ہارون خالد
گردوارہ پٹی صاحب باقی سکھ عبادت گاہوں سے نسبتاً چھوٹی مقدس جگہ ہے۔ صحن کے ساتھ ایک منزلہ عمارت کھڑی ہے جس کے برابر میں ہی کئی کمرے موجود ہیں۔
یہ کمرے ان زائرین کے لیے مختص تھے جو پورے غیر منقسم ہندوستان سے گرو نانک جینتی، یعنی پہلے سکھ گرو کی سالگرہ منانے کے لیے ننکانہ صاحب کا رخ کرتے تھے، جن کے نام پر ہی اس پاکستانی شہر کا نام رکھا گیا۔
ان میں سے زیادہ تر کمروں پر وہ سکھ خاندان قابض ہو گئے ہیں جو گزشتہ دہائی کے دوران پاکستان کے قبائلی علاقوں سے طالبان کے تشدد سے بچنے کی خاطر ننکانہ صاحب آ گئے تھے۔
یہی وہ گردوارہ ہے جہاں گیانی پرتاب نامی ایک عقیدت مند نے چھوٹے بچوں کو سکھ مت کے عقائد اور اس کی مقدس کتاب، آدھی گرنتھ پڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔
چند برس قبل تک ننکانہ صاحب، جسے گرو نانک کی جائے پیدائش کہا جاتا ہے، میں مٹھی بھر ہی سکھ خاندان مقیم تھے۔ تقسیم ہند کے بعد سکھوں کی اکثریت ہندوستان ہجرت کر گئی تھی؛ آج اس شہر میں 200 سے 250 سکھ خاندان مقیم ہیں۔
گیانی پرتاب 1960 کی دہائی میں گرو نانک کو خراج پیش کرنے ننکانہ صاحب آئے تھے۔ یہاں تقسیم ہند کے بعد سے ویران پڑے گردواروں کی حالت دیکھ کر انہوں نے یہاں سکونت اختیار کرنے اور ان کا خیال رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔
حکومت پاکستان کی جانب سے سکھ مقبروں کے مرمتی کام کا آغاز کرنے اور قبائلی علاقوں سے سکھ خاندانوں کی ننکانہ صاحب ہجرت کرنے سے برس ہا برس پہلے کی بات ہے۔ مسلم اکثریتی شہر میں وہ واحد سکھ تھے۔ 1960 کی دہائی سے سکھوں نے ہندوستان سے یہاں ہجرت کرنی شروع کی اور اسی اثنا میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبانائزیشن بھی زور پکڑتی جا رہی تھی۔
آدھی گرنتھ پر مہارت رکھنے والے پرتاب نے بچوں کو گورمکھی رسم الخط سے آشنا کیا، اور انہیں سکھ گروؤں کی مقدس شاعری تک رسائی دی۔ اس گردوارے میں بچوں کو اسکول کی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی فراہم کی جاتی تھی۔
یہ ان بچوں کے لیے ضروری بھی تھا، جنہوں نے پاکستانی نظام کے تحت تعلیم حاصل کی تھی، ورنہ وہ کبھی بھی گورمکھی نہیں سیکھ پاتے اور اپنے مقدس مذہبی صحیفوں سے بے خبر رہتے۔ چند برسوں بعد ننکانہ صاحب کی سکھ برادری کے اہم رکن مستن سنگھ نے گرو نانک ہائی اسکول قائم کیا۔ یہ وہ واحد ادارہ تھا شہر میں طلبہ کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی فراہم کرتا تھا، جس کے نتیجے میں گردوارہ پٹی صاحب میں قائم عارضی اسکول بند ہو گیا۔
تحفظ پنجابی
پنجابی میں پٹی سے مراد لکڑی کی وہ تختی ہے جس پر طلبہ لکھنا سیکھتے ہیں اور یہ گردوارہ تعلیمی ورثے کی حیثیت رکھتا ہے۔
چونکہ گرو نانک کا تعلق بیدی قبیلے سے تھا، جو ویدوں کے قدیم قاری تھے، اس لیے ان کے لیے سنسکرت سیکھنا لازمی تھا۔ قدیم ہندوستانی زبان پر دسترس حاصل کرنے کے بعد انہیں عربی اور فارسی سکھائی گئی، جو کہ اس دور کی سیاسی طور پر غالب زبانیں تھیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں نانک کو مولانا قطب الدین نے یہ زبانیں سکھائیں تھیں، یوں اسے گردوارہ پٹی صاحب پکارا جانے لگا۔
نانک کے قریب 6 صدیوں بعد، اسی جگہ پر چھوٹے سکھ بچوں کو گورمکھی کی حروف تہجی پڑھائے جا رہے تھے، گورمکھی، نانک کے پیروکار اور روحانی جان نشین، گرو انگد دیو نے تخلیق کی تھی۔ دوسرے سکھ گرو نے سکھ مت کے بانی کا پیغام پڑھانے کے لیے ایک نیا رسم الخط تخلیق کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
یہی وہ گردوارہ ہے جہاں نانک، ایک شاعر کا جنم ہوا تھا۔ مختلف زبانوں پر مہارت حاصل کرنے کے بعد نانک نے عربی، فارسی اور سنسکرت کے لفظوں کو پنجابی بولی سے ملا کر اپنی پہلی شاعری ترتیب دی۔
نئے الفاظ، فقروں اور علامتوں کو بھی زبان میں شامل کیا گیا تھا جنہیں، نانک سے پہلے، سنجیدہ فلسفیانہ علوم کا حامل تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ اس طرح نانک نے نہ صرف پنجابی کی روحانی ترقی میں حصہ ڈالا بلکہ اس کی لسانیاتی ترقی میں بھی غیر معمولی کردار ادا کیا۔
آج پنجابی سکھ مت کی باقاعدہ ایک مقدس زبان کا درجہ حاصل کر چکی ہے مگر جب نانک نے یہ بولی لکھی تھی تب اسے پڑھی لکھی اشرافیہ کے لیے نامناسب کاہل لوگوں کی زبان تصور کیا گیا تھا۔ ادب، تاریخ، فلسفہ اور مذہب صرف مقدس زبانوں — سنسکرت، عربی اور فارسی— میں دی جاتی تھی، جس پر ہر کسی کو دسترس حاصل نہیں تھی۔ نانک کی جانب سے یہ شاید سب سے بڑے انقلابی اقدامات میں سے ایک تھا۔
انہوں نے اشرافیہ سے، ان کے صحیفوں سے اور ان کی زبانوں سے علم اٹھا کر عام زبان میں پیش کر دیا۔ انہوں نے فلسفے کو عوامی سطح پر عام کیا اور صدیوں سے ثقافتی طور پر محکوم رہنے والی زبان، لوگ، اور ثقافت کا وقار بحال کیا۔
مگر، سکھ مت کی جانب سے پنجابی کو مقدس زبان کا درجہ بخشنے کے سالوں بعد ایک بار پھر نانک کی دھرتی پر اس زبان کو دیوار سے لگایا جانے لگا ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں رسمی تعلیم اردو اور انگلش میں فراہم کی جاتی ہے، جبکہ پنجابی شعرا، ادب اور ثقافت کے تمام حوالاجات مسخ کردیے جاتے ہیں۔
پنجابی کو عموماً گالیوں سے بھری زبان تصور کیا جاتا ہے۔ مثلاً، گزشتہ سال ایک نجی اسکول نے پنجابی کو ان “فاؤل لینگوئجز” (غیر اخلاقی زبان) کے اقسام کی فہرست میں شمار کیا تھا جنہیں اسکول کی حدود میں بولنے پر ممانعت تھی۔ اگرچہ اسکول نے دعویٰ کیا کہ ایسا غلط فہمی کے باعث ہوا اور ان کا مطلب پنجابی گالیوں سے تھا، مگر اس تنازع نے زبان کی جانب حقارت کا اعادہ کرتا ہے۔
21 فروری کو دنیا نے عالمی یوم مادری زبان ایک سے زائد زبانوں میں تعلیم کی فراہمی کو فروغ دینے کے عزم کے ساتھ منایا۔ اس سے پہلے کبھی بھی نانک کی روایت اور زبانوں کی اہمیت— نہ صرف پنجاب میں بلکہ پوری دنیا میں، جہاں کہیں بھی زبانوں کو دیگر طاقتور تصور کی جانے والی زبانیں ہضم کر جاتی ہیں— کو دوبارہ اجاگر کرنے کی اتنی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوئی جتنی کہ آج ہے۔