28؍ جولائی 2017ء کو پاکستان کے منتخب وزیراعظم محمد نواز شریف کو عدالت عظمیٰ پاکستان نے ’’نااہل‘‘ قرار دے دیا، جولائی 2017کی اس تاریخ کے بعد انہیں ’’سابق نا اہل وزیراعظم‘‘ لکھا اور بولا جانے لگا، ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے قائل کنندگان البتہ ان کے لئے پاکستان کے ’’سابق معزول منتخب وزیراعظم‘‘ کا لاحقہ استعمال کرتے ہیں، سابق معزول منتخب وزیراعظم نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو ذہناً مسترد اور عملاً قبول کر کے ذاتی آزادی کی رائے اور قومی آئین کی سربلندی کا ثبوت دیا، ان دونوں پہلوئوں سے ایک قومی بیانیہ کشید کیا جس کا عنوان ہے ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘، یہ پاکستان کے تاریخی پس منظر کا استعارہ ہے جسے ان کے سیاسی مخالفین، چاہے وہ کسی بھی سلسلے سے متعلق ہوں، کم تر درجہ کا معانی و مفہوم دیتے ہیں، عوام کی اجتماعی سطح پر ان کا اندازِ فکر قبولیت عامہ کی سند حاصل نہیں کر سکا۔
سابق معزول منتخب وزیراعظم نواز شریف یہ قومی بیانیہ تشکیل دینے کے بعد مسلسل گزشتہ 70برسوں کے سیاسی واقعات، تقریباً 18یا 16سابق وزرائے اعظم اور منتخب حکومتوں کی برطرفیوں جیسے ابواب کھولے، پہلے انہیں خود یاد کیا، پھر پاکستانیوں کو مسلسل یاد کرانے کی جدوجہد شروع کر دی، لگتا ہے وہ ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی
حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے اس یک نکاتی ایجنڈے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، آپ اسے ان کی ناگزیر مجبوری بھی کہہ سکتے ہیں، بہرحال ہر صورت میں اب ان کا یہی سیاسی کردار پاکستان کی بقا، عوام کے حق حکمرانی، ’’ن‘‘ لیگ کے وجود اور خود ان کے اپنے سیاسی کیریئر کا سائبان ہے جس سے باہر نکلنے پر یہ سب کچھ کسی تمازت میں جھلس سکتا ہے۔
28؍ جولائی 2017تا 12دسمبر 2017، جب یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں 4ماہ 14دن کا عرصہ بنتا ہے۔ ان چار ماہ 14دن کے دورانئے میں نواز شریف اور ’’ن‘‘ لیگ کا آج 13دسمبر 2017ء تک سیاسی میزانیہ یہ ہے۔
(1) کہا گیا، شور مچایا گیا، ماضی کی بنیاد پر تجزیئے ہوئے، کہ ’’نواز شریف وطن سے بھاگ جائیں گے‘‘، ’’لندن جا کر واپس نہیں آنے والے، وہ وطن سے نہیں بھاگے، وہ لندن سے مریم کے ساتھ، شاید ان چار ماہ کے دوران میں چوتھی یا پانچویں بار واپس آ رہے ہیں، چنانچہ ان کے حامیوں اور عوامی اکثریت کے ذہنی رجحانات کی روشنی میں نواز شریف اب کسی بھی سیاسی آزمائش میں اپنا وطن تا قیامت نہیں چھوڑیں گے۔
(2) کہا گیا، شور مچایا گیا، ماضی کی بنیاد پر تجزیئے ہوئے، کہ ’’ن‘‘ لیگ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی، ایک دو یا تین فاورڈ بلاک بن رہے ہیں، چوہدری نثار ان میں سے کسی بڑے دھڑے یا سب کی قیادت سنبھالیں گے، شہباز کی تھپکی پوری طرح اس وقوع میں ان کے ساتھ شامل ہو گی، تین تو در کنار ایک بھی دھڑے کا بیج تک نظر نہیں آتا، ان کے حامیوں اور عوامی اکثریت کے ذہنی رجحانات کے نزدیک اس کا امکان قطعی نہیں، پاکستان سیاسی شور کے اس تاریخی مرحلے پر ہے جہاں ’’لوٹا کلچر‘‘ کا ماضی لوٹے، ہونے کے ’’مسافروں‘‘ کو اپنے علاقوں میں زندہ سیاسی موت کا عبرت ناک نمونہ بنا دے گا، عوامی ناپسندیدگی کے ردعمل کا گراف انہیں ضمیر کا قیدی نہیں ضمیر کے ’’مقبروں‘‘ میں تبدیل کر دے گا۔
(3) سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کی متوقع ’’مشترکہ بغاوت‘‘ ، ’’مریم نواز اور حمزہ شہباز‘‘ کے ’’حاسدانہ اختلافات‘‘، چوہدری نثار علی خان کے ’’نون لیگ‘‘ وغیرہ سمیت معروضیت کے آئینے میں اپنے ’’سے مستعفی ہونے‘‘ کے طویل تبصرے، تجزیئے اور دعوئوں سے مخالفین نے ہاتھ اٹھا لیا اور اب تازہ قصوں کا ’’مطالبہ‘‘ کر رہے ہیں، کام رکنا نہیں چاہے مگر کام رکتا محسوس ہو رہا ہے۔
(4) ’’ن‘‘ لیگ کے 72ارکان اسمبلی کے اجلاس سے غیر حاضر ہونے سے لے کر محترم و مکرم پیر حمید الدین سیالوی کے ’’پندرہ‘‘ یا ’’چالیس استعفوں‘‘ کے اعلانات حقیقی سیاسی و اقعیت میں قطعی موجود نہیں ہیں۔ آپ غالباً آئندہ قومی انتخابات کے انعقاد تک نواز شریف کی اس پوزیشن میں تغیر بہت مشکل سے ’’آٹے میں نمک‘‘ جیسے ’’تناسب‘‘تک رکھ سکتے ہیں۔
(5) ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی جانے والی ’’پاکستان قومی اتحاد کی تحریک سے‘‘ ’’نواز شریف کے خلاف ‘‘ برپا مہمات، دھرنوں، جلسوں یا جلوسوں کا کوئی تعلق، کوئی واسطہ، کوئی مشابہت، کوئی اطلاق نہیں، یہ دائیں بازو کے جماعت اسلامی پسند دانشوروں کی ذہنی اپروچ ہے، وقوعہ اس دائیں بازو کا آپس میں ٹکڑوٹکڑی اور تقسیم در تقسیم ہو جانے کا ہے، پاکستان کی تاریخ میں ہر قسم کی ظاہری و باطنی مقتدر قوتوں جماعت اسلامی سمیت تمام مذہبی جماعتوں، دائیں بازو کے کل دانشوروں فعال افراد اور سیاسی جماعتوں کے واحد نمائندہ نواز شریف تھے جنہوں نے مل کر ذوالفقار علی بھٹو کے مدمقابل کھڑا کیا۔ جنرل مشرف کے قبضہ کے بعد یہ باہم گتھم گتھا ہو چکے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تو یہ سب پیروں کے تلوئوں سے لے کر سر کے بالوں تک خون کے پیاسے تھے، نواز شریف کے خلاف یہ ساری مزاحمت ان رجعت پسند افراد، گروہوں، دانشوروں اور جماعتوں کی باہمی سرد جنگ ہے جس میں شدت پیدا ہو سکتی ہے، نواز شریف کے مقابلے میں اسی دائیں بازو سے سیاست میں عمران خان اور مذہب میں دوسری تمام مذہبی جماعتیں، سو ان کی لڑائی آپسی ہے، اس میں نواز شریف تاریخی جبر کے ہاتھوں ’’آئینی بالا دستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے تسلیم شدہ استعارے کی علامت بن کر سامنے آ چکے، خوش نصیبی سے پاکستانی عوام اس پر ان کا ماضی بھولنے پر بھی تیار ہیں، اس باعث چیلنج نواز شریف کے نظریئے کی ترجمانی اور حمایت پر کمربستہ ہے، کمر بستہ رہے گا جب تک وہ اپنے موقف پر قائم ہیں، وہ موقف جس کی جنم بھومی بھٹو خاندان ہے۔
(6) قبل از وقت انتخابات کے خوف کو خود ’’ن‘‘ لیگ کے لیڈر خواجہ آصف نے ساقط کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے ’’ہم اپنے سیاسی فائدے کے لئے قبل از وقت انتخابات بھی کرا سکتے ہیں، ان چار ماہ 14دنوں کے سیاسی میزانیے کی بنیادی کامیابی ہے جس کا مطلب، آئندہ چند مہینوں کے درمیان کسی ’’ان ہونی‘‘ کو سو فیصد ناکام کرنے کی کامیاب ترین اپروچ ہے۔
(7) جسٹس (ر) باقر نجفی رپورٹ، ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی حمایت پر تیار جماعتوں کا مجوزہ اتحاد (اگر ہو گیا تو) تحریک لبیک اور پیر حمید الدین سیالوی جیسی طاقتوں کا مظاہرہ، بروقت قومی انتخابات کے خلاف کوئی بوجھ نہیں پڑنے کا باقی رہ گیا شیخ رشید والا ’’کوٹیکنارج‘‘ تو وہ ہمارے اس سیاسی میزانیے کا جزو نہیں۔
’’ان ہونی‘‘ نارمل زندگی کے معاملات کا اصول نہیں ہوتی، ہم اس وقت تک پاکستان کی قومی سیاست میں کسی ایسی ’’ان ہونی‘‘ کے اندیشے کی گنجائش نہیں پاتے جو جمہوری تسلسل کو معطل کر سکے۔ باقی وہ بہتر جانتا ہے جو سب جانتا ہے۔