MAY 21, 2017 ASIF AZAM
مدثر اقبال بٹ….آوازِ پنجاب
پنجاب کے حکمرانوں کا تعلق پتہ نہیں کس خطے کس تاریخ ، تہدیب اور ثقافت سے ہے ، وہ ووٹ بھی پنجابیوں سے لیتے ہیں اور حکومت بھی پنجابیوں پر کرتے ہیں، لیکن وہ بارہ کروڑ پنجابیوں کی مادری پنجابی زبان سے دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، گذشتہ ماہ پنجاب سروس کمیشن کی طرف سے محکمہ تعلیم کے کالجوں کے لئے 1481نشستوں پر بھرتیوں کی درخواستیں طلب کیں جن کے لئے انٹریوز کا سلسلہ جاری ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ ڈیڑھ ہزار اسامیوں میں ایک پنجابی لیکچرر کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ، حالانکہ پنجاب کے سینکڑوں کالجز میں پنجابی زبان پڑھانے والوں کی نشستیں خالی پڑی ہیں۔
بات صرف کالجز سے ستم ظریفی کی انتہا نہیں ، ہائی سکولوں میں پنجابی زبان کی اختیاری مضمون پڑھانے کی ہزاروں نشستیں خالی پڑی ہیں۔ ستم بالائے ستم پنجابی پڑھانے والے اساتذہ نہیں وہاں دیگر مضامین کی تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے یہ نہیں ہوتا کہ پنجابی پڑھانے والے اساتذہ بھرتی کر کے پنجابی پڑھنے والے طالب علموں کی پیاس بجھائی جائے ، حالانکہ پنجاب میں پندرہ ہزار سے زائد ایم اے پنجابی بیروزگار بھٹک رہے ہیں، یہ کیسی اپنی دھرتی ، اپنی مادری زبان ، اپنی تاریخ اور ثقافت کے ساتھ محبت ہے پتہ نہیں ہمارے پالیسی ساز اور حکمران کس زعم میں مبتلا ہیں ، کوئی عربی کی تدریس شروع کر دیتا ہے ، کوئی انگریزی کو پہلی جماعت سے پڑھانے کو اولین ترجیح قرار دیتا ہے تو کوئی چینی زبان پڑھانے کیلئے غریب اور مجبور عوام سے ٹیکس کے ذریعے خون نچوڑ کر انہیں ترقی یافتہ قوم بنانے کے عزائم مسلط کرتا ہے مگر مادری زبان کی تدریس پر توجہ مرکوز نہیں کرتا حالانکہ 73ءکے آئین نے صوبوں کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ جس زبان کو چاہیں ذریعہ تعلیم بنا سکتے ہیں،اسے بد قسمتی کہئے کہ تینوں چھوٹے صوبوں نے اپنے اختیار کا استعمال کیا اور اپنی مادری زبانوں کو تدریسی عمل کا حصہ بنایا جس کا نتیجہ محض یہ برآمد نہیں ہوا کہ وہاں شرح خواندگی پہلے سے کہیں تیز رفتاری سے بہتر ہوئی سندھی شا ہ لطیف بھٹائی اورسچل سرمست کی محبت میں سرشار ہوئے بلوچی مست توکلین اور پختون رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک کے ساتھ عقیدت پر فخر کرنے لگے ، لیکن افسوس کہ ہم اپنے ادبی ورثہ سے دن بدن بیگانہ ہوتے چلے گئے ہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اندھیروں میں دھکیل دیا گیا آج اُس کا بدترین نتیجہ تو یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو …. بابافریدؒ ، شاہ حسینؒ ، سلطان باہوؒ، بلھے شاہؒ ، وارث شاہؒ ، میاں محمد بخشؒ اور خواجہ غلام فریدؒ کے بارے کچھ علم نہیں پنجابیوں کا یہ صوفی ورثہ ہے ۔ جس سے پوری دنیا رہبری اور رہنمائی حاصل کرتی ہے۔ اور اُن کے کلام و پیغام کو اس بد امنی ، افراتفری اور خودغرضی کی دنیا کیلئے نجات کا ذریعہ سمجھتی ہے ۔ لیکن افسوس کے ہمارے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو اس کا احساس نہیں ، یہ مجرمانہ غفلت نہیں بلکہ سوچی سمجھی سازش ہے ۔ جس کا مقصد عوام کی اپنی دھرتی اپنی تاریخ کے ساتھ وابستگی کو کمزور رکھنا ہے ۔تاکہ اُن کے اقتدار اور بنائے ہوئے استحصالی نظام کے لئے کوئی خطرہ نہ ہو، ظاہر ہے کہ جب وہ شاہ حسینؒ کو پڑھیں گے تو انہیں یہ پڑھنا، تسلیم کرنا اور کہنا بھی پڑے گا….
”تخت نہ ملدے منگے“وہ جدوجہد بھی کریں گے اور اُن کے اندر مزاحمتی رویے بھی جنم لیں گے، اس لئے غالب اور میر کی تدریس ہی موافق اور مناسب ہے اور اُسی کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے ، اور ایک ایسی زبان کی ترویج ہونی چاہئے جس کا اس دھرتی اور اس کے ماضی سے کوئی تعلق نہ ہو یہ تو کچھ لوگ ہیں جو اپنے اس حق کیلئے صدائے احتجاج بلند کرتے اور جدوجہد کے چراغ روشن رکھے ہوئے ہیں ایسے ہی کچھ لوگ ہیں جنہوں نے سینٹ میں گذشتہ دنوں چاروں صوبوں کے عوام کی مادری زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کابل منظور کر لیا ہے جنہوں نے بھی یہ کام کیا ہے وہ ہمارے لئے قابل احترام ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اصل کام تو پنجاب اسمبلی میں ہونا ہے۔ جس کو آئین نے 43سال پہلے یہ حق دے دیا تھا لیکن پنجاب کے عوام کی بد قسمتی ہے کہ انہوں نے خود اپنے ایسے حکمران منتخب کئے ہوئے ہیں جو پنجابی زبان اور ثقافت کے دشمن ہیں، ان لوگوں کو اپنا نمائندہ بنایا ہوا ہے کہ جو تحریک پاکستان میں عوام کے ساتھ تھے اورنہ ہی اب ہیں اُن کی اولین ترجیح استحصالی اور جاگیردارانہ نظام کا تحفظ ہے ۔وہ اجتماعی عوامی شعور کی سربلندی کے نہیں صرف اپنے کارخانوں اور جاگیروں کے محافظ ہیں…. انہیں وہ زبان و ثقافت پسند نہیں جو اُن کے خلاف جدوجہد پر مائل کرے ، یہ دوست نہیں دشمن ہیں، اصل بائیکاٹ تو ان لوگوں کا ہونا چاہئے بلکہ اگر ضرورت ہو تو اُن سب کی انتخابی حمایت مشروط ہونی چاہئے ، اُسے ووٹ دینا چاہئے جو پنجابی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا وعدہ کرے….
(پنجابی اخبار روزنامہ بھلیکھا کے ایڈیٹر ہیں اور
زیادہ تر پنجابیوں کے مسائل پر لکھتے ہیں)
٭….٭….٭