23 اپريل 2013
عام انتخابات کیا آئے ہزارہ ڈویژن کے تمام بڑے لیڈر تحریک صوبہ ہزارہ کے سربراہ بابا حیدر زمان کو اکیلا چھوڑ کر مرکزی سیاسی جماعتوں کی چھتر چھایہ تلے الیکشن لڑنے چلے گئے۔
گذشتہ اٹھارہ برس سے مسلسل الیکشن ہارنے والے بابا حیدر زمان کو بھلا ان کے جانے سے کیا فرق پڑتا وہ نہ صرف خود قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں بلکہ ہزارہ ڈویژن کی قومی اسمبلی کی مزید تین نشستوں اور صوبائی اسمبلی کی دس نشستوں پر ان کے امیدوار ٹرک کے انتخابی نشان پر حصہ لے رہے ہیں۔
تقریباً ایک کروڑ آبادی اور قومی اسمبلی کے سات اور صوبائی اسمبلی کے اکیس حلقوں والے ہزارہ ڈویژن میں ان انتخابات نے عجیب رخ اختیار کیا ہے اور علیحدہ صوبہ بنانے کی تحریک اپنے مرکز سے ہٹ کر ایک نسبتاً وسیع دائرے میں پھیل گئی ہے۔
ہزارہ تحریک کو عروج سنہ دوہزاردس میں اس وقت ملا جب صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخواہ رکھا گیا اور ایبٹ آباد مانسہرہ اور ہری پور سمیت جگہ جگہ مظاہرے ہوئے اور سات افراد ہلاک بھی ہوئے۔
تمام مقامی لیڈر اپنی اپنی جماعتی وابستگیاں بالائے طاق رکھ کر تحریک میں پیش پیش تھے اور سب کا لیڈر تھا ۔۔۔ بابا حیدر زمان۔۔۔
نواز شریف علاقے میں چاہتے ہوئے بھی جلسہ عام سے خطاب نہ کرسکے تھے۔پیپلز پارٹی مسلم لیگ نون اور اے این پی جیسی پارٹیوں کی مقبولیت کا گراف گر چکا تھا۔
اس وقت سے لے کر حالیہ انتخابات تک کو ایسا لمحہ نہیں تھا جب گوہر ایوب خان سے لے کر کیپٹن صفدر اور سردار مہتاب عباسی سمیت کوئی بھی ہزارہ صوبہ تحریک کے خلاف ایک لفظ بھی بول پائے۔
حالات ایسے بن چکے تھے کہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ نون ،تحریک انصاف ہو یا جے یو آئی کسی بھی جماعت کا مرکزی لیڈر ہزارہ صوبہ تحریک کے خلاف ایک لفظ بولنے کو تیار نہ ہوتا تھا۔
لیکن پھر عام انتخابات کا اعلان ہوا اور بظاہر تحریک کے غبارے سے ہوا نکل گئی، بابا حیدر زمان نے پارٹی رجسٹر کروالی اور تمام تگڑے امیدوار مرکزی سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ لے کر بابا حیدر زمان کے ٹرک سے اتر گئے۔
با با حیدر زمان سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اچھا ہوا یہ لوگ تحریک کو چھوڑ گئے، انہوں نے ہزارہ کے عوام کو دھوکہ دینے والے اپنے لیڈر نہیں چھوڑے بلکہ ہزارہ کے عوام کو چھوڑ دیا۔
ہزارہ ڈویژن کے قائد نے توقع ظاہر کی کہ لوگ ان کے امیدواروں کو ووٹ دے کر کامیاب کرائیں گے کیونکہ ان کے بقول مرکزی پارٹیوں کے رہنماؤں نے پانچ برس پارلیمنٹ میں گزارنے کے باوجود ہزارہ صوبے کے حق میں کوئی جدوجہد نہیں کی بلکہ وقت آنے پر خیبر پختونخواہ کے حق میں دستخط کرکے ہزارہ کے عوام سے غداری کی۔
با با حیدر کے حق میں لگنے والے ایک پوسٹر پر لکھا تھا۔
’غداروں کی موت ۔۔صوبہ ہزارہ کو ووٹ
با با ہزارہ دی پہچان۔۔۔۔ٹرک غیرت دا نشان‘
باباحیدرزمان کوالیکشن میں اکیلا چھوڑنے والوں کی یہ جرات تو بہرحال نہیں ہے کہ وہ ہزارہ تحریک کے خلاف کھل کر نعرہ لگائیں البتہ ان میں سے بیشتر با با حیدر زمان کا احترام کرتے نظر آئے۔
حال ہی میں مسلم لیگ نون میں شامل ہونے والے گوہر ایوب خان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ با با جی بہت قابل احترام ہیں اور ہم ان کی جدوجہد میں ان کے ساتھ ہیں۔
گوہر ایوب خان نے کہا کہ انہوں نے مسلم لیگ نون میں شمولیت کے وقت نواز شریف سے صرف یہ مطالبہ کیا تھا کہ صوبہ ہزارہ کا قیام اپنے منشور میں شامل کیا جائے اور ایسا ہوگیا اور اب اس تحریک کو بہت فائدہ پہنچے گا۔
بڑی پارٹیوں کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں کا کہنا ہے کہ تحریک صوبہ ہزارہ کی ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے امیدوار چند ہوتے جو بڑی پارٹیوں کے مقابلے میں کچھ نہ کر پاتے جبکہ بڑی پارٹیوں کے کامیاب امیدوار اپنی جماعت کی طاقت پر صوبے کے قیام کے لیے بہت کچھ کروا سکتےہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دور سے لگتاہے کہ انتخابات میں تحریکِ صوبہ ہزارہ کو بڑے جاگیردار اور قبائیلی سردار چھوڑ گئے ہیں لیکن اندر کی بات یہ ہے کہ تحریک کی جدوجہد کام دکھاگئی ہے اور ووٹ کی خاطر قومی لیڈر ہزارہ کی بات سننے پر مجبور ہوئے ہیں۔
گوہر ایوب کے صاحبزادے عمر ایوب نے کہا ہے کہ حکومت کسی کی بھی بنے لیکن نئی پارلیمنٹ سے ایک مہینے کے اندر صوبہ ہزارہ کے حق میں قرارداد لائی جائے گی۔
Source, http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/04/130422_elections_2013_hazara_province_rk