مادری زبان کو بچانا لازم ہے!

21 فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد مادری زبانوں کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کرنا تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کی ساری زبانیں مادری زبان نہیں ہوتیں۔ مادری زبان سے محبت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسری زبانیں بولنے والوں سے نفرت کی جائے۔ ویسے بھی دنیا کی ہر زبان کی تخلیق اور ارتقا میں انسانوں کی ہزاروں سال کی محنت اور تخلیقی صلاحیتیں کار فرما ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں 1999 سے مادری زبانوں کا عالمی دن منایاجاتا ہے۔ پنجابی، سندھی، سرائیکی، بنگالی، پشتو، بلوچی اور براہوی پاکستان کی قدیم ترین زبانیں ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی یہی زبانیں ہیں۔ مادری زبانوں کو بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ لوگ اپنی مادری زبان میں لکھا پڑھا اور بولا کریں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھ سکیں اور ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوجائیں۔

اس وقت بلوچستان میں بلوچ قوم کے سرداروں اور نوابوں کی اکثریت بلوچی زبان کے بجائے سندھی اور سرائیکی زبان بولتی ہے۔ جمالی، جتوئی، لغاری، زرداری، چانڈیو، بلیدی اور کھوسہ قبائل کے سردار و نواب اپنے گھر میں بلوچی کے بجائے سرائیکی زبان بولتے ہیں جبکہ رند اور مگسی قبائل کے سردار بلوچی کے بجائے اپنے گھر میں سندھی زبان بول بولتے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مادری زبان کے بجائے دوسری زبانوں کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 6912 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 516 ناپید ہوچکی ہیں۔ فروری میں مادری زبانوں کے عالمی دن کا اس سال بیسواں موقعہ تھا۔ دنیا میں سیکڑوں زبانوں کے معدوم ہونے کا خطرہ درپیش ہے جن کو بچانے کےلیے کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اسی ضرورت کو پورا کرنے کےلیے بلوچستان میں مادری زبانوں پر دو روزہ پروگرام ڈیرہ مراد جمالی میں رکھا گیا۔ بہت سے قلم کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچی زبان کو بھی اپنے اندر سے ہی خطرہ ہے اور وہ بلوچ قوم کے اکابرین یعنی سردار، نواب اور دولت مند افراد مادری زبانوں سے دور بھاگتے ہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ دوسرے قوموں کے رہن سہن اور طرز زندگی پر حکمران اور اشرافیہ طبقے کا اثر بھی ہوتا ہے۔ اس دو روزہ تقریب میں بلوچستان کے معروف ادباء اور شعرا سمیت کراچی سے بھی مہمان ادیبوں اور شاعرات نے شرکت کی۔ اس دوران افتتاحی اور اختتامی اجلاس سمیت 5 مختلف نشستوں کا انعقاد ہوا جب کہ مشاعرہ اور کلچرل محفلِ مشاعرہ کا بھی اہتمام کیا گیا۔

Leave a Reply