شاہد حمید منگل 10 ستمبر 2013
خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن کو ملک کا پانچواں صوبہ بنانے سے متعلق قراردادیں خود اے این پی کے دور حکومت میں بھی اسمبلی میں جمع ہوئی تھیں۔ فوٹو: فائل
پشاور: اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ وفاقی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے مسئلہ کے حل کے سلسلے میں بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی پالیسی اپنائی جائے گی۔
کیونکہ اے پی سی میں شریک ہونے والی اکثر پارٹیاں اسی موقف کی حامی ہیں اور وہ چاہ رہی تھیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کیاجائے کیونکہ ایک مرتبہ مذاکرات شروع ہوجائیں تو برف پگھلنے کا عمل بھی شروع ہوجائے گا جس سے مسائل کے حل کی طرف راہ خود بخود بننا شروع ہوجائے گی اوراسی طرز پر اے پی سی میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیاگیا ہے جس کے حوالے سے یہ بات تو واضح نہیں ہوئی کہ مذاکراتی عمل کیسے،کب اور کس کے ذریعے شروع ہوگا تاہم یہ بات واضح ہے کہ مذاکراتی عمل جلد یا بدیر شروع ہوجائے گا ۔
جس کے حوالے سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ملک میں امن کے قیام کی راہ ہموار ہوگی اور اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جو فوری ردعمل سامنے آیا ہے اس میں انہوں نے مذکورہ فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے ، چونکہ ابھی اے پی سی میں طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے کے حوالے سے جو فیصلہ ہوا ہے اس کے حوالے سے تفصیلات اور طریقہ کار سامنے آنا باقی ہے اس لیے اس کو دیکھتے ہوئے ہی طالبان بھی اپنی حکمت عملی کا اعلان کریں گے جس کے لیے ان کی شوریٰ کا اجلاس منعقد ہونے جا رہا ہے تاہم لگ یہی رہا ہے کہ شاید بہتری کی کوئی راہ نکل آئے۔
عسکریت پسندی کا مسلہ حل کرنے کے حوالے سے اے پی سی میں کیا جانے والا یہ فیصلہ بھی خوش آئند ہے کہ فاٹا سے متعلق معاملات کو خیبرپختونخوا کی حکومت اور مرکز مل کر طے کریں گے جو اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے اثرات براہ راست خیبرپختونخوا پر مرتب ہوتے ہیں اور خیبرپختونخوا کی جانب سے یہی مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ قبائلی علاقوں سے متعلق جو بھی فیصلہ کیاجائے اس میں خیبرپختونخوا کی حکومت کوشامل کیا جائے۔
تاکہ جو پالیسی فاٹا میں اختیا رکی جائے اسی کے تناظر میں خیبرپختونخوا میں بھی معالات کو ہینڈل کیا جائے ، چونکہ مرکز اور خیبرپختونخوا میں ایسی پارٹیوںکی حکومت ہے کہ جو دونوں عام انتخابات میں ایک دوسرے کی مخالفت میں آخری انتہاؤں تک چلی گئی تھیں اس لیے یہ امکان بھی موجود تھا کہ شاید مرکز ،خیبرپختونخوا کے ساتھ اس حد تک تعاون نہ کرے مگر یہ اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں اور مرکز نے فاٹا کے معاملہ میں صوبہ کو ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کیاہے جس سے جہاں مشترکہ کامیابی سمیٹنے کا مرکز اور صوبہ کو موقع ملے گا وہیں پر اگر اس معاملہ میں ناکامی ہوتی ہے تو اس صورت میں بھی مرکزاور صوبہ میں سے کوئی کسی پر الزام عائد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا بلکہ انھیں اس ناکامی کی ذمہ داری بھی مشترکہ طور پر لینی ہوگی اور کوئی بھی سیاسی طور پر اس معاملہ میں فائدہ نہیں لے پائے گا ۔
یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے کون سا فورم استعمال کیاجائے گاکیونکہ مولانا سمیع الحق کو اے پی سی میں نہ بلاکر ان کاپتا تو صاف کردیا گیا ہے اور اب اس معاملہ میں ایک جانب مولانا فضل الرحمٰن اور ان کا تشکیل کردہ قبائلی جرگہ نظر آرہا ہے اور دوسری جانب وہ بیوروکریٹک اور دیگر چینلز نظر آرہے ہیں جن کے ذریعے مذاکراتی عمل شروع کرنے کا امکان ظاہر کیاجا رہا ہے تاہم اگر درمیانی راستہ نکالتے ہوئے دونوں کو شامل کرکے مذاکرات شروع کیے جائیں تو شاید یہ زیادہ سود مند رہے کیونکہ جو معاملات جرگہ کے قبائلی نمائندے نہ سنبھال سکے اسے بیوروکریٹس اور ’’دیگر‘‘سنبھال لیں گے اور جو معاملات ان سے نہ سنبھالے گئے وہ قبائلی اراکین جرگہ روایات ،پختون ولی اور جرگہ کے اصولوں کے تحت کنٹرول کرلیں گے ۔
عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کے خاتمے اور گریٹر پختونستان کے تذکرے کوئی نئی بات نہیں ،ماضی میں بھی گریٹر پختونستان کا ایشو بار، بار سامنے آتا رہا اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ادھر اور ادھر کے پختونوں کو ایک اور پاکستان وافغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد جو ڈیورنڈ لائن کہلاتی ہے اسے غیر فطری تقسیم کرنے والی لکیر قراردیا جاتا رہا، تاہم جب اے این پی 2008 ء کے عام انتخابات میں جیت کر صوبہ میں حکومتی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی اور مرکز میں حکومت کا حصہ بنی تو وہی اے این پی جو ہمیشہ سے اپوزیشن اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کرتی آئی ہے وہ پرواسٹیبلشمنٹ جماعت میں تبدیل ہوگئی اور گریٹر پختونستان اور ڈیورنڈ لائن کے خاتمے کی باتیں بہت پیچھے رہ گئیں ۔
جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجا سکتا ہے کہ خود اے این پی کی حکومت میں جے یو آئی (ف)کی جانب سے جب یہ الزام عائد کیا گیا کہ اے این پی گریٹر پختونستان کے قیام کی راہ ہموار کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے صوبہ کے بعض اضلاع میں ایسے سائن بورڈز بھی نصب کیے گئے ہیں جن پر بنے نقشوں میں پاکستان اور افغانستان کے پختون علاقوں کو یکجا اور ایک ہی ملک کا حصہ بتایا گیا ہے تو خود اے این پی کے رہنماؤں نے اس وقت ان باتوں کی نہایت ہی سختی کے ساتھ تردید کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ یہ سرد جنگ کے زمانے کی باتیں ہیں جو ماضی کا حصہ بن چکی ہیں اور اے این پی کی ساری سیاست پاکستان ہی کے گرد گھوم رہی ہے۔ تاہم تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے تین ارکان کہ جن میں سے دو آزاد حیثیت میں الیکشن میں کامیاب ہوکر پی ٹی آئی کا حصہ بنے تھے۔
،نے جب خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کی قرارداد صوبائی اسمبلی میں جمع کرائی تو اے این پی بھی ایک دم سے اپنے پرانے رنگ میں سامنے آگئی ہے جس نے نہ صرف میانوالی ، اٹک اور مارگلہ تک کا پنجاب اور وفاقی دارالحکومت کا علاقہ خیبرپختونخوا میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ پھر ڈیورنڈ لائن کا معاملہ بھی اٹھے گا اور بات بہت دور تک جائے گی اور اگر صوبہ ہزارہ کے قیام کے مطالبہ پر مبنی قرارداد خیبرپختونخوا اسمبلی میں پیش ہوتی ہے تو اس صورت میں اے این پی اس ایشو پر خوب ،خوب برسے گی بھی اور گرجے گی بھی کیونکہ اس وقت اے این پی کو کسی ایسے ہی ایشو کی ضرورت تھی جس کے ذریعے وہ اپنی پرانی فارم میں واپس آسکے ۔
خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن کو ملک کا پانچواں صوبہ بنانے سے متعلق قراردادیں خود اے این پی کے دور حکومت میں بھی اسمبلی میں جمع ہوئی تھیں جن کے حوالے سے اے این پی کا موقف تھا کہ جس طرح اے این پی نے ایک طویل آئینی جدوجہد کے ذریعے خیبرپختونخوا کا حصول ممکن بنایا ہے اسی طرح اگر آئین اور قانون کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے صوبہ ہزارہ کا قیام ہوتا ہے تو اے این پی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں اور جب صوبہ کا نام تبدیل ہونے کے بعد ہزارہ دویژن میں صوبہ ہزارہ کے قیام کی تحریک بھی چلی اور گولی بھی تو اس وقت اے این پی کے اپنے وزیر قاضی محمد اسد اوررکن گوہر نواز نے صوبہ ہزارہ کے قیام کی قراردادیں اسمبلی میں جمع کرائی تھیں جن پر اے این پی کی قیادت نے کوئی غصہ نہ نکالا ۔
آج اے این پی بپھر کر سامنے آئی ہے اور اس کا سار ا زور اس با ت پر ہے کہ تحریک انصاف اپنے منشور سے ہٹ کر صوبہ ہزارہ کے قیام کے لیے کوشاں ہے اور وہ صوبہ کو تقسیم کرنے کی راہ پر چل رہی ہے حالانکہ جس اقدام کو اے این پی کل آئین اور قانون کے کھاتے میں ڈال کر ہاتھ ہولا رکھتی آئی ہے وہی انداز آج بھی اپنایاجاسکتا تھا تاہم وقت اور حالات کے بدلے ہوئے تقاضوں کے مطابق اے این پی آج کوئی رعایت برتنے کے لیے تیا رنہیں ہے اور نظر یہی آرہا ہے کہ اگر صوبہ ہزارہ کے قیام کے لیے قرارداد اسمبلی میں آئی تو اچھی خاصی دھما چوکڑی مچے گی ۔
کیونکہ ہزارہ سے تعلق رکھنے والے تمام پارٹیوں کے ارکان نے آپس میں عہد وپیماں کرلیے ہیں کہ وہ اس مرتبہ ہزارہ کو ملک کا پانچواں صوبہ بنائے بغیر پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ایسا کرنا ان کے لیے مشکل بھی ہوگا کیونکہ بہرکیف انہوں نے سیاست ہزارہ ہی میں کرنی ہے اور دوسری جانب اے این پی ان کی راہ کی دیوار بنے گی ۔ اصل امتحان تو تب شروع ہوگا جب حکومت اور اپوزیشن میں شامل بعض دیگر جماعتیں بھی اسی انداز میں صوبہ ہزارہ کے قیام کی مخالفت میں کھل کر میدان میں نکلیں گی اور دوسری جانب جب صوبہ ہزارہ بنے گا تو سرائیکی صوبہ کا معاملہ بھی اٹھے گا اور پھر ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کو بھی اس میں شامل کرنے کا ایشو سامنے آئے گا، گویا بہت سی دھول اٹھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔