By ارشد فاروق بٹ On Oct 23, 2016
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مادری زبان اور تشخص کے حوالے سے جن مسائل کا سامنا ہے کم و بیش انہی مسائل کا سامنا برطانیہ کو قرون وسطی میں کرنا پڑا۔ برطانوی قوم نے ان حالات میں اپنی تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھنے کے لئے جو کچھ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ تو آئیے ایک نظر ان حالات پر ڈالتے ہیں جن کی روشنی میں ممکن ہے ہمارے مسائل کے حل کی راہ موجود ہو۔ فرانس کے نارمنز نے گیارہویں صدی عیسوی میں برطانیہ کو فتح کر کے اپنی حکومت قائم کی۔ اس فتح کے بعد مذہبی طبقے نے لاطینی زبان کے نفاذ پر زور دیا جب کہ اشرافیہ کی زبان فرانسیسی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ فرانسیسی زبان کو برطانیہ کی سرکاری زبان کا درجہ مل گیا۔ لاطینی اور فرانسیسی انگریز قوم کی پہنچ سے دور تھی۔ کسی نے بھی انگریزی زبان کی بطور رابطے کی اور عوامی زبان کے افادیت پر توجہ نہ دی۔ یہ صورت حال کم و بیش تین سو سال چلی۔ فرانسیسی زبان محض تسلیم شدہ سرکاری زبان کی حد تک محدود رہی۔ لوگوں نے اپنی مادری زبان انگریزی کو اپنائے رکھا اور نسل در نسل منتقل کیا۔ چودھویں صدی کے آغاز تک برطانیہ میں فرانسیسی اثرو رسوخ کم ہو گیا اور برطانیہ نے آزادی کے لئے فرانس سے لگ بھگ سو سالہ جنگ لڑی۔ برطانیہ میں1362 میں ایک قانون پاس کیا گیا کہ اب سے عدالتی کارروائی فرانسیسی کی بجائے انگریزی میں ہو گی۔ اس طرح برطانوی قوم نے نہ صرف اپنی شناخت کو زندہ رکھا بلکہ اپنی زبان کو بھی معدوم ہونے سے بچا لیا اور آج دنیا میں انگریزی سب سے زیادہ بولی، سمجھی اور سیکھی جا رہی ہے اور عالمی زبان کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بھی آج مادری زبان کے حوالے سے کم و بیش وہی مسائل درپیش ہیں۔ مذہبی طبقہ عربی زبان کے نفاذ پر زور دیتا ہے۔ اشرافیہ انگریزی سے متاثر ہیں اور غلامی کے خول سے باہر نہیں آنا چاہتے جب کہ اردو کو کاغذات کی حد تک سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔ جب کہ پنجابی زبان پورے پنجاب میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ گھروں اور گلی محلوں میں پروان چڑھنے والی ماں بولی حکومت کی مسلسل عدم توجہی کا شکار ہے۔ ہمارے سکولوں اور نظام تعلیم میں پنجابی زبان کی ترقی و ترویج کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا۔ نتیجتاً پنجاب کے باسی پنجابی بولنے، سمجھنے کی مہارت تو رکھتے ہیں لیکن اس کو لکھنے اور پڑھنے کی مہارت سے عاری ہیں۔ بحیثیت مجموعی اگر دیکھا جائے تو پنجاب میں لوگ عربی زبان کو مطالب سمجھے بغیر پڑھنے کا تجربہ رکھتے ہیں کیونکہ عربی اور اردو رسم الخط ایک جیسے ہیں اور سکولوں میں بھی آٹھویں جماعت تک عربی زبان اور قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے۔ انگریزی میں پوری قوم کا ہاتھ تنگ ہے۔ سیاستدان اور بیوروکریٹ جس عمدہ طریقے سے انگریزی بولتے ہیں وہ اکثر خبرناموں میں عوام کے لئے مزاح کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ پھر بھی طبقہ اشرافیہ انگریزی زبان کو دفاتر میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور مقامی زبانوں کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ لوگ خود بھی غلامانہ ذہنیت کے مالک ہیں اور پوری قوم کو اس غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنا چاہتے ہیں۔
غیر ملکی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے سے سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہو رہا ہے جن کی تعلیمی بنیادیں کمزور ہو رہی ہیں۔ مختلف تعلیمی اداروں میں اساتذہ کرام اس بات کا تجربہ رکھتے ہیں کہ کیسے بچے ریاضی کا سوال حل کر لیتے ہیں لیکن سوال میں لکھی انگریزی عبارت کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ بہت عجیب لگتا ہے جب بچہ استاد سے شکایت کرنے آتا ہے کہ سر وہ دیکھیں بچہ پنجابی بول رہا ہے۔ گویا پنجابی زبان بولنا تعلیمی اداروں میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔
دوسری بڑی زیادتی جس کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ نظام تعلیم ہے۔ سرکاری و نجی سکولوں میں رائج نظام تعلیم دنیا کا ناکام ترین نظام ہے۔ خصوصاً اس نظام کے تحت کسی بھی زبان چاہے وہ پنجابی ہو، اردو ہو، انگریزی ہو یا عربی، کی مؤثر تدریس اور اس میں مہارت کا حصول ممکن نہیں۔ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے چار بنیادی اصول سننا، بولنا، لکھنا اور پڑھنا ہیں۔ ہمارے سکولوں میں نہ کوئی لینگوئج لیب ہے، نہ سننے اور بولنے سے متعلق کوئی مواد اور نہ اس کی مشق کی جاتی ہے۔ اور نہ اسے امتحان میں شامل کیا جاتا ہے۔ ایک اور فریب جس میں نوجوانوں کو مبتلا کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انگریزی زبان میں مہارت سے معاشی فوائد کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔ کیا فر فر انگریزی بولنے سے طالب علم ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے قابل ہو جاتا ہے؟ یقیناً یہ بات درست ہے کہ انگریزی میں مہارت سے آپ کچھ پیشوں میں کام کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں جیسے انگریزی زبان کی تدریس یا کال سنٹرز وغیرہ۔ باقی لوگ اس کو بے کار میں سیکھتے ہیں۔ مستقبل قریب میں چین دنیا کی سپر پاور بننے جا رہا ہے۔ قوی خیال ہے کہ پاکستانی قوم ایک صدی انگریزی سیکھنے کے بعد اب ایک صدی چینی زبان سیکھنے میں لگائے گی جو کہ بہت افسوسناک ہے۔ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کی تکمیل سے پاکستان میں دس لاکھ سے زائد نوکریاں دستیاب ہونے کی پیشین گوئی ہے جس کے پیش نظر حکومت پنجاب نے لاہور کے ووکیشنل ٹریننگ کے اداروں میں چینی زبان کے کورسز کا آغاز کر دیا ہے۔ پاک چین تعاون سے تین سو کے قریب طلبہ کا ایک گروپ سکالرشپ پر چینی زبان سیکھنے کے لیے چین بھیجا گیا ہے جو مستقبل میں گوادر پورٹ پر فرائض سر انجام دیں گے۔
ساہیوال ڈویژن میں بیکن ہاؤس سکول سسٹم کی جانب سے ایک متنازع سرکولر جاری ہونے کے بعد ساہیوال میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔ اس سرکولر میں پنجابی زبان کو بے ہودہ قرار دیتے ہوئے طلبہ کو باور کرایا گیا کہ سکول میں پنجابی زبان بولنے پر پابندی ہے۔ جس پر پنجاب لوگ سجاگ، پنجاب لوک لہر سمیت پنجابی زبان اور کلچر کے فروغ کے لیے کام کرنے والے ادارے سراپا احتجاج ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب پاکستان کے دیگر صوبوں میں ابتدائی تعلیم مادری زبانوں میں دی جاتی ہے تو پنجاب حکومت پنجاب کی مادری زبان پنجابی سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں کر رہی ہے۔ ترقی یافتہ قوموں کی زبان بچوں کو سکھانی ہے تو اس کے لیے الگ سے ادارے بنائے جائیں۔ بدیسی زبانیں نافذ کر کے خدارا پورے نظام تعلیم کا بیڑا غرق نہ کریں۔ پاکستان نے اگر ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل ہونا ہے تو اسے خود ساختہ غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکنا ہو گا۔ خود انحصاری، مادری زبان اور قومی تشخص کو اجاگر کرنا ہو گا۔ ورنہ تاریخ پاکستان کے 69 سال ہمارے سامنے ہیں۔