ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم
صحافت عربی زبا ن کا لفظ ہے جو ’صحف‘ سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی کتاب یا رسالے کے ہیں۔ یعنی ایسا مطبوعہ مواد، جو مقررہ وقفوں کے بعد شائع ہوتا ہے صحافت کہلاتا ہے۔ اردو اور فارسی میں یہی اصطلاح رائج ہے جبکہ انگریزی میں اسے Journalism کہا جاتا ہے۔ جو ’’جرنل‘‘ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی روزانہ حساب کا بہی کھاتا یا روزنامچہ کے ہیں ۔جنرل کو ترتیب دینے والے کے لئےJournalist یا صحافی کی اصطلاح رائج ہے۔ ایسے صحافی جو اس پیشہ کو مکمل طور پر اپناتے ہیں یا اسے ذریعہ روزگار بناتے ہیں انہیںWorking Journalist کہا جاتا ہے۔ جو صحافی جزوقتی طور پر کام کرتے ہیں یا کسی ایک اخبار سے وابستہ نہیں رہتے بلکہ مختلف اخبارات میں مضامین، فیچر، کالم لکھتے ہیں وہ آزاد صحافی (Freelance Journalist) کہلاتے ہیں۔
صحافت کی جامع تعریف بیان کرنا مشکل کام ہے۔ کچھ صحافیوں اور اساتذہ نے صحافت کی تعریف بیان کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ مختلف انسکائیکلوپیڈیا بھی صحافت کی تعریف یا مفہوم درج ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں صحافت کے معنی اس طرح دیئے گئے ہیں۔ ’’جدید عربی میں اخبار کے لئے ’’جریدہ‘‘ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ اس کا مترادف صحیفہ ہے جو بصورت واحد کم استعمال ہوتا ہے لیکن اس کی جمع ’’صحف‘‘ کا استعمال جرائد کی بہ نسبت عام ہے۔‘‘اردو انسائیکلوپیڈیا (جلد سوم) میں صحافت کا مفہوم یوں درج ہے:۔’’اخبارات و رسائل اور خبر رساں اداروں کے لئے خبروں اور خبروں پر تبصروں وغیرہ کی تیاری کو صحافت کا نام دیا جاتا ہے یوں تو صحافت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ، لیکن جدید دور کی مطبوعہ صحافت کے فن نے پچھلے تین سو سال میں مختلف منزلوں سے گذر کر موجودہ شکل اختیار کی ہے۔‘‘انسائیکلوپیڈیا اآف برٹانیکا کی پانچویں جلد میں جرنلزم کی تعریف ان لفظوں میں بیان کی گئی ہے۔
\”The profession of gathering, writing and editing the news. As observers, reporters and commentrators on the rest of the society, journalist enjoy unique status that amply justifies their occassinal designation as the fourth state\”
ایکسپلورنگ جرنلزم (Exploring Jounralism) کے مصنفین ای اولزلے اور کیمپ بیل نے صحافت کی تعریف نہایت اختصار کے ساتھ یوں بیان کی ہے۔
’’صحافت‘‘ جدید وسائل ابلاغ کے ذریعہ عوامی معلومات، رائے عامہ اور عوامی تفریحات کی باضابطہ اور مستند اشاعت کا فریضہ ادا کرتی ہے۔‘‘
بقول سید اقبال قادری کہ ’’صحافت ایک ہنر ہے ایک فن ہے یہ ایسا فن ہے جس میں تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال ہوتا ہے۔‘‘ عموماً لوگ صحافت کو ادب کے دائرے سے باہر ہی رکھتے ہیں لیکن یہ ادب کا ہی ایک حصہ ہے۔ ادب اور صحافت کے درمیان ایک واضح خط ہوتے ہوئے بھی کئی ایک امور میں دونوں مشترک ہیں۔ دونوں کا بنیادی مقصد ابلاغ ہے۔ اس لئے برنارڈشاہ نے صحافت کی مختصراً تعریف یوں بیان کی ہے۔
\”All great literature is Journalism\”
اعلیٰ ادب دراصل صحافت ہے۔ قرب زمانی اور تازگی صحافت کی جان ہے۔
مہاتھیو آرنالڈ صحافت سے متعلق اس طرح رائے دیا ہے۔
\”journalism si Literature but in a Hurry\”
اعلیٰ ادب ہی صحافت ہے اور یہ عجلت میں لکھا گیا ادب ہے۔ صحافت کے ابتدائی دور میں ادب اور صحافت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزم تھے۔ ادبی شہ پاروں کے ذریعہ صحافت کا کام لیا جاتا تھا۔ جدوجہد آزادی کے دوران لکھا گیا ادب، صحافت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے اسی لئے لارڈکینیگ نے اس دور کی صحافت پر یوں رائے دی ہے۔
’’اس بات کو لوگ نہ تو جانتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں کہ گذشتہ چند ہفتوں میں دیسی اخباروں نے خبریں شائع کرنے کی آڑ میں ہندوستانی باشندوں کے دلوں میں دلیرانہ حد تک بغاوت کے جذبات پیدا کردیئے ہیں۔ یہ کام بڑی مستعدی، چالاکی اور عیاری کے ساتھ انجام دیا گیا۔‘‘
سرسید احمد خان کو اردو صحافت کا امام کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے اخباروں کے ذریعہ صحافت اور ادب دونوں کی خدمت کی۔ سرسید کے نزدیک صحافت ایک خدمت ہے اور ادب سماج کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ انہوں نے نہ صرف سوچ و فکر میں تبدیلی پیدا کی بلکہ سماجی طور پر ایک بہت بڑا انقلاب برپا کیا۔ اخبار سائنٹفک سوسائٹی اور تہذیب الاخلاق کو صرف اور صرف قوم کی اصلاح اور خدمت کے لئے استعمال کیا۔ انہوں نے صحافت سے متعلق اپنا نقطہ نظر یوں واضح کیا ہے:
’’سات برس تک ہم نے بذریعہ اس پرچے کے اپنی قوم کی خدمت کی۔ مذہبی بے جا جوش سے جس تاریک گڑھے میں وہ چلی جاتی تھی اس سے خبردار کیا۔ دنیاوی باتوں میں جن تاریک خیالات کے اندھیرے میں وہ مبتلا تھی اس کو روشنی دکھائی۔۔۔ قومی ہمدردی، قومی عزت، سیلف آنر یعنی عزت کا آپ خیال اگر ہم نے اپنی قوم میں پیدا نہیں کیا تو اس لفظوں کو ضرور اور زبان کےعلم وادب میں داخل کیا۔ ہم نے کچھ کیا ہو نہ کیا ہو مگر ہر طرف سے تہذیب و شائستگی کا غلغلہ سنا۔ قومی ہمدردی کی صداؤں کا ہمارے کانوں میں آنا، اردو زبان و ادب کے علم و ادب کا ترقی پانا، یہی ہماری مرادیں تھیں جن کو ہم نے بھرپایا۔‘‘
مولانا ظفر علی خان نے بھی صحافت کو ملت و قوم کی خدمت کے لئے منتخب کیا۔ اخبار ’’زمیندار‘‘ کی شہرت کا یہ حال تھا کہ سرحد پر لوگ ایک آنہ دے کر خریدتے تھے اور ایک آنہ دے کر پڑھواتے تھے۔ جب کہ مولانا محمد علی جوہر نے کافی غوروخوض کے بعد صحافت کو ملک و قوم کی خدمت کا ذریعہ بنایا۔ وہ صحافت سے متعلق اپنے نظریہ کی یوں وضاحت کرتے ہیں:
’’صحافت سے میری غرض صحافت نہیں ہے۔ ملک و ملت کی خدمت ہے اور اگر ایک مختصر مضمون سے صحیح طور پر ملک و ملت کی رہنمائی ہوسکتی ہے تو میں وہ بھی لکھ سکتا ہوں اور لکھوں گا۔ اگر انیس نہیں اڑتیس کالموں کے مضمون سے صحیح رہنمائی ہوسکتی ہے تو میں اتنا طویل مضمون لکھ سکتا ہوں اور ضرور بالضرور لکھوں گا۔ غرض ملک و ملت کی خدمت ہے جس طرح بہترین طریقے پر ملک و ملت کی خدمت ہوسکے گی انشاء اللہ کی جائے گی۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد نے صحافت کو ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ صحافت کی راہ انہوں نے تجارت اور منفعت کی نیت سے اختیار نہیں کی تھی بلکہ وہ قومی اور ملی بیداری پیدا کرنے کے متمنی تھے۔ صحافت سے متعلق ان کا واضح نقطہ نظر ملاحظہ ہو:
’’ہم اس بازار میں سودائے نفع کے لئے نہیں بلکہ تلاش زیاں و نقصان میں آئے ہیں۔ صلہ و تحسین کے لئے نہیں بلکہ نفرت و دشنام کے طلب گار ہیں۔ عیش کے پھول نہیں بلکہ خلش و اضطراب کے کانٹے ڈھونڈھتے ہیں۔۔۔ ہمارے عقیدے میں تو جو اخبار اپنی قیمت کے سواء کسی انسان یا جماعت سے کوئی اور رقم لینا جائز رکھتا ہے وہ اخبار نہیں بلکہ اس فن کے لئے ایک دھبہ ہے اور سر تا سر عار ہے۔ ہم اخبار نویسوں کی سطح کو بہت بلندی پر دیکھتے ہیں اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فرض ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں۔ پس اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہئے اور چاندی سونے کا سایہ بھی اس کے لئے سم قاتل ہے۔ جو اخبار نویس رئیسوں کی فیاضیوں اور امیروں کے عطیوں کو قومی عطیہ اور اسی طرح کے فرضی ناموں سے قبول کرلیتے ہیں وہ بہ نسبت اس کے اپنے ضمیر اور نورایماں کو بیچیں۔ بہتر ہے کہ دریوزہ گری کی جھولی گلے میں ڈال کر اور قلندروں کی کشتی کی جگہ قلمداں لے کر رئیسوں کی دیوڑھیوں پر گشت لگائیں اور ہر گلی کوچہ ’’کام ایڈیٹر کا‘‘ کی صدا لگا کر خود اپنے تئیں فروخت کرتے رہیں۔‘‘
اخبار ’’پرتاپ‘‘ کے مدیر مہاشہ کرشن کا شمار اردو کے کامیاب صحافیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے فرنگی حکومت کے خلاف اپنے اخبار کو استعمال کیا۔ اس اخبار کی خبریں بڑی ولولہ انگیز ہوتی تھیں۔ وہ صحافت سے متعلق اپنے نظریے کو یوں پیش کرتے ہیں:
’’اخبار نویس، خبر فروش یا ایک عام دوکاندار کی طرح نہیں ہوتا ہے اس کا خبریں بیچنے کا رنگ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کاز کے لئے اپنی زندگی وقف کردیتا ہے۔ اس پر جبر و استبداد کے خلاف آواز بلند کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسے ہمیشہ مقہور و مجبور کی ترجمانی کرنی چاہئے اور ضرورت پڑنے پر اسے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ عوام کی تکلیفیں بیان کرے اور ان تکلیفوں کی نمائندگی کرے اور اگر حکومت ان پر توجہ نہ دے تو حکومت کے خلاف جدوجہد کا بگل بجادے۔‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحافت مشن ہے یا کاروبار؟ چونکہ صحافت معاشرے پر اثرانداز ہوتی ہے اور معاشرہ اس پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اس لئے صحافت کی بے پناہ ترقی کے اس دور میں معاشرے سے اس کا چولی دامن کا ساتھ ہوگیا ہے۔ صحافت مشن بھی ہے کاروبار بھی اور ان دونوں عناصر کی یکجائی کے بغیر صحافت کا تصور ممکن نہیں۔ صحافت کے فرائض کے متعلق ڈاکٹر عبدالسلام خورشید ہ رائے دیتے ہیں:
’’صحافت ایک عظیم مشن ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تازہ ترین خبروں سے آگاہ کیا جائے۔ عصرحاض کے واقعات کی تشریح کی جائے اور ان کا پس منظر واضح کیا جائے تاکہ رائے عامہ کی تشکیل کا راستہ صاف ہو۔ صحافت رائے عامہ کی ترجمان اور عکاس بھی ہوتی ہے اور رائے عامہ کی رہنمائی کے فرائض بھی سرانجام دیتی ہے۔ عوام کی خدمت اس کا مقدس فرض ہے۔ اس لئے صحافت معاشرے کے ایک اہم ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
صحافت سے متعلق پاکستان میں صحافت کے استاد ڈاکٹر مسکین علی حجازی اپنے نقطہ نظر کو اس طرح پیش کرتے ہیں : ’’حصحافت معاشرے اور زمانے کی عکاس ہے اور اپنے دور کی تاریخ کہلاتی ہے۔ معیاری صحافت انسانوں ے معاملات و مسائل کو سمجھنے سمجھانے اور ان کو حل کرنے کی کوشش کا نام ہے۔ گویا اعلیٰ پایہ کی صحافت کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے۔‘‘
صحافت کے مقاصد
صحافت بنیادی طور پر فن ابلاغ ہے۔ صحافت، ابلاغ کا وہ مستند ذریعہ ہے جو عوام کو حالات اور واقعات کا شعور بخشا ہے۔ موجودہ دور ابلاغیات کا دور ہے۔ اسی لئے مختلف نظام، نظریات اور اقوام ابلاغيات کے محاذوں پر ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اب یہ ضروری ہیکہ ہر ملک کے پاس ابلاغیات کا ایک مضبوط اور وسیع نظام ہو بلکہ یہ بھی لازمی ہے کہ اس نظام سے وابستہ تمام افراد فن ابلاغ کے ماہر ہوں اور اس فن پر عبور حاصل کرنے کے لئے علم اور مہارت دونوں درکار ہوتے ہیں۔
صحافت کا اہم مقصد دنیا کے واقعات اور حالات کی تازہ ترین صورتحال سے عوام کو واقف کروانا اور ان واقعات کو پیشکش میں معروضیت، صداقت اور راست بازی سے کام لینا ہے۔ واقعات میں اپنی رائے شامل کرنا یا خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا، صحافت جیسے معزز پیشے کو داغدار بنانا ہے۔ بعض خبریں یا واقعات ان کے پس منظر کا تقاضہ کرتی ہیں۔ اس لئے صحافی کو چاہئے کہ وہ خبروں اور واقعات کا پس منظر بھی دے لیکن پوری ایمانداری کے ساتھ پس منظر تحریر کرتے ہوئے اپنی پسند و ناپسند کو بالائے طاق رکھے۔
رائے عامہ کو ہموار کرنا، صحافت کا ایک اور اہم مقصد ہے کیونکہ جب تک عوام میں شعور در نہیںآتا اس وقت تک رائے عامہ کی تشکیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ عوام میں غوروفکر کی صلاحیت پیدا کرنا، ان کے دلوں میں اخبار کی عزت و عظمت قائم کرنا اور ان کے خیالات و احساسات کی ترجمانی کرنا اور ان کے مسائل کو حل کرنے میں قوم کو متحد کرنا، صحافت کے فرائض میں شامل ہیں۔
صحافت ایک سماجی خدمت ہے اور اخبار ایک سماجی ادارہ ہے۔ سماج کو آئینہ دکھانے کا کام صحافت کا ہے۔ سماج کی اچھائیاں اور برائیاں صحافت کے ذریعہ ہی سامنے آتی ہیں۔ عوام میں سماجی اور سیاسی شعور بیدار کرنا، صحت مند ذہن اور نیک رجحانات کو پروان چڑھانا، صالح معاشرے کی تشکیل کرنا، حریت اور آزادی کے جذبے کو فروغ دینا، مختلف اقوام میں دوستی کے جذبے کو بڑھانا، جذبہ ہمدردی، رواداری، الفت و محبت کو فروغ دینے کا کام صحافت کا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر کنور محمد دلشاد لکھتے ہیں:
’’ہر ملک کی صحافت وہاں کے باشندوں کے جذبات و احساسات کا آئینہ ہوتی ہے۔ اگر قومی ترقی یافتہ اور آزاد خیال ہے تو صحافت بھی ترقی یافتہ اور آزاد ہوگی اور اگر قوم تباہ حال اور محکوم ہے تو صحافت بھی اسی طرح ہوگی لیکن اس کے باوجود صحافت ہی سے غلامی اور محکومیت کی زنجیریں کاٹی جاسکتی ہیں جس قوم کی صحافت کا نصب العین حریت اور آزادی ہو اس قوم کا ستارہ بلند ہو کر رہے گا۔‘‘
صحافت کے فرائض بیان کرتے ہوئے مشہور صحافی اے جے بلیر لکھتے ہیں:
’’صحافت کا فرض لوگوں کو اس طرح واقعات اور حالات سے واقفا کرانا ہے کہ دنیا میں زبان و مکان اور ماحول کا فرق باقی نہ رہے جن کے بغیر ان میں وسیع النظری پیدا نہیں ہوسکتی۔ ایک روزانہ اخبار پڑھنے والا بڑی حد تک دنیا کے اہم واقعات سے واقف رہتا ہے جو نہ صرف خود اس کے ملک میں بلکہ ساری دنیا میں واقع ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ غیرارادی طور پر وہ محسوس کرتا ہے کہ دنیا میں باوجود نسلی، جغرافیائی، سیاسی، سماجی، مذہبی اختلافات کے مقاصد میں کتنی یکسانیت پائی جاتی ہے جو لوگ اخبار نہیں پڑھتے ان میں وسیع النظری پیدا نہیں ہوسکتی۔ نہ ان کی نظریں اپنے ماحول سے آگے جاسکتی ہیں۔ اخبار پڑھنے سے انسان کے خیالات میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور اقوام عالم میں یک جہتی اور بھائی چارہ پیدا کرنے میں یہ بڑے معاون ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
صحافت کا ایک اور مقصد قارئین کو بہترین تفریح مہیا کرنا ہے اور اس تفریح کے ذریعہ ان کی ذہنی تربیت کرنا ہے۔ تفریح کے معاملے میں کچھ اخبا شرم و حیا کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور فیشن کے نام پر نیم برہنہ اور بے ہوددہ تصاویر شائع کرتے ہیں۔ چونکہ اخبار کا گھر کے سبھی افراد مطالعہ کرتے ہیں اس لئے اخلاقی اقدار کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ غرض صحافت نہ صرف ایک فرد کی ذہنی، قلبی، جسمانی اور روحانی تربیت کا بیڑہ اٹھاتی ہے بلکہ ایک بہتر سماج کی تشکیل و تعمیر میں بے حد اہم کردار ادا کرتی ہے۔
صحافت کی اہمیت
صحافت کی قوت دراصل عوام کی قوت ہے۔ اس قوت کے پیچھے نہ حکومت کی مشنری ہے اور نہ قانون و عدالت کا ڈر ہے۔ اس کے باوجود اقتدار صحافت کا یہ عالم ہے کہ حکومتیں اور عوامی ادارے اس کے احترام پر مجبور ہیں۔ مغلوں کے عہد میں بھی اخبار نویس یا واقعہ نگار کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا بادشاہ وقت کو ہی خیال رہتا تھا۔ اس کا اندازہ جہانگیر کے زمانے کے ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گجرات کے ایک صوبہ دار نے احمدآباد کے واقعہ نگار کے ساتھ بدسلوکی کی۔ واقعہ نگار نے بادشاہ کی خدمت میں ایک عرضداشت بھیجی کہ ’’عبداللہ خاں صوبے دار نے سچھی روداد لکھنے کے جرم میں خانہ زاد کو اسی کے گھر سے پاپیادہ بلوایا اور اس کی بے حد توہین کی۔‘‘ بادشاہ نے صوبہ دار کو معزول کرتے ہوئے حکم دیا کہ اسے پاپیادہ گھر سے شہر کے باہر تک لائے اور پھر گھوڑے پر سوار کرکے یہاں لائے۔ بادشاہ کی ایلچی احمدآباد پہنچنے سے پہلے ہی صوبہ دار کو اس کی حکم کی اطلاع ہوگئی اور اس پر اس قدر ہیبت طاری ہوئی کہ وہ شہر سے پاپیادہ چل کھڑا ہوا اور منزلیں طئے کرتا رہا۔ راستے میں بادشاہ کے آدمی نے اسے زبردستی گھوڑے پر سوار کرکے بادشاہ کے حضور پیش کیا اور بادشاہ نے صوبہ دار کواس کے عہدہ سے محروم کرکے اپنے حضور یں اس کی باریابی بند کردی۔ اس واقعہ سے یہ اندازہ بخوبی ہوتا ہے کہ صحافت کے ابتدائی دور میں ہی صحافت کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ تھی۔ ہندوستانی بادشاہوں نے خبر رسانی کی اہمیت کو اس حد تک محسوس کرلیا تھا کہ ہر ضلع میں ایک اخبار نویس ضرور مقرر کیا جاتا تھا، جس کا کام یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے علاقے کے حالات کی بادشاہ اور اس کے وزیروں کو بے کم و کاست اطلاع دیا کرے۔ اگر اخبار نویس اپنے فرائض کی انجام دہی میں سہواً یا ارادتاً کوتاہی کرتا اور بادشاہ کو اس کی اطلاع ہوجاتی تو اخبار نویس کو جرم کی نوعیت کے مطابق برخاست کردینے سے لیکر پھانسی تک کی سزاء دی جاتی۔
آج کا دور تو ابلاغیات کا دور ہے۔ صحافت کی بے پناہ قوت اور اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صداقت اور راست بازی صحافت کی وہ بنیادی خصوصیات ہیں جو معاشرے میں اس کی اہمیت کے غماز ہیں۔ صحافت انسانی اقدار کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔ مظلوم، مجبور اور مقہور عوام کے جذبات اور احساسات کی پیامبر ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی سماج میں ظلم و ستم نے سر ابھارا تو صحافی کے نوک قلم نے ظالم کا سر قلم کرکے رکھ دیا۔ اسی لئے جارج ہشتم نے صحافت کی بے پناہ قوت کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ
’’اخبار ٹائمز (لندن) دریائے ٹائمز سے زیادہ خطرناک ہے۔‘‘
عام طور پر صحافت کو چوتھی مملکت Fourth State of Realm کہا جاتا ہے۔ کسی بھی جمہوری حکومت میں تین ادارے پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ بے حد ضروری ہوتے ہیں اور ان تینوں کی بقاء اور سلامتی کے لئے صحافت کا وجود ناگزیر ہے۔ صحافت کے بغیر ان تینوں اداروں کا جمہوریت پسند ہونا شک و شبہ کی گنجائش پیدا کرتا ہے ۔ تبھی تو تھامس جیفرسن نے کہا تھا :
’’اگر مجھ سے یہ تصفیہ کرنے کے لئے کہا جائے کہ آیا حکومت کے بغیر اخبارات یا اخبارات کے بغیر حکومت تو میں بلا تامل مواخرالذکر کو ترجیح دوں گا۔‘‘
صحافت کی اہمیت، افادیت اور ان کے مثبت و منفی پہلوؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے کنور محمد دلشاد اپنی تصنیف ’’ابلاغ عامہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’صحافت ایک جادو ہے جس کے بول میں خیروشر کی بجلیاں روپوش ہیں۔ ایک معمولی سی خبر، ایک افواہ یا ایک غلط بیانی کے وہ دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں جن پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ کسی شخص کو بام شہرت پر پہنچانا ہو یا قعر مذلت میں ڈھکیلنا ہو، کسی جماعت یا تحریک کو قبولیت کی سند عطا کرنا ہو لوگوں کو اس سے متنفر کرنا ہو حکومت کی کسی پالیسی کو کامیاب بنانا یا ناکام کرنا ہو یا مختلف اقوام میں جذبات نفرت یا دوستی پیدا کرنا ہو تو یہ صحافت کا ادنیٰ کرشمہ ہے‘‘۔
(ایک اچھا، ذی اثر، حق گو اور بے باک اخبار خود بہ خود معاشرے میں اپنی ڈھاک بٹھاتا ہے۔ اخباروں کی بدولت ہی حکومتیں بنتی بھی ہیں اور ٹوٹتی بھی ہیں۔ اسی لئے نپولین نے اخبار کی بے پناہ قوت اور جادوئی اثر سے متاثر ہو کر کہا تھا :
’’میں سوفوجی دوستوں کے مقابلے میں ایک اخبار سے زیادہ ڈرتا ہوں‘‘)
اقسام : ذرائع ابلاغ کے اعتبار سے صحافت کے اقسام کو بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے جس کی تفصیل ذیل میں دی جارہی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے موضوع کے اعتبار سے صحافت کو تین بڑی قسموں سے بانٹا جاسکتا ہے۔
(1 عوامی صحافت:
اس زمرے میں ایسے اخبار و رسائل آتے ہیں جو کم پڑھے لکھے یا عام قاری کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ ایسے قاری کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود حالات و حاضرہ سے واقف ہونا چاہتے ہیں اور علاقائی خبروں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اپنے مسائل کو اخبار کے ذریعے پوری دنیا کو واقف کروانا چاہتے ہیں۔ اس لئے ان اخباروں میں مقامی اور علاقائی خبروں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ تصاویر کی کثرت ہوتی ہے، سرخیاں بڑی بڑی ہوتی ہیں، خبریں ڈرامائی لیکن سادہ انداز میں لکھی جاتی ہیں۔ زبان و بیان سادہ اور سلیس ہوتی ہے۔ قارئین کے ذہنی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے عام نوعیت کے فیچر شامل کئے جاتے ہیں اور ذوق کی تسکین کے لئے فکاہیے شامل اشاعت کئے جاتے ہیں۔ ان اخباروں کی اشاعت وسیع ہوتی ہے۔ آبادی کا بڑا حلقہ ان اخباروں سے متاثر رہتا ہے۔ اشتہارات کی بھی بھرمار ہوتی ہے۔ ادارتی صحافت پر قومی اور بین الاقوامی موضوعات کے بجائے مقامی مسائل جیسے راشن کی سپلائی، کیروسین کی قلت، برقی کٹوتی جیسے عام موضوعات پر اداریے لکھے جاتے ہیں۔
(2 معیاری صحافت :
ایسے اخبار و رسالے جو علمی اعتبار سے اونچے طبقے میں پڑھے جاتے ہیں وہ ادبی رسالے ’ماہنامے‘ سہ ماہی یا ششماہی یا سالانہ مجلے معیاری صحافت یا ادبی صحافت کے زمرے میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔ ان کی اشاعت کم ہوتی ہے مگر دانشور طبقہ میں پڑھے جاتے ہیں اس لئے اثر زیادہ رہتا ہے۔ ان اخبارات و رسائل کی قیمت خرید بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اتنے اشتہار ضرور مل جاتے ہیں کہ کاروبار خوشگوارانداز میں چلتا ہے۔
(3 زرد صحافت:
ایسے اخبار و رسالے جن میں اکثر جنس و جرائم کی خبریں شائع کی جاتی ہیں۔ زنا بالجبر، اغواء، ڈکیتی، محبت، جنس، جرائم غرض ہر خبر میں سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہر واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان اخباروں و رسالوں کی اشاعت بھی وسیع ہوتی ہیں اور قارئین کے سستے ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کیا جاتا ہے۔
ذرائع کے اعتبار سے صحافت کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ مطبوعہ صحافت اور برقیاتی صحافت۔ ہم ان پر تفصیل سے نظر ڈالیں گے۔
(1 مطبوعہ صحافت :
ایسے اخبار و رسائل جو طبع اور شائع ہوتے ہیں مطبوعہ صحافت کے زمرے میں آتے ہیں۔ روزنامے، سہ روزہ اور ہفتہ روزہ اخبارات کے علاوہ پندرہ روزہ، ماہنامے، سہ ماہی، ششماہی، سالانہ مجلے، ہاوز جرنل، پیشہ ورانہ رسائل غرض و تمام صحافتی مواد جو طبع کیا جاتا ہے۔ مطبوعہ صحافت کے دائرے میں آتا ہے
اخبار :
’’اخبار‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’خبر‘‘ کی جمع ہے ابتداء میں یہ لفظ قلمی خبرناموں کے لئے استعمال ہوتا تھا جو ظہور اسلام سے قبل ایران کے شہنشاہوں کے دور میں رائج تھے۔ اخبار کے تحت روزنامے، سہ روزہ، ہفت روزہ کا شمار ہوتا ہے۔ کچھ لوگ پندرہ روزہ کو بھی اخبار کہتے ہیں۔ روزنامے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہفتہ میں کم از کم پانچ شمارے جاری ہوں۔ روزناموں میں قارئین کو مقامی، قومی اور بین الاقوامی واقعات اور حالات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اداریوں میں اہم واقعات اور مسائل کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور ایسی معلومات فراہم کی جاتی ہیں جو زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتی ہوں۔ معاشرہ میں روزناموں کا خاصہ اثر رہتا ہے۔ اردو میں بے شمار روزنامے شائع ہورہے ہیں لیکن ہندوستان میں کوئی بھی اردو روزنامہ ایک لاکھ یا اس سے زائد کی اشاعت نہیں رکھتا حالانکہ اس اخبار کو پڑھنے والے لاکھوں ہوتے ہیں لیکن خرید کر پڑھنے کا رجحان دوسری زبان کے قارئین کی بہ نسبت کم ہے۔
سہ روزہ اخباروں کا چلن اب نہیں رہا۔ بہت کم سہ روزہ شائع ہورہے ہیں۔ دہلی کا سہ روزہ دعوت مشہور ہے جو آج بھی پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ ہفت روزہ میں دلچسپی کا سامان ہوتا ہے۔ یہ اخبار اس نقط نگاہ سے مرتب کئے جاتے ہیں کہ ایسے قارئین جو روزانہ اخبار کا مطالعہ تفصیل سے نہیں کرپاتے وہ اہم خبروں کی تفاصیل کو ہفتہ میں ایک بار ضرور پڑھیں۔ یہ ہفتہ وار اپنے قارئین کے ذوق کی آسودگی کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن قارئین ہفتہ وار اخبار میں شائع ہونے والے مواد کو ذہنی تفریح اور وقت گذاری کے لئے پڑھتے ہیں کیونکہ یہ اخبار اکثر معمولی واقعات کو مرچ مسالہ لگا کر پیش کرتے ہیں۔ جرائم کی خبریں ہفتہ وار کے صفحات کی زینت بنتی ہیں۔
رسائل :
رسالہ عربی کے مادہ ’’رسل‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی پہنچاننے کے ہیں۔ یہ عوام میں ترسیل کا بہترین وسیلہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کی تفسیر بھی کرتے ہیں ۔ان کے ذریعے تاریخ کے تسلسل کو سمجھنا آسان ہوتا ہے۔ ادبی ذوق کی تہذیب و ترتیب میں بھی رسائل کا بڑا حیصہ ہے۔ رسائل کے ذریعے افراد کے رجحان اور پورے معاشرے کی سمت و رفتار کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ رسائل کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ادبی، علمی، فنی، طبی، قانونی، فلمی، خالص تفریح اور پیشہ ورانہ رسائل قابل ذکر ہیں۔ میقاتی اعتبار سے یہ پندرہ روزہ ماہنامے، سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ مجلے شامل ہیں۔
ماہنامے، مجلے یا ڈائجسٹ جن میں وقتی دلچسپی کا مواد بہت کم ہوتا ہے۔ ڈائجسٹوں میں نیم ادبی، نیم معلوماتی اور تفریح مواد مختلف اخبارات و رسائل سے ڈائجسٹ کئے جاتے ہیں۔ ان کی اشاعت ادبی مجلوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جبکہ ادبی رسالوں کا حلقہ بہت محدود ہوتا ہے مگر انتہائی تعلیم یافتہ طبقے میں پڑھے جاتے ہیں۔ ان ادبی مجلوں سے نہ صرف ادبی، تحقیقی اور تنقیدی مضامین شائع ہوتے ہیں بلکہ ادب کے مختلف رجحانات اور تحریکات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
پیشہ ورانہ رسائل میں وہ تمام رسائل شامل ہیں جو کسی نہ کسی پیشہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ طبی، تجارتی، کمپیوٹر یا کسی خاص ہنر سے تعلق رکھنے والے رسالے ہوتے ہیں ان کے علاوہ مختلف کمپنیوں یا اداروں کے ہاوز جرنل بھی مطبوعہ صحافت کے دائرے میں آتے ہیں۔
برقیاتی صحافت
برقیاتی صحافت میں ریڈیو، ٹیلی ویژن، نیوز ریل اور فلم، انٹرنیٹ اخبار اور رسالے شامل ہیں۔ پتہ نہیں مستقبل میں سائنس و ٹیکنالوجی کوئی اور جادوئی چیز ایجاد کرے اور وہ بھی ذرائع ابلاغ کی اہم کڑي ثابت ہوجائے۔
(i ریڈیو
لاسلکی کی پہلی ترسیل مارکونی نے 1899ء میں انگلستان سے بیسویں صدی کے دوسرے دہے میں لاسلکی نظام سارے یورپ میں باقاعدہ نشریات کا مستند ذریعہ بن گیا۔ 23 فروری 1922ء کو مارکونی کمپنی نے انگلستان میں پہلا ریڈیو پروگرام نشر کیا۔ یکم جنوری 1927ء کو یہ کمپنی برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن میں تبدیل ہوگئی پھر ذرائع ابلاغ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوگیا۔
آج ریڈیو خبروں کی ترسیل کا مستند ذریعہ ہے۔ یہ نہ صرف خبریں نشر کرتا ہے بلکہ خبروں پر تبصرے، تہذیبی و ثقافتی پروگرام اور موسیقی کے دلچسپ پروگرام بھی نشر کرتا ہے۔ ریڈیو کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے ناخواندہ لوگ بھی مستفید ہوتے ہیں۔ جب کہ اخبار صرف پڑھے لکھے لوگ ہی استعمال کرسکتے ہیں۔ اکثر ملکوں میں نشریات کی غرض و غایت تفریح کے علاوہ معلومات اور تعلیم اشاعت ہے۔ ہندوستان میں ان سے معلومات اور تعلیم کی نشریات کے علاوہ علاقائی کلچر و ادب کی ترقی، قومی یکجہتی، تہذیبی قدروں اور سائنٹفک نقطہ نظر کی ترویج اور ترقیاتی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ دنیا کے بے شمار ملکوں میں ریڈیائی صحافت کروڑوں سامعین کی خبری ضروریات کو پورا کررہی ہیں۔ اشتراکیت، جمہوریت، فسطائیت اور دہشت گردی میں عقیدے کی جو جنگ چھڑی ہے اس سے ریڈیائی صحافت کا دائرہ اور بھی وسیع ہوا۔ دوسری عالمی جنگ، ملک کی جدوجہد آزادی، ہندوپاک جنگ کے دران ریڈیو نفسیاتی جنگ کا اہم حربہ بن گیا۔ کھیل کود جیسے کرکٹ، ہاکی اور فٹبال کی کومنٹری نے ریڈیو کی اہمیت مزید اضافہ کردیا ہے۔ یہ جادو کچھکم ہے کہ ریڈیو کی ایک نشریات سے بیک وقت کروڑوں باشندے مستفید ہوتے ہیں۔ ریڈیو برقیاتی صحافت کا اہم وسیلہ بن گیا ہے۔ اس کے باوجود یہ اخبار کا نعم البدل نہیں بن سکا۔
ریڈیائی صحافت کی مشکل یہ ہے کہ وہ صرف اہم خبروں اور اس کی مختصر تفصیل کو ہی نشر کرسکتا ہے۔ ریڈیائی خبرنامہ پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ اس مختصر سے وقت میں دنیا بھر کی اہم خبروں کا انتخاب اور ان کی تلخیص کو ہی پیش کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی مناقشات، سیاسی بحران اور جنسی جرائم کی خبریں وہ پیش کرنے سے قاصر ہے چونکہ ریڈیو کے سامعین میں ناخواندہ افراد بھی شامل ہیں اس لئے زبان کی سادگی اور سلاست لازم ہے۔ تکرار لفظی، تعقید لفظی اور مشکل تراکیب کا استعمال ریڈیائی صحافت کے حسن کو ضائع کردیتا ہے۔
(ii ٹیلی ویژن
بیسویں صدی کو سائنسی ایجادات کی صدی کہا جاتا ہے اور اس سلسلے کی اہم کڑی ٹیلی ویژن ہے۔ ابتدائی دنوں میں جسے ’’جادوئی پٹارہ‘‘ بھی کہا جاتا تھا ٹیلی ویژن یونانی اور لاطینی لفظوں کا مرکب ہے۔ یونانی لفظ ’’ٹیلی‘‘ کے معنی ’’فاصلے پر‘‘ ہیں ’’ویژن‘‘ جو لاطینی لفظ ہے جس کے معنی ’’میں دیکھتا ہوں‘‘ کے ہیں۔ اردو میں ٹیلی ویژن کا ترجمہ مختلف لوگوں نے اپ نے اپنے ڈھنگ سے کیا لیکن ٹیلی ویژن کی اصطلاح ہی مروج ہوگئی البتہ ہندی میں ٹیلی ویژن کا بدل ’’دوردرشن‘‘ ہے جو رائج ہے۔
ٹیلی ویژن کا موجد جان ایل بیرڈ (John L.Biard) ہے جو 1922ء سے مختلف تجربات کے بعد 1927ء میں منظرعام پر آیا۔ ریڈیو کا تعلق صرف کان سے ہے جبکہ ٹیلی ویژن کا تعلق کان اور آنکھ دونوں سے ہے۔ دیدوشنید کی یکجائی نے ٹیلی ویژن صحافت کو تکنیکی طور پر ریڈیو صحافت سے کہیں زیادہ مشکل لیکن بہت زیادہ مقبول بنادیا۔ موجودہ زمانے میں خبریں صرف پڑھی یا سنی نہیں جاتیں بلکہ دیکھی جتی ہیں چونکہ دیکھی ہوئی شئے زیادہ متاثر کرتی ہے اس لئے آج ہر ایک کے دل و دماغ پر ٹیلی ویژن صحافت چھائی ہوئی ہے۔ ڈیجیٹل کیمروں نے چوری چھپے واقعات کو ریکارڈ کی سہولت بخشی، جس کی بدولت ٹیلی ویژن جنس و جرائم کی خبروں کو نہایت تفصیل سے دیکھنے کا موقع ہاتھ آ گیا۔ موجودہ دور میں سینکڑوں چیانل دکھائے جاتے ہیں۔ آپسی مسابقت نے ناظرین کو بہتر سے بہتر پروگرام دیکھنے اور محظوظ ہونے کا موقع ہاتھ لگا ہے۔ اشتہاروں کی بھرمار نے نہ صرف ٹیلی ویژن صحافت کی آمدنی میں اضافہ کیا بلکہ لوگوں کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایسے کئی چینل ہیں جو صرف اور صرف خبروں اور تبصروں کے لئے مخصوص ہیں اور یہ 24 گھنٹے ناظرین کو گھر بیٹھے دنیا کے اہم واقعات کو دکھاتے ہیں۔ موسیقی، فلمی، سائنسی، مذہبی کئی ایک چینل ٹیلی کاسٹ ہوتے ہیں، لیکن یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ لوگ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو استعمال کرتے ہوئے بھی صبح صبح اخبار پڑھنے کے خواہشمند نظر آتے ہیں گویا ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا نعم البدل نہیں ہیں۔
(ii نیوز ریل اور فلم
نیوز ریل اور فلم بھی معلومات کی ترسیل کا اہم ذریعہ ہیں۔ یہ اکثر حکومت کے ترقیاتی پروگرام، سائنس و ٹکنالوجی، تعلیم اور سماجی موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ فلم تھیٹروں میں بھی یہ ڈاکیومنٹری فلم دکھائے جاتے ہیں۔
(iv انٹرنیٹ
کمپیوٹر کی ایجاد نے ساری دنیا کو ایک عالمی گاؤں میں تبدیل کردیا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کمپیوٹر کا عمل دخل ہے۔ کمپیوٹر معلومات کی ترسیل میں ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے۔ مختلف مطبوعہ اخبار و رسائل اپنا انٹرنیٹ ایڈیشن بھی رکھتے ہیں جو مخصوص ویب سائیٹ پر دیکھے اور پڑھے جاسکتے ہیں۔ انٹرنیٹ اخبار کا استعمال گوکہ پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ طبقے تک محدود ہے لیکن اس کے مؤثر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ انٹرنیٹ اخبار ’’تہلکہ ڈاٹ کام‘‘ اس کا بین ثبوت ہے۔ انٹرنیٹ پر ادبی رسالے بھی پیش کئے جارہے ہیں جن سے ادبی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوگیا ہے۔ محکمہ ڈاک کی لاپرواہی کا گلہ اب بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔ بہت سے ادارے اور لائبریری اپنے اپنے ویب سائیٹ پر نہ صرف کتابیں بلکہ مخطوطات بھی پیش کرتے ہیں، جس سے انٹرنیٹ استعمال کنندوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔
سائنسی ایجادات کی یہی رفتار برقرار رہی تو امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں مزید کوئی نہ کوئی ترقیاتی شئے وجود میں آئے گی اور برقیاتی صحافت کے معیار اور مواد میں حیرت انگیز اضافہ ہوگا۔ مطبوعہ صحافت ہو کہ برقیاتی صحافت وہ بنیادی طور پر فن ابلاغ ہیں صحافت خواہ کسی بھی قسم کی ہو، اس کا ذریعہ کچھ بھی ہو وہ ابلاغ کے فن کو نکھارنے، سنوارنے اور معیار کو بلند کرنے کے لئے ہی زندہ رہے گی۔ موجودہ دور ابلاغیات کا دور کہلاتا ہے اس وقت دنیا میں مختلف صحافتی یا ابلاغی نظام موجود ہیں جو ملک ابلاغی نظام کے کسی مخصوص نظریے کے تابع ہوگا وہاں کے اخبارات اسی نظریے کے آئینہ دار ہوں گے۔ کہیں صحافت مکمل آزاد ہے تو کہیں مطلق العنان حکومت کی زیرنگرانی ہے۔ کہیں یہ کل کر سماجی خدمت انجام دیتی ہے تو کہیں مذہبی نظریات کا عکس ہوتی ہے۔ عمومی طور پر ہم ساری دنیا کی صحافت کو پانچ بڑے نظریات کے تحت تقسیم کرسکتے ہیں۔ اختر حسن ناز نے اپنی تصنیف ’’صحافتی ذمہ داریاں‘‘ میں پریس کے پانچ نظریات کو پیش کیا ہے جن کا مفہوم درج ذیل ہے۔
(1) اسلامی نظریہ ابلاغ (Islamic Concept of Communication)
اسلامی معاشرے میں پریس کا کردار اخلاقی اقدار اور اصولوں کا پابند ہوگا جو فرد، ریاست اور دوسرے ادارے پر عائد کی گئی ہیں۔ پریس امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے تابع ہوگا۔ خیر اور بھلائی کو فروغ دینا اور شر اور برائی کا سدباب کرنا پریس کی ذمہ داری ہوگی۔ اسلام نے تحفظ جان و مال، تحفظ آبرو، نجی اور شخصی آزادی کے تحفظ، ظلم کے خلاف احتجاج، اظہار رائے کی آزادی، حصول انصاف، اجتماعی معاملات میں صلاح و مشورہ اور اسی نوعیت کے دوسرے امور میں حقوق و فرائض کا دائرہ متعین کیا ہے۔ اس کا احترام فرد، ریاست اور پریس سب پر لازم ہوگا۔ اسلامی ریاست میں پریس کا اصل کام یہ ہے کہ وہ رائے عامہ کی تشکیل اور رہنمائی کے لئے ہمیشہ اصلاح اور فلاح و بہبود کی بات کرے۔ وہ معاشرے کی برائیوں کا ذکر کرتے ہوئے لذت اندوزی کا شکار نہ ہو ورنہ لوگ عبرت حاصل کرنے کی بجائے ان برائیوں میں دلچسپی لیں گے اور نت نئی نفسیاتی امراض کا شکار ہوجائیں گے۔ سماجی برائیاں جیسے جھوٹ، غیبت، افواہ، تہمت، زنا، چوری، ڈکیتی کے خلاف پریس کو کمربستہ ہونا چاہئے۔
(2) مطلق العنانیت (Authoritarian) کانظریہ ابلاغ
پندرہویں صدی عیسوی میں بادشاہوں اور مذہبی پیشواؤں کو دیگر تمام افراد پر عظمت اور برتری حاصل تھی اور ابلاغ کے تمام اداروں پر مذہبی کنٹرول تھا۔ تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے اس نظریہ ابلاغ نے وسیع اور دیرپا اثرات قائم کئے۔ استدلالی طور پر اس نظریہ کی تائید افلاطون، میکاولی، ہابس، ہیگل، ٹرائسکی اور دوسرے سیاسی مفکروں کے علاوہ رومن کیتھولک ازم میں بھی ملتی ہے۔ اس نظریے کو مختلف ادوار میں مختلف مدتوں کے لئے جرمنی، روس، جاپان، افروایشیائی اور لاطینی امریکی ملکوں میں رائج کیا گیا۔
اس نظام میں تمام ذرائع کو کنٹرول کیا جاتا ہے تاکہ ریاست کے قومی حصول کی جدوجہد میں پریس کو مداخلت سے باز رکھا جاتا ہے۔ حکمران کو پورا حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ریاست کے نظام کو اپنی مرضی کے مطابق چاہئے، کوئی فرد، ادارہ یا پریس اس کے کسی حکم یا عمل پر تنقید نہیں کرسکتا بلکہ اس نظام میں پریس حکمرانوں کی اقتدار پر اجارہ داری کو زیادہ مضبوط بناتا ہے۔ ان حکمرانوں کے لئے ذرائع ابلاغ ایک اہم اور مؤثر ہتھیار ہے۔ آج بھی دنیا کے کئی ممالک بالخصوص مشرق وسطیٰ جہاں آمریت اور بادشاہ نہیں قائم ہیں وہاں کسی نہ کسی صورت میں اس نظریہ ابلاغ پر عمل ہورہا ہے۔ اخبار نجی ملکیت تو ہوسکتا ہے مگر اس کا ایڈیٹر حکومت کی مرضی کے بغیر مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ معاشرتی موضوعات پر فیچر یا کالم تو لکھے جاسکتے ہیں مگر حکومت کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں لکھا جاسکتا۔ ظلم تو یہ ہے کہ ملک میں ہونے والے کسی سیاسی واقعہ یا نقص امن کے واقعات بھی شائع نہیں ہوسکتے۔ البتہ ان واقعات پر وہی ردعمل شائع ہوسکتا ہے جو حکومت کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔ غرض ہر قسم کے معلومات سے عوام کو آگاہ نہیں کرسکتے۔ ایسے واقعات یا معلومات جو حکومت چاہتی ہے کہ عوام تک پہنچے وہی مواد اخبار کی زینت بن سکتا ہے۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آمرانہ مملکوں میں بھی ذرائع ابلاغ پر گرفت کمزور ہونے لگی۔ دنیا بھر کے صحافی احتجاج کرنے لگے اور آزادی اظہار کا نعرہ گونجنے لگا ور بادشاہت کی جگہ جمہوری اقدار پروان چڑھنے لگے تو اس نظریہ کی بنیادیں ہلنے لگیں آخرکار پریس کے آزادانہ نظریہ کو فروغ حاصل ہونے لگا۔ اس کے باوجود آج بھی کئی ایک ملکوں میں کسی نہ کسی لحاظ سے مطلق العنانیت کا نظریہ ابلاغ جزوی طور پر ہی سہی قائم و دائم ہے۔
(3) آزاد پسندی (Liberterian) کا نظریہ ابلاغ
بادشاہت، آمریت اور ظلم و بربریت کے خلاف نفرت نے لوگوں کو آزاد فکر کی طرف متوجہ کیا۔ مغربی ممال میں حریت فکر کا نعرہ گونجا تو مطلق العنانیت کا نظریہ ابلاغ کا خاتمہ ہوا۔ فرد کی اہمیت اجاگر ہونے لگی۔ معاشرے اور ریاست پر فرد کو فوقیت حاصل ہونے لگی۔ آزادی فکر نے مذہبی آزادی اور تقریر و تحریر کا حق فرد کا لازمی اور فطری حق قرار دیا۔ ملؔ ، ملٹن، جیفرسنؔ اور ڈیکارٹس ؔ اس نظریے کے مشہور مفکرین تھے۔ مل (Mill) نے کہا کہ ’’آزادی قدرت کا دیا ہوا حق ہے۔ ہر فرد کو اس وقت تک سوچنے اور عمل کرنے کی آزادی ہونی چاہئے جب تک کہ وہ ایسا کرتے ہوئے دوسرے فرد کو نقصان نہ پہنچائے‘‘۔ کلیسا کے خلاف ردعمل، تحریک انسانیت، سائنسی ایجادات نے آزاد پسندی نظریے کو زبردست پروان چڑھایا اور اس کے تشکیل و استحکام میں اہم کردار ادا کیا۔
پریس کی آزادی کا بنیادی مقصد خبر رسانی اور تفریح کی فراہمی ہے۔ سچ کی دریافت اور تلاش اس کی ذمہ داری ہے۔ پریس خواہ کتنا ہی آزاد کیوں نہ ہو اس پر کچھ نہ کچھ اخلاقی پابندیاں ضرور ہوتی ہیں۔ فحش، غیراخلاقی مواد کی اشاعت اور فرد کی توہین عدالتی دائرہ اختیار میں آتی ہیں۔ ملک کی اہم دفاعی راز کا پردہ چاک کرنا بھی ایک غیر ذمہ دارانہ صحافت کہلاتی ہے۔ اس لئے چند تنگ نظر صحافیوں نے اپنے مطلب کی ’’سچ‘‘ کا خوب ڈھنڈورا پیٹنا شروع کیا۔ مذہبی، علاقائی اور نسلی تعصبیت نے بھی سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ قرار دینے کے لئے پریس اور اس کی آزادی کا استحصال کیا۔
آخرکار آزادی پسند نظریہ بھی عوام میں مشکوک ہونے لگا۔ عوام میں تشکیک و انتشار کا ماحول پیدا ہونے لگا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟ ایک ہی واقعہ ایک اخبار کے یہاں سچ اور دوسرے کے یہاں جھوٹ کیوں قرار پاتا ہے۔؟
آزادی پسند نظریہ ابلاغ کے منفی اثرات کو پیٹرسن نے اس طرح بیان کیا ہے:
(1 پریس کی غیرمعمولی قوت خود اس کے اپنے فائدے کے لئے ہے۔ پریس کے مالکان اپنے ذاتی نظریات کی تشہیر کرتے ہیں اور سیاسی اور اقتصادی امور میں مخالفانہ نظریات کو روکتے ہیں۔
(2 پریس عمرانی اور سماجی تبدیلیوں میں مزاحمت کرتا ہے۔
(3 پریس سے عوام کے اخلاق عالیہ کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔
(4 پریس سے بلاجواز فرد کی پرائیویٹ زندگی میں مداخلت کرتا ہے۔
(5 پریس بعض اوقات حالات حاضرہ کی خبر رسانی کے بجائے سطحیت اور جذبات کو زیادہ توجہ اور اہمیت دیتا ہے اور تفریح کا عنصر اکثر جوہر سے عاری ہوتا ہے۔
(6 اشتہارات، ادارتی پالیسیوں اور ادارتی مندرجات پر کنٹرول کے ذریعے پریس کاروبار اور تجارت میں معاونت کرتا ہے۔
(7 فلمیں جنس کے اختلاط کے ساتھ اخلاق کے لئے خطرہ ہیں اور گھٹیا ذوق کی حامل ہیں۔
(4 سماجی ذمہ داری (Social Responsibility) کا نظریہ ابلاغ
اس نظریہ کا جنم آزاد پسندی اور روشن خیالی کے نظریے سے ہی ہوا ہے۔ سائنسی ایجادات اور جدید نظریات زندگی نے عوام کی فکر و سوچ میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ تبدیلی دراصل ڈارون اور آئن سٹائن کے فکری انقلاب کا نتیجہ تھی۔ سماجی ذمہ داری کا نظریہ انسان کو ایک بااخلاق، باشعور اور ذمہ دار شہری تصور کرتا ہے۔ اس نظریے کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ پریس معاشرے کے سامنے اپنی تمام سرگرمیوں کا جوابدہ ہے۔ آزادی صحافت کے کمیشن نے پریس کی سماجی ذمہ داری کے بارے میں جو تجاویز پیش کی ہے وہ قابل عمل ہیں۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ پریس واقعات کی صداقت پر مبنی جامع اور قابل فہم تفصیل پیش کرے۔ پریس تنقید اور مختلف آراء کے تبادلے کے لئے ایک فورم فراہم کرے۔ پریس معاشرے کے تمام گروہوں اور طبقوں کی تصویر پیش کرے۔ پریس کو معاشرے کی اقدار اور مقاصد کا ترجمان ہونا چاہئے۔
اس نظریے کے مطابق آزادی اظہار کو تسلیم کرنے کا اصل مقصد سماجی جھگڑوں کا رخ تشدد کی بجائے باہم مذاکرات اور بحث و مباحثہ کی طرف موڑنا ہے۔ کسی بھی فرد کی آزادی اظہار سے کسی دوسرے فرد کے حقوق اور سماجی مفادات متاثر نہ ہوں۔ اس نظریے کے تحت جو ضابطہ اخلاق مرتب کیا گیا وہ اس طرح ہے:
(1 کسی بھی باعزت اور معزز شہری کا تحفظ کیا جائے۔
(2 کسی بھی شخص پر جب تک عدالت جرم ثابت نہ کردے، اس کی تشہیر نہ کی جائے۔
(3 مسخ شدہ تصویر شائع کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
(4 جرائم کو پھیلانے والی خبریں شائع نہ کی جائیں۔
(5 بلیک میلنگ اور جھوٹی افواہیں پھیلانے سے اجتناب کیا جائے۔
(6 امن عامہ میں خلل ڈالنے سے روکنے کی ترغیب دی جائے۔
یہ وہ اہم نکات ہیں جو آزادی کو ذمہ داری کے ساتھ مشروط کرتے ہیں ان پر عمل پیرا ہوکر صحافت معاشرے میں اپنا ذمہ دار کردار ادا کرسکتی ہے۔
(5) کمیونسٹ نظریہ ابلاغ :
اشتراکی نظریے کی بنیاد مارکس اور لینن کے نظریات پر قائم ہے۔ اشتراکی معاشرے میں صحافت کمیونسٹ پارٹی کی ترجمان ہوتی ہے۔ لینن کے نزدیک پریس ایک مشترک اور متفق مقصد کے حصول میں سماجی تبدیلی اور نظم و ضبط کا ایک آلہ ہے اس کا سب سے بڑا فریضہ عوام میں اشتراکیت کی تعلیم و تبلیغ ہے۔ یہ کمیونزم اور ریاست کی خارجی اور داخلی پالیسیوں نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ اس کا پروپگنڈہ بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونسٹ ممالک یں پریس ریاست اور پارٹی کے لئے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ سوویٹ مینی فیسٹو 1939ء کے مطابق تقریر، تحریر، پریس، اجتماعات اور مظاہروں کی آزادی دی گئی ہے لیکن اس شرط پر کہ اس آزادی کو اشتراکی نظام ہی کی مضبوطی اور محنت کش عوام کے مفاد میں استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونسٹ ممالک میں پریس پر سخت نگرانی رکھی جتی ہے۔ کوئی اخبار بیرونی ممالک کی کوئی خبر کو حکومت کی اجازت کے بغیر شائع نہیں کرسکتا۔ یعنی کمیونسٹ نظریہ ابلاغ آمریت کا دوسرا نام ہے۔ عام آدمی بھی گھٹ گھٹ کر زندگی تو گذار سکتا ہے لیکن اپنی گھٹن کو دوسروں تک نہیں پہنچا سکتا۔
Source : http://www.jahan-e-urdu.com/WHAT-IS-JOURNALISM-BY-DR-SYED-FAZLULLAH-MUKARRAM/