محمد لقمان
22 فروری 2018ء
21 فروری 1952 کو اس وقت کے مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ کی گلیوں اور بازاروں میں نوجوان بنگالی زبان کو اردو کے ساتھ پاکستان کی دوسری قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ حکومت نے بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ تو نہ دیا مگر پولیس کو گولی چلانے کا حکم ضرور دیا۔ کئی نوجوان پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
یہی وہ واقعہ تھا جس کے بعد مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی سوچ نے جنم لیا۔ مسلم لیگ کا صفایا ہوا ۔۔۔جگتو فرنٹ نے کامیابی حاصل کی۔ بعد میں عوامی لیگ بن گئی اور ماں بولی تحریک مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں ایک بڑا سبب ثابت ہوئی۔ 1952 کی تحریک کے بعد پاکستان میں اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی سرکاری زبان کا درجہ حاصل رہا۔ مگر گربہ کشن روز اول کے مصداق دیر سے ہونے والے اقدامات تالیف قلب کی شکل نہ اختیار کرسکے۔ کاش اس وقت ہماری قیادت بنگالیوں کا یہ مطالبہ مان لیتی تو 1971 میں ملک دولخت نہ ہوتا۔
کل جو 21 فروری کو ماں بولی کا عالمی دن منایا گیا ہے یہ انہی نوجوانوں کی وجہ سے تھا۔ 1999 میں کینیڈا کے شہر ونکوور میں رہنے والے ایک بنگالی رفیق الاسلام نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو خط لکھا اور عالمی سطح پر یہ دن منانے کی درخواست کی۔ جس کے بعد اقوام متحدہ نے 21 فروری کو ماں بولی کا عالمی دن قرار دے دیا۔ اب ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے۔ کیا ہم نے بنگالی زبان کو قومی زبان قرار دینے سے کوئی سبق حاصل کیا۔ بظاہر ایسا نظر نہیں آتا۔
اس وقت پاکستان میں ساٹھ سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لیکن انگریزی ہی پاکستان کی سرکاری زبان ہے جبکہ صرف اردو ہی قومی زبان ہے۔ سندھی اور پشتو کے علاوہ کسی علاقائی زبان میں آپ کو بہت کم اخبارات ملتے ہیں۔ پنجابی جس کو ملک کی آدھی سے زائد آباددی بولتی ہے۔۔اس کو آہستہ آہستہ دیس نکالا ملتا جار رہا ہے۔ اس ماں بولی کی دشمن پنجابی مائیں ہیں جو اس کو بدتمیزی کی زبان قرار دے کر اپنے بچوں کو اردو اور انگریزی کی طرف مائل کر رہی ہیں۔ اردو یقیناً قومی رابطے کی زبان ہے۔ مگر بچوں کو ان کی مادری زبان سے دور رکھنا کوئی دانشمندی نہیں۔ ہمارے برعکس سرحد پار پنجابی اپنے بچوں کو ہندی کے ساتھ ساتھ پنجابی بھی سکھاتے ہیں۔ اور وہاں ہر سال درجنوں پنجابی زبان میں فلمیں ریلیز ہوتی ہیں اور بھارت اور پاکستان میں یکساں مقبولیت پاتی ہیں۔
Source : https://www.mukaalma.com/22904