مصنف منیر عباسی • 22/04/2010 • خیبر پختونخوا, سیاست •
اپریل 2010 کا مہینہ ایبٹ آباد کے لئے قیام پاکستان سے لے کر اب تک سب سے خونی ثابت ہوا۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں خیبر پختونخوانام کے خلاف ہونے والے مظاہرے پر تشدد ہو گئے، پولیس نے مظاہرین پر گولی چلائی اور 10 سے 12 افراد لقمہ اجل بن گئے۔
یوں صوبہ ہزارہ کی تحریک میں ایک نئی جان پڑ گئی۔
صوبہ ہزارہ کی تحریک 1987 سے آصف ملک ایڈووکیٹ مرحوم چلا رہے تھے۔ کئی مرتبہ قید بند کی تکالیف اٹھائیں، مگر کامیاب نہ ہوسکے اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ سارے سیاست دان جو آج صوبہ ہزارہ کی تحریک کی قیادت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں، یہیں رہتے رہے ہیں اور آصف ملک مرحوم سے واقف تھے۔ مگر ماضی میں شائد اس تحریک میں اتنی کشش نہ تھی جتنی آج ہے۔ لہٰذا مرحوم کو خود ہی جدو جہد کرنا پڑی۔ مزے کی بات میں نے کسی سیاسی لیڈر کی طرف سے مرحوم کا ذکر خیر بھی نہیں سُنا۔
بہر حال، یہ تو ایک اجمالی خلاصہ تھا، اب ذرا کچھ اور نکات کی جانب بڑھتے ہیں۔
صوبہ ہزارہ کے حامیوں کی طرف سے ایک بہت زوردار قسم کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پشاور کے پختون بالخصوص اور پختون بالعموم متعصب ہوتے ہیں اور یہ لوگ جب بھی اپنے کسی کام سے صوبائی دارالحکومت گئے، انھیں ہمیشہ اس تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔
مگر گزشتہ کچھ دنوں میں میں نے دیکھا کہ ایبٹ آباد میں پشتو ٹی وی چینل “اے وی ٹی خیبر ” کی نشریات اس تحریک کے دوران بند کروا دی گئیں، پختونوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور بہت سے منچلے اپنے طور پر یہ کہتے پائے گئے کہ پٹھان اٹک پار چلے جائیں۔ اگر چہ تحریک کے قائدین نے ان باتوں میں اپنے قول و فعل سے کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی، مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ سیاسی رہنما عوامی مزاج کے مطابق اپنا مؤقف تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ لہذا اگر ان جذبات میں خدا نخواستہ شدت آ گئی تو کون جانے کل کونسا سیاسی لیڈر ایسا کوئی بیان داغ دے؟
اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ تعصب کسی قوم کی میراث نہیں ہے۔ اللہ نے یہ صفت ہر قوم کو اس کے مزاج کے مطابق مناسب مقدار میں دی ہے۔ اب اگر کوئی پختونوں پر متعصب ہونے کا الزام لگاتا ہے تو وہ پہلے اپنے گریبان میں جھانک لے۔
اس تحریک کے دوران بہت سے لوگ، اور سیاسی قائدین لوگوں کو یہ تاثر دیتے پائے گئے کہ اگر صوبہ ہزارہ بن گیا تو اس صوبہ کی ترقی میں تربیلا ڈیم سے ملنے والی بجلی کی رائلٹی ایک اہم کردار ادا کرے گی۔ اس بات پر بہت سے لوگ پر جوش دکھائی دیئے مگر یہ بات شائد بہت کم لوگوں کے علم میں تھی کہ قانون کے مطابق اگر ایک ڈیم ایسے دریا پر بنایا جاتا ہے جو دو صوبوں کے درمیان سرحد کا کام دیتا ہے تو رائلٹی اس صوبے کو ملے گی جس میں ڈیم کا پاور ہاؤس قائم ہوگا۔ تربیلا ڈیم کا پاور ہاؤس ٹوپی کے علاقے میں ہے جو کہ ضلع صوابی کا حصہ ہے اور یہ علاقے خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں۔
کچھ ایسے بیانات پڑھنے سننے کو بھی ملے کہ اگر ہمیں رائلٹی نہ ملی تو ہم ڈیم اڑا دیں گے!!!!!!!۔
وکی پیڈیا پر ہزارہ ڈیویژن کے بارے میں مضمون پڑھیں تو علم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے تک ہزارہ کا علاقہ بنیادی طور پر ایبٹ آباد مانسہرہ اور ہری پور پر مشتمل تھا۔ 1901 میں جب برطانوی حکومت نے شمال مغربی سرحدی صوبہ بنایا تو ان علاقوں کو پنجاب سے کاٹ کر اس صوبے کے ساتھ ملا دیا گیا۔ آج کا ہزارہ ڈویژن پانچ اضلاع پر مشتمل ہے، جن میں ہری پور، ایبٹ آباد ، مانسہرہ، کوہستان اور بٹگرام کے اضلاع شامل ہیں۔
اس علاقے کا نام ہزارہ کیوں پڑا ، اس بارے میں بہت سی روایات ہیں، امپیریل گیزیٹر آف انڈیا کے مطابق اس نام کے مآخذ پر اتفاق کم ہی پایا جاتا ہے۔
وکی پیڈیا کے مطابق ہزارہ کی آبادی 2005 تک پنتالیس لاکھ کے آس پاس تھی۔ اس آبادی میں 60 فیصد لوگ ہندکو بولتے ہیں۔ مگر، یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ پنتالیس لاکھ آبادی تمام پانچ اضلاع کی آبادی ہے اور بٹگرام میں 70 سے 80 فیصد لوگ پشتو بولتے ہیں اور کوہستان میں کوہستانی بولی جاتی ہے جو کہ ہندکو اور پشتو دونوں سے مختلف ہے۔ مانسہرہ میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، اگر انتظامی لحاظ سے دیکھا جائے تو مانسہرہ میں ایسے علاقے بھی شامل ہیں جہاں کے رہنے والے صرف پشتو پولتے ہیں اور اکثر علاقے ایسے ہیں جہاں صرف ہندکو بولی جاتی ہے۔ اس طرح اگر ان تمام اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو علم ہوتا ہے کہ ہندکو بولنے والوں کی اکثریت ایبٹ آباد، گلیات، مانسہرہ اور ہری پور کے علاقوں میں مرتکز ہے۔ اور تمام ہزارہ ڈویژن میں کوئی ایک زبان ہر جگہ نہیں بولی جاتی۔
وکی پیڈیا میں ہی ایک اور مقام پر دعوٰی کیا گیا ہے کہ ہندکو بولنے والوں کی کل آبادی 22 لاکھ سے چالیس لاکھ کے درمیان ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ہندکو بولنے والے خیبر پختون خوا ( بشمول ہزارہ) ، پشاور( کے مقامی لوگ)، پنجاب اور آزاد کشمیر میں بکھرے ہوئے ہیں۔
گویا خیبر پختون خوا کی دوسری سب سے بڑی زبان ہندکو صرف تین اضلاع میں مرتکز ہے۔ اگر زبان اور ثقافت کے اختلاف کو معیار بنا کر ہزارہ صوبہ بنا لیا جائے تو پھر اباسین ڈویژن تحریک کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہزارہ صوبہ تحریک کے آغاز کے بعد مانسہرہ کے پختون علاقوں، بٹگرام، شانگلہ اور دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والوں نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ چونکہ ہزارہ ڈویژن کا صدر مقام ایبٹ آباد بہت دور پڑتا ہے اور پھر ایبٹ آباد والوں سے زبان کا فرق بھی ہے تو اس بنا پر اباسین ڈویژن کا قیام عمل میں لایا جائے تا کہ علاقے کے مسائل جلد حل ہو سکیں۔
حوالہ
ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
He stressed that they had a genuine demand as the people of Battagram and Kohistan were facing immense hardships in coming to Abbottabad, the divisional headquarters of Hazara, as it was located at quite far away. Besides, the difference of language is also a major barrier in communication for the Pakhtuns of upper districts in the Hindko-speaking majority of Abbottabad.
یہ ربط بھی ملاحظہ فرمائیے۔ حوالہ
آفتاب احمد شیرپاؤ کا بیان جس میں انھوں نے اباسین ڈویژن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
میرے خیال میں ہزارہ صوبہ کا مطالبہ غیر منطقی ہے۔ بلا شبہ جس طریقے سے صوبے کا نام بدلا گیا وہ بذات خود متنازع ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لے۔ ہزارہ صوبے کی حمایت کرنے والوں سے میری گزارش ہے کہ وہ ایک مرتبہ ٹھنڈے دل سے اپنے دلائل پر غور کر لیں، کیونکہ ہزارہ ڈویژن کے پشتو بولنے والے اگر انھی دلائل کا استعمال کر کے اگر دوسری جانب چلے گئےا تو تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اور جس طرح سے اب وہ لوگ متحرک ہو گئے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ ہزارہ صوبہ تحریک کے ہوتے ہوئے وہ کامیاب بھی ہوجائیں گے۔
Source, http://inspire.org.pk/blog/hazara-province-an-improbability/