حامد میر
28 مئی ، 2018
پاکستان کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا؟ یہ وہ سوال ہے جو پچھلے چند دنوں میں ایک نہیں بلکہ بہت سے غیرملکی سفارت کار مجھ سے پوچھ چکے ہیں اور یہ خاکسار مسکرا کر اس سوال کے جواب کو ٹال جاتا ہے۔ کوئی اصرار کرے تو یہ عرض کر دیتا ہوں کہ ابھی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا اور کچھ اہم واقعات کی رونمائی کا انتظار ہے، یہ واقعات ووٹرز کے رجحانات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گے لہٰذا تھوڑا انتظار کر لیں۔ ایک گھاگ مغربی سفارت کار نے مسکراتی آنکھوں کیساتھ شرارتی لہجے میں کہا کہ اگر آپ کو ابھی تک یہ اندازہ نہیں ہوا کہ اگلا وزیر اعظم کون ہو گا تو مسلم لیگ (ن) کے ارکان پارلیمنٹ دھڑا دھڑ پاکستان تحریک انصاف کی طرف کیوں بھاگ رہے ہیں؟ یہ سوال سُن کر میں ہلکا سا قہقہہ لگانے پر مجبور ہو گیا اور جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن سفارت کار کا کہنا تھا کہ کوئی تو بات ایسی ہے جس نے آپ کو ابھی تک اگلے وزیر اعظم کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے سے روک رکھا ہے۔ میں نے اُسے سنجیدہ لہجے میں کہا کہ اگر شہباز شریف نیب کے ہاتھوں بچ گئے تو وہ اگلے الیکشن میں شاہد خاقان عباسی کے ساتھ مل کر عمران خان کو ٹف ٹائم دینگے۔ گھاگ سفارت کار دوبارہ مسکرایا اور کہا ’’شہباز شریف یا عباسی؟‘‘۔ یہ ایک خطرناک سوال تھا کیونکہ اس سوال کا جواب مجھے ایک
ایسی بحث میں اُلجھا سکتا تھا جو بہت وقت لیتی اور مجھے ایک دعوت افطار میں پہنچنا تھا لہٰذا میں نے اس بحث سے فرار میں عافیت سمجھی۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ فی الحال مجھے تو یہ اندازہ نہیں کہ پاکستان کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا لیکن بھارت کے خفیہ ادارے ’’را‘‘ کے سربراہ امرجیت سنگھ دولت کو یقین ہے کہ پاکستان کے اگلے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہونگے۔ امرجیت سنگھ دولت پاکستان میں اے ایس دولت کے نام سے معروف ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے اگلے وزیر اعظم کے بارے میں پیشین گوئی کچھ دن پہلے بھارتی صحافی برکھاوت کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کی ہے۔ یہ انٹرویو اے ایس دولت اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کے خیالات پر مبنی ادتیا سنہا کی کتاب کے بارے میں تھا۔ برکھاوت نے سوال پوچھا کہ اسد درانی نے اس کتاب میں نواز شریف کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار نہیں کیا البتہ مودی کو بہت چالاک قرار دیا ہے کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ درانی کے خیال میں بھارت کو پاکستان پر سیاسی برتری حاصل ہے؟ اے ایس دولت نے اپنے جواب میں کہا کہ اسد درانی نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ پاکستانی فوج میں گزارا اس لئے وہ سیاستدانوں کے بارے میں زیادہ اچھی رائے نہیں رکھتے تاہم موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے بارے میں اُن کی رائے بہت اچھی ہے اور لگتا ہے کہ عباسی صاحب فوج کے فیورٹ ہیں اس لئے ممکن ہے پاکستان کے اگلے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہوں گے۔
اے ایس دولت نے شاہد خاقان عباسی کے بارے میں یہ دعویٰ اپنی حالیہ متنازع کتاب میں نہیں بلکہ اس کتاب سے متعلق ایک تفصیلی انٹرویو میں کیا ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ اسد درانی کی رائے کو سامنے رکھ کر کیا ہے۔ اسد درانی نے یہ رائے ایک تجزیے کی بنیاد پر قائم کی ہے تاہم اے ایس دولت کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اسد درانی کو بہت باخبر سمجھتے ہیں۔ مجھے کچھ دن پہلے ادتیا سنہا کی طرف سے اے ایس دولت اور اسد درانی کی لکھی گئی کتاب پڑھنے کو ملی تو مجھے مایوسی ہوئی۔ اس کتاب میں میرے لئے کوئی نیا انکشاف موجود نہ تھا بلکہ کچھ پرانی ڈس انفارمیشن کو نئے انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ درانی صاحب کو میں بیس سال سے جانتا ہوں۔ مجھے اُن کے ساتھ کئی انٹرویو کرنے اور ان کے ساتھ کئی کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملا۔
کچھ دن پہلے ہی کشمیر پر ایک سیمینار میں وہ الجزیرہ پر اپنے ایک انٹرویو کا قصہ لے بیٹھے اور کہا کہ پاکستان میں اس انٹرویو کے ردعمل میں کچھ صحافیوں نے اُن کے خلاف ٹویٹ کئے اور پھر انہوں نے پاکستانی میڈیا کو خوب رگڑا۔ اُن کے بعد سرینگر سے آئے ایک صحافی شجاعت بخاری نے بھی پاکستانی میڈیا کو خوب رگڑا اور کہا کہ کشمیر پر تحقیقاتی صحافت نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے مجھے دونوں کو جواب دینا تھا اور میں نے اپنے جواب میں دونوں کو مشورہ دیا کہ چند واقعات کی بنیاد پر کسی معاملے پر حتمی رائے قائم نہ کیا کریں۔ اسد درانی نے الجزیرہ پر انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان نے اُسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن میں امریکہ کے ساتھ خفیہ تعاون کیا تھا جس پر یہ سوال اُٹھایا گیا کہ اگر یہ بات کوئی سیاستدان کرے تو اسکے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ اس سوال کا جواب دینے کے بجائے اسد درانی صاحب نے پاکستانی میڈیا پر بڑے رعب کے ساتھ غصہ جھاڑ دیا کیونکہ پاکستان کے میڈیا کو دبانا آسان ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ دنوں سے درانی صاحب ایک دفعہ پھر پاکستانی میڈیا میں زیر بحث ہیں۔ اُنکے کچھ پرانے ریٹائرڈ ساتھی اُن پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہے ہیں۔ یہ الزامات سُن کر میں سوچ رہا تھا کہ کیا درانی صاحب ان ساتھیوں پر بھی اُسی طرح غصہ جھاڑیں گے جیسا اُنہوں نے چند ہفتے قبل میرے سامنے میڈیا پر جھاڑا تھا؟ میری ناقص رائے میں اسد درانی نے ادتیا سنہا کی کتاب میں کوئی راز افشا کیا نہ کوئی انکشاف کیا۔ اُنہوں نے کچھ معاملات پر سنی سنائی باتوں کو انکشاف کے رنگ میں پیش کر دیا۔ اُسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کے بارے میں اُن کا موقف الجزیرہ اور بی بی سی پر آ چکا ہے۔ اُن کا موقف پاکستان کے ریاستی موقف سے مختلف تھا لیکن اُن سے کوئی جواب طلبی نہ ہوئی لہٰذا انہوں نے یہی موقف اے ایس دولت کے ساتھ مشترکہ کتاب میں بھی شامل کر دیا۔ 2015ء میں اسی قسم کا دعویٰ امریکی صحافی سیمور ہرش نے بھی کیا تھا تو امریکی حکومت نے وضاحت کی تھی کہ پاکستان کے کسی ادارے کو اُسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کا پیشگی علم نہ تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے بھی 2015ء میں سیمور ہرش کے دعوے کی نفی کر دی تھی۔ آج اسد درانی بھارتی میڈیا میں پاکستان کے خلاف ایک گواہ بنے ہوئے ہیں اور اُن کے مقابلے پر حسین حقانی بڑے معصوم نظر آتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے خفیہ اداروں کے سربراہوں کا آپس میں ملنا جلنا اور مشترکہ کتاب لکھنا قابلِ اعتراض نہیں ہے۔ اعتراض کی بات یہ ہے کہ سستی شہرت کے لئے درانی صاحب نے ایسے واقعات پر سنی سنائی باتوں کو انکشاف کا رنگ دیدیا جو اُن کی فوجی ملازمت کے بعد رونما ہوئے۔ اُنہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں حریت کانفرنس پاکستان نے بنوائی۔ درانی صاحب 1991ء میں آئی ایس آئی سے فارغ ہو گئے حریت کانفرنس 1993ء میں بنی۔ درانی صاحب کہتے ہیں بلوچستان میں بھارت چھوٹا کھلاڑی امریکہ بڑا کھلاڑی ہے کلبھوشن یادیو کا معاملہ پاکستان نے مس ہینڈل کیا۔ یہ بات کوئی سیاستدان نہیں کر سکتا۔ آخرکار اسد درانی کو جی ایچ کیو میں طلب کر لیا گیا ہے لیکن کیا انہیں صرف وارننگ دیکر چھوڑ دیا جائیگا؟ اسد درانی صرف آئی ایس آئی نہیں ملٹری انٹیلی جنس کے بھی سربراہ رہے ہیں۔ اُن کی طرف سے جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنا انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ اس وقت پوری قوم فوجی قیادت کی طرف دیکھ رہی ہے اور انتظار کر رہی ہے کہ اسد درانی کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟ جس ملک میں صرف سیاستدانوں اور صحافیوں کو سیکورٹی رسک قرار دیا جاتا رہا وہاں اسد درانی کیخلاف کیا کارروائی ہوتی ہے؟
Source : https://jang.com.pk/news/498942#_