26دسمبر کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ فار لینگویج، آرٹ اینڈ کلچر ٟپلاکٞ جسے ہم اردو میں ادارہ فروغ زبان ، فن و ثقافت بھی کہہ سکتے ہیںنے تیسرے پرائڈ آف پنجاب ایوارڈ سے پاکستان کی پہچان بننے والی ایک اور فنکارہ جو کہ حسن اتفاق سے گلوکارہ ہیں نوازا، پلاک کے نو آراستہ ایڈیٹوریم میں ایک تقریب کے دوران تھل اور روہی کی پہچان گلو کارہ ثریا ملتانی گر کو یہ ایوارڈ دیا گیا، یقینااسے حسن اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ پہلے دو فنکار جن کو یہ ایوارڈ دیا گیا گلوکار شوکت علی اور اللہ دتہ لونے والا تھے، اگر ان تینوں فنکاروں کی فن کی خدمات اور ترقی و ترویج کے لئے کاوشوںکو دیکھا جائے تو ہر کوئی یہی کہے گا اور اس تقریب کے دوران سبھی نہیں کہا بھی کہ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا، اور بلا شبہ ان تینوں کو یہ ایوارڈ دینے سے ایوارڈ کی قدرو منزلت میں اضافہ ہوا ہے۔ہمیں یقین ہے کہ ادارے کی سربراہ ڈاکٹر صغرا صدف آگے جا کر پرفارمنگ آرٹ سے منسلک دیکر فنکاروں جیسے مصور، رقاص، سازندے اوراداکارں کو بھی اپنی فہرست میں شامل کرینگی۔ ان کا یہ کام نہ صرف قابل داد و ستائش ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے، انہوں نے اس تقریب میں ایوارڈ کے ساتھ دی جانے والی ایک لاکھ روپے کی رقم کو تین لاکھ کرنے کا اعلان بھی کیا، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کتابوں پر بھی انعامات ، اور ادیبوں کو بھی پرائڈ آف پنجاب کے ایوارڈ سے نوازا جائے گا، یہاں پنجاب حکومت سے ہمیں ایک گزارش کرنی تھی کہ ادارہ یوں تو پنجابی زبان ،فن اور ثقافت کی ترقی و ترویج کے لئے کام کرتا ہے، مگر اس کے نام سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ ادارہ پاکستان کی تمام زبانوں، فن اور ثقافت کا ادارہ ہے۔ لہٰذا ہماری تجویز ہے کہ اس ادارے کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ فار لینگویج ، آرٹ اینڈ کلچر کی بجائے پنجابی انسٹی ٹیوٹ فارلینگویج آرٹ اینڈ کلچر قرار دیا جائے تاکہ کسی اصغر ندیم سید کو اردو میں بولنے سے پہلے سوچنا پڑے کہ وہ ایک پنجابی زبان، فن اور ثقافت کے فروغ کے ادارے میں بول رہے ہیں۔ تقریب میں عرصہ دراز کے بعد ہماری ملاقات کامران لاشاری سے بھی ہوئی، ہم نے ان سے اپنا دیرینہ مطالبہ دہرایا کہ میلہ چراغاں کے دھندلائے اور ماند پڑ جانے والے فیچرز کا احیائ کیا جائے، ہم نے تجویز کیا کہ سر دست اتنا کر دیا جائے کہ صرف اندر ون لاہور کی تمام عمارتوں پر عرس شاہ حسین کے موقع پر چراغاں کیا جائے، دھمال اور گانے والوں کی ٹولیوں کے مابین مقابلے کو باقاعدہ ایک ایونٹ کے کروایا جائے، تا کہ وہ میلہ چراغاں جو غیر منقسم ہندوستان کا سب سے بڑا میلہ تھا اور اب سب سے چھوٹا میلہ بنا دیا گیا ہے اس کو زندہ کرنے کی کوشش کی جائے، قارئین کو یاد ہو گا کہ ہم نے گزشتہ سال کے اوائل میں انہیں صفحات پر عرض کیا تھا کہ ، ٴٴ16فروری پنجاب میں موسم بہار کا آغاز ہوتا ہے، بسنت کا تہوار درحقیقت بہار کے استقبال کا اعلان ہوتا ہے، بہار کے رنگوں جیسی پتنگیں، سرسوں کے رنگ جیسے لباس یا چنریاں پہن کے خوشی منائی جاتی ہے، یہ تہوار وساکھی کی طرح خاص پنجاب کا تہوار تھا جس نے پورے ہندوستان کو اپنی رنگینی سے متاثر کیا ،اور یہ منایا جانے لگا، اسی طرح جیسے میلہ چراغاں جہاں لاہور کی شناخت تھی وہاں یہ پنجاب کیا غیر منقسم ہندوستان کے بڑے میلوں میں سی ایک میلہ تھا، میلہ چراغاں درحقیقت مرشد شاہ حسین جنہیں ہم مادھو لال شاہ حسین بھی کہتے ہیں کا عرس ہوتا ہے، اس عرس کے موقع پر پورے لاہور میں چراغاں کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے اسے میلہ چراغاں کہا جاتا ہے،1958میں مغربی پاکستان کی حکومت نے لاہور ہی میں ٴٴہارس اینڈ کیٹل شوٴٴ کا آغاز کیا، اور اس کو میلہ چراغاں کے ساتھ ملا دیا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور میں مرشد شاہ حسین کے عرس پر چراغ جلانے کی روایت ختم ہونے لگی،ہارس اینڈ کیٹل شو بند کر دیا گیا، جگہ کی قلت کے سبب میلہ چراغاں کے فیچرز اور رنگ ماند پڑنے لگے۔اب یہ چراغاں صرف شاہ حسین کے دربار پر ہی ہوتا ہے،ہارس اینڈ کیٹل شو بند کر دیا گیا تھا جسے پنجاب حکومت نے دوبارہ شروع کر دیا ہے، ہم نے گزشتہ سال بھی پنجاب حکومت سے استعدائ کی تھی کہ ہارس اینڈ کیٹل شو کو میلہ چراغان کے ساتھ ہی منعقد کیا جائے، جس سے لاہور کی رنگینی میں اضافہ ہو گا۔اور لاہور نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ملک کو اپنے رنگ میں رنگ لے گا، کیونکہ حضرت مجدد الف ثانی نے اپنے ایک مکتوب میں اس وقت کے گورنر لاہور نواب کلید خان کو لکھا تھا کہ، ٴٴلاہور ہندوستان کے تمام شہروں کا ٴٴقطب الارشادٴٴہے یہاں جس بات کا چرچا ہو گا وہ ہندوستان کے تمام شہروں میں رواج پائے گی۔ٴٴ اس بات کا ثبوت ہماری سیاسی ، سماجی اور ثقافتی تاریخ مہیا کرتی ہے، فیشن لاہور سے شروع ہوتے تھے،کوئی تحریک تب تک عوامی تحریک کا درجہ اختیار نہیں کرتی تھی جب تک لاہور اس میں شمولیت اختیار نہیں کرتا تھا، اس شہر نے نہ صرف غیر منقسم متحدہ ہندوستان میں بھی اس خطے کی فکری، سماجی،ثقافتی اور سیاسی رہنمائی کی ہے، بلکہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد بھی 80کی دہائی تک اپنا کلیدی رول نبھایا۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور کو سکولوں ، کالجوں اور باغات کا شہر کہا جاتا تھا، یہ ثقافتی مرکز بھی تھا، مصوری ،رقص، ادب، گائیکی کا مرکز تھا، کوئی بھی فنکار یا ادیب جب تک لاہور کی بھٹی میں نہیں پڑتا تھا کندن نہیں بنتا تھا، اور اسے قومی فنکار کا درجہ نہیں ملتا تھا،وہ چاہے محمد علی ہوں، وحید مراد ہوں ، کمال ہوں، مصطفی قریشی ہوں، جب تک کراچی چھوڑ کر لاہور نہیں آئے اور ٴٴلاہور کا رگڑاٴٴ نہیں کھایا اس وقت تک وہ اپنی قومی شناخت نہیں بنا پائے۔مگر 80کی دہائی میں لاہور کا یہ کردار بدل دیا گیا۔پہلی ضرب لاہور کی ثقافتی سرگرمیوں پر لگائی گئی، اور دوسرا حملہ کھیلوں پر کیا گیا، و رنہ عالم یہ تھا کہ گورنمنٹ کالج لاہور اور اسلامیہ کالج سول لائن کا کرکٹ کا مقابلہ سارا لاہور دیکھنے کے لئے ٹوٹ پڑتا تھا، اسی طرح دیال سنگھ کالج کی ہاکی ٹیم قومی ٹیموں کے مقابلے کی ٹیم ہوتی تھی، اس کا مقابلہ دیکھنے ہاکی کے شوقین دور دور سے کھیل کے میدانوں میں کھنچے چلے آتے تھے۔مگر آہستہ آہستہ کھیل کے میدانوں کی رونقیں ماند پڑنے لگیں، اور آج کھیل کے میدان اجڑے مزار بن چکے ہیں۔ ثقافتی سر گرمیوں میں ،میلہ چراغاں کے علاوہ لاہور ہی میں منعقد ہونے والے قومی سطح کے دیگر میلے بھی ہیں۔جن میں سے بیشتر لاہور میں ابدی نیند سونے والے بزرگوں کے عرس ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش کا عرس، بابا شاہ جمال کا عرس، حضرت میاں میر کا عرس،، لاہور کا دوسرا بڑا میلہ عرس بابا شاہ جمال ہوتا تھا، اس میلے میں جہاں قوالی ڈھول بجانے کے مقابلے، تھیٹر موت کے کنویں اور موت کے گولے سرکس وغیرہ بھی ہوتے تھےٟدوسرے میلوں کی طرحٞ مگر اس عرس یا میلے کا مین فیچرقلعہ گوجر سنگھ اور اچھرہ کی کبڈی کی ٹیموں کا میچ ہوتا تھا، جسے سارا لاہور دیکھنے کے لئے آتا تھا،یہ میچ بابا شاہ کمال کے عرس پربھی کھیلا جاتا تھا۔مگر اب نہ بابا شاہ جمال اور نہ ہی بابا شاہ کمال کے مزاروں کے ارد گرد ہی کوئی ایسی جگہ باقی بچی ہے جہاں یہ عرس اور میلے اپنی پرانی آب وتاب سے منعقد کئے جا سکیں اور نہ ہی کسی حکومت کی یہ ترجیح رہی ہے کہ وہ ان میلوں ٹھیلوں کو بچا کر دنیا کو پاکستان کا اصل چہرہ دکھا سکے۔بلکہ اس کو ٹورازم میں شامل کر کے دنیا بھر کے سیاحوں کو کھینچ سکے۔ٴٴ کامران لاشاری نی ہمیںامید دلوائی ہے کہ وہ سنجیدگی سے ہماری تجاویز کو عملی جامہ پہنائیں گے، اور جلد ہی ملاقات کا عندیہ بھی دیا ہے، دعا کریں کہ ہم لاہور اور پنجاب کا اصل چہرہ بے نقاب کر سکیں جو شدت پسندی کی دھول سے اٹا پڑا ہے۔