05 مئی 2013
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سیاست بڑے بڑے جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے ڈرائنگ روم کیلونڈی سمجھی جاتی تھی۔ اُن کے ہاریوں اور مزارعوں کی جرا¿ت نہ تھی کہ وہ طاقتور جاگیر دار سیاستدانوں کیخلاف ووٹ دیں یا اُنکے مقابلے میں الیکشن میں حصہ لینے کی جسارت کریں۔ اپنے جبر و تسلط سے الیکشن جیتنے کے بعد یہ زمیندار، وڈیرے اور سردار ہمیشہ اقتدار میں آنے والی پارٹی کا ساتھ دیتے تھے، اپنے علاقائی مفادات ، تھانے کچہری اور پٹواری کے ذریعے خلقِ خدا پر راج کرنے والے یہ موقع پرست سیاستدان ہمیشہ فوجی یا سول آمر کا ساتھ دیتے تھے اور راتوں رات اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیتے تھے۔ انکے آباﺅ اجداد کی اکثریت نے جنگ آزادی میں انگریزوں کا ساتھ دے کر سینکڑوں مربع زمینیں انعام و اکرام کے طور پر حاصل کی تھیں لہٰذا وہ کبھی مسلم لیگ، کبھی کنونشن مسلم لیگ تو کبھی ریپبلکن پارٹی میں شامل ہو جاتے اور ایوب خان جیسے آمر کی حمایت میں محترمہ فاطمہ جناح کو جھرلو کے ذریعے الیکشن میں ناکام بنا دیتے مگر کبھی اُن کی ضمیر فروشی نے انہیں شرمندہ نہ کیا۔ آج بھی دیہی سیاست میں ان وڈیروں اور جاگیر داروں کی نئی نسلیں اپنے آباﺅ اجداد کی ان روایات کو روشن رکھے ہوئی ہیں۔ یہ لوگ کبھی پیپلز پارٹی تو کبھی نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) ، حالات بدلنے پر مشرف اور چودھری شجاعت کے ساتھ تو اب دوبارہ پھر نواز شریف اور نئے ابھرتے ہوئے سیاسی کھلاڑی عمران خان کی کاسہ لیسی ان کا خاصہ بن چکا ہے۔ قارئین سیاست میں روایتی سیاست کو ختم کر کے اس کو عوام بنانے کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔ معاہدہ تاشقند کے بعد انہوں نے ایوب خان کی کابینہ سے استعفیٰ دیا اور عوام کو بتایا کہ کس طرح میدان میں جیتی ہوئی جنگ ایوب خان نے مذاکرات کے میز پر شاستری کے سامنے ہار دی۔ لاہور ریلوے سٹیشن پر بھٹو کے مداحوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ 1967ءمیں پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بھٹو نے اپنی پارٹی کے نظریے کی بنیاد پر سامراج دشمنی پر رکھی اور وہ سوشلزم کے اصولوں پر پاکستان کے غریب عوام کو روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرنے کے رومانس میں مبتلا ہو گیا حالانکہ عملاً وڈیروں جاگیر داروں اور سرمایہ داروں نے بھٹو کے فلسفہ اور فکر کا درست اطلاق نہ ہونے دیا۔ 1970ءکے انتخابات میں بھٹو نے اپنی طلسماتی سیاست ، کرشماتی شخصیت اور سحر انگیز خطاب سے عام پارٹی کارکنوں کو بڑے بڑے سیاستدانوں کے سامنے کھڑا کر دیا یعنی علامہ اقبال کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ممولے کو شہباز سے لڑا دیا۔ عوام بھٹو کےگرویدہ بن گئے، وہ عوام کے خیالات کا نبض شناس رہنما تھا۔ وہ عوامی سوٹ پہن کر کھلے آستینوں کے ساتھ ماﺅ کیپ پہن کر کئی کئی گھنٹے عوام کو اپنے خطاب کے سحر میں جکڑے رکھتا۔ بھٹو کہتا کہ میرا ساتھ دو گے تو لاکھوں کا مجمع جواب دیتا کہ تمہارا ساتھ دینگے۔ جب بھٹو جوشِ خطابت میں ہاتھ مار کر مائیک گراتے ہوئے کہتا تم لوگ مرو گے تو لاکھوں عوام کے ہجوم بیکراں کا جواب آتا ”مریں گے مریں گے“ ایسا دکھائی دیتا کہ آج بھٹو کے اندازِ خطابت کی نقل کرنے کیلئے شہباز شریف مائیک گراتا ہے تو عمران خان اپنے حریفوں کی نقلیں اتارتا ہے اور نواز شریف عوام سے مکالمہ کرتا ہے اور الطاف حسین آواز میں زیرو بم پیدا کر کے عوام کے جذبات میں تلاطم برپا کرنے کی کوشش میں غیر حقیقی انداز اختیار کر جاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے بلاول زرداری بھٹو کے اندازِ خطابت کی نقل کرتے ہوئے چیخ رہے ہوتے ہیں۔ آج بھٹو کے انداز سیاست کے رجحان کو سیاست میں متعارف اسی انداز میں کرایا جا رہا ہے جیسے پرانی موسیقی والے گانوں کو جدید موسیقی کیساتھ ہم آہنگ کر کے خوبصورت گانوں کا بیڑا غرق کر دیا جاتا ہے۔ بھٹو کا اندازِ سیاست اور خطابت کی عوام کیوں عاشق تھی کیونکہ وہ ایک نظریے کا علمبردار تھا لہٰذا اسکے دل سے جو جذبے ابھرتا تھا وہ اسکی زبان پر الفاظ کی صورت اختیار کر جاتا تھا مگر آج ہماری سیاست میں نظریاتیسیاست کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ آج کوئی بھی پارٹی مکمل دائیں بازو یا مکمل طور پر بائیں بازو کی قرار نہیں دی جا سکتی ہے اور نہ کسی بھی سیاسی جماعت کو مکمل طور پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ یا پرو اسٹیبلشمنٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ آج 2013ءکے انتخابات میں سیاسی پارٹیوں نے سیاسی اتحاد نہ تو مذہبی بنیادوں پر قائم کئے ہیں اور نہ ہی نظریاتی بنیادوں پر۔ 1970ءکے عشرے میں مذہبی جماعتیں سوشلزم کی مخالف تھیں اور امریکہ سوویت یونین کا مخالف تھا لہٰذا پاکستان میں مذہبی جماعتوں کو امریکہ کا پٹھو سمجھا جاتا تھا اور چونکہ پیپلز پارٹی سوشلزم کو اپنی معیشت قرار دیتی تھی لہٰذا پیپلز پارٹی سامراج مخالف پارٹی سمجھ جاتی تھی۔ بعد میں حالات و واقعات نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ پاکستان کے مذہبی سیاسی عناصر بھٹو کو ختم کرنے کیلئے امریکہ کیساتھ تھے۔ 1977ءمیں بھٹو کیخلاف الیکشنوں میں دھاندلی کی تحریک کو نظام مصطفی کی تحریک بنا دیا گیا۔ امریکی ڈالرز روپے کے مقابلے میں سستا ہو کر کراچی کی کھلی منڈیوں میں بکنے لگ گیا۔ بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کی سیاست میں عوام بھٹو اور اینٹی بھٹو میں منقسم ہو گئے؟ جنرل حمید گل کو یہ بات سمجھ میں آ گئی لہٰذا اینٹی بھٹو ووٹ تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے آئی جے آئی تشکیل دی گئی جس کے نتیجے میں دو مرتبہ نواز شریف ملک کے وزیراعظم بنے مگر جب مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا اور نواز شریف کو قید و بند اور جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا تو پہلی مرتبہ ان کی رہائی کیلئے تحریک چلانے والی بیگم کلثوم نواز نے بھٹو اور اسکی بیٹی کیلئے کلمہ خیر کہا اور بعد میں میثاق جمہوریت میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف بہن بھائی بن گئے مگر پھر بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کا سیاسی منظر مکمل طور پر بدل گیا۔ نواز شریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ لیڈر بن گیا جبکہ آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کو مکمل طور پر پانچ سال تک اسٹیبلشمنٹ کا غلام بنائے رکھا‘ اگرچہ جمہوریت کو بچانے کیلئے نواز شریف نے آصف علی زرداری کی کمزور حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی ریشہ دوانیوں ساے بجائے رکھا اور اس دوران وہ حکومتی پالیسی پر کھل کر تنقید کرتے رہے مگر آئین سازی کیلئے حکومت سے مکمل تعاون کرتے رہے جس کے نتیجے میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خود مختاری مل گئی۔ جب سیاست میں نظریات کا عمل دخل ختم ہوا تو سیاست میں تشدد، دہشت گردی اور انتہا پسندی نے جنم لے لیا ہے۔ ان حالات میں طالبائزیشن کی وجہ سے ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی کی سیاست بُِری طرح متاثر ہوئی ہے مگر ان حالات میں پنجاب میں جو سیاسی خلا پیپلز پارٹی کی پانچ سال کے دوران بُری حکومت اور کرپشن کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے اسکے متاثرین ووٹ بنک کا بڑا حصہ عمران خان کے ارد گرد جمع ہو چکا ہے۔ بھٹو کی وجہ سے مزدوروں اور ہاریوں کو ایک جرا¿ت مندانہ زبان اور حوصلہ ملا۔ کسان جاگیر دار کے سامنے چارپائی پر بیٹھ کر بات کرنے لگ گیا۔ مگر بدقسمتی سے مزدوروں کی ٹریڈ یونین لیڈروں کی مفاد پرستی نے اپنے حقوق میں یہ شامل کر لیا کہ سرکاری کارخانے اور اداروں کو بس تباہ کرنا ہے، کام نہیں کرنا ہے، مفت کی تنخواہیں خزانے سے لینی ہیں۔ آج ریلوے، واپڈا، سٹیل ملز اور پی آئی اے میں لاکھوں سیاسی گماشتے مفت کی تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں مگر کبھی بھی ادارےکے مفادات کیلئے محنت اور کام کاج کرنے کو بھٹو کے فلسفہ سوشلزم کیخلاف سمجھتے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے لا الہ الا اللہ تو پھر انہیں کس چیز نے روکا تھا کہ وہ جماعت اسلامی سے انتخابی مفاہمت نہ کرتے۔ چونکہ سیاستکے میدان میں بے یقینی ہے اوپر سے نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ آرٹیکل 6 کے تحت مشرف کیخلاف کارروائی کرینگے اور عمران خان کہتے ہیں کہ وہ بلوچستان اور خیبر پی کے سے فوج واپس بُلا لیں گے تو پھر جنرل اشفاق پرویز کیانی کو تو کہنا پڑیگا کہ عوامی نمائندگی کا آئندہ نظام شخصی مفادات کے تحفظ اور قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ پر مبنی نہیں ہونا چاہئے۔ جمہوریت کیکامیابی عوامی کی خوشحالی سے منسلک ہے، عقلمند کیلئے اشارہ کافی ہے۔