25 نومبر 2017
پاکستان کے قیام کے بعد قوم پرست سیاست میں نام بنانے والے رہنماﺅں کے رویوں اور اقدامات کی وجہ سے قوم پر ست سیاست پر مجبور ہوئے۔ جی ایم سید تحریک پاکستان میں شامل رہے اور مسلم لیگ کے ساتھ قیام پاکستان کی جدوجہد میں حصہ لیالیکن قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ میں جی ایم سید کی ساری جدوجہد کو پس پشت ڈال کر جب الیکشن میں ٹکٹ ایو ب کھوڑو کو دیا تو وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوئے کہ انہیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے اس لئے انہوں نے سندھ کی قوم پرست سیاست کا آغاز کیا۔تا حیات سندھی قوم سے ہونے والی زیادتیوں کے خلاف سیاست کی ۔
خان عبد الغفار خان قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم کی پشاور آمد پر وہ ریلوے اسٹیشن پر ان کا استقبال کرنے والوں میں شامل تھے لیکن بعد میں عبدالقیوم خان کی وجہ سے ان کیخلاف کارروائیاں ہوئیں اور انہیں گرفتار بھی کیا گیا جس کے بعد وہ پختونوں کی قوم پرست سیاست پر مجبور ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد سندھ میں مقیم مہاجر‘پنجابی او ر پٹھان ہمیشہ مسلم لیگ کے ساتھ رہے لیکن بعد میں مہاجروں میں احساس محرومی نے جنم لیا اور کئی اقدامات سے انہیں یہ احساس ہوا کہ مہاجروں کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے اسی لئے جب MQMکا قیام عمل میں آیا تو مہاجروں نے اس کا بھر پور ساتھ دیا ۔طاقت ور قوتوں نے ہمیشہMQMکو اپنے اقتدار اور اختیار کیلئے استعمال کیا اور تمام سیاسی قوتیں نائن زیرو پر جاتی رہی ہیں۔
محمود خان اچک زئی بھی پشتون قوم پرست سیاست کرتے ہیں لیکن افغانستان کی جانب سے احسان فراموشی کرکے جب بھی پاکستان میں دہشت گردی کرائی گئی اور پاکستانی قیادت کی جانب سے افغانستان کی جب بھی سخت مزاحمت کی گئی تو محمود اچک زئی نے ہمیشہ افغانستان کے حق میں ایسی پر زور تقریر کی جس سے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ محمود اچک زئی شاید افغانستان کے سیاست دان ہیں اور وہ افغانستان کی پارلیمنٹ سے مخاطب ہیں۔
80کی دہائی میں ایم کیو ایم قائم ہوئی جس نے مختصر وقت میں سندھ کے شہری علاقوں میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیئے اور شروع میں کراچی میں صفائی مہم جیسی مثبت معاشرتی سرگرمیوں سے سیاست کا نیا انداز روشناس کرایا گیا۔ ایم کیو ایم کے قیام کے فورا بعد مو¿ثر ترین صفائی مہم سے بہت مختصر وقت میں کراچی چمک اٹھا اس کے بعد ہونے والے تمام انتخابات میں ایم کیو ایم سندھ کی شہری آبادی کی نمایاں جماعت بن گئی۔اس وقت بھی پارلیمنٹ میں نشستوں کے لحاظ سے ملک کی چوتھی بڑی جماعت ہے ان تمام کامیابیوں کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ماضی کی طرح ایک بار پھر صفائی مہم جیسی موثر سرگرمیاں جاری رکھی جاتیں لیکن بد قسمتی سے سندھ خصوصا کراچی میں بدامنی نے ڈیرے جمالئے اور اس بدامنی کے تانے بانے ایم کیو ایم سے ملائے جاتے رہے لیکن پارٹی کی قیادت نے ان الزامات کو ہمیشہ مسترد کیا۔ 2013کے انتخابات کے بعد متحدہ قائد نے ملک دشمن نعرے لگا کر پوری قوم کو حیران و پریشان کردیا۔ان نعروں کی وجہ سے عدلیہ نے متحدہ قائد کے متعلق نشر واشاعت پر مکمل پابندی عائد کردی۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ متحدہ قائد نے جس شخص کو بھی انتخابی ٹکٹ دیا عوام نے امیدوار کے بجائے متحدہ قائد کے کہنے پر ہمیشہ متحدہ کو ووٹ دے کر یہ ثابت کیا کہ دراصل متحدہ صرف اس کے قائد کی ہے اور قائد جس شخص کو کہہ دے اسی کو ووٹ دیا گیا اب وطن دشمن نعرے لگانے کے بعد متحدہ قائد کے خطاب اور نشر واشاعت پر مکمل پابندی ہے اور متحدہ کے کئی بڑے رہنما جو وفاقی وصوبائی وزارتوں پر فائز رہے اور سابق گورنر سندھ سمیت متحدہ کے کئی افراد بے نام امریکہ‘برطانیہ اور دبئی میں خاموشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔کچھ عرصہ قبل کراچی کے سابق سٹی ناظم جنہیں متحدہ قائد نے ہی ٹکٹ دے کر یہ عہدہ دلایا تھا اپنی نئی جماعت پاک سرزمین پارٹی بنا کر پہلی بار ان تمام الزامات کو جو متحدہ پر لگائے جاتے رہے نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ متحدہ قائد کو ملک دشمن اور غیر ملکی ایجنڈ قرار دیتے نہیں تھکتے۔مصطفی کمال پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ کے طور پر دعوی کرتے رہے کہ متحدہ قائد نے جن نوجوانوں کو لاعلمی میں منفی سرگرمیوں میں استعمال کیا تھا پی ایس پی ان نوجوانوں سے معاشرے کی تعمیر اور تمام قومیتوں میں بھائی چارے کی مثالی فضا قائم کرکے سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندگی کرے گی۔۔
متحدہ قائد کے 22اگست2016کے ملک مخالف خطاب کے بعد متحدہ کے کنوینر فاروق ستار نے بھی متحدہ بانی سے مکمل علیحدگی کا اعلان کرکے متحدہ کو مکمل طور پر پاکستان سے ہی آزادانہ طور پر چلانے کا اعلان کر رکھا ہے اور ان کا دعوی ٰہے کہ اب آئندہ الیکشن میں متحدہ قائد کے بغیر ہی ہم سندھ کی شہری آبادی کا ووٹ پہلے سے بھی زیادہ کثیر تعداد میں حاصل کرکے یہ ثابت کر دیں گے کہ ہم ہی سندھ کی شہری آبادی کے نمائندے ہیں۔مصطفی کمال جب سٹی ناظم کراچی تھے تو مبشر لقمان کی جانب سے لاہور میں منعقد کی جانے والی ایک تقریب میں میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے اور سب کو MQMمیں شمولیت کی دعوت دیتے ہوئے بڑے فر کے ساتھ یہ بتا رہے تھے کہ میں نائن زیرو میں ٹیلی فون آپریٹر تھا اور مجھ جیسے عام نوجوان کو متحدہ بانی نے کراچی کا سٹی ناظم بنوایا‘ ایسی مثال پاکستان کی کسی اور سیاسی جماعت میں نہیں مل سکتی۔مصطفی کمال اب بھی قوم پر ستی کی سیاست ہی کر رہے ہیں اور جیلوں میں قید مہاجر قیدیوں کیلئے بلوچستان کی طرح عام معافی کا مطالبہ دہراتے رہتے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ اچانک کراچی پریس کلب میں مصطفی کمال اور فاروق ستار نے پریس کانفرنس کرکے باہمی اتحاد کا اعلان کیا مصطفی کمال نے کہا کہ پارٹی کا وجود ختم کرکے نئی پارٹی بناتے ہیں جبکہ فاروق ستار نے ایسی کوئی بات نہیں کی لیکن اگلے ہی روز متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے مخالفت میں پریس کانفرنس کرکے متحدہ کے وجود یا انتخابی نشان سے بے وفائی کرنے کے کسی بھی اعلان کو یکسر مسترد کردیا اور پی ایس پی کے ساتھ صرف انتخابی اتحاد کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ جو نشستیں 2013میں متحدہ کے پاس تھیں ان کے علاوہ دوسری نشستوں پر انتخابی اتحاد ممکن ہوگا۔متحدہ رابطہ کمیٹی کی اس پریس کانفرنس کے بعد فاروق ستار نے ہنگامی پریس کانفرنس کرکے سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا لیکن ایک گھنٹے بعد ہی متحدہ رابطہ کمیٹی کے اراکین اور اپنی والدہ کے کہنے پر دوبارہ سیاست اور متحدہ جوائن کرلی۔
متحدہ اور پی ایس پی کی باہمی قربت اور دوری کے دوران ہی سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے کثیر جماعتی اتحاد کا اعلان کرکے یہ کہا کہ میں کسی بھی صورت متحدہ کی سربراہی کا خواہش مند نہیں ہوں البتہ مہاجروں سے مکمل ہمدردی ہے اسی لئے متحدہ اور پی ایس پی کے رہنماﺅں کو اپنے سیاسی اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔
کراچی کی مقامی موجودہ سیاسی صورتحال میں مختلف تجزیہ کار مختلف رائے دے رہے ہیں کوئی کہتا ہے پی ایس پی اور متحدہ مشرف کے اتحاد میں شامل ہو جائیں گی تو کوئی کہتا ہے سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اب فعال کردار ادا کرکے دونوں جماعتوں کو یکجا کرکے اس کی سربراہی کریں گے۔لیکن اس تمام صورتحال میں کراچی کے عوام کنفیوز ہیں کہ وہ کس کومنتخب کریں جو کراچی کو پانی کی کمی‘غلاظت سمیت سینکڑوں مسائل سے چھٹکارہ دلا سکے۔البتہ کراچی کی اکثر آبادی اس بات پر مکمل متفق ہے کہ کراچی میں موجودہ پر امن صورتحال برقرار رہنی چاہئے۔متحدہ اور پی ایس پی اتحاد کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ پر الزام عائد کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ میری تمام سرکاری اداروں سے گزارش ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا ساتھ نہ دیں اور تمام جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کریں خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو۔