05/05/2018 شازیہ چھینہ ,
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ پنجاب اور پنجابی قوم کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے طور پر احساس عدم تحفظ اور تنہائی کا شکار کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ پنجاب اور پنجابی کے خلاف نفرتوں کو ہوا دینا سالوں سے جاری ہے وہ بھی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت۔ پنجابی وہ مظلوم ہے جو اس ملک کی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ ڈالتا ہے اور پھر بدلے میں بلوچی سے اس کی گیس پٹھان سے اس کی بجلی اور سندھی سے تو مفت میں طعنے کھاتا ہے۔ پنجابی وہ بے قصور اور مظلوم قوم ہے جو سندھی بلوچی کشمیری اور پٹھان سے گالی بھی کھاتا ہے اس کی نفرت بھی برداشت کرتا ہے اور ان کو اپنے ہاں محبت بھی دیتا ہے۔ کاروبار بھی زمین بھی اور رہنے کو چھت بھی۔ اور پھر وہی لوگ اس سے اس کی دھرتی کا بٹوارا کرنے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں یہ تو ہو رہا ہے تو پھر یہ اصول سندھ کی مہاجر اور بلوچستان کی ہزارا کمیونٹی پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ کچھ نا شکرے سیاستدان اسی مٹی کا کھا کر اسی کا پی کر یہیں عالی شان محل بنا کر یہیں کے لوگوں سے پاور لے کر یہیں کے ایک میدان میں یہیں کے لوگوں میں پاور شو کرتے ہوئے اسی دھرتی کے خلاف زہر اگلتے ہیں اس کو ملنے والے فنڈز پر ماتم کرتے ہیں پنجاب کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں اور اس دھرتی کو توڑنے کے لیے مکے دکھاتے ہیں اور اس سارے ایجنڈے پر عمل کرنے کے لیے پنجابیوں سے ہی ووٹ مانگتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ پنجابیوں پر ان کی ہی دھرتی تنگ کی جا رہی ہے اور ان کو اپنے ہی ملک میں غاصب لٹیرے اور ظالم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
اچھے یا برے لوگ کہاں نہیں ہوتے تو یہ کیا یہ دہرا اور منافقانہ رویہ نہیں ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے فوجی جرنیل یا سیاستدان و حکمران کے خلاف نفرت کا بھگتان تو پورے پنجاب کو بھگتنا پڑے اور سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے ایسے ہے سرداریوں مزاریوں بگٹیوں خانوں اور جاموں کی کرتوتیں ان کی ذاتی ہو جائیں؟ یہ پنجاب کا ہی حوصلہ ہے کے یہ بلاوجہ کی نفرت وہ سالوں سے سہہ رہا ہے اور اس پر اپنے بیٹوں کی لاشیں بھی وصول کرتا ہے۔ کوئی مجھے بتائے کہ آج تک پنجاب نے بھی ایسی کوئی لاش بھیجی ہے؟ یہ نفرتیں پنجاب کے حصے میں ہی کیوں؟ پنجابی فوجیوں مزدوروں اور ملازمین کوئی شوق نہیں ہے کہ وہ بلوچستان جائیں وہ مظلوم تو حکم کے غلام ہیں جہاں ڈیوٹی آرڈر آیا پہنچ گئے۔
مگر مجھے یہ بتاؤ کہ یہ پنجاب میں جگہ جگہ بلوچی سجی سندھی اور کراچی بریانی شنواری ریسٹورنٹ ہزارا گڈز اور ایسی بے شمار چیزیں کیا پنجاب کے بڑے دل کا ثبوت نہیں ہیں؟ کوئی ایک مجھے پشاور سوات لاڑکانہ یا کوئٹہ میں پنجابی ریسٹورنٹ یا لاہوری چرغہ ہی کھول کے دکھائے۔ یہاں پنجاب میں بلوچی سندھی کشمیری اور پشتو نام آپ کو جگہ جگہ دکانوں مارکیٹس سڑکوں گلی محلوں اور چوکوں کے نظر آئیں گے مگر کسی دوسرے صوبے میں کوئی پنجابی ایسا کر کے دکھائے۔ کبھی آپ نے پنجابیوں میں بھی دوسرے صوبوں یا ان کے کے لوگوں یا ان کی زبان کے خلاف یہ نفرت دیکھی ہے ہے جو ہم پنجابیوں کو سہنا پڑتی ہے۔
ہر روز ہمیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ہم تو سب کا حق کھا کے بیٹھے ہیں۔ کبھی عام پنجابی کے حالات دیکھے ہیں۔ عام پنجابی کا تو سیاست اور اس کے گورکھ دھندوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ پنجاب اور پنجابی کے خلاف نفرت کا یہ عالم ہے کہ حالیہ ہونے والی مردم شماری میں پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جس کے آبادی بڑھنے پر اس کی قومی اسمبلی میں سیٹیں بڑھانے کے بجائے کم کر دی گئی ہیں اور یہ 9 سیٹیں پنجاب سے چھین کے بلوچستان کے پی اور وفاق کو دے دی گئی یعنی پنجاب میں ماؤں نے بچے جننے بند کر دیے ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اس سارے ظلم کو آئینی بنانے کے لیے آئین میں تبدیلی لائی گئی اور وہی سیاستدان اور لوگ جن کے خلاف نفرت ایک عام پنجابی برداشت کرتا ہے انھوں نے پنجاب پر مارے جانے والے اس شب خون کے حق میں ووٹ دیے۔ اور اس پر ظلم یہ کہ پنجاب نے جن بلوچوں اور نیازیوں اور جاموں کو پنجاب میں جگہ دی ان ہی کے ذریعےآج پنجاب کو توڑنے کی بات کی جاتی ہے اور باقی صوبوں میں ایسی بات پر سینہ کوبی شروع ہو جاتی ہے۔
پنجاب کے خلاف نفرت اور انتہا پسندی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ان کا بس چلے تو پنجاب کو نقشے سے ہی غائب کر دیں۔ یہ پنجاب ہی ہے کہ جہاں جماعت اسلامی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف جیسی پارٹیاں اچھا خاصا ووٹ لیتی ہیں اور حکومتیں بھی بناتی ہیں اور پنجاب کو گالی بھی دیتی ہیں اور اس کے خلاف نفرت بھی پھیلاتی ہیں اور اس کے ”ٹوٹے“ کرنے کی بات بھی سینہ ٹھونک کے کرتی ہیں کوئی پنجابی پارٹی دوسرے صوبے سے صرف ووٹ لے کے دکھا دے۔ پنجابی و قوم ہے کہ جب ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو پنجابیوں کا خون پانی کی طرح بہا لاکھوں پنجابیوں کے خون سے چھٹا دریا بہہ نکلا لاکھوں پنجابی عورتوں کی عزت گئی ان کی لاشوں سے کنویں بھر گئے دنیا نے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت دیکھی اور وہ پنجابیوں کی تھی۔ سرحد کے دونوں طرف پنجاب اور پنجابی مولی گاجر کی طرح کٹتا رہا اور وہ لوگ جو آج پنجاب سے نفرت کرتے ہیں ان کے گھروں تک تو اس آگ کی گرمی جس میں پنجاب جلا اور اس خون کی ہولی جوپنجابیوں کے خون سے کھیلی گئی اس کی ہوا بھی نہیں پہنچی۔ اور آج کچھ گندے انڈوں کے اعمال کی سزا پورے پنجاب کو دیتے ہوئے کسی کو شرم نہیں آتی۔
پنجاب پر اپنے احسان جتلاتے وقت کوئی اپنی تھالی میں رکھے کھانے کو نہیں دیکھتا۔ پنجابیوں کو لاشیں بھجواتے وقت کو یہ نہیں سوچتا کہ پنجاب تمہارے کتنے بیٹے پال رہا ہے۔ یہ پنجاب ہی ہے کہ جس کی یونیورسٹیوں میں کے پی کے کے سراج الحق جماعت اسلامی سندھ کے بھٹو اور زرداری کی پیپلز پارٹی اور عمران نیازی کی تحریک انصاف اور بلوچ سٹوڈنٹس کے نہ صرف ونگ ہیں بلکہ وہ اتنے مضبوط ہیں کہ ہماری یونیورسٹیز بند کر سکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں۔ کوئی پنجابی سٹوڈنٹ کسی دوسرے صوبے میں اول تو کراچی کے علاوہ کہیں ملے گا ہی نہیں اور ہوگا بھی تو ایسا سوچ کے دکھائے۔ یہ پنجاب ہے جہاں دوسرے صوبوں کے طلبا کے لیے سپیشل کوٹے بھی ہیں باقی صوبے پنجابی طلبا کو کوٹا دینے کا سوچیں گے بھی نہیں۔
یہ پنجاب کا ہی حوصلہ ہے کہ گالیاں بھی کھاتا ہے اور لاشیں بھی وصول کرتا ہے۔ یہاں پنجاب میں کسی بلوچی کسی پٹھان کسی سندھی یا کشمیری پر معمولی تشدد بھی ہوا ہوتا تو ہر طرف ہاہاکار مچی ہوتی پنجاب اور پنجابی کے خلاف۔ بلکہ یہاں پنجاب کی یونیورسٹیوں میں دنگےکرنے پر اگر دیگر صوبوں کے طلبا کو تھانے لے جایا جائے تو ہر طرف سے گلے پھاڑ پھاڑ کر مظلومیت کے رونے روئے جاتے ہیں اور پنجابیوں کا خون پانی سے بھی سستا ہے باقی صوبوں میں اس پر سب کی زبان پر چھالے پڑ جاتے ہیں۔ پنجابی وہ قوم ہے جو پنجاب میں بھی بلوچوں اور پٹھانوں سے مار کھاتی ہے اور پنجاب سے باہر بھی۔ پھر بھی پنجابی ظالم ہے۔ اور اب تو پنجاب کے خلاف محاز کو بہت مظبوط ہاتھوں سے دست شفقت اور سر پرستی بھی حاصل ہے لہذا مجھے ڈر ہے کہ پنجاب میں بھی وہ دن نہ آجائے کہ باقی صوبوں کے خلاف نفرت ہی نفرت ہو۔
اللہ وہ دن نہ دکھائے کہ نفرت اور صوبہ پرستی کی یہ آگ پنجاب میں بھی جل اٹھے کیونکہ حالیہ سالوں میں ہونے والی پنجاب کشی کی آگ کی تپش اب میرے جیسے عام پنجابی بھی محسوس کرنے لگے ہیں۔ بے چینی، تنہائی اور عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے جو جہاں عام پنجابی کو باقی صوبوں سے دور کر رہا ہے وہیں اس کو مغربی اور مشرقی پنجاب کے درمیان کچھی خونی لکیر سے آزاد بھی کر رہا ہے۔ کیونکہ پنجابی سرحدکے اس پاربھی مظلوم ہے اور اس پار بھی۔
میرا مقصد صوبوں کی نفرت کو ہوا دینا نہیں ہے بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ باقی صوبوں کے عوام کی طرح پنجابی بھی مظلوم اور پسے ہوئے لوگ ہیں جن لوگوں نے تمہیں لوٹا ہے انھوں نے ہمارا خون بھی چوسا ہے۔ کبھی آکر عام پنجابی کا حال دیکھو۔ بلکہ پنجابی سندھی بلوچی پختون سب کے سب مظلوم ہیں کوئی کسی کا حق نہیں کھا رہا۔ فی کس آمدن و خرچ کل آبادی صوبے کا ذاتی ریونیو اور پیداوار اور نیشل پیداوار اور ریونیو میں صوبے کی کمائی نکال کے دیکھ لو۔ سب کا حق اور سب کا خون تو کرسیوں کے چند کیڑے کھا پی گئے اور اب وہی ہم سب کو ایک دوسرے کے خلاف لڑا رہے ہیں ایک دوسرے کے گلے کٹوا رہے ہیں۔ جاگ پنجابی جاگ، جیے سندھ، پختون تحفظ اور بلوچوں کے حقوق کی تحریکیں تو بہت چلاتے ہو ایک مشترکہ ”تحریک عام آدمی ” بھی چلا کر دیکھ لو شاید بات بن جائے۔