جب میں بچہ تھا، تو مجھے لگتا تھا کہ اردو زبان ہی ہماری اپنی زبان ہے مگر مجھے مشکل ہوتی تھی جب گھر میں پنجابی بولی جاتی تھی، ہمارے اردومیڈیم سکول میں یہ بات سکھائی جاتی تھی کہ پنجابی ایک گنواروں کی زبان ہے جس کا لہجہ ایک مقررہ فاصلے کے بعد بدل جاتا ہے اور اس کی کا کوئی معیاری لہجہ نہیں، اس میں کوئی ادب تخلیق نہیں ہورہا، یہ بانجھ اور جامد زبان ہے، مجھے واقعی ایسے لگتا کہ سبزی والا، دودھ والا، کام کرنے والے غریب لوگ اور ان کے بچے یہ زبان بولتے مگر اس وقت پریشان ہوجاتا جب مری ماں بھی یہی زبان استعمال کرتی، میرے والد بھی اسی بان میں گفتگو کرتے، میں بڑے شوق سے اے حمید سے لے کر اشتیاق احمد اور جبار توقیر وغیرہ کی بچوں کے لیے کہانیاں پڑھا کرتا، بچوں کے لیے اردو زبان میں نونہال، جگنو، تعلیم و تربیت نامی رسائل شائع ہوا کرتے تھے. میری اپنی کچھ کہانیاں جگنو میں چھپا کرتی اور مجھے فخر ہوتا کہ میں دوسرے پنجابی بچوں کی طرح جاہل نہیں بلکہ ایک پڑھا لکھا بچہ ہوں جسے اردو آتی ہے، مگر میری ماں مجھے رات کو سونے سے پہلے پنجابی گیت سناتی، لکڑ بگڑ باوے دا، اسی نو نواسی، جسیے گیت دل کو چھو لیتے اور پھر پنجابی میں مختلف کہانیاں، جو رات کو بستر میں لیٹ کر کہانی سننے کا جو نشہ آتا، وہ بیان سے باہر ہے. مگر سکول میں اور نصاب میں مجھے غالب، داغ، پریم چند، منٹو، کرشن چند پڑحایا جاتا اور محلے کی لائبریری میں بھی یہی ملتے، میں نے ابن صفی بڑے شوق سے پڑھا، پاکستان ٹیلے ویژن کارپوریشن بھی اردو کی ترویج کا اہم ہتھیار تھا جہاں اردو زبان میں بڑوں کے لیے بہت سے اچھے پروگراموں کے علاوہ ننھے بچوں کے لیے پروگرام تیار کیے جاتے تھے.
مگر جب میں داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش ربا اور الف لیلی پڑھ رہا تھا تو گھر میں میرے دادا کی بڑی بہن مجھے راجہ رسالو کی کہانیاں سناتی، مجھے پورن بھگت کی کہانی بہت پسند تھی، اور پھر ہیر رانجھا اور سوہنی مہیوال کے رومانی قصے، میں سوچا کرتا کہ یہ کون لوگ ہیں جو پنجابی زبان میں لکھتے تھے، بہرحال میں یہ جانتا تھا کہ اب پنجابی کہیں نہیں لکھی جاتی اور اردو زبان ہی پاکستان کی قومی اور واحد زبان ہے، کچھ متعصب اور پاکستان دشمن عناصر نے پہلے بنگالی زبان کا نام لیا اور پاکستان توڑا، اور اب بھی کچھ نالائق لوگ سندھی اور پشتو اور بلوچی میں بات کرتے ہیں اس میں لکھتے ہیں یہ پاکستان کے دشمن اور غدار ہیں جو پاکستان میں لسانی اور علاقائی تعصب پھیلاتے ہیں۔ مگر جب میں بی اے کی تیاری کررہا تھا تو اس وقت مجھے پہلی دفعہ پتہ چلا کہ پنجاب میں بھی کچھ متعصب لوگ پنجابی لکھتے ہیں اور انھیں پنجابی پڑھنا ہے۔ یہ میرے لئے بہت پریشانی کی بات تھی۔
میرے نئے دوستوں نے مجھے بتلایا کہ آپ کسی بھی زبان کا ادب کسی بھی زبان میں پڑھیں، کوئی حرج نہیں. جی بالکل پڑھیے، چہ خوب. لیکن اپنی زبان کا ادب نہ پڑھیں، تو جڑیں اپنی مٹی میں پیوست نہیں ہوتیں. اگر آپ ان داستانوں کو نہ پڑھیں، سنیں. جو آپ کے اطراف میں ہیں، آپ کے زمانے میں یا آپ سے پہلے اس دھرتی پہ سانس لیتی رہیں، یعنی جن سے آپ کے اجداد کا تعلق رہا تو آپ کو مکالمے کے دوران ابلاغ میں مشکل پیش آے گی.
چنانچہ مجھے رانجھن ہونا، کچا گھڑا، مہینوال، بھگت، اور پنجابی کے مختلف اکھان اور محاروں کا علم ہوا یہ معلوم ہوا کہ غالب، داغ مومن، انشا، جرات حالی بڑے شاعر ہیں مگر وہ وادی گنگا و جمنا میں تھے جسے اب بھارت کہتے ہیں ہمارے پنجاب میں بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ حسہین، اور سب سے بڑھ کر بابا فرید جیسے لوگ تھے جنہوں نے پنجابی زبان میں لکھا۔ اور پنجابی کی اپنی اساطیر ۔استعارے، تشبیہات، محاورے موجود ہیں در آے. اور جب ایم اے کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی میں ہندی زبان میں ڈپلومہ کیا تو معلوم ہوا کہ اردو اور ہندی ایک ہی زبان ہیں جن کو مذہبی تعصب اور الگ رسم الخط کی ضد نے دو الگ زبانیں بنا رکھا ہے اور دونوں کی جڑیں ایک ہی علاقے یعنی گنگا جمنا کی وادی میں ہیں، پنجابی دنیا کی دس بڑی زبانوں میں شامل ہے پاکستان کے بعد کینیڈا میں ایک بڑی زبان ہے جہاں کچھ پاکستانی محب وطن کوشش کررہے ہیں کہ پاکستانی پنجابی اپنی مادری زبان کے طور پر پنجابی کی بجائے اردو لکھیں تاکہ کینیڈا میں پنجابی کا مقام ختم ہو،
میں اردو کا مخالف نہیں مگر جب اردو کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس سے پاکستان کی اپنی زبانوں کو ختم کیا جائے تو تکلیف ہوتی ہے۔ پاکستان میں کرتا دھرتا یہ نہیں جانتے کہ اگر پاکستانی چینلوں پر پنجابی کی کوئی جگہ نہیں رہی، پنجابی فلم کو پاکستان میں ختم کرنے کو کوشش کی جارہی ہے، تویہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ میری چھوٹی سی، بہت بڑی دنیا میں تبدیل ہوگئی اب پاکستانی چینل ہی اول و آخر نہیں، ، اب بچے ستر اسی نہیں تو پچاس ساٹھ ٹیلے ویژن چینل کی دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں. اگر کسی پاکستانی ٹیلے ویژن چینل پر پنجابی کے پروگرام کا ‘اسپاٹ’ ہی نہیں. تو بھی پنجابی فلمیں اور پروگرام غیرملکی چینلوں اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ اردو کی جگہ انگریزی لے رہی ہے، اس لئے پاکستانی بچے ‘اب انگریزیی زبان کو رابطے کی زبان کے طور پر اپنا رہے ہیں تو اس کے ساتھ وہ اپنی مادری زبانوں کی طرف مائل ہورہے ہیں اس لئے اردو کے نوحہ گر ہرجگہ اپنی نوحہ گری میں مصروف نظر آتے ہیں
Source : July 31, 2016zafarnadeemdaud