ببرک کارمل جمالی
منگل 27 فروری 2018
دنیا میں سیکڑوں زبانوں کے معدوم ہونے کا خطرہ درپیش ہے جن کو بچانے کےلیے کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
21 فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد مادری زبانوں کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کرنا تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کی ساری زبانیں مادری زبان نہیں ہوتیں۔ مادری زبان سے محبت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسری زبانیں بولنے والوں سے نفرت کی جائے۔ ویسے بھی دنیا کی ہر زبان کی تخلیق اور ارتقا میں انسانوں کی ہزاروں سال کی محنت اور تخلیقی صلاحیتیں کار فرما ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں 1999 سے مادری زبانوں کا عالمی دن منایاجاتا ہے۔ پنجابی، سندھی، سرائیکی، بنگالی، پشتو، بلوچی اور براہوی پاکستان کی قدیم ترین زبانیں ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی یہی زبانیں ہیں۔ مادری زبانوں کو بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ لوگ اپنی مادری زبان میں لکھا پڑھا اور بولا کریں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھ سکیں اور ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوجائیں۔
اس وقت بلوچستان میں بلوچ قوم کے سرداروں اور نوابوں کی اکثریت بلوچی زبان کے بجائے سندھی اور سرائیکی زبان بولتی ہے۔ جمالی، جتوئی، لغاری، زرداری، چانڈیو، بلیدی اور کھوسہ قبائل کے سردار و نواب اپنے گھر میں بلوچی کے بجائے سرائیکی زبان بولتے ہیں جبکہ رند اور مگسی قبائل کے سردار بلوچی کے بجائے اپنے گھر میں سندھی زبان بول بولتے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مادری زبان کے بجائے دوسری زبانوں کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 6912 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 516 ناپید ہوچکی ہیں۔ فروری میں مادری زبانوں کے عالمی دن کا اس سال بیسواں موقعہ تھا۔ دنیا میں سیکڑوں زبانوں کے معدوم ہونے کا خطرہ درپیش ہے جن کو بچانے کےلیے کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اسی ضرورت کو پورا کرنے کےلیے بلوچستان میں مادری زبانوں پر دو روزہ پروگرام ڈیرہ مراد جمالی میں رکھا گیا۔ بہت سے قلم کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچی زبان کو بھی اپنے اندر سے ہی خطرہ ہے اور وہ بلوچ قوم کے اکابرین یعنی سردار، نواب اور دولت مند افراد مادری زبانوں سے دور بھاگتے ہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ دوسرے قوموں کے رہن سہن اور طرز زندگی پر حکمران اور اشرافیہ طبقے کا اثر بھی ہوتا ہے۔ اس دو روزہ تقریب میں بلوچستان کے معروف ادباء اور شعرا سمیت کراچی سے بھی مہمان ادیبوں اور شاعرات نے شرکت کی۔ اس دوران افتتاحی اور اختتامی اجلاس سمیت 5 مختلف نشستوں کا انعقاد ہوا جب کہ مشاعرہ اور کلچرل محفلِ مشاعرہ کا بھی اہتمام کیا گیا۔
پہلے روز کے سیشنز میں نصیرآباد کے ادبی پس منظر پر بات کی گئی جس میں علاقے میں تخلیق ہونے والا بلوچی، براہوی، سندھی، سرائیکی، فارسی اور اردو ادب زیربحث آیا۔ ان سیشنز میں پناہ بلوچ، شمس ندیم، ایوب صابر، آغا نیاز مگسی، ناطق ناڑی وال اور ڈاکٹر لیاقت سنی نے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ مغل حکمران جب تک اقتدار میں رہے، اقلیت میں ہونے کے باوجود ان کی وجہ سے فارسی زبان سرکاری اور عوام میں مقبول تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مغل حکمرانوں کی مادری زبان فارسی تھی تو عوام بھی اپنے حکمرانوں کی زبان اپنانا چاہتے تھے۔ جب ان پر زوال آیا تو عوام کی نظروں میں بھی اس کی اہمیت یکدم کم ہوگئی۔
کچھ مقررین کا خیال تھا بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری و علاقائی زبان میں دی جائے اور ثانوی و اعلی تعلیم قومی زبان میں دی جائے۔ اور مادری وعلاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعراء و محققین کو سرکاری سرپرستی دی جائے، ان کی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیا جائے اور ان کےلیے بھی سرکاری خزانے کے دروازے کھولے جائیں تاکہ دیگر عالمی زبانوں کی کتب کو تیزی سے قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تاکہ بلوچ اقوام اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنا لوہا منوا سکیں۔
دوسرا سیشن یادِ رفتگاں سے متعلق تھا جس میں نصیرآباد کی علمی و ادبی شخصیات جیسے کہ محمد حسین عنقا، ملک محمد پناہ، ملک محمد رمضان، محمد صالح درد مینگل، عبدالصمد فیضلانڑیں کو یاد کیا گیا۔ اس حوالے سے محسن فگار، افضل مراد، ملک محمد ریاض جوہر بنگلزئی اور نصیر احمد بلوچ نے خوب بحث کی۔ بحث کے دوران مقررین نے کہا کہ مادری زبانوں کے ہر ہرلفظ اور جملے میں قومی روایات، تہذیب و تمدن، ذہنی و روحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں۔ اسی لیے انہیں ہمارے مادی اور ثقافتی ورثے کی بقاء اور اس کے فروغ کا سب سے مؤثر آلہ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹادو تو قوم کی روایات، اس کی تہذیب، اس کی تاریخ، اس کی قومیت، سب کچھ مٹ جائے گا۔
اس موقعے پر افضل مراد نے کہا کہ مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج و اشاعت میں مدد ملتی ہے، زبان کی آبیاری ہوتی ہے، نیا خون داخل ہوتا ہے اور پرانا خون جلتا رہتا ہے جس کے صحت بخش اثرات اس زبان پر مرتب ہوتے ہیں۔
دوسرے روز کے پہلے سیشن میں نصیرآباد ریجن کے صاحبِ کتاب ادیبوں نے اپنا اور اپنی تصانیف کا تعارف پیش کیا جن میں عابد میر، پناہ بلوچ، شمس ندیم، جوہر بنگلزئی، نور پرکانی، غفور ساسولی، اسرار شاکر، ناطق ناڑی وال اور ضیاء الحق فراز شامل تھے۔ اس دوران بچوں کے ادب پر بات کی گئی۔ مقررین نے کہا کہ مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلد نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں، انہیں ہضم کر لیتے ہیں اور پوچھنے پر بہت روانی سے انہیں دوہرا کر سنا دیتے ہیں۔ مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خوشی خوشی تعلیمی اداروں میں بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور چھٹی کے بعد اگلے دن کا بے چینی سے انتظارکرتے ہیں۔ معلم کےلیے بھی بہت آسان ہوتا ہے کہ مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دے۔ اس لیے بچوں کے ادب پر مادری زبانوں میں کام کی اشد ضرورت ہے۔ بچوں کے ادب پر عالمی سطح پر زبانوں کی تعداد اور ان کو بولنے والوں کا تناسب انتہائی غیر متوازن اور کم ہے۔
دوسرا سیشن علاقے کے ’’تاریخی، سماجی اور ثقافتی پس منظر‘‘ سے متعلق تھا۔ اس میں عابد میر نے یوسف عزیز مگسی پر، آرکیالوجی پر نور خان نواب، تعلیمی حوالے سے مولا بخش جمالی، خواتین کے حوالے سے ڈاکٹر زینت ثنا، جبکہ ادب سے ہٹ کر پٹ فیڈر تحریک کے حوالے سے صوفی عبدالخالق نے بات چیت کی۔ اس سیشن میں تاریخی پس منظر پر ڈاکٹر حفیظ جمالی نے کہا کہ مادری زبانوں کو انسان کی دوسری جلد بھی کہا جاتا ہے۔
نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام، عدالتی نظام اور دفتری نظام، سب کے سب انگریزی زبان میں ہیں۔ ہم کب تک انگریزوں کی بنائی ہوئی انگریزی کا پیچھا کریں گے؟ ہمیں اردو زبان کے فروغ کےلیے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اردو کا مواد چند سال پہلے انٹرنیٹ پر برائے نام موجود ہوتا تھا مگر اب سوشل میڈیا کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتا ہے۔ اردو زبان کو فروغ دینے کےلیے ہم سب کو کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
آخری سیشن بلوچستان کے صوفیائے کرام پر تھا جس کی صدارت ڈاکٹر حفیظ جمالی، پروفیسر حبیب یونیورسٹی کراچی نے کی۔ اس سیشن میں بلوچستان کے صوفیائے کرام پر بات کی گئی جس میں صوفی فیضل فقیر پر راقم نے مختصر بات کی جبکہ صوفی فقیر رکھیل شاہ پر محمد رفیق مغیری نے تفصیلی بات کی۔ بروہی کے عظیم شاعر تاج محمد تاجل پر حسن ناصر نے تفصیلی روشنی ڈالی جبکہ صوفی قادر بخش پر ناطق ناڑی وال نے مقالہ پڑھ کر حاضرین سے داد وصول کی۔ اس تقریب میں شرکت کےلیے کوئٹہ سے وحید زہیر، افضل مراد، ڈاکٹر حامد بلوچ، ڈاکٹر لیاقت سنی، نور خان نواب، مستونگ سے حمید عزیز آبادی، شاہ بیگ شیدا، حسن ناصر، کراچی سے حفیظ جمالی، نصر اللہ جمالی، فیروز جمالی، سردار علی جمالی، نصیب اللہ جمالی، آصف صمیم، ریحانہ روہی اور کوہِ سلیمان سے اللہ بخش بزدار تشریف لائے تھے۔
اے ڈی بلوچ اور ان کی ٹیم نے اسٹیج ڈرامہ ’’ہانی شہ مرید‘‘ بھی پیش کیا۔ تقریبات کا اختتام محفلِ بلوچی موسیقی سے ہوا، جس میں بلوچستان کے معروف لوک فنکار سبزعلی بگٹی نے اپنے فن کا مظاہرہ کرکے ادیبوں سے داد وصول کی۔