Thursday, 05 May, 2005
عدنان عادل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
پاکستان میں ان دنوں بلوچ قوم پرستی کی تحریک چل رہی ہے۔ ایسے میں نسلی/لسانی/علاقائی قوم پرستی کے سوال پر کوئی سنجیدہ اور مفصل تحریر اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے ایک تحفہ سے کم نہیں۔
’شناخت کی سیاست: پاکستان میں نسلی/لسانی قوم پرستی اور ریاست‘ کے عنوان سے عدیل خان کا پی ایچ ڈی کی مقالہ حال ہی میں دلی سے سیج پبلیکیشنز نے کتابی صورت میں شائع کیا ہے جو عالمی کتاب میلہ کے توسط سے لاہور بھی پہنچ گئی۔
عدیل خان نے یہ مقالہ آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ولنگونگ سے عمرانیات میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے لکھا تھا۔ وہ آجکل آسٹریلیا میں یونیورسٹی آف نیو انگلینڈ آرمیڈیل میں عمرانیات کے استاد ہیں۔ اس سے پہلے وہ پاکستان میں ڈان اور دی فرنٹئر پوسٹ کے ساتھ صحافی کے طور پر کام کرتے تھے۔
عدیل خان کہتے ہیں کہ پاکستان کی ابتداء ہی سے اسے یہ چیلنج درپیش ہوا کہ ملک میں موجود مختلف نسلی/لسانی گروہوں نے اپنے تشخص پر زور دینا شروع کردیا اور ریاست کے انتظامی ڈھانچہ کے جواز کے خلاف لڑنا شروع کردیا۔
ان کا موقف یہ ہے کہ قوم پرستی کی بنیاد اس بات پر ہوتی ہے کہ اس گروہ کو موجودہ ریاست کے اندر اقتدار میں حصہ مل جائے یا اگر ایسا ممکن نہ ہو تو وہ اپنی الگ ریاست بنانے کی کوشش کرتا ہے جیسا کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں نے بنگلہ دیش بنایا۔ عدیل خان کی نظرمیں قوم پرستی کی تحریک میں اصل حقیقت سیاسی اقتدار کی ہے جبکہ ثقافت، تشخص اور تاریخ کی حیثیت ثانوی اور زیبِ داستان کی ہے۔
عدیل خان کا موقف ہے کہ پاکستان میں لسانی/نسلی قوم پرستی کا تنازع نہ تو ریاستی قوم پرستی کی جوازیت کا معاملہ ہے اور نہ نسلی/لسانی قوم پرستی کے بلا جواز ہونے کا۔ ان کے خیال میں یہ لڑائی غالب اور مغلوب گروہوں کے درمیان اقتدار کے حصول کی جدوجہد کا معاملہ ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پنجابی ایک غالب گروہ ہے جبکہ مہاجر اور پختون نسبتاّ کم مراعات یافتہ گروہ ہیں اور تاریخ کے مختلف مرحلوں پر پنجابیوں کے اتحادی رہے جبکہ بلوچ اور سندھی مغلوب لسانی/نسلی گروہ ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ملک کے ابتدائی پچیس برسوں میں مہاجر سول بیوروکریسی میں پنجابیوں کے ساتھ بڑے حصہ دار رہے جبکہ پختونوں کا بھی ملک کی فوج میں تقریبا بیس فیصد حصہ رہا۔ اس لیے یہ دونوں مراعات یافتہ نسلی/لسانی گروہ ہیں۔
عدیل کا نقطہ نظر یہ ہے کہ قومیت اور قوم پرستی کی ابتدا جدید ریاست سے ہوتی ہے جو اپنی فطرت میں بیوروکریٹک ہے اور معاشرہ کے ہرگوشہ میں دخل انداز ہوتی ہے۔ اس لیے وہ قوم پرستی کی جڑیں برطانوی عہد میں برصغیر میں جدید ریاست کے قیام میں تلاش کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جدید ریاست سے پہلے برصغیر میں اختیارات نچلی سطح پر تھے، حکمرانوں اور محکوموں کے درمیان براہ راست تعلق نہیں تھا۔ یہ ایک بکھری ہوئی ریاست تھی جس میں قومی تشخص کا سوال نہیں اُبھرا تھا۔
مصنف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ برطانوی عہد میں برصغیر میں دو بڑی تبدیلیاں آئیں۔ ایک تو زرعی زمین جو پہلے ریاست کی ملکیت تھی اسے نجی جائیداد بنادیا گیا اور دوسرے ریاست نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو ملازمتیں دے کر ایک ملازم پیشہ طبقہ پیدا کیا۔ان کا کہنا ہے کہ ان دو چیزوں نے برصغیر کے معاشرہ میں اقتدار کے رشتوں کو بدل دیا۔
عدیل کا نظریہ یہ ہے کہ برضعیر میں نو آبادیات کے خلاف قوم پرستی کی جو تحریک چلی وہ نئے پیدا ہونے والے طبقات اور گروہوں کی ریاست کے اقتدار میں شریک ہونے کی جدوجہد تھی۔ جب ان قوم پرستوں نے نوآبادیاتی حکمرانوں کو ہٹا کر ان کی جگہ لی تو مصنف کے خیال میں اس سے عوام کی اقتدار میں شرکت نہیں ہوئی بلکہ یہ نئے حکمران گروہ بھی اپنے معاشروں میں مغلوب گروہوں کے خلاف نسل پرستانہ رویہ رکھتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ نوآبادیاتی نظام کے بعد ریاستی قوم پرستی کا دور شروع ہوا تو اس نے ایک قوم ہونے کے نام پر نسلی اختلافات ختم کرنے کی بات کی اور مقامی اور نسلی/لسانی شناختوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس طرح ان کا کہنا ہے کہ نوآبادیاتی تشدد کی جگہ قوم پرستی کے تشدد نے لے لی۔
عدیل خان کا کہنا ہے کہ مسلم اشرافیہ نے ریاست کے اقتدار کو قابو کرنے کے لیے پاکستان بنایا اور نوآبادیاتی دور کے جابرانہ طور طریقوں کے نظام اور اس کے نسل پرستانہ اور امتیازی نظریات کو ختم کرنے کے بجائے انہیں مقامی رنگ میں ڈھال کر قومی ریاست کی تعمیر شروع کردی۔
عدیل نے اپنی کتاب میں بانی پاکستان قائد اغطم محمد علی جناح پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسے اقدامات کیے جس سے ملک فوجی اور سول بیوروکریسی کی آمریت کی راہ پر چل پڑا اور آج تک اس کا شکار ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے ملک بنتے ہی صوبہ سرحد اور سندھ میں منتخب وزارتوں کو برطرف کیا، انیس سو پینتیس کے نوآبادیاتی دور کے آئین کو پہلا عبوری آئین بنایا، اس میں ایسی ترامیم کیں جس سے مرکزی حکومت کے اختیارات میں اضافہ ہوا اور ملک کو مرکزی اور صوبائی بیوروکریسی کے ذریعے چلانے کے لیے حکومت میں سیکرٹری جنرل کا عہدہ بنا کر اس پر چودھری محمد علی کا تقرر کردیا۔
ان کا کہنا ہےکہ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں تو برطانوی عہد کی تربیت یافتہ مہاجر اور پنجابی سول بیوروکریسی اقتدار پر غالب رہی اور بعد میں ریاست پر فوج کا غلبہ بڑھتا گیا کیونکہ پاکستان نے شروع ہی سے اپنے مرکز بجٹ کا بڑا حصہ سماجی شعبہ کے بجائے فوج پر خرچ کرنا شروع کردیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ انیس سو اننچاس میں ملک کے بجٹ میں تین چوتھائی محصولات فوج کے اخراجات کے لیے مختص کیے گئے۔ جب سول بیوروکریسی کی جگہ فوجی غلبہ بڑھا تو مہاجروں کا اقتدار میں حصہ بھی کم ہونا شروع ہوگیا کیونکہ اس کی نمائندگی صرف سول بیوروکریسی تک محدود تھی۔
عدیل کہتے ہیں کہ ہر قومی ریاست نظریاتی انجینئرنگ کرتی ہے تاکہ اپنی انفرادیت اور جداگانہ تشخص اور ایک قوم ہونے کا احساس پیدا کیا جائے۔ ان کے مطابق پاکستان میں اس انجئنئرنگ میں اردو زبان اور نظریاتی اسلام کو بنیاد بنایا گیا۔ عدیل کا موقف ہے کہ ایک ایسی قوم کا تصور جس کی بنیاد نظریاتی اسلام اور اردو زبان پر ہو ایک افسانہ تو ہوسکتا ہے حقیقت نہیں۔
عدیل کا کہنا ہے کہ ہر پاکستانی حکومت میں اسلام کا رنگ بدلتا رہا۔ ابتدائی حکمرانوں کا اسلام لبرل جدیدیت پسند اسلام تھا، ایوب خان کا معاشی ترقی کا اسلام تھا، یحییٰ حان کا قوم پرستی کا اسلام تھا، بھٹو کا سوشلسٹ اسلام اور جنرل ضیاءالحق کا احیائی اور بنیاد پرستانہ اسلام تھا۔
عدیل کا موقف ہے کہ پاکستانی ریاست کی عملداری کمزور ہے اور تشدد کرنا اس کا معمول ہے۔ حمزہ علوی کے بقول پاکستان میں سول بیوروکریسی اور فوج کے ادارے ترقی یافتہ ہیں۔ تاہم حمزہ علوی سے عدیل کا اختلاف یہ ہے کہ یہ ادارے کُل ریاست نہیں ہوتے۔
ان کا موقف ہے کہ جب پاکستان جیسے ملکوں میں یہ دو ادارے خود کو ریاست سمجھ لیتے ہیں اور عدلیہ، سیاسی جماعتیں، قانون ساز ادارے ناکارہ ہوجاتے ہیں تو ان اداروں کا اقتدار بھی ختم کمزور ہوجاتا ہے اور یہ کمزور ریاست اداروں کے بجائے ذاتی وفاداری اور سرپرستی پر انحصار کرتی ہے۔
عدیل نے بلوچ، پختون اور سندھی قوم پرستی کی تحریکوں کا سے جائزہ لیاہے اور ان کا تجزیہ کیا ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ پختون قوم پرستی کی ابتدا پختونوں کے لیے ایک جدگاگانہ ملک کے مطالبہ سے ہوئی لیکن جلد ہی یہ مطالبہ صوبائی خود مختاری میں تبدیل ہوگیا۔ مصنف کے مطابق پاکستان کے پختون اب پاکستان سے باہر اپنا مستقبل نہیں دیکھ سکتے اور وہ ایک مظلوم قوم بھی نہیں ہیں۔
بلوچ قوم پرستی کی تاریخ پیش کرنے کے بعد مصنف کا کہنا ہے کہ بلوچ قوم پرستی صنعتی ترقی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی جیسا کہ عام طور پر نظریہ سازوں کا کہنا ہے۔ مصنف کے مطابق بلوچ قوم پرستی جدید ریاست کی بلوچ معاشرہ میں مداخلت سے پیدا ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں انتظامی عملہ کی اکثریت پنجابی اور آباد کاروں پر مشتمل تھی جس سے بلوچ قوم پرستوں نے سوچنا شروع کیا کہ بلوچستان سے ایک نوآبادیات کے طور پر سلوک کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچ قوم پرستی کے مستقبل کا انحصار اس بار پر ہے کہ ریاست ان سے کیسا سلوک کرتی ہے کیونکہ بلوچ قوم پرستی حقیقت میں تشخص، ثقافت اور روایات سے نہیں بلکہ براہ راست سیاسی اقتدار کے معاملہ سے جڑی ہوئی ہے۔
مصنف نے سندھی قوم پرستی کی تاریخ اور وجوہ پر بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ سندھیوں کے جذبات کو صوبائیت اور تنگ نظر قوم پرستی قرار دینا گمراہ کن ہے جس سے پاکستانی ریاست کے جابرانہ نظام کی عکاسی ہوتی ہے اور یہ پتہ چلتا ہے کہ غالب گروہ اس غیرمساویانہ سلوک اور استحصال کو بھی تسلیم کرنے سے منکر ہے جو پاکستانی ریاست نے سندھ سے روا رکھا۔
ان کا کہنا ہے کہ چونکہ سندھیوں کی فوج میں کوئی نمائندگی نہیں اس لیے فوجی اقتدار کے زمانے میں ان کی قوم پرستی زیادہ تیز ہوجاتی ہے۔
بلوچستان میں قوم پرستی کی تازہ لہر اور اس کے بعد صوبائی خود مختاری کے لیے آئینی کمیٹی کے قیام اور وفاق کے معاملہ پر جاری بحث کے تناظر میں عدیل خان کی یہ کتاب فکر انگیز مواد فراہم کرتی ہے اور پاکستان میں وفاقی سوال پر سوچنے اور سمجھنے کے نئے زاویے سامنے لاتی ہے۔
Source, https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/05/printable/050505_adeel_book_si.shtml