‘‘ کے ایڈیٹر لالہ پنڈی داس نے ہندوستان اور افغانستان کے باسیوں کی طرف سے برطانوی فوج کے ان جوانوں کے نام جو امریکہ ہجرت کرگئے تھے ایک پمفلٹ شائع کیا۔ پمفلٹ میں سوال کیا گیا کہ کیوں اپنے ہندوستانی لوگوں پر گولی چلائی جاتی ہے۔ انگریز سرکار نے جو لوٹ مچارکھی ہے اس پر کب تک خاموش رہو گے۔ ایڈیٹر لالہ پنڈی داس کو اس جرم کی پاداش میں انگریز عدالت نے پانچ برس بامشقت سزا سنائی۔ 1907ء اور1909ء کے دو برسوں میں بڑے پیمانے پر انقلابی لٹریچر لکھا اور تقسیم کیا گیا۔ اس میں ’قومیں کس طرح زندہ رہتی ہیں‘، باغی مسیح، شریف چور، بندربانٹ اور زار کی سلطنت کا خاتمہ، تقسیم کرو اور فتح کرو وغیرہ جیسی تصانیف شامل تھیں۔
اس وقت جو بھی سیاسی اور انقلابی کام ہورہا تھا اس کی زیادہ تر قیادت ’آریہ سماج تنظیم‘ فراہم کر رہی تھی۔ اجیت سنگھ کو انتہا پسند انقلابی اور لالہ لجپت رائے کو اعتدال پسند انقلابی سمجھاجاتا تھا۔ جب لالہ لجپت رائے پر غداری کا الزام لگا تو لالہ جی نے اپنے ایک مضمون میں انفرادی دہشت گردی کی طرف اپنا موقف پیش کیا: ’’انقلاب میں دہشت گردی ایسی تلوار ہے جو کھیلنے والے کا ہی گلا گاٹ دیتی ہے‘‘(ماڈرن ریویو1907ء)۔ کسانوں کی اس تحریک کی جیت ہوئی اور انگریز سرکار نے ’کینال بل‘ واپس لے لیا اور ٹیکس میں کمی کردی گئی۔ اس کے بعد تحریک زیر زمین چلی گئی۔ انگریز سرکار پنجاب کو اپنا بازوئے شمشیر کہتی تھی لیکن اسی شمشیر کے خوف سے کانپتی بھی تھی۔
سیاسی میدان میں 1906ء میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھوائی گئی تاکہ قومی آزادی کی تحریک کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جائے۔ انقلابیوں کے خلاف حکومتی مشینری نے پھانسیوں، تشدد اور ظلم کی انتہا کردی۔ ہزاروں انقلابی جلاوطن ہوکر امریکہ، کینیڈا اور دوسرے ممالک میں چلے گئے مگر بغاوت کا شعلہ ان کے دلوں میں سلگتا رہا۔
غدر پارٹی
1906ء سے1908ء کے اوائل میں صرف کینیڈا اور امریکہ میں ہندوستانی لوگوں کی تعداد 5000 اور 6313 تھی۔ اس میں زیادہ تر سابقہ پنجابی فوجی تھے۔ برطانوی فوج میں پنجابیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ انہیں سرکار نے دانستہ طور پر پسماندہ رکھا کیونکہ انگریز حکومت ان کے جسموں پر اپنی عطاکردہ وردی اور ہاتھوں میں بندوق دیکھنا چاہتی تھی۔ انگریز سرکار چاہتی تھی کہ ان نوجوانوں کو اپنی جنگ کی آگ کا ایندھن بنایا جائے۔ بڑے خاندانوں کو خریدا گیا اور بڑی جاگیروں سے نوازا گیا۔ انہی کی وفاداری اور غداری سے غلامی کی زنجیریں پختہ ہوگئیں۔
غدر کا رسالہ
ہندوستانیوں کے قتل عام سے مشتعل ہوکر امرتسر کے ایک نوجوان مدن لال ڈھینگرا نے یکم جولائی 1909ء کو سر ولیم کرزن کو اس وقت گولی سے اڑا دیا جب وہ لندن کے امپیریل انسٹیٹیوٹ میں نیشنل انڈین ایسوسی ایشن کی سالانہ تقریب میں شریک تھا۔ مدن لال ڈھینگرا نے پھانسی کے وقت جرأت مندانہ انداز میں کہا ’’یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آزادی نہیں مل جاتی اور انسانیت کا بول بالا نہیں ہوجاتا‘‘۔
25 مارچ 1913ء کو غدر پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ ہفت روزہ ’’غدر‘‘ رسالے کا اجرا کیا گیا۔ پارٹی کا دفترسان فرانسسکو میں قائم کیا گیا۔ ’’غدر‘‘ کے مقاصد اور نعرے جو پہلے شمارے میں شائع ہوئے وہ یہ تھے:
’’ہندوستان کے عوام انگریز حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کردیں ان کی بیخ کنی کردیں‘‘
ہمارا کیا کام ہے؟ غدر! غدر کہاں برپا ہوگا؟ ہندوستان میں!
اتحاد اور اتفاق کی برکت… طاقت اور آزادی
نفاق کا نتیجہ…کمزوری اور غلامی
اتحاد کی بنیاد…سوشلزم
نفاق کی بنیاد…سامراجیت
’’ضرورت ہے ایسے جوشیلے نوجوانوں کی اور بہادر سپاہیوں کی جو غدر کا کام منظم کریں‘‘
اس کام کی تنخواہ… موت
اس کا انعام…شہادت
پنشن… آزادی
دائرہ کار…پورا ہندوستان
گوردوارے قائم کئے گئے جو کہ جلدی ہی انقلابی سیاست کے گڑھ بن گئے۔ غدر پارٹی کا مقصد چھاپہ مار جنگ کے ذریعے سرحدوں اور کشمیر سے ہوتے ہوئے پنجاب میں فوجی چھاؤنیوں تک پہنچنا تھا۔ اس کا عرصہ 10 سال رکھا گیا۔ پہلی عالمی جنگ شروع ہونے سے یہ سارا منصوبہ کچھ عرصے کے لئے ملتوی کردیا گیا۔ جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد پارٹی نے ’یوگنزآشرم‘ میں پانچ روزہ اجلاس کیا اور حکمت عملی پر بحث ہوتی رہی۔ تاہم غدر پارٹی کے انقلابیوں کو غلط فہمی تھی کہ جب وہ اعلانِ جنگ کریں گے تو پورا ہندوستان ان کی حمایت میں کود پڑے گا۔ یہ معروضی حالات کے بالکل برعکس سوچا جارہا تھا۔ بنگال کے علاوہ کہیں بھی حالات سازگار نہ تھے۔
5 اگست 1914ء کو ’غدر‘ میں برطانوی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ شائع ہوا:’’ اب وقت آگیا ہے کہ ہم یورپی تسلط کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ آپ ایک سپاہی ہیں، دشمن کے خلاف صف بندی کرلیں، منظم اور متحد ہوجائیں، ایسی لڑائی لڑیں کہ برطانوی راج کو جڑ سے اُکھاڑ دیں اور ایک جمہوری سماج کی بنیاد رکھیں‘‘۔
فیصلہ ہوا کہ نومبر 1914ء تک تمام تارکین وطن ہندوستان پہنچ جائیں۔ بحری جہازوں کے ٹکٹ دھڑا دھڑا فروخت ہونا شروع ہوگئے۔ پورٹ لینڈ سے جو رپورٹ برطانوی حکام کو ارسال کی گئی اس میں لکھا تھا کہ ہندوستانی عوام کا ایک ہی نعرہ ہے:’’ ہر ہندوستانی انقلاب کیلئے جنگ لڑے‘‘۔
کسی ملک کے تارکین وطن آزادی کے جذبے سے اس قدر سرشار ہوں اور ایک ایسی تحریک بنالیں جو جدوجہد کی تاریخ میں ایک سنہرا باب بن جائے، ایسا ہی انقلاب غدر پارٹی نے برپا کیا۔ وہ ہندوستانی جودیار غیر میں پیسہ بنانے آئے تھے، ایک بہتر زندگی گزار رہے تھے، وہ یک لخت اپنا سب کچھ سمیٹ کر وطن واپس پہنچے اور جان دینے کی ٹھان لی۔ کلکتہ پہنچنے پر انقلابیوں کو ہتھیار فراہم کردئیے گئے لیکن پنجاب میں پہنچتے ہی حکام نے گرفتاریاں شروع کر دیں۔ دوسرا گروہ بھائی سوہن سنگھ بھکنا کی قیادت میں جاپان سے فلپائن روانہ ہوا اوروہاں سے شنگھائی اور ہانگ کانگ ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچا۔ 300 سے زائد انقلابیوں سے بھرا جاپانی بحری جہاز سامارو کلکتہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تو برطانوی فوج اور پولیس کی بھاری نفری نے اسے گھیرے میں لے لیا۔
غدر پارٹی کے دو برسوں میں آٹھ ہزار کارکنان ہندوستان پہنچے۔ 400 کو جیل بھیجا گیا۔ 76 کو پھانسیاں دی گئیں۔ 2500 کارکنان کو بند کردیا گیا۔ باقیوں کو سخت وارننگ دیکر چھوڑ دیا گیا۔ اس کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں سے پارٹی کے تمام منصوبے ناکام ہو گئے۔ سر مائیکل اڈوائر اپنی یاداشت میں لکھتا ہے’’یہ لوگ بے حد خطرناک تھے۔ ہم نے ان کی سازشوں کو اپنی حکمت عملی سے ناکام بنایا۔ میں یہ سوچ کر ہی کانپ اٹھتا ہوں کہ اگر یہ گرفتار نہ ہوتے اور اپنی سکیم کے مطابق بغاوت برپا کر دیتے تو صوبے میں کیا نہیں ہوتا‘‘۔
بیرون ملک مقیم غدر کے کارکن
لیکن غدر کی تحریک صرف ریاستی جبر سے ہی ناکام نہیں ہوئی بلکہ تمام تر جرات اور قربانی کے جذبے کے باوجود بنیادی نقص حکمت عملی میں تھا جو بے صبری اور انتہا پسندی پر مبنی تھی۔ پنجاب کے معروضی حالات اس بغاوت کیلئے بالکل بھی تیار نہیں تھے۔ بچ جانے والے انقلابیوں نے کام کو ازسر نو منظم کرنے کی کوشش کی۔ کرتار سنگھ سرابھا نے امرتسر اور لدھیانہ میں کئی جلسے کئے اور انقلاب کا پیغام پہنچایا۔ بھائی پریم سنگھ لاہور کی میاں میر چھاؤنی میں یہی کام سرانجام دے رہے تھے۔ وشنو پر تگلے کو میرٹھ کی چھاؤنی میں پارٹی نے تعینات کیا۔ کرتار سنگھ سرابھا رضاکاروں کی ساتھ امبالہ، میرٹھ، کانپور، آگرہ، الہ آباد، بنارس، دنیا پور اور لکھنو کی فوجی چھاؤنیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔
سنگاپور کے ایک لائٹ انفنٹری یونٹ جو 800 فوجیوں پر مشتمل تھی، اس نے 15فروری1915ء کو غدر پارٹی کی مشاورت سے برطانوی چھاؤنی کا محاصرہ کرلیا۔ انہوں نے یونٹ کوتین گروپوں میں تقسیم کیا۔ اس میں سے دو گروپوں نے اسی جیل کے نزدیک پوزیشن سنبھالی جس میں جرمن فوجی قید تھے۔ جرمنوں نے موقع پانے کے باوجود رہا ہونے سے انکار کردیا۔ وہ اس بغاوت میں فریق بننے پر تیار نہ ہوئے۔ تیسرے گروپ کے فوجیوں نے سنگا پور کے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔ محاصرہ دو روز تک جاری رہا۔ وہ برطانوی فوجیوں پر گولیاں برساتے رہے۔ اس جھڑپ میں 44 ہندوستانی اور8 انگریز فوجی مارے گئے۔ جب قلعہ بند فوج کو تازہ کمک پہنچی تو ہندوستانی فوجیوں کو شکست ہوئی۔ ان میں سے 126 کو حراست میں لے لیا گیا۔ 37 کو سزائے موت سنائی گئی۔ 41 کو عمر قید ہوئی۔ موت کی سزا پانے والوں کو سنگاپور کے چوراہوں پر پھانسی دی گئی تاکہ لوگوں کے دلوں میں انگریز سامراج کی دہشت بیٹھ جائے۔
غدر پارٹی نے یکم دسمبر1915ء کو کابل میں ہندوستان کی ایک آزاد عبوری حکومت قائم کردی۔ اسی حکومت نے جلاوطنی سے بیان جاری کیا کہ ہندوستانیوں پر لازم ہے کہ وہ اس حکومت کا ساتھ دیں اور مسلح جدوجہد کی جائے۔ اس عبوری حکومت کے صدر راجہ مہندر پرتاب تھے اور برکت اللہ وزیراعظم چنے گئے۔ مولانا عبید اللہ سندھی کو داخلہ امور کا محکمہ دیا گیا۔
عبید اللہ سندھی نے ہندوستان میں اپنے دوستوں کو ریشمی رُمال پر خط لکھے جن میں ان سے بغاوت کی اپیل کی گئی۔ یہ خطوط 1915ء کو ملتان کے خان بہادر نے حکومت کو دے دئیے اور پھر گرفتاریوں اور جبرو تشدد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ریشمی رُمال کی تحریک بھی آغاز میں ہی دم توڑ گئی۔
عبیداللہ سندھی
1917ء میں بالشویک انقلاب کے بعد کابل کی عبوری حکومت نے سویت حکومت سے درخواست کی کہ اسے تسلیم کیا جائے۔ راجہ مہندر پرتاب نے ماسکو کا دورہ کیا۔ بالشویک انقلاب کے قائد ولادیمیر لینن نے انہیں خوش آمدید کہا۔ لینن نے کابل کی اس آزاد حکومت کیساتھ ہر ممکن تعاون کا وعدہ کیا لیکن جونہی صدر مہندرپرتاب واپس کابل پہنچے تو جرمنی اور ترکی کو پہلی عالمی جنگ میں شکست ہوگئی۔ افغانستان نے برطانیہ کیساتھ امن کا معاہدہ کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان کی آزاد عبوری حکومت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔
7 اپریل 1917ء کو جب امریکہ نے پہلی عالمی جنگ میں باقاعدہ شرکت کی تو اپنے اتحادی ملک برطانیہ سے وفاداری نبھاتے ہوئے ان تمام باغیوں کو گرفتار کرلیا جن میں سنتوسنگھ، رام سنگھ، بشن سنگھ، گوپال سنگھ، اندھان سنگھ، سی کے چکروتی اور ترکناتھ داس شامل تھے۔ ان پر اگست 1917ء میں سان فرانسسکو میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس عدالتی کارروائی پر امریکہ نے 30 لاکھ ڈالر صرف کئے۔ ان میں سے 25 لاکھ ڈالر کی رقم برطانیہ نے فراہم کی تھی۔ ’’سان فرانسسکو ٹرائل‘‘ کے شواہد اور گواہیاں اکٹھے کرنے کے لئے عدالتی کارندوں کو ہندوستان آنا پڑا۔ بڑی تعداد میں ان گواہوں کو امریکہ پہنچایا گیا۔ ایک کے سوا تمام ملزمان پر الزام ثابت ہوا اور انہیں قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
جیل میں قید کے دوران غدر پارٹی کے کئی رہنماؤں کی امریکی کمیونسٹوں سے ملاقات ہوئی اور ان سے بات چیت کے بعد جب انہوں نے تحریک کا جائزہ لیا تو انہیں اس میں کئی خامیاں نظر آئیں۔ انہوں نے محسوس کیا کہ جب پارٹی کے کارکن جان ہتھیلی پر رکھ کر آزادی کیلئے ہر قربانی دینے کیلئے تیار تھے تو کمی صرف اس بات کی تھی کہ پارٹی حقیقی معنوں میں انقلابی تحریک کیلئے منظم نہ تھی۔ اس کے علاوہ قیادت فعال نہ تھی اور نہ ہی پارٹی کی صفوں میں نظریاتی وحدت کا عنصرموجود تھا۔ انہی دنوں روس میں بالشویک انقلاب کی کامیابی نے بھی غدر پارٹی کے رہنماؤں کو بہت کچھ سکھایا۔ بھائی سنتو کھ سنگھ نے جیل میں مارکسی نظریات اور بالشویزم کا مطالعہ کیا۔ اس کیلئے انہیں قید کاٹنے والے امریکی کمیونسٹوں کی مدد بھی حاصل رہی۔ جیل میں قیام کے دوران سنتوکھ سنگھ اور ان کے کئی دوسرے ساتھی کمیونسٹ بن گئے۔ کچھ عرصہ انہوں نے دیگر قیدیوں کو کمیونزم کے بارے آگاہ کیا۔ جیل سے رہائی کے بعد غدر پارٹی کے رہنماؤں نے پارٹی کو کمیونسٹ نظریات کے تحت منظم کرنے کا کام شروع کیا۔ اس کیلئے انہوں نے ترقی پسند تنظیموں سے رابطے بنائے اور فیکٹریوں کے مزدوروں کو منظم کرنا شروع کیا۔ ہندوستان میں کمیونسٹ نظریات غدر پارٹی کے انہی رہنماؤں کی کاوشوں سے متعارف ہوئے۔
پنجاب میں 1915ء کے بعد غدر پارٹی مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی۔ اس کے رہنما مختلف سزائیں جھیلنے کے بعد رہا ہوئے۔ انہوں نے بائیں بازو کے چھوٹے چھوٹے گروپ بنانے شروع کئے۔ ان میں کیرتی کسان پارٹی، نوجوان بھارت سبھا اور ببرا کالی قابل ذکر تنظیمیں تھیں۔ پنجاب پولیس نے اپنی سپیشل برانچ کے ذریعے ’’کیرتی کی لہر‘‘ کے نام سے جو رپورٹ غدر پارٹی کے ان لوگوں کے بارے میں مرتب کی اس میں لکھا گیا ہے: ’’یہ سچ ہے کہ غدر پارٹی نے تسلسل کیساتھ ایک کے بعد ایک انقلابی سازش کی۔ امریکہ میں گزشتہ عالمی جنگ میں اس کو کچل دیا گیا لیکن آج تک بھی کوئی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی سرگرمیوں کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا ہے۔ آج بھی اس کی سازشیں کسی نہ کسی شکل میں چلی آرہی ہیں۔ خاص طور پر وہ پنجابی جو دوسرے ممالک سے واپس آئے اس پارٹی کے ساتھ گہری نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض ماسکو سے تربیت حاصل کرکے واپس لوٹے ہیں۔ ان تمام لوگوں میں انقلابی نظریات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ پنجاب میں رہنے والے سکھوں میں خصوصاً یہ رجحان کچھ زیادہ ہے۔ یہ لوگ انتہا پسند ہیں۔ ان کے دل برطانوی راج کے خلاف نفرت سے بھرے ہوئے ہیں۔ انہیں بغاوت پھیلانے کا موقع جب بھی ملے گایہ اس میں ضرور حصہ لیں گے‘‘۔
اس رپورٹ کی بنا پر بخوبی یہ نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ تنظیمی طور پر پنجاب میں کچلے جانے کے باوجود اس پارٹی نے نوجوانوں کے دلوں اور ذہنوں میں انقلاب کا شعور پیدا کردیا تھا۔ جہاں تک سان فرانسسکو میں پارٹی کے ہیڈ آفس کا تعلق ہے تو وہ انقلابی نظریات کے پھیلاؤ کے لئے اپنے جرائد سے کام لیتا رہا جو 1947ء تک جاری رہا اور وہاں کا دفتر تقسیم کے بعد ہی بند ہوا۔ غدر پارٹی کی اسی انقلابی میراث کو بعد میں بھگت سنگھ جیسے نوجوانوں نے اپنایا جو مارکسزم کے سائنسی نظریات کی گہری سوجھ بوجھ رکھتے تھے اور ’ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن‘ کی بنیاد ڈالی۔
انقلاب ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ جیسے زندگی ایک مقام پر نہیں رک سکتی اسی طرح انقلاب اور انقلابی روحیں مضطرب اور بے چین رہتی ہیں۔ حالات اور واقعات کے اتار چڑھاؤسے یہ عمل بھی کبھی سست پڑ جا تا ہے اور کبھی تیز ہو جاتا ہے لیکن ارتقا کے برعکس انقلاب ایسی بڑی تبدیلی پر منتج ہوتا ہے جو کھلی آنکھ سے نظر آئے۔ اس عمل میں جو سوالات جنم لیتے ہیں، جو نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کو حل کیے بغیر تسلی بخش طریقے سے آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔
ببرا کالی پارٹی
جلیانوالہ باغ کے قتل عام نے پنجابی عوام کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کئے اور انگریز حکومت کے خلاف بہت سے پرتشدد رجحانات کو جنم دیا۔ اگست 1922ء میں باضابطہ طور پر ببرا کالی پارٹی کی تشکیل کی گئی اور اس کی ایک ورکنگ کمیٹی بھی چنی گئی۔ ببر اکالی تحریک درحقیقت عدم تشدد پر مبنی اکالی تحریک سے الگ ہونے والا ریڈیکل رجحان تھا۔ کشن سنگھ کو کمیٹی کا جتھے دار(قائد) منتخب کیا گیا۔ دلیپ سنگھ گوسل کمیٹی کے سیکرٹری اور بابو سنتا سنگھ خزانچی بنے۔ ستمبر سے اخبار کی اشاعت کا کام بھی شروع ہو گیا۔ اس کا نام ببرا کالی دوآبہ اخبار تھا۔ سائیکلو سٹائل مشین پر اس کی چھپائی ہوتی تھی اور اسی حالت میں یہ امرتسر اور دیگر علاقوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قانونی تقاضے پورے کرنے کیلئے اس پر پرنٹ لائن بھی شائع کی جاتی تھی جس میں لکھا جاتا کہ یہ اخبار ’’سفری‘‘ پریس سے شائع ہوا۔ اخبار کی پیشانی پر گرنتھ صاحب کا یہ اشلوک شائع ہوتا۔
سورئے سو پہنچا نئے جو لڑے دن کے ہیت
پرجا پرجا کٹ مر ے کبھو نہ چھڈے کھیت
(حقیقی بہادر وہ ہے جو اپنے افکار کی حفاظت کرتا ہے خواہ ایک ایک کر کے اس کے اعضا ہی کیوں نہ کٹ جائیں۔ وہ کبھی میدان نہیں چھوڑتا)
اس اخبار میں جو درحقیقت ایک پمفلٹ کی طرح شائع ہوتا تھا حکومت کی اقتصادی پالیسیوں اور ان کے نتیجے میں عوام کی بد حالی کو خاص طور پرنمایاں کیا جاتا تھا۔ ایک مضمون میں یہ لکھا کہ جبرو تشدد صرف یہ نہیں کہ پولیس تھانے میں لے جا کر ڈنڈے مارے، لوگوں سے روٹی چھین لینا اس سے کہیں بڑا تشدد ہے۔
اکالی تحریک کے کارکنان
ببراکالی جتھ کا روح رواں کشن سنگھ تھا اور یہ سارا گروپ گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفہ کے مخالف تھا کیونکہ انہیں یقین تھا کہ انگریز کی عدالت انصاف نہیں کر سکتی۔ جتھ کے لوگ بعد ازاں جگہ جگہ سفر کرتے اور لوگوں کو ہتھیار اٹھانے کی تلقین کرتے۔ وہ سکھوں کے گروؤں کی قربانیوں اور روس میں بالشویک انقلاب کی مثالیں دے کر سکھوں کو یہ بتاتے کہ قربانی دئیے بغیر وطن کی آزادی ممکن نہیں اور اس کے لیے مسلح جدوجہد ضروری ہے۔ کشن سنگھ 35 سکھ بٹالین میں حوالدار تھا جو مارشل لاکے دنوں میں حکومت کے تشدد سے بے حد متنفر ہوااور اپنے یونٹ میں انگریز کے خلاف مہم شروع کر دی۔ اسے گرفتار کر کے کورٹ مارشل کیاگیااور پھر ملازمت سے الگ کردیا گیا۔
اس جتھے نے ایک ماہ کے اندر حکومت کے پانچ ایجنٹوں کو قتل کر دیا۔ اس سے خصوصاًجالندھر اور ہوشیار پور کے اضلاع میں خوف کی لہر پھیل گئی اور کئی مخبروں نے اپنے عہدوں سے استعفے دے دئیے۔ حکومت بھی ایک مرحلے پر بے بسی کے عالم میں نظر آئی جب اکثر ایجنٹوں نے کام جاری رکھنے سے معذرت کر لی۔ حکومت نے ایسے میں انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ 182 کارکن سکھوں کو حراست میں لیا گیااور عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے 25 افراد وہ ہیں جنہوں نے تحریک کو آگے بڑھانے میں نمایا ں کام کیااور جنہوں نے برطانوی افسروں کا قتل کیا تھا۔ حکومت کے ان اقدامات کے بعدببراکالی تحریک کے باقی کارکن یا تو زیر زمین چلے گئے یا فرار ہو گئے۔ ان میں سے ایک بڑی اکثریت ضلع ہوشیار پور کی شوالک کی پہاڑیوں پر چڑھ گئی۔ بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ببرا کالی نوجوان پہاڑیوں سے نیچے اترتے اور اچانک پولیس یا سرکاری تنصیبات پر حملہ کرتے اور واپس پہاڑیوں پر چڑھ جاتے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد حکومت نے ان پہاڑیوں میں آپریشن کا فیصلہ کیا۔ سی آئی ڈی کے خصوصی تحقیقاتی عملے کے علاوہ سینکڑوں پولیس اہلکاروں پر مشتمل ایک خصوصی دستہ تیار کیا۔ ان میں 50 ریگولر پولیس کے جوان تھے، 150 وہ تھے جنہوں نے پہاڑی علاقوں میں دشمن سے لڑنے کی تربیت حاصل کی تھی، 50 وہ پولیس والے تھے جو اپنے گھوڑے لے کر پہاڑیوں پر چڑھ جانے کے مشاق تھے۔ اس کے علاوہ ان کو فوج کے توپ خانے کی مدد حاصل تھی۔ 250 انفینٹری بھی اس کے پیچھے تھی اور اسے بکتر بند گاڑیوں کی سہولت حاصل تھی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ برطانوی فضائیہ کے طیارے بھی ان پہاڑیوں پر پرواز کرتے۔ اس کے علاوہ قانونی محاذ پر بھی اکالیوں (ببرا کالی پارٹی کے کارکنان) کے خلاف اقدامات کیے گئے۔
اس کے بعد آپریشن شروع کیا گیا۔ اکالیوں نے ہر جگہ مزاحمت کی اور بہادری کی داستانیں رقم کیں۔ لیکن برطانوی پولیس کے اس قدر منظم اقدامات کے بعد ان کے بچنے کے اقدامات بہت کم تھے۔ اکثر مارے گئے۔ 91 گرفتار ہوئے۔ ان کے خلاف مشہور اکالی مقدمہ شروع کیا گیا۔ اس دوران تشددکی وجہ سے تین نوجوان جیل میں مرگئے۔ 12 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی اور 38 کو دیگر المیعاد قید کی سزا دی گئی۔ بنتا سنگھ، کشن سنگھ، دلیپادھنیا، دھرم سنگھ اور دلیپ سنگھ گوسل کو موت کی سزا سنائی گئی اور 27 فروری 1926ء کو انہیں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ جن کو قید کی سزا سنائی گئی انہوں نے جیل کے اندر جدوجہد جاری رکھی۔ وہ قیدیوں کے لئے سہولتوں اور سیاسی قیدیوں کے حوالے سے بہتر سلوک کی صدائے احتجاج بلند کرتے رہے۔ ببراکالی تحریک 1921ء سے 1926ء کے دوران ایک بڑی لیکن قلیل العمرتحریک کے طور پر ابھری۔ ان نوجوانوں کی بہادری کا ایسا اثر ہوا کہ بعض نوجوان قومی ہیرو کے طور پر ابھرے۔ خصوصی طور پر بنتا سنگھ لوک داستانوں کا ہیرو بنا اس پر گیت لکھے گئے جن میں ایک یہ بھی ہے:
بنتا سنگھ دھمے دالک بنھ دے ندی تک جاوے… ( دھمے داگاؤں کابنتاسنگھ دھرتی کا وہ بہادر سپوت ہے جو ہر مشکل میں کمر کس لیتا ہے اور جس کے لیے کوئی مشکل نہیں رہتی۔ وہ تو طوفانی ندی سے بھی سر اٹھا کر گزر جاتا ہے)
نوجوان سبھا
ببرا کالی تحریک کے خاتمے کے بعد انقلابی سوچ ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں غم و غصے کے جذبات کا اضافہ ہوا اور بعد میں ایک ایسی تحریک پیدا ہوئی جس نے پورے ہندوستا ن کو ہلا کر رکھ دیا۔ نوجوان سبھا کا قیام ببرا کالی تحریک کا منطقی نتیجہ تھی اور اس کے قائدین میں بھگت سنگھ، چندرشیکھر آزاد، بھگوتی چرن، جتن داس، ماسٹر ماٹا سنگھ وغیرہ شامل تھے۔ بھگت سنگھ نے مارچ 1926ء میں پنجاب میں نوجوان سبھا کی بنیاد رکھی اور اس کا مقصد پنجاب کے نوجوانوں میں انقلابی فکر کو پروان چڑھانا اور انہیں سامراج کے خلاف جدوجہد پر آمادہ کرنا تھا۔ نوجوان سبھا نے آغاز میں اپنے جن مقاصد کا اظہار کیاان میں سے چند درج ذیل ہیں:
*ہندوستان بھر میں مکمل طور پر کسانوں اور مزدوروں کی ایک آزاد ریاست قائم کرنا۔
*ہندوستان کی اقتصادی، صنعتی اور سماجی تحریکوں کی حمایت کرنا تاکہ مکمل طور پر ایک آزاد اور خود مختار ہندوستانی ریاست کی تشکیل دی جا سکے جو مذہبی تعصب اور فرقہ واریت سے بالاتر ہو۔
*ان مقاصد کے حصول کے لئے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں کو منظم کرنا تاکہ آئندہ کا ہندوستان محنت کشوں کا ہندوستان ہو۔
نوجوان سبھا نے اپنے پروگرام کی عوامی مقبولیت کے لیے نچلی سطح پر مناظروں کا اہتمام کیاجس میں اخلاقی اور سماجی پہلو ؤ ں پر زور دیا گیا تھا۔ نوجوان سبھا کی اس تحریک نے جڑت پکڑی اور اگلے قدم کے طور پر رکنیت سازی شروع کر دی۔ کسی بھی نوجوان کو رکن بنانے سے پہلے اس سے عہد لیا جا تا کہ وہ مادر وطن کے مفادات کو اپنی ذات اور اپنے مذہبی فرقے کے مفادات سے با لا تر سمجھے گا۔ نوجوان سبھا کی اصل منزل عملی جدوجہد کو بنیاد بنا کر انقلاب برپا کرنا ہے۔ نہ صرف عوامی سطح پر نوجوان سبھا کو مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ بہت سے دوسرے انقلابی رجحانات نے بھی اس کی حمایت کا علان کر دیا۔ ان میں کیدار ناتھ سہگل، سرول سنگھ کاوشر، مہتا آنند کشور، سوڈی پنڈی واس اور کامریڈ رام چندر بھی شامل تھے۔ یہ لوگ باقاعدہ طور پر نوجوان سبھا میں شامل ہو گئے۔ اس سے تنظیم کو بہت تقویت ملی اور 1926ء کے موسم گرما میں نوجوان سبھا نے متعدد عوامی جلسوں کا اہتمام کیا۔
اپریل 1928ء میں امرتسر میں ہونے والے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نوجوان سبھا کی شاخیں ہر ضلع میں قائم کی جائیں گی اور کیرتی کسان گروپ کو بھی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے گا۔ اس فیصلہ کے تحت امرتسر تنظیم کا ہیڈ کوارٹر بنااور ساتھ ہی تنظیم کا نا م ’نوجوان بھا رت سبھا‘رکھا گیا۔ اس اجلاس کے فیصلوں سے تنظیم میں ایک نیا جوش اور قوت پیدا ہوئی جس کو آزمانے کیلئے فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب میں مالیہ کی معافی کی لیے کسانوں کی اس تحریک کا ساتھ دیا جائے گا جو 1928ء میں گندم کی فصل کا نقصان ہونے کے بعد شروع کی گئی تھی۔
نوجوان بھا رت سبھانے کئی تنظیمی شعبے بھی قائم کیے۔ ان میں نشر واشاعت کا شعبہ ’’ٹریکٹ سوسائٹی ‘‘بہت اہم تھا۔ اس نے پتلی تماشا کرنے والوں کی مدد سے کئی اضلاع میں لالٹین کی روشنی میں ایسے شو منعقد کیے جن میں معروف ہندوستانی انقلابیوں کی زندگی کی ڈرامائی تشکیل کی گئی تھی اور یوں کھیل ہی کھیل میں لوگوں کے ذہنوں میں انقلابی سوچ پیدا کی جا رہی تھی۔ اس کی علاوہ لاہور سٹوڈنٹس یونین نے بھی اس کے ساتھ الحاق کر لیا۔
جولائی 1928ء میں سبھا کے صوبائی صدر کیدارنا تھ سہگل نے ایک اخباری بیان میں تنظیم کے لائحہ عمل اور اس کی شاخیں صوبے کے تمام دیہاتوں، شہروں اور ضلعوں میں قائم کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا۔ انہوں نے نوجوانوں کو خصوصی طور پر سائمن کمیشن کے خلاف مظاہروں کے لیے تیار کرنے کی بات کی اورکہا کہ جب کمیشن کے ارکان پنجاب میں آئیں تو ان کا ہر شہر میں سیاہ جھنڈیوں اور پر جوش احتجاجی مظاہروں سے استقبال کیا جائے۔ سبھا کی ضلعی شاخیں لاہور، جالندھر، لدھیانہ، منٹگمری، گوجرانوالا اور شیخوپورہ میں قائم کی گئیں۔ نوجوان سبھا نے امرتسرکے جولائی کے انتخاب میں کیرتی کسان پارٹی کے رہنما سوہن سنگھ جوکش کو ضلعی صدر منتخب ہونے میں مدد کی اور اگست 1928ء میں دونوں تنظیموں نے مشترکہ طور پر ’’روس کے ساتھ دوستی‘‘ کا ہفتہ منایا۔ اس میں انہیں کانگریس کے ریڈیکل عناصر کی حمایت حاصل تھی اور اس دوران ایک اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی جس میں سویت روس کی سامراج دشمن پالیسی کی حمایت کی گئی اور کہا گیا کہ برطانوی حکومت کو آئندہ کسی بھی جنگ میں ہندوستانی عوام کی حمایت حاصل نہیں ہونی چاہئے۔ ساتھ ہی مزدوروں اور کسانوں کی حکومت کے قیام اور سرمایہ داری کی تباہی کے بارے میں اپنی سیاسی سوچ کا ایک مرتبہ پھر اظہار کیا گیا۔ سائمن کمیشن 20 اکتوبر 1928ء کو پہنچا جہاں ایک بہت بڑے اجتماع نے اس کا سیاہ جھنڈوں اور ’’سائمن واپس جاؤ‘‘کے نعروں سے استقبال کیا۔ مظاہرے کی قیادت لالہ لجپت رائے نے کی اور ان کے پیچھے لوگوں کا ایک سمندر موجزن تھا۔ جونہی جوشیلے جوان آگے بڑھتے گئے پولیس کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیااور آخر کا ر لاٹھی چارچ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پولیس نے براہ راست لجپت رائے پر حملہ کیا۔ اسی کے بعد ان پر بیماری کا حملہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ سر اور سینے پر چوٹوں کی وجہ سے ان کو دل کی بیماری لاحق ہو گئی اور اس وجہ سے 17 نومبر 1928ء کو وہ وفات پا گئے۔ نوجان سبھا نے کہا کہ ان کا خون انگریز حکومت کے سر ہے۔
چندر شیکھر آزاد
بھگت سنگھ، چندرشیکھر آزاد، کیلا ش پتی، راجگرو، یشپال اور دوسرے انقلابیوں نے ایک خفیہ اجلاس میں فیصلہ کیا کہ ایس پی سکاؤٹ کو قتل کر کے لجپت رائے کی موت کا بدلہ لیا جائے گااور اس قتل کیلئے 17 دسمبر 1928ء کا دن مقرر کیا گیا۔ حملے کے بعد تمام انقلابی وہاں سے بھاگ نکلے اور کوئی بھی پکڑا نہیں گیا۔ اس سے پہلے نوجوان سبھا نے اپنی سر گرمیاں جاری رکھتے ہوئے 16 دسمبر کو لاہور اور امرتسر میں کاکوری کا دن منایا۔ انہوں نے بنگال، یو پی، راجستھان اور بہار کے انقلابیوں سے رابطہ کیا۔
شمالی ہندوستان میں ایک انقلابی تنظیم ’’سوجنڈناک‘‘ سانہال نے 1920ء میں قائم کی۔ سچندر ناتھ سانہال نے جوگیش چندراور مکھرجی کے ساتھ مل کر یو پی میں ایک مسلح تنظیم کا آغاز کیا۔ 1924ء میں اس تنظیم کو ’ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن‘ کا نام دے کر ایک نئی پارٹی قائم کی گئی۔ ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن نے کانگریس کی ’ستیہ گرہ‘(عدم تشدد پر مبنی مزاحمتی تحریک) کی ناکامی کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی اور ان سے کہا کہ نظام کی تبدیلی کیلئے ہتھیار اٹھانا ضروری ہیں۔ ان کا نعرہ تھا کہ یہ وہ انقلاب ہے جس سے سرمایہ داری نظام کی موت ہوگی اور مفادات پر مبنی سیاسی اقتدار اور ان کے حواریوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہی تنظیم 1928ء میں ’ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی‘ میں تبدیل ہو گئی۔ 8 اور 9 ستمبر 1928 ء کو ایک اجلاس کوٹلہ فیروز شاہ (دہلی) میں ہوا جس میں چندر شیکھر آزاد، سکھ دیو اور بھگت سنگھ بھی موجود تھے۔ اس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام انقلابی جماعتوں کو جمع کیا جائے گا اور سوشلزم کو ملک کے نئے نظام کی بنیاد بنایا جائے گا۔
اسی دوران حکومت نے دو قانون ’’پبلک سیفٹی بل‘‘ اور ’’ٹریڈرز ڈسپوٹ ایکٹ‘‘ متعارف کرائے۔ جب حکومت نے ان قوانین کو واپس لینے سے انکار کر دیا تو ایک احتجاجی کاروائی میں بھگت سنگھ اور باتو کیشور دت (بی کے دت) نے مرکزی اسمبلی ہال میں آگرہ کی ایک فیکٹری میں بنے ہوئے بم پھینکے اور انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے۔ بم پھینکنے کے بعد وہ وہاں سے فرار نہیں ہوئے بلکہ ’سامراج مردہ باد‘اور’دنیا بھر کے محنت کشوایک ہو جاؤ‘نعرہ بازی کرتے رہے۔ ان دونوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور اعلان کیا کہ:
*ان بموں کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں تھا بلکہ دنیا پر یہ واضح کرنا تھا کہ ہندوستان کے عوام کس قدر استحصال اور جبر کا شکار ہیں۔
*ہمارا مقصد انگریز حکومت کو وارننگ دینا تھا۔
*ہمارا مقصد یہ بھی تھا کہ عدم تشدد کے ماہوم فلسفے کی حقیقت لوگوں پر ظاہر ہو جائے تاکہ انہیں یہ احساس ہو جائے کہ اس قسم کی پالیسیوں سے آزادی کی منزل حاصل نہیں ہو سکتی۔
*ہمارا یقین ہے کہ اگر ظلم اور جبر کے باوجود انقلاب روس کو ختم نہیں کیا جا سکا تو سیفٹی بل جیسے قوانین بھی ہندوستان میں آزادی کی لہر کو نہیں دبا سکتے۔
بھگت سنگھ اور بی کے دت کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی کی اور بھی بہت سے کارکنان پکڑے گئے۔ لاہور سازش کیس 1929ء میں درج ہوا اور بھگت سنگھ اور بی کے دت، سکھ دیو اور کشوری لال وہرا کو نئے سرے سے اس میں ملوث کیا گیا۔ ان سیاسی قیدیوں پر جیل میں مظالم کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے خلاف بھگت سنگھ اور بی کے دت نے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سیاسی قیدیوں کو جیل میں بہتر کلاس اور بہتر خوراک دی جائے۔ اخبارات اور پڑھنے لکھنے کا مواد فراہم کیا جائے اور سب کو ایک جگہ رکھا جائے۔ اس بھوک ہڑتال میں تقریباً سبھی انقلابی شامل ہو گئے جو کہ تقریباً 63 روز تک جاری رہی۔ ایک انقلانی جتن داس کی حالت خراب ہو گئی اور ہندوستان کی دوسری جیلوں میں بھی قید سیاسی قیدیوں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ اس دوران جیل میں جتن داس کی موت واقع ہو گئی تو حکومت نے محسوس کیا کہ حالات بہت خراب ہو گئے ہیں۔ لاہور سازش کیس کا مقدمہ نو ماہ تک چلتا رہا اور لاہور سازش کیس آرڈیننس 1930ء جا ری کیا گیا جس کے تحت انقلابیوں کو نہ وکیل کی سہولت حاصل تھی نہ اپنے دفاع میں وہ کسی گواہ کو پیش کر سکتے تھے۔
بھگت سنگھ
آخر کار اکتوبر 1930ء میں بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو موت کی سزا سنائی گئی۔ اس کے بعد ایک مرکزی اپیل کمیٹی بنی جس نے مختلف شہروں میں اجتماعات منعقد کرائے اور60 ہزار دستخطوں پر مشتمل ایک یاداشت وائسرائے کو جمع کرائی جس میں پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کے درخواست کی گئی۔ 17 فروری 1931ء کو پورے پنجاب میں بھگت سنگھ ڈے منایا گیا۔ لیکن 11 فروری 1931ء کو رحم کی اپیل مسترد کر دی گئی اور ان تینوں انقلابیوں کو 23 مارچ 1931ء کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
یہ پنجاب میں انگریز سامراج اور اس کے خلاف چلنے والے تحریکوں اور انقلابی رجحانات کی چند معمولی جھلکیاں ہیں۔ ان انقلابیوں کے طریقہ ہائے کار میں غلطیاں ضرور ہو سکتی ہے، مثلاً معروضی حقائق سے ہٹ کر مسلح جدوجہد اور انفرادی دہشت گردی کے اقدامات وغیرہ، لیکن ان کے سچے جذبوں اور قربانیوں سے کسی طور انکار ممکن نہیں۔
بعد از تقسیم
برصغیر میں کمیونسٹ پارٹی کی اپنی ایک وسیع تاریخ ہے لیکن سوویت یونین میں سٹالنزم کے تحت انقلاب کی زوال پزیری اور تیسری انٹرنیشنل کے سوویت بیوروکریسی کے ہاتھ میں خارجہ پالیسی کے اوزار بن جانے کے نتیجے میں کمیونسٹ پارٹی نے کئی نظریاتی اور سیاسی غلطیاں کیں جو کہ تاریخی جرائم سے کم نہ تھیں۔ بالخصوص دوسری عالمی جنگ میں انگریز سامراج کی حمایت نے کمیونسٹ پارٹی کو تحریک آزادی سے کم و بیش نکال باہر کیا۔ 1946ء میں جہازیوں کی بغاوت کے نتیجے میں جنم لینے والی انقلابی تحریک کے کچلے جانے کے بعد انگریز سامراج کے آلہ کار ’سیاسی لیڈروں‘ کو مذہبی منافرتیں ابھارنے کے مواقع میسر آئے۔ انڈین نیشنل کانگریس اور آ ل انڈیا مسلم لیگ کے مطیع لیڈروں کے ذریعے برطانوی سامراج نے پنجاب اور بنگال کو صرف جغرافیائی طور پر نہیں بلکہ ہزاروں سال پرانی تہذیب کو چیر دیا۔ 27 لاکھ انسانوں کا جو لہو بہا اس میں بھی زیادہ تر پنجاب کے غریب باسی شامل تھے۔ تقسیم کے زخموں سے آج تلک خون رس رہا ہے۔ اس خونی بٹوارے نے پنجاب کے سماج پر جو سماجی اور ثقافتی اثرات چھوڑے اس سے آج تک رجعت ٹپک رہی ہے۔ تقسیم کے بعد پاکستان میں پنجاب کے عوام پر قومی شاونزم اور پاکستانی قوم پرستی کو مسلط کرنے کی ہر ممکن کوشش یہاں کے حکمرانوں نے کی ہے۔ لیکن تاخیر زدہ اور خصی سرمایہ داری اور نیم جاگیر دارانہ اقتصادی ڈھانچہ کسی بھی طرح صحت مند، یکجا اور دور رس معاشی اور سماجی ترقی دینے سے قاصر رہا ہے۔ تقسیم کے بعد اس خطے میں اٹھنے والی سب سے بڑی انقلابی تحریک 1968-69ء کی تحریک تھی جس کا آغاز راولپنڈی سے ایک طالب علم (عبدالحمید) کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے بعد ہوا تھا۔ لائلپور (فیصل آباد) میں ایک مہینے تک مزدور یونینز کا بھاری صنعتوں پر قبضہ اور لاہور میں ریلوے کی بڑی ہڑتال اس تحریک کے اہم باب ہیں۔ روٹی، کپڑا، مکان اور سوشلزم کا نعرہ لگانے والی ’پاکستان پیپلز پارٹی ‘کا تاسیسی اجلاس بھی لاہور میں ہوا تھا اور 1968-69ء کی تحریک کے نتیجے میں پارٹی نے ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح پنجاب کے طول و عرض میں اپنے طبقاتی پروگرام کی بدولت مقبولیت حاصل کی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں پنجاب میں ایک عوامی محاورہ مشہور تھا جس کے معنی کچھ یوں ہیں کہ ’پیپلز پارٹی کھمبے کو بھی ٹکٹ دے گی تو وہ جیت جائے گا‘۔ تحریک کی زوال پزیری نے پھر پراگندگی اور رجعت کے اثرات سماج پر مرتب کئے۔ ضیاالحق کے سیاہ دور میں سرکار ی طور پر مسلط کردہ رجعتی رجحانات، فرقہ واریت اور براداری ازم کی سیاست، منشیات اور اسلحہ کے دھندے، جہادیوں اور ملائیت کے ریاستی سپانسرڈ گروہ اور مدارس کے جال بچھائے گئے۔ لیکن جب تک طبقات موجود ہیں طبقاتی تضادات موجود رہتے ہیں، کبھی سطح کے اوپر تو کبھی نیچے پکتے رہتے ہیں اور جلد یا بدیر انہیں ناگزیر طور پر پھٹنا ہوتا ہے۔ یہ سرزمین انقلابی روایات کی امین ہے اور آنے والے عہد میں بھی بلند تر پیمانے پر انقلابی تحریکوں کو جنم دے گی۔ ان تحریکوں کو پورے خطے اور دنیا بھر کے محنت کشوں کی طبقاتی جڑت سے ہی ان کے منطقی انجام یعنی سوشلسٹ انقلاب کی منزل تک پہنچایا جا سکتا ہے اور پورے جنوب ایشیا کو ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں جوڑا جا سکتا ہے۔
Source : http://www.struggle.pk/revolutionary-movements-of-punjab/