18 جولائی 2013
3 جون 1947ءکا منصوبہ برطانوی پارلیمنٹ میں 18 جولائی 1947ءکو بحث تمحیص کے بعد منظور ہوا جس کے کئی نکات تھے مگر انگریزوں نے اپنی روایتی بدعہدی اور بدنیتی کو حسب روایت قائم رکھتے ہوئے اس پر عملدرآمد کے وقت کانگرسی منفی طرز عمل کی سرپرستی کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کا ارتکاب کیا۔ معاملہ خواہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اثاثوں کی تقسیم کا ہو یا افواج کی تقسیم کا۔ دونوں ملکوں کے درمیان قائم کی جانے والی سرحدات کا ہو یا مسلمانوں کی جان و مال ہندوستان میں موجود ریاستوں کے الحاق اور پنجاب کی تقسیم اور مسلم اکثریتی علاقوں کی پاکستان میں شمولیت کا دانستہ طور پر انہوں نے سو فیصد ہندو¶ں کی حمایت اور ان کے مفادات کا تحفظ کیا۔ اس سلسلہ میں ان کے معاندانہ اور جانبدارانہ طرز عمل کا عملاً ثبوت کشمیر کے مسئلہ پر سامنے آیا۔ قانون کی رو سے ہر ریاست کو بلاامتیاز آزادی دی گئی کہ وہ دونوں نئی مملکتوں پاکستان یا بھارت کسی کے ساتھ چاہیں الحاق کر سکتی ہیں۔ جونا گڑھ‘ مناوادر‘ حیدر آباد دکن‘ جسلمیر‘ بیکانیر کئی ریاستیں اپنی قسمت کا آزادانہ فیصلہ کرنا چاہتی تھیں لیکن ما¶نٹ بیٹن نے بھارتی قیادت کا ان ریاستوں کو ملحق کرنے کے لئے‘ کھل کر ساتھ دیا حتیٰ کہ ریاستی مشینری معہ آرمی ایکشن کی حمایت خصوصاً جونا گڑھ اور حیدر آباد پر قبضہ کی حمایت کی۔ کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی تھی مگر بدقسمتی سے حکمران ہری سنگھ ڈوگرہ غیر مسلم تھا اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ چودھویں صدی میں کشمیر پر ایک مسلم خاندان کی حکومت تھی اور سولہویں صدی کے اواخر میں اکبر اعظم نے کشمیر کو مغل سلطنت کا حصہ بنایا۔ کشمیر میں جگہ جگہ مغلوں کی یادگاریں‘ جن میں شالیمار باغ‘ نشاط باغ اور ہری پربت فورٹ مشہور ہیں۔ موجود ہیں۔ مغل دور زوال میں احمد شاہ ابدالی نے ریاست کو اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ مگر جلد ہی کشمیر سکھوں کے زیر اثر آیا اور سکھوں کے زوال کے بعد ریاست کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے معاہدہ امرتسر 1846ءکے تحت گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ صرف 75 لاکھ روپے سکہ نانک شاہی کے عوض دو قسطوں میں رقم کی ادائیگی پر فروخت کر دیا اور اسی خاندان کا ہری سنگھ ڈوگرہ ریاست کا حکمران تھا۔ لہٰذا 3جون 1947ءکے منصوبہ کے مطابق یہ فیصلہ ہوتا تھا کہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ یا بھارت کے ساتھ الحاق ہو گا۔ ہری سنگھ کے مسلم رویہ کے بارے میں لارڈ برڈوڈ نے لکھا ہے ”اسے اپنے 23 سالہ دور اقتدار میں کبھی بھی ریاست کے مسلمانوں کی فلاح و بہبود سے دلچسپی نہ ہوئی‘ اس نے اپنے پیشروں کی طرح ٹیکسوں اور مالگزاری کا اتنا بوجھ لاد دیا تھا کہ کشمیری مسلمان اس کے تلے دب کر رہ گئے تھے کشمیر کی کوئی سرحد بھارت سے نہیں ملتی تھی لیکن ما¶نٹ بیٹن کے زیر اثر ریڈ کلف کے مطابق جو انصافیاں کی گئیں۔ انہوں نے بھارت کو الحاق کی سہولت فراہم کر دی۔ یعنی بھارت کو ایسے علاقے بخش دئیے گئے جن کی بدولت کشمیر کی سرحد بھارت سے مل گئی۔ وی پی نین نے بھی اعتراف کیا تھا کہ ”ریڈ کلف ایوارڈ سے ریاست کا سڑک کے راستے بھارت سے رابطہ ہو گیا۔ہندوستان یعنی بھارت کو ایسے علاقے بخش دئیے گئے جن کی بدولت کشمیر کی سرحد بھارت سے مل گئی۔ وی پی نین نے بھی اعتراف کیا تھا کہ ”ریڈ کلف ایوارڈ سے ریاست کا سڑک کے راستے بھارت سے رابطہ ہو گیا۔
ہندو انتہا پسندوں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ 1947ءکے وسط میں ہندوستان کے حالات کیا ہوں گے اور کشمیر کا مستقبل کیا ہو گا؟ لہٰذا 3 جون کے منصوبہ کے اعلان کے بعد ان انتہا پسندوں کے لیڈر ایچ ایس شرما نے مہاراجہ کشمیر کو کہا کہ ہم ریاستی مسلمانوں کی شورش کچلنے کے لئے آپ کو جوانوں اور ہتھیاروں کی مدد دینے کو تیار ہیں۔ مہاراجہ نے جواباً کہا کہ ”اگر ضرورت ہوئی تو میں آپکی پیشکش سے پورا فائدہ اٹھا¶ں گا۔“
آزادی کے دو ہفتے بعد ما¶نٹ بیٹن نے کشمیر کا دورہ کیا۔ وی پی نین اس وقت ریاستوں کی وزارت کے سیکرٹری تھے اور کشمیر کے سوال پر اہم بھارتی مہرے تھے۔ انہوں نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے تسلیم کیا ”کہ مہاراجہ کے پاس کافی وقت تھا کہ وہ جموں و کشمیر کے عوام کے نمائندوں کی کانفرنس بلاکر کوئی فیصلہ کر سکتے تھے مگر مہاراجہ کو ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں مکمل طور پر بااختیار ہے۔ خواہ عوام فیصلہ قبول کریں یا نہ کریں۔“
یہ حقیقت ہے کہ قائداعظم کی خواہش تھی کہ وہ خود کشمیر میں جاکر معاملات کو سلجھائیں مگر حکومت نے انہیں موقع نہ دیا جبکہ گاندھی نے جولائی کے آخر میں کشمیر کا دورہ کیا یکم اگست 1947ءکو سرینگر میں مہاراجہ اور وزیراعظم سے تفصیلی گفتگو کی 3 اگست کو گاندھی نے کشمیر کے مستقبل کے بارے میں بیان دیا ”اسکا فیصلہ بھی کشمیریوں کی مرضی سے کیا جائے گا۔“
یہ ظاہری بیان کبھی بھی پورا نہ ہوا۔ انگریزوں اور ہندو¶ں کی سازش رنگ لائی اور مہاراجہ سنگھ نے گاندھی‘ نہرو کے درپردہ ایما اور حکومتی سرپرستی کی بدولت کشمیر کا بھارت کے ساتھ‘ غیر اخلاقی غیر قانونی اور عوام کے جذبات کے برعکس‘ الحاق کا اعلان کیا۔ ما¶نٹ بیٹن کی جانب سے الحاق کی منظوری انگریزوں کی روایتی بدعہدی اور بدنیتی کی بدترین مثال تھی اور یہ حقیقت ہے کہ انگریز تو ہندوستان سے چلے گئے مگر وہ جاتے جاتے دونوں ممالک کے درمیان مستقل تنازعہ کا ایسا بیج بو گئے کہ خطہ میں پائیدار امن ناپید ہو کر رہ گیا ہے۔