عامرریاض
دنیا بھر میں پنجابی زبان بولنے والوں کی تعداد 20 کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں تو عموماً پاکستانی و بھارتی پنجابوں ہی کا ذکر ہوتا ہے کہ جہاں ہندی، اُردو اور انگریزی کی یلغار کے باوجودپنجابی بولنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں ہو سکی۔ بھارت کے ایک پرانے او رموثر اخبار نے تو پچھلے دنوں یہ سرخی لگا کر سب کو حیران کر دیا تھا کہ بھارت ’’پنجابیانے‘‘ کے عمل سے گذر رہا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی خبر میں یہ بتایا گیا تھا کہ بھارتی فلموں میں پنجابی چھائے ہوئے ہیں اور فلمی گانوں میں پنجابی الفاظ و محاوروں کا استعمال فلم کی کامیابی کی ضمانت بن چکا ہے۔ ویسے تو یہی عمل پاکستان میں بھی ہو رہا ہے مگر یہاں یہ جواز دیا جاتا ہے کہ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور پنجابی توپنجاب کے علاوہ تینوں پاکستانی صوبوں میں بھی موثر تعداد میں ہیں۔ اب بھارت میں تو پنجاب محض 8 کروڑ کا صوبہ ہے یعنی ایک ارب کے ملک میں اس کا تناسب دس فیصد سے بھی کم ہے۔ پھر اس پنجاب کو بھی 1966 سے دلی سرکار نے تین حصوں میں منقسم کر ڈالا تھا۔ مگر اس کے باوجود بھی اگر پنجابی بھارت میںچھائے ہیں تو یقینا ان میں اور بہت سی خوبیاں ہوں گی۔ قراۃ العین حیدر جیسی ادیبہ نے تو اس کا برملا اعتراف بھی کیا ہے۔ خیر اس بارے پھر بات ہو گی کہ ابھی تو ان ممالک کا ذکر کرنا ہے جہاں پنجابی بولی جاتی ہے۔ بھارت کے حصہ میں آنے والے پنجاب کو تین حصوں میں بانٹ دینے کے باوجود اب بھی ان تینوں خطوں میں پنجابی ہی سب سے بڑی و موثر زبان ہے۔ یوں بھارت میں 8 کروڑ جبکہ پاکستان میں بارہ کروڑ لوگ پنجابی بولتے ہیں۔ پنجابی سمجھنے والوں کو اس میں شامل کریں تو یہ تعداد بہت زیادہ ہو جائے گی۔ مگر ہم یہاں اب ان ممالک کا ذکر کریں گے جہاں متعلقہ ممالک کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق پنجابی بولنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان میں سرفہرست تو برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا ہیں جہاں پنجابی بولنے والوںؒ کی تعداد 41 لاکھ سے زائد ہے۔ 23 لاکھ سے زائد پنجابی بولنے والے تو صرف برطانیہ ہی میں مقیم ہیں۔ وہ ممالک جہاں پنجابی بولنے والوں کی تعداد 6 لاکھ سے زیادہ ہے ان میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملائشیا، جنوبی افریقہ، برما، فرانس، اٹلی، تھائی لینڈ، جاپان اور آسٹریلیا میں 836000 سے زیادہ پنجابی بولنے والے خواتین و حضرات مقیم ہیں۔ ان 8 ممالک میں پنجابیوں کی تعداد سوا لاکھ سے دو لاکھ تک ہے۔ اب ذرا غور کریں پاکستان کے علاوہ دنیا کے 14 ممالک میں پنجابی بولنے والے ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں موجود دہیں۔ ان اعدادوشمار میں تو محض وہی ممالک شامل کیے گئے ہیں جہاں پنجابی بولنے والوں کی تعداد 70 ہزار یا اس سے زائد ہے۔ اب اگر ایسے ممالک کی فہرست بنائیں جہاں پنجابی بولنے والے دس ہزار یا اس سے زائد ہوں تو ان ممالک کی تعداد 70 سے بھی اوپر ہو جائے گی۔ بڑی تعداد میں اتنے سارے ممالک میں پنجابی بولنے والوں کی موجودگی سے پاکستان نادر فائدہ حاصل کر سکتا ہے مگر اس کے لیے مرکزیت پسندگی پر مبنی کچھ خاص مفروضوں سے جان چھڑانا ہوگی۔ کیا ہماری تربیت یافتہ اور تجربہ کار وزارت خارجہ کو ان اعدادوشمار بارے معلومات نہیں ہیں؟ کیا پنجابی زبان کی ترویج و اشاعت کے ذریعے ہماری وزارت خارجہ پاکستان کا ایک روشن چہرہ ان ممالک میں نہیں بنا سکتی؟ یا وہ ابھی تک انگریز دور کی روایات ہی کی امین ہے جس میں ہمارے خطوں کی مادری زبانوں خصوصاً پنجابی کو دیس نکالا دینا ہی پالیسی تھا۔ شومئی قسمت، پنجابی ادبی بورڈ اور پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج جیسے ادارے تو بنائے گئے، سکھوں کی خاطر مدارت کے لیے قابل ذکر بندوبست بھی کیا گیا مگر بین الاقوامی سطح پر پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچ و براہوی زبانوں کے ذریعے ہم جو نئی راہیں ڈھونڈ سکتے تھے اس پر تاحال دفترخارجہ خاموش ہی ہے۔ ایرانیوں نے فارسی اور بھارتیوں نے ہندی، بنگالی اور تامل زبانوں کے ذریعے دنیا میں اپنی جگہ خوب بنائی اور وہ وہاں بھی جا پہنچے جہاں ان کی رسائی بظاہر ناممکن تھی مگر ہم ہیں کہ تاحال مادری زبانوں اور ان سے وابستہ ثقافتی و تاریخی رنگارنگی کو نوآبادیاتی عہد کی طرح زہر قاتل ہی سمجھتے ہیں۔
Source : http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2013-07-14/4893#.WwrWmUgvwdU