زبیر توروالی 12 جنوری, 2017
گزشتہ مردم شماریوں میں پاکستان کی ایک کثیر ابادی کو “دوسروں “ یعنی Others میں ڈالا ہے۔ اس لفظ سے ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ پاکستانی نہیں بلکہ “دوسرے “ ہیں
پاکستان میں اب تک پانچ مردم شماریاں ہوئی ہیں۔ ملک میں آخری مردم شماری آج سے اٹھارہ سال پہلے 1998 ء میں ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ نے موجودہ حکومت کو مجبور کیا ہے کہ وہ اگلی مردم شماری اس سال مارچ میں کرالے۔ حکومت نے بظاہر اس پر رضامندی مشترکہ مفادات کونسل (Council of Common Interests ) کے حالیہ اجلاس میں ظاہرکی ہے۔ یہ مردم شماری ہوتی ہے کہ نہیں وقت ہی بتائے گا لیکن مردم شماری کے لئے افرادی قوت کے اہلکار بتاتے ہیں کہ ان کو مردم شماری کے بارے احکامات ملے ہیں۔ یہ اچھی پیش رفت ہے۔
میرے سامنے گزشتہ مردم شماری کی ایک رپورٹ (Handbook of Housing and Population Census 1998) پڑی ہے۔ اس رپورٹ میں کئی دلچسپ معلومات دی گئی ہیں تاہم میری نظر جن معلومات پر اٹک گئی وہ اس مردم شماری میں رپوٹ کی گئی پاکستان میں مادری زبانوں کے بارے میں ہیں۔
گزشتہ مردم شماریوں میں پاکستان کی ایک کثیر ابادی کو “دوسروں “ یعنی Others میں ڈالا ہے۔ اس لفظ سے ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ پاکستانی نہیں بلکہ “دوسرے “ ہیں۔ ان اعداد و شمار میں پاکستان کی چھ زبانوں کو مادری زبان کے درجے میں رکھا گیا ہے جبکہ باقی سارے لوگوں کی زبانوں کو دیگر یا “دوسرے “ کے خانے میں ڈالا ہے۔ جن چھ زبانوں کو رکھا گیا ہے وہ اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، سرائیکی اور بلوچی زبانیں ہیں۔
1998ء میں کی گئی مردم شماری کی رو سے پاکستان میں یہ “دوسرے “ 4.7 فی صد ہیں۔ پنجاب میں ان کی تعداد 0.9 فی صد، این ڈبلیو ایف پی (موجودہ خیبر پختون خوا) میں 20.4 فی صد، بلوچتسان میں 4.2 فی صد، سندھ میں 4.9 فی صد، فاٹا میں 0.5 فی صد اور وفاقی علاقے اسلام آباد میں ان ’’دوسروں “ کی تعداد 7 فی صد ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ گزشتہ مردم شماری سے پہلے 1981 والی مردم شماری میں یہ اعداد کچھ یوں تھے: پاکستان 8.5 فی صد، پنجاب میں 0.6 ، خیبر پختون خوا میں 25.7 فی صد، بلوچستان میں 23.6 فی صد، سندھ میں 7.4 فی صد، فاٹا میں 0.1 جبکہ اسلام آباد میں یہ تعداد 2.4 فی صد تھی۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ان اعداد و شمار میں شامل ہی نہیں۔
ان دونوں مردم شماریوں کے اعداد کے موازنہ سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں یہ ’’ دوسرے “ یعنی دیگر زبانیں تیزی سے ختم ہورہی ہیں اور اٹھارہ سال میں ان کے بولنے والوں کی تعداد پورے ملک میں کم ہوکر نصف رہ گئ ہے ماسوائے اسلام آباد کے جہاں ان لوگوں کی تعداد تین گنّا سے بھی زیادہ بڑھی ہے ۔ کیا اس سے مراد یہ لی جائے کہ دیگر زبانوں کے بولنے والوں نے اسلام آباد کو اپنا مسکن بنالیا؟ کیا ایسا ممکن ہے اسلام آباد کی مہنگی اور جدید ذندگی کو سامنے رکھ کر؟ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ ان دیگر زبانوں کے لوگ سیاسی، تعلیمی اور ثقافتی لحاظ سے اتنے طاقتور نہیں کہ اسلام آباد جیسے جدید شہر اور طاقت کے ایوانوں کو اپنا مسکن بنا سکیں۔ ظاہر ہے کہ ان اعداد و شمار میں کہیں غلطیاں ہوئی ہیں۔
اگر چہ پاکستان میں لسانی تنوع کو کئی مسائل کا سامنا ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ زبانیں اتنی جلدی ختم ہوسکتی ہیں۔ جس طرح پورے پاکستان میں آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اسی طرح کی صورت حال ان زبانوں کے بولنے والے لوگوں کی بھی ہے۔
دنیا میں زبانوں کی تحقیق اور اعداد و شماریات کے معلوماتی ادارے ایتھنولاگ (Ethnologue) کی رو سے پاکستان میں لگ بھگ 73 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں 67 زبانیں پاکستانی سر زمین کی آبائی زبانیں ہیں جبکہ باقی آٹھ زبانیں غیر آبائی ہیں۔ یہ ادارہ پاکستان کی زبانوں کی مزید درجہ بندی کرتے ہوئے لکھتا ہے؛ پاکستان میں چھ زبانیں اداراجاتی ہیں یعنی ان زبانوں کو کسی کسی نہ حد تک اداراتی سرپرستی حاصل ہےاور یہ تعلیم میں استعمال ہورہی ہیں۔ 18 زبانیں ترقی پزیر ہیں جبکہ 39 زبانیں مستحکم یعنی ابھی لوگ ان زبانوں کو ہر نسل کی سطح پر بولتے ہیں۔ اس معلوماتی سائیٹ کی رو سے پاکستان میں 8 زبانیں خطرے سے دو چار ہیں یعنی ان کو صرف بزرگ نسل ہی بولتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں دو زبانیں معدوم ہورہی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر چہ پاکستان میں ریاستی سطح پر ان زبانوں کی ترویج اور تدوین کے لئے کچھ نہیں کیا جارہا تاہم اب بھی لوگ ان زبانوں کو بولتے ہیں۔ البتہ ان زبانوں کی کثیر تعداد میں تحریر یا خواندگی کے مظبوط، توانا اور پائیدار منصوبے موجود نہیں ہیں۔
ان زبانوں کے بولنے والوں کی درست شماریات نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ان زبانوں اور ان سے منسلک ثقافتوں پر تحقیق کرنے والوں کو ہمیشہ بڑے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ وہ ان کے بولنے والوں کی تعداد کا صحیح تجزیہ نہیں کرسکتے اور یوں پاکستان میں زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد اندازوں پر انحصار کرتی ہے۔ جب بھی اس تعداد پر بات کی جاتی ہے تو یہ ایک گرم سیاسی بحث بن جاتی ہے۔ مردم شماری میں شامل زبانوں کے کئی بولنے والے ان زبانوں کے وجود سے ہی انکار کر بیٹھتے ہیں۔ ان کی بات میں وزن آجاتا ہے جب پاکستان کی مردم شماری میں ان ’بڑی ‘ زبانوں کی ابادی تو معلوم کی جاتی ہے جبکہ دیگر زبانوں کو دوسرے والے خانے میں ڈال کر ان زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد کو متنازع بنایا جاتا ہے۔ صرف یہ نہیں بسا اوقات ان زبانوں کے بولنے والوں کی نسل اور زبان کو علاقے کی مناسبت سے دوسری بڑی زبانوں کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔ اس سے ایک طرف اگر تحقیق پر اثر پڑتا ہے تو دوسری طرف یہ “بڑی زبانوں “ اور ان ’دوسری ‘ زبانوں کے ادباء، شعراء اور محقیقن کے بیچ تنازعات کو جنم دیتا ہے۔ مجھے یاد کہ کس طرح پشاور میں صوبے کی دو زبانوں سے منسلک ادباء میں ’ادبی ‘ گالیوں کا تبادلہ ہوا جب ایک نے کہا کہ اس صوبے میں اس کی زبان کے بولنے والوں کی تعداد اس سے ذیادہ ہے جو مردم شماری میں دیکھایا جاتا ہے۔ خود راقم کے ساتھ کئی بار ایسا ہوا۔ ایک دفعہ جب صوبائی حکومت نے کلچرل پالیسی پر ایک مباحثے کا اہتمام کیا اور جب ادباء اور شعراء کی اس محفل میں میں نے دوسری زبانوں کے ذکر کرنے کی گستاخی کی تو صوبے کے ایک نامور قوم پرست ادیب، محقیق اور استاد نے مجھ پر طعنے کسے اور نوبت گالیوں تک پہنچ گئی۔
میں نے جب گزشتہ مردم شماری کی ضلعی رپورٹس پڑھنے شروع کئیں تو میری نظر ضلع چترال کی رپورٹ پر پڑی۔ اس میں لکھا تھا کہ چترال میں غالباً چترالی زبان بولی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہوسکتا ہے دوسری زبانیں بھی ہوں گی۔ اس کا صریح مطلب یہ ہوا کہ رپورٹ لکھنے والے کو چترال کا پتہ تک نہیں تھا۔ ضلع چترال میں “چترالی” نام سے کوئی زبان نہیں بولی جاتی۔ یہاں کی جو بڑی زبان ہے اس کو کھوار کہا جاتا ہے اور اس کے علاوہ یہاں گیارہ اور زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ اگر اردو اور پشتو کو بھی شامل کریں تو چترال میں چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔
زبانوں کے حوالے سے مردم شماری کی شماریات میں یہ سقم اس سوال نامے کی وجہ سے ہے جو زبانوں کے حوالے سے مردم شماری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سوال نامے میں ان چھ زبانوں کے علاوہ باقی سب کے لئے ’دیگر ‘ کا خانہ استعمال ہوتا ہے۔ سروئر کو پتہ نہیں ہوتا کہ کہاں کون سی زبان بولی جاتی ہے اور اگر پتہ ہو بھی تو بیچارے کے پاس سوال نامے میں کوئی مختص جگہ نہیں کہ وہاں اس زبان کو درج کیا جائے۔ اس سوال نامے کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں صرف ان چھ زبانوں سے منسلک سیاسی طور پر قدرے طاقتور لوگوں کو شہری مانا گیا ہے اور دوسروں کو اس گمنام ’دیگر ‘ کے خانے میں ڈال کر دوسرے درجے کے شہری بنایا گیا ہے۔
اس کا ازالہ آنے والی مردم شماری میں کیا جا سکتا ہے۔ایک اچھی خبر کے مطابق اسی سال 11 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں حکومت کو حکم دیا کہ وہ آئیندہ مردم شماری میں خواجہ سراؤں کو بھی الگ خانے میں شمار کرے۔
اسی طرح اگلی مردم شماری میں پاکستان کی ساری زبانوں کو شامل کیا جانا چاہئے۔ حکومت اور متعلقہ محکمے اس سے کتراتے ہوئے کئی وجوہات کو سامنے لاتے ہیں۔
ان کے نزدیک ساری زبانوں کو مردم میں شمار کرنا مشکل ہے۔ ہماری خوش قسمتی کہ ان زبانوں کے بولنے والے ذیادہ تر مخصوص علاقوں میں بستے ہیں۔ ماسوائے چند خاندانوں کے جو ملک کے کئی شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں باقی سارے اگر ان شہروں میں مستقل نقل مکانی بھی کرچکے ہیں تو وہاں بھی وہ اکثر کالونیوں میں یا پھر کچی آبادیوں میں اکٹھے رہتے ہیں۔ اور حکومت کو اس کا پتہ نہیں تو وہ ان زبانوں سے منسلک کارکنان اور محقیقن کی مدد لے سکتی ہے۔ یہ محققین مردم شماری پر مامور اہلکاروں کی تربیت کرسکتے ہیں اور اسی طرح ان کے لئے سہولت کاروں کا کام بھی کرسکتے ہیں۔ ان زبانوں کے بولنے والے لوگ ذیادہ تر شمالی علاقوں میں بستے ہیں۔ ان علاقوں سے سردیوں میں کثیر تعداد میں لوگ نقل مکانی بھی کرتے ہیں اور مئی کے مہینے میں واپس اپنے علاقے آتے ہیں۔ ایسے میں ان علاقوں میں مردم شماری مئی کے اخر میں شروع کیا جانا بہتر ہے۔
زبانوں پر معلومات کے لئے مذکورہ ادارے اتھنولاگ کو بطور حوالے کے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مقامی محققین کی مدد لے کر حکومت درکار وسائل کے اندر انے والی مردم شماری میں پاکستان میں بسنے والے ان پاکستانیوں کو درست طریقے سے اپنے رہکارڈ میں لاسکتی ہے۔
اس بار امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں ان لوگوں کو اس گمنام ’دیگر ‘ کے خانے سے ہٹا کر ان کو ان کا جائز خانہ یعنی مقام دیا جائے گا