سعد اللہ شاہ
پانچ دریائوں کی سر زمین جہاں سرسوں پھولتی ہے تو آنکھیں سنہری ہو جاتی ہیں، جہاں دھان کی خوشبو دور دور تک پھیل جاتی ہے اور جہاں گندم کٹتی ہے تو زندگی محوِ رقص نظر آتی ہے، پنجاب کہلاتی ہے۔ شفقت تنویر مرزا اسی دھرتی کو من میں بسائے ہوئے تھے۔ وہ پنجاب کی زبان اور پہچان تھے۔ وہ اِس کی ثقافت اور بودو باش میں زندہ تھے۔ وہ یہاں کے رسم و رواج اور سماج کو اپنی شناخت جانتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنی شناخت کو قائم رکھنے کے لیے پنجابی زبان کو رائج کرنا اور ذریعۂ تعلیم بنانا از بس ضروری ہے کہ ترقی کا راز اسی عمل میں مضمر ہے۔ وہ پنجابی زبان کے فروغ کے لیے ساری عمر کوشاں رہے۔ انہوں نے اِس بات کی ذرہ برابر پروا نہیں کی کہ زمانے کا چلن اور ہے۔ اُن کے مزاج میں سنجیدگی ، متانت اور وارفتگی تھی۔ ’’نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا‘‘ بس اپنی دھن میں مست، ایک مقصد ایک خواب اور ایک جنون احمد مشتاق یاد آگئے: میں تو گم اپنے نشے میں تھا مجھے کیا معلوم کس نے منہ پھیر لیا کس نے پزیرائی کی شفقت تنویر مرزا سچے کھرے اور اصولی آدمی تھے، نڈر، بے باک اور صاف گو۔ وہ برابری اور انصاف کے داعی تھے۔ تمام عمر آزادیٔ صحافت، جمہوریت اور پسے ہوئے لوگوں کے حقوق کی صرف بات ہی نہیں کی بلکہ عملی طور پر سامنے آئے۔ یہ خوبی اسی شخص میں ہو سکتی ہے جو اپنی اصل سے جڑا ہوا ہو۔ وہ ذاتی مفادات و اغراض سے بلند ہو کر عوام کی خوشحالی اور آزادی کے قائل تھے۔ اپنے مقصد اور آدرش کے ساتھ مخلص لوگ ہی ایماندار ہوتے ہیں۔ پھر کیا کیا جائے ایسے لوگ تو کم کم اور خال خال ہوتے ہیں کیونکہ دنیا تو دنیا داروں ہی سے بھری ہوئی ہے جو چڑھتے سورج کے پجاری اور جو اپنی ناک سے آگے دیکھ ہی نہیں سکتے۔ یعنی اپنی غرض کے بندے کہ جن کی سوچ تک معدے سے وابستہ ہوتی ہے۔ اُن کا ظاہر باطن ایک تھا اور دل زبان کا رفیق۔ شفقت تنویر مرزا صاحب کے بارے میں نجم حسین سید صاحب نے بجا کہا کہ ’’جیسے معجزوں کا زمانہ گزر چکا ہے، ایسے ہی عظیم لوگوں کا زمانہ بھی گزر گیا ہے جو کسی مشن کے لیے اپنی زندگیاں قربان کر دیا کرتے تھے۔ شفقت تنویر مرزا پنجابی زبان کو وہ مرتبہ اور اہمیت دینے کا وہ مشن رکھتے تھے جو مادری زبانوں اور مائوں کا جائز حق ہوتا ہے۔ جو اس حق کو تسلیم نہیں کرتے وہ مہذب کہلوانے کے حق دار نہیں۔‘‘ یہ معمولی بات نہیں کہ آپ ظلم اور آمریت کے خلاف مسلسل مشکلات اور مصائب سے دو چارر ہیں اور اپنے جمہوری موقف سے سر مُو انحراف نہ کریں۔ وہ بار بار نوکری سے نکالے گئے پابند سلاسل کیے گئے۔ ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب وہ بھی جیل میں تھے اور اُن کی بیگم تمکت آراپسِ زنداں تھیں۔ شفقت تنویر مرزا 1932 میں شکر اللہ خاں اور رحمت بانو کے گھر پیدا ہوئے اور 80 برس گزارنے کے بعد نومبر 2012 ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اُن کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ وہ بیک وقت ادب اور صحافت سے منسلک رہے اور پنجابی زبان کی خدمت تو گویا انہیں عبادت کی مثل تھی۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز 1949ء ہی میں روزنامہ تعمیر سے کر دیا تھا۔ 1956ء میں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔ 1958ء میں پاکستان کے پہلے آمر ایوب خاں نے مارشل لاء لگا دیا۔ ظاہر ہے مرزا صاحب جیسا حریت پسند کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ انہوں نے باقاعدہ احتجاج کیا اور مزاحمت کرنے والوں میں پیش پیش رہے۔ نتیجتاً انہیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ انہوں نے سول اینڈ ملٹری گزٹ کے علاوہ امروز میں بھی کام کیا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خاں سے الگ ہو کر پارٹی کی بنیاد رکھی تو اس وقت انہوں نے حنیف رامے کے ہفت روزہ نصرت میں پیپلز پارٹی کے حق میں مضامین لکھے۔ اس کے بعد روزنامہ مساوات میں کام کیا۔ وہ دوبارہ امروز میں چلے گئے تھے مگر جنرل ضیاء الحق کے دَور میں انہیں ایک بار پھر وہاں سے رخصت ہونا پڑا۔ ضیاء الحق کے جانے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر امروز میں آگئے مگر تب یہ ادارہ برباد ہو چکا تھا۔ آخری وقت وہ پنجابی ادبی بورڈ کے چیئرمین تھے۔ انہیں 2006ء میں تمغۂ حسن کارکردگی ملا۔ میں نے 1958ء میں یونیورسٹی آف دی پنجاب سے ایم اے انگریزی کرنے کے بعد ٹی ہائوس آنا جانا شروع کیا۔ ٹی ہائوس کے ساتھ ملحقہ وائی ایم سی اے میں پنجابی ادب سنگت کے اجلاس ہوا کرتے تھے۔ پرویز ہاشمی کی وساطت سے میں پنجابی کی طرف راغب ہوا تو اِن اجلاسوں میں شرکت شروع کی تو وہاں شفقت تنویر مرزا سے ملاقات ہوئی اور پھر یہ روٹین بن گئی۔ وہ بہت پُر وقار اور منکسر المزاج تھے، لہجے میں نرماہٹ اور ملائمت ۔ جب بھی ملے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں اپنائیت کی چمک تھی۔ ان کی باتوں سے اُن کی علمیت جھلکتی تھی۔ انہیں ادبی حلقوں میں بہت اعتبار اور اہمیت حاصل تھی۔ وہ پنجابی میں تو ’’مہان‘‘ تھے ہی ان کی انگریزی بھی کم نہیں تھی وہ ڈان جیسے مؤقر روزنامے میں کالم لکھتے تھے۔ مجھے تنویر ظہور نے بتایا تھا کہ وہ پنجابی ادبی سنگت کے بانیوں میں سے تھے۔ انہوں نے مجلسِ شاہ حسین بھی بنائی تھی۔ انہوںنے بہت تسلسل سے کام کیا۔ انہوں نے شاہ حسین، سچل سرمستؒ، ہاشم شاہ، علی حیدر، خواجہ فرید، حافظ برخوردار اور دیگر پنجابی کلاسیک کا ترجمہ اُردو میں کیا۔ وہ کسی زبان کے خلاف ہرگز نہیں تھے بلکہ وہ تو چاہتے تھے کہ پنجابی اپنی ماں بولی کو وہی اہمیت دیں۔ جو سندھی اپنی سندھی زبان کو دیتے ہیں اور بلوچی اپنی بلوچی زبان کو۔ میرا خیال ہے کہ پنجابی ادیبوں شاعروں اور دانشوروں نے اُردو زبان پر قبضہ کر لیا۔ بلکہ اب تو انگریزی زبان اُردو کو دباتی جا رہی ہے۔ بات تو وہی مرزا صاحب کی بڑی ہوتی ہے کہ ہم نے پنجابی زبان سے منہ موڑا تو اس نے بھی ہمیں خیرباد کہہ دیا۔ مرزا صاحب ٹھیک سمجھتے تھے کہ پنجابی پہلی جماعت سے پڑھانی شروع کر دینی چاہیے۔ مرزا صاحب کی تصانیف درجن بھرہیں جن میں ’’آزادی مگروں‘‘، ’’پنجابی ادب‘‘، ’’ادب راہیں‘‘، ’’پنجاب دی تاریخ‘‘، تحریک آزادی وچ پنجابی دا حصہ‘‘، آکھیا سچل سرمست نے اور ’’لہو سہاگ‘‘ شامل ہیں۔ لہو سہاگ پنجابی ادبی بورڈ نے شائع کی تھی۔ انہوں نے ڈان میں مسلسل ’’پنجابی کتاباں‘‘ کے نام سے تبصرے بھی لکھے۔ میرے خیال میں انہوں نے انگریزی زبان کو بھی پنجابی کی ترویج کے لیے استعمال کیا اور اُردو کو بھی اسی مقصد کے لیے اپنایا۔ دلچسپ بات ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے افتخار مجاز کے ایک اُردو مضمون کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ مضمون پنجابی میں لکھا جاتا تو اور بھی اچھا ہوتا۔ آخر میں اُن کے اس پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں جس کا ذکر ایک معروف کالم نگار نے کیا ہے کہ انہوں نے شفقت تنویر مرزا کا ایک طویل انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے حُبِّ نبی ﷺ کا ذکر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نالائق مولویوں سے نالاں ضرور ہیں مگر ایسا نہیں کہ اُن کا دل حُبِّ نبی ﷺ سے خالی ہے۔ شمعِ رسالت ﷺ ان کے دل میں پوری آب و تاب سے روشن تھی۔ ظاہر ہے ایک شفاف ، نستعلیق اور سچا شخص اس لمس سے کیسے بچ سکتا تھا۔ بنیادی بات تو مساوات کی تھی اور مساوات محمد یؐ سے زیادہ اچھا رول ماڈل کون سا ہو سکتا ہے۔ تاریخ مکہ کے انقلاب سے روشن ہے کہ جس میں ایک قطرہ خون بھی نہیں بہا۔ دشمنوں کو عام معافی ہی نہیں ملی بلکہ اُن کے گھروں کو دارالامان بنا دیا گیا۔ آخری خطبہ انسانیت کا پہلا دستور ٹھہرا جس میں کسی گورے کو کالے اور کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں دی گئی۔ انسانیت کو غلامی سے آزادی ملی۔ خالد احمد نے خوب کہا ہے: تُو نے کچلے ہوئے لوگوں کا شرف لوٹایا آخری خطبے کی صورت میں وصیّت لکھی انہیں کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہو گیا اور پھر اس مرض کا علاج عام سفید پوش کے بس کی بات نہیں۔ وہ اتنے خوددار تھے کہ کسی کی مدد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ اُن بقایا جات کے لیے تگ و دو کرتے رہے جو حکومت کے ذمہ واجب الادا تھے۔ وہ اپنے حق پر اصرار کرتے تھے ان کے واجب الادا پیسوں میں سے فردوس عاشق اعوان کی کوششوں سے تھوڑے بہت ملے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے اپنے تئیں ان کے علاج میں معاونت بھی کی۔ ان کے جانے سے پنجابی ادب کا اِک حسین باب ختم ہو گیا۔ اس درویش صفت انسان کو کہ جس کے اندر پنجابی صوفی شاعروں کی شاعری کا گداز اور پنجاب کی خوشبو جس کے دل میں جاں گزریں تھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ کئی دوستوں نے ان کے حوالے سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ منو بھائی، امجد اسلام امجد، حامد میر رؤف ظفر اور دیگر نے کالم لکھے اور ٹی وی چینلز پر دانشوروں نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ ’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔‘‘ ٭٭٭
Source : http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2012-11-27/652#.Ww2Yx0gvwdU