شاہ لطیف نے فرمایا: ترجمہ
۱ونٹ دشمن،ساربان دشمن،دیورو دشمن
چوتھی دشمن ہوا ہوئی کہ اس نے پنھوں کے نقش قدم مٹا ڈالے
پانچواں دشمن سورج تھا جو وقت پر ڈھل گیا
چھٹا دشمن پہاڑ تھا جس نے میرے لئے اپنی گھاٹیاں تنگ کردیں
ساتواں دشمن چاند تھا جو جلدی نہ ابھرا
اور اب جب پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کی طرف جا رہے ہیں
میں اکیلی پہاڑوں میں بھٹک رہی ہوں۔
یہ ہے دکھ صدیوں پراناسندھ کا اگر کوئی سمجھے تو۔محرومی کا دکھ برباد ی کا غم لٹنے کا غصہ جسے شاہ لطیف نے سسی کی زبان سے ادا کیا۔ آج کے اس ناراض سندھ کے غم و غصہ اور محرومی کو آواز دینے میں ترقی پسند تحریک کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔سندھ پر ترقی پسند تحریک کے اثرات کا جا ئزہ لینے بیٹھیں تو اس کی جڑیں سندھ کے سماج میں دور تک پھیلی نظر آتی ہیں۔یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ ترقی پسند تحریک کے سندھ میں شروع ہوتے ہی یہاں طبقاتی کشمکش کے عملی آغاز کے ساتھ ساتھ سندھ کے حقوق،زبان،ثقافت اور سندھ دھرتی سے جڑت کا ایک نیا جذبہ بھی بیدار ہوا۔ ساتھ ہی سندھی ادب میں ترقی پسند ادب کی ایک نئی لہر کا جنم بھی ۔ ترقی پسند فکر سے متاثر سندھی ادیبوں، شاعروں، دانشوروں نے اس تحریک کے نتیجے میں ایک نئے سندھی سماج کی بنیاد ڈالنے کی کوشش کی ۔ ادب کے ذریعے ،قلم کے ذریعے ،سیاسی تحریک کے ذریعے ترقی پسند سوچ کو بنیاد بنا کر سندھ دھرتی کی از سر نو نظریاتی ،سیاسی،فکری،معاشی اور قومی صورت گری کی کوشش کی گئی ۔ سندھی سیاسی رہنمائوں، ادیبوں، دانشوروں،صحافیوں، شاعروں، سکالروں، کھوجکاروں، سوشل سائنٹسٹوں ، کارکنوں اور تنظیموں کی سندھ کے حقوق کے لئے ایک عظیم جدو جہد شروع ہوئی اوران سب ملکر نے سندھ کے لئے قربانیاں دیں اور سندھ کے حق کے لئے لڑے ۔ آج کا سندھ،نئے حقائق کے ساتھ ایک نئے راستے کا مسافر ایک نیا سندھ بن چکا ہے ۔،اور اس نئے سندھ کی اکیسویںصدی کی تصویر کوئی اس قدر خوش کن نہیں ہے کہ آج کا سندھ ،دنیا بھر کے عذابوں اور مسائل میں گھرا ناراض اور سراپا احتجاج سندھ ہم سب کی توجہ کا مستحق ہے۔
پاکستان بننے کے بعد کیا کیا خونی سوغاتیں سندھ اور سندھیوں کی جھولی میں ڈالی گئیں اور اور آزادی کا تحفہ’’ پاکستان‘‘ سندھ اور سندھیوں کے لئے ’’ٹروجن ہارس‘‘ کیوں اور کیسے بن گیا؟ یہ سوال گہری توجہ کا متقاضی ہے ۔یہی وہ صورتحال ہے جس نے سندھ کو آتش فشاں بنا کر رکھد یا ہے۔ایسے میں وہ کون لوگ تھے جو سندھ کے حقوق ،جمہوریت ،آزاد ی اور انصاف کی طلب کا پرچم تھام کر سروں پر کفن باندھ کر میدان میں نکلے۔ سندھ کو یہ فکر دینے میں ترقی پسند فکر کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔آزادی نے سندھ کی جڑوں میں بربادی کے زہر کا ایک سمندر الٹ دیا۔ سندھ قیام پاکستان کے بعد بڑے بڑے حادثوں اور دشت قباچ سے نازل ہونے والی بلائوں کا شکار رہا ہے۔
سندھ عظیم ،معصوم،مسکین اور پرامن سندھی قوم کی دھرتی ماں اور وطن ہے ۔مگر آزادی کے بعد یہاں بڑے خوفناک سانحے ،حادثے رونما ہ
و ئے جہنوں نے اس دھرتی کو بربادی اور غیر یقینی مستقبل کی طرف دھکیل دیا ہے ۔
آزادی کے بعد پاکستان میں میعشت،تجارت،زراعت،صنعت،فیکٹریوں،کارخانوں،مالیات، مواصلات ،ریاستی وسائل،زرائع روزگار اور زرعی زمینوں کے بھاری قطعات پر چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے چند مخصوص نسلی ولسانی گروہوں،نوکر شاہی،جاگیرداروں، سرداروں، وڈیروں، چوہدریوں، پیروں اور مراعات یافتہ ملائوں کا قبضہ رہا ہے۔ذرائع ووسائل اور قومی زرائع پیداورا اور دولت پرقابض مٹھی بھر افراد اور خاندانوں پر مشتمل یہی ٹولہ اس ملک میں عوام پر نازل ہونے والے ہر عذاب اور مصیبت کا ذمہ دار او ر اس ملک میں ہر فساد کی جڑ ہے۔
یہ کیسی ریاست ہے اسے کون چلا رہا ہے۔جو اس ملک کے لوگوں سے لہو اور لاشوں کی کبھی نہ ختم ہونیوالی سوٖغات وصول کر رہا ہے۔
سنجیدگی سے اس صورتحال اور سندھ کو عذابوں سے نکالنے کو نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا۔ سندھ قیام پاکستان کے بعد بڑے بڑے حادثوں اور عذابوں کا شکار رہا ہے۔سندھ کا مسئلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی سامنے آ گیا تھا ۔ محرومی اور استحصال کی چکی میں پسنے والے سندھ میں موثر انداز میں پھیل جانے والی قوم پرست اور ترقی پسند تحریک نے سندھ کی محرومیوں اور مایوسیوں کو اظہار کی ایک نئی زبان دی۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سندھ کو قیام پاکستان کے بعد مختلف عذابوں میں دھکیل کر بڑے منظم انداز میں اس کا شکار کرنے کی کوشش کی گئی ۔سندھ کے خلاف ہونے والی نا انصافیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔
(1) قیام پاکستان کے ساتھ ہی کراچی کا سندھ سے چھین لیا جانا
(2) سندھ یونیورسٹی کا اٹھا کر کراچی سے باہر پھینک دیا جانا
(3) کراچی میں سندھی کی تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا
(4) آزادی کے بعد سندھ کے شہروں پر غیر سندھیوں کا قبضہ اور سندھ میں غیر سندھیوں کی وسیع پیمانے پر آبادکاری۔
(5) ون یونٹ کا قیام، سندھ کے بنجر ہونے اوردریائے سندھ کے پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کی شکایت۔
(6) سندھ کی زمینوں پر پنجابی اور پٹھان جرنیلوں اور افسر شاہی کا قبضہ ،لوٹ مار اور بند ربانٹ۔
(7) کا ئنات کے تمام سیاروں سے آسمانی مخلوقوں کا سندھ پر فراخدلانہ نزول۔ بیرون ملک سے افغانیوں،بنگالیوں،ہندوستانیوں اور مہاجرین کی یلغاریں ۔
(8) اندرون ملک سے پنجابیوں،مہاجروں،سرائیکیوں،بلوچوں ،افغانیوں،طالبان ،ہزارے والوں، بہاولپوریوں اور پٹھانوں کی کراچی پر لشکر کشی اور یلغاروں کے نتیجے میںسندھ پرکبھی نہ ختم ہونے والا آبادی کا ناجائز دبائو۔
,(9مریخ سے آنیوالی سمجھو تا ایکسپریس جو غیر قانونی تارکین وطن کو غیر قانونی طریقے سے مسلسل کراچی منتقل کرنے کا اس وقت سب سے بڑا ذریعہ بن چکی ہے اور ہجرت کے عمل کو باسٹھ سال گذرنے کے بعد بھی جاری رکھے ہوئے ہے ۔ سمجھوتہ ایکسپریس کے ذریعے سندھ میں کبھی نہ ختم ہو نیوالی مریخیوں کی جبری آباد کاری کا مکروہ سلسلہ جاری رکھا گیاہے۔ریاست اس جرم کی مجرم ہے۔ جو سندھیوں کو خاموشی سے غیر محسوس طریقے سے اقلیت میں بدلنے کا اس وقت سب سے بڑا اور خوفناک ذریعہ ہے ۔لگتا یہی ہے کہ مریخ پر پھسے ہوئے اٹھارہ کروڑ کو خاموشی سے کراچی منتقل کر دیا جائے۔
(10) 72 میں ہونے والاسندھی اردو لسانی فسادجس کے ذریعے سندھ کو ایک لسانی سے دو لسانی صوبہ بنانے کی شعوری کوشش کی گئی۔
(11) سندھی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی۔
(13) سندھ کے بڑے شہروں مسلسل بدامنی ،دہشت گردی اور لا قانونیت کا رائج رکھا جانا۔ بالخصوص کراچی میں نہ رکنے والی دہشت گردی، تسلسل سے لاشوں کا گرنا اور ہر وقت بلا وک ٹوک چلتی ٹارگٹ کلنگ۔
(14) صوبائی خود مختاری کا غصب کیا جانا کالا باغ ڈیم کا تماشا،این ایف سی ایوارڈ کا ڈرامہ ،سندھ کے وسائل کی بے رحمانہ لوٹ مار ، اور پر ہیبت دریائے سندھ میں اڑتی ریت۔کراچی کی فراڈ انتخابی حلقہ بندیوں کے ذریعے سندھیوں کو سندھ کے اقتدار سے محروم رکھنے اور سندھ اسمبلی میں اقلیت میں رکھنے کی منصوبہ بندی۔
(15) سندھی زبان و ثقافت کا استحصال ، اندرون سندھ بے روزگاری، پسماندگی،تعلیم،روزگار اور صحت کی سہولیات کا فقدان،کراچی ،اسلام آباد اور فوج میں ملازمتوں سے محرومی ، ہر طرح سے پیچھے رہ جانے کادکھ ، کراچی ،لاہور اور اسلا م آباد کا متعصابانہ اینٹی سندھ اور اینٹی سندھی رویہ ،اوپر سے اغواء براے تاوان ،باکمال لازوال وڈیرہ شاہی ،کاروکاری اور ڈاکو راج کی دہشت گردی۔
(16) سندھ پر مسلح آدم خور طالبان کا نزول
(17) سندھی بے نظیر بھٹوکا قتل جو بہت سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کے تحت پنجاب میں کیا گیاجس کے نتیجے میں پاکستان نہ کھپے کا نعرہ لگا۔
جی ہاںسندھ اور سندھیوں کے خلاف ہونے والی نا انصافیوں اور مظالم کا کوئی شمار قطار نہیں۔کسی کو برا لگے یا اچھا حقیقت یہی ہے۔ گویا
’’آسمان سے نازل ہونے والی ہر بلا سیدھی میرے ہی گھر پر اترتی ہے‘‘۔ اقلیت میں تیزی سے بدلتا اور سندھ سے تیزی سے غائب ہوتا سندھی، کراچی میں نہ رکنے والی دہشت گردی اور تسلسل سے لاشوں کا گرنا، کالا باغ ڈیم کا تماشا، این ایف سی ایوارڈ کا ڈرامہ، سندھ کے وسائل کی مال غنیمت کی طرح بے رحمانہ لوٹ مار ، مسائل کے دوزخ میں جلتا سندھ اور احساس محرومی کے دکھ، غم اور زخموں سے لہولہان سندھی ۔ ایسے میں اگر سندھی سندھو دیش اور پاکستان نہ کھپے کے نعرے نہ لگائے تو کیا ’’میرے مولا مدینے بلا لے مجھے ‘‘کی قوالی گائے۔
آزادی کے بعد اس ملک کی باگ ڈورسنبھالنے اورمعاشی اور صنعتی منصوبہ بندی کرنے والے احمقوں کے مخصوص نسلی اور متعصب ٹولے نے صنعتی و معاشی سرگرمیاں،سرمایہ کاری اور مالیاتی فوائد اندرون سندھ اور ملک کے دیگر حصوں تک منتقل کرنے اور پھیلانے کی بجائے ملک کی ستر فیصد صنعتی، معاشی، مالیاتی سر گرمیاں، کارپوریشنیں، سرمایہ کاری ، صنعتیں، ذرائع، مواقع، کارخانے ، فیکٹریاں ، ملیں ، اور ملٹائی نیشنل کمپنیاں اور ان کے صدر دفاتر سب کراچی میں مرتکز کردیں۔جن میں ملازمتیں کرنے والے سب مہاجر ہیں اور یہ سب بے پناہ سہولیات بھاری بھرکم تنخواہیں پاتے ہیں ۔اور بادشاہوں ،لارڈز،سرمایہ داروں اور وڈیروں کی سی عیاشی کی زندگی گذارتے ہیں۔ڈیفنس کلفٹن کے محلات میں رہتے ہیں اور شاندار گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ اس سب کچھ کا مگرایک غریب مگر پڑھا لکھا سندھی نوجوان محض خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔ قومی خزانے سے ،ملک بھرکے عوام کی بچتوں سے جمع شدہ دولت سے کراچی میں ہر شعبہ زندگی میں دبا کر سرمایہ کاری کروانے ،اندرون سندھ کو محروم رکھنے اور باقی تینوں صوبوں کو دھتکارنے کی پالیسی کے نتیجے میں کراچی میں ملازمتوں اور روزگار کے بے پناہ مواقع پیدا ہوئے ۔ جس پر مکمل طور پر بھارت سے آنے والوں کا قبضہ ہوگیا،اور کراچی میں موجود وفاقی کوٹے کی ہزاروں لاکھوں ملازمتوںکے حقدارپنجابی ،پٹھان ،سندھی اور بلوچ مونہہ دیکھتے رہ گئے۔ کراچی میں موجود ہزاروں لاکھوں وفاقی اور صوبائی ملازمتوں پر ہندوستان سے آنے والے قابض ہو گئے ۔اور آج بھی ہیں ۔
دوسری جانب یہ غیر مقامی نسل پرست قومی منصوبہ ساز اندرون سندھ اور باقی کے تینوں صوبوں میں کراچی کی ٹکر اور طرزکے بھاری بھر کم صنعتی شہر بسانے میں ناکام رہے ۔یا انہیں اس سے د لچسپی نہ تھی ۔غالبا کراچی سے آگے دیکھتے ہوئے کم نظری کا شکار ہو جاتے تھے ۔اس سندھ دشمن اور پاکستان دشمن پالیسی کے نتیجے میں ملازمتوں،روزگار اور کاروبار کے ستر فیصد مواقع کراچی میں ہی وقف ہو گئے ۔ملک کی ستر فیصد دولت کراچی میں دفن ہو گئی اب یہ کس کے قبضے میں ہے ۔بتانے کی ضرورت نہیں۔’’ہمارا کراچی‘‘ کے نعرے ملک کی اسی ستر فیصد قومی دولت ،کراچی کی بندرگاہ اور ہزاروں لاکھوں نوکریوں پر قبضہ جمائے رکھنے اور سندھیوں،پنجابیوں،بلوچوں اور پٹھانوں کو اس سب کچھ سے دور رکھنے کے لئے ہی لگائے جاتے ہیں۔ کراچیبھرت سے آنے والوں کے لئے سونے کی چڑیا ثابت ہوا ہے ۔ اور سندھیوں کے لئے شجر ممنوعہ ۔ اوراسی سب کچھ کے تحفظ کے لئے کراچی پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے کراچی میں موجود سندھیوں،پنجابیوں،پٹھانوں اور بلوچوں کو بھگانے کے لئے مسلسل ان کے خلاف دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ بھی کی جاتی ہے ۔ تاکہ کوئی دوسرا کراچی کے قریب نہ پھٹکے۔
بدنیتی پر مبنی اس منفی منصوبہ بندی اور پالیسی کے نتیجے میں اندرون سندھ اور باقی ملک میں ،غربت ،محرومی ،بے روزگاری ،مفلسی اور پسماندگی کی خاک اڑتی رہی ور اُڑ رہی ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اندرون ملک ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے سارے بے روزگار، بھوکے، مفلس ، اور غریب سندھ اور بالخصوص اس کے بڑے شہر کراچی پر چڑھ دوڑے ۔جس سے سندھ پر آبادی کا دبائو بڑھا ، اندرون سندھ ترقی و خوشحالی کا راستہ رک گیا۔سندھیوں پر آگے بڑھنے کے راستے بند ہو گئے ۔ جس سے سندھی احسا س محرومی کا شکار ہوا۔
سندھیوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ان کا سب سے بڑا شہر جو ایک ساحلی شہر بھی ہے ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اور وہ خود اور ان کے بچے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں اور دوسرے ان کی دھرتی پر باہر سے آ کر نہ صرف عیش کر رہے ہیں۔ بلکہ کے وسائل بھی لوٹ کر کھا رہے ہیں،
انہیں اقلیت میں بھی بدل رہے ہیںاور اوپر سے ان کے خلاف دہشت گردی بھی کرتے ہیں۔
پھر جب کسی دھرتی پرظلم اور نا انصافی بڑھ جاتی ہے، مظلوموں،محروموں اور نہتوں کو جب دیوار سے لگادیا جاتا ہے انہیں اپنی ہی دھرتی پر اقلیت میں بدلنےریڈ انڈین بنانے کی شعوری کو شش کی جاتی ہے ۔ ان کی دھرتی کے وسائل پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے ۔ان پر روزی روزگار اور ترقی کے راستے بند کر دئے جاتے ہیں۔اورپھراجرکوں میں مونہہ چھپائے گڑھی خدا بخش کے کچے اور پر غم راستوں پر چلتے ان معصوموں کی آنکھوں سے خون کے آنسو گرتے دیکھ کر بھی جب انہیں تنہا چھوڑ دیا جائے، تو پھر بے بس اپنی بقا کے لئے ،زندہ رہنے کے لئے اپنے حق کے لئے غیض و غضب کے عالم میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ بغاوت کا جھنڈا اٹھا لیتے ہیں ایسے میں پھر جی ایم سید کو تو آنا ہی ہوتا ہے ۔ پھر سندھو دیش کا جھنڈا تو بلند ہونا ہی ہوتاہے ۔پھر پاکستان نہ کھپے کے نعرے بھی سننا پڑتے ہیں ۔پھرکراچی سندھ کاہے سندھیوں کا ہے کی دھمال بھی دیکھنا پڑتی ہے۔پھر زیب النساء سٹریٹ پر سندھی ٹوپی اور اجرک والوں کے دھرنے بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔پھر کالا باغ ڈیم سے بھی ہاتھ اٹھانا پڑتا ہے ۔ پھر سندھ اور سندھیوں کے خلاف بننے والے پنجابی پٹھان مہاجر اتحاد کا جنازہ بھی اپنے ہاتھ سے اٹھانا پرٹاہے۔ پھر پنجابی سامراج کو بھی اپنا ہاتھ روکنا پڑتا ہے ۔ پھر سندھ رجمنٹ بھی بنانا پڑتی ہے۔پھر پریذیڈینٹ ہائوس اور پرائم منسٹر ہاوس بھی ان کے حوالے کرنا پڑتا ہے اور پھر اوربھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔کچھ لوگ ہیں کہ ملک تڑوا کر اب بھی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔
کچھ لوگ سمجھ لیں کہ سندھ پر ظلم ڈھانے والے سندھ کو لوٹنے والے اور سندھیوں کو محروم رکھنے والے اب سارے ہاتھ توڑناہوں گے بس کرو بس بہت ہو چکی،سندھ کو اب معاف کرو۔
سندھ آج بھی بے چین اور سراسر آمادہ بر بغاوت ہے سندھ کی تاریخ گواہ ہے کہ سندھی ہار ماننے والا نہیں ہے۔ اور وہ کبھی نہ ختم ہونیوالی مزاحمت کی جنگ لڑ سکتا ہے۔ اور لڑ رہا ہے ۔ گڑھی خد ا بخش میں کبھی نہ بجھنے والے چارچراغ یونہی تو نہیں جلتے۔
تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔
سندھ کے ساتھ جب ناانصافیوں اورمظالم کا آغاز ہوا توسائیںجی ایم سید سندھ کی آواز بن گئے ۔سائیں جی ایم سید کوسندھی نیشنل ازم کا بانی قرار دیاجا سکتا ہے۔انہوں نے 1947 میں سندھ پراگریسیو پارٹی کی بنیاد رکھی اور سوشلسٹ فریم ورک کے اندر سندھ کے لئے صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا۔ مگر بعد میں سندھو دیش کا بھی ۔ سندھ کی سیاست پر ان کی چھاپ نمایا ں نظر آنے لگی۔انہوں نے سندھ کے لئے اپنی زندگی وقف کردی۔ سید صاحب اپنے آدرش کی خاطر 32 سال تک قید و بند کی صعوبتیں جھیل کر قیدی کی حالت میں ہی مرے۔ اور اس حالت میں مرے کہ حکومت نے ان پر بغاوت کا مقدمہ قائم کر رکھاتھا۔اور وہ نظربند تھے۔ سائیں جی ایم سید پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی تھے اور ایمنسٹی انٹرنیشل نے0 برس کی عمر میں انہیں ’’ضمیر کا قیدی ‘‘قرار دیا ۔ سائیں اپنی ذات میں ایک ترقی پسند اور صوفی تھے ۔وہ سندھ کی سوسائٹی میں ایسا انقلا ب لانا چاہتے تھے جو اس عہد کے تسلیم شدہ نظریوں ،دستوروں اور قوانین کی بیخ کنی کرتا ہو۔ سائیں جی ایم سید کے لئے کسی نے کہا تھا کہ ’’ کہ سندھ ان کی زندگی تھا۔وہ سندھ کے لیئے جئے ،اس کے حقوق کے لئے جدوجہد کی اور اس کے لئے جان دے دی‘‘
کراچی پاکستان کا سندھ کا سب سے بڑا ،سب سے حساس اور سب سے اہم ترین شہر ہے۔پاکستان کہ معاشی شہر رگ ہے۔ کراچی سندھ ہے اور سندھیوں کا شہر ہے ۔اس شہر میں رہنے والے تمام لوگ خواہ ان کا تعلق کسی بھی زبان، علاقے اور نسل سے ہو سندھ میں رہنے کی تہذیب سیکھیں۔ سندھ کے تمام باشندے اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں۔ سندھیوں سے قریب رہیں۔اورسندھ میں سندھی بن کر رہیں۔اور کراچی کو،سندھ کو اور پاکستان کو تباہ وبرباد کرنے کی سازش ناکام بنا دیں۔سندھ بھر کے ترقی پسند ادیب،شاعر اور دانشوراب آگے بڑھیں اور سندھ میں امن اور بھائی چارے کے فروغ کے لئے اور نفرتوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے پنا کردار ادا کریں۔ہمیں لا تعلق اور بے حس ہو کر یاایک طرف بیٹھ کر سندھ کے برباد ہونے کا تماشا دیکھنے کی بجائے سندھ میں امن ،ترقی اور خوشحالی کے لئے مل جل کر کام کرنا چاہئے ۔اور مصیبت کی گھڑی میں ہمیں سندھیوں کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے ۔کہ سندھ پرامن،خو شحال اور مطمئن ہوگا تو اس سے پاکستان طاقتور ہوگااور اس کا مستقبل محفوظ ہوگا۔کراچی میں رہنے والے تمام نسلی و لسانی گروہوں کو ہتھیار پھینک کر امن،دوستی،بھائی چارے کی راہ پر چلنا ہو گا۔
غدار،بے ضمیر اور بے شرم وہ تھے جنہوں نے سندھ سے سندھیوں کی محبت کو، پاکستان سے محبت کو ،جمہوریت اور عوامی آزادیوںسے محبت کے اظہار اور مقدس جذبوں کو پاکستان دشمنی کا فعل گردانا۔ اتنی معمولی سے بات اسلام ،امہ اور آفاقیت کے ٹھیکداروں کی سمجھ میں آج تک نہیں آ سکی۔ افسوس ہے ان پنجابیوں پر جو سٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں پنجابی ہیں مگراپنے پنجاب اور اپنی ماں بولی سے سندھیوں کی طرح محبت نہیں کرتے اور سندھیوں کے اپنی دھرتی ماں سے عشق کے عمل کو رشک سے دیکھنے ،ان سے سبق سیکھنے کی بجائے انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اور بلھے ،وارث اور فرید کا رستہ چھوڑ کر ظالموں اور غاصبوں کی راہ پر چل نکلے ہیں۔اپنوں غیروں سب کے لئے کیدو بن گئے ہیں۔ ۔ظالم اور غاصب پنجابیوں کے ایک مٹھی بھر گروہ کو اپنے ظالمانہ اور غاصبانہ رویہ کو تبدیل کرنا ہوگا۔
ظالم اور ٖغاصب پنجابی کو ہم اس طرح پہچانتے ہیں کہ وہ پنجاب میں اپنی ماں بولی کا بھی حق غصب کئے بیٹھا ہے اور اس پر ظلم کر رہا ہے ۔ اپنی ماں بولی کا قتل عام کررہا ہے۔اس کے نفاذ کا راستہ روک کر بیٹھا ہے ااور اس نے پنجابی بچوں کو اپنی ہی ماں بولی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے آئینی،قانونی،جمہوری اور پیدائشی حق کو ریاستی طاقت کے زور پر غصب کر رکھا ہے۔ یہی پنجابی حکمران اصل ظالم اور غاصب ہے ۔اس سے پنجاب کے عوام بھی شدید نفرت کرتے ہیں۔کیوں کہ پنجاب میں بھی ہر طرف آج خاک اڑ رہی ہے ۔ یہی پنجابی ٹولہ نہ صرف چھوٹے صوبوں بلکہ پنجاب کے عوام کا بھی مجرم ہے ۔ پنجاب کے مظلوم عوام اپنی ماں بولی کا حق غصب کرنے والے اس ظالم اور غاصب پنجابی کردارکی شدید مزمت کرتے ہیں
میرے نزدیک پنجاب کی طرح سندھ بھی ایک لسانی اور انتظامی وحدت ہے ۔ پاکستان میں چار صوبے ہیں اور چار ہی رہنے چائیں نئے نہیں بننے چاہیں ۔ چاروں اکثریتی زبانوں سندھی،پنجابی،پشتو اور بلوچی کو پا کستان کی قومی زبانیں بنا دیا جائے ۔اسی میں وفاق کا بھی مفاد ہے اور سندھ،بلوچستان،پنجاب اور خیبر پختو نخواہ کو تقسیم کر کے نئے صوبے بنانے کا خیال ترک کر دیا جائے ۔ورنہ یہ عمل تباہ کن ثابت ہوگا۔اگر پنجاب یا سندھ میں سے کسی ایک بھی یاچاروں صوبوں کی تقسیم کرنے کی کوئی ایسی حرکت کرنے کی کوشش کی گئی تو خانہ جنگی ہو گی اور پاکستان نہیں رہے گا۔مسائل کے حل کے لئے نئے صوبے بنانے کی بجائے دوسرے ہزار راستے ہیں ۔ان کی طرف دھیان دیا جائے تو بہتر ہوگا۔پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے وہ راستہ اخیتار نہ کیا جائے جس میں فساد ،تباہی اور بربادی ہے اورجو خانہ جنگی،خون خرابے،اور پاکستان کے خاتمے کی طرف جاتا ہے کہ نئے صوبوں کے قیام یا سندھ اور پنجاب کے بٹوارے میں مجھے پاکستان کی یقینی موت نظر آتی ہے ۔وہ جو پنجاب یا سندھ کو تقسیم کرکے نئے صوبے بنانا کے خواب دیکھ رہے ہیں اور ان کی سا لمیت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں ان کو جنم دینے والی ان کا ماتم کریں گی۔اس بات کا خیال رہے کہ پنجاب یا سندھ پاکستان میں اس لئے شامل نہیں ہوئے تھے کہ ان کے ٹکڑے کر کے انہیں ختم کر دیا جائے۔
سندھ میں زبان و ادب کے حوالے سے ہمیںسندھی ادبی سنگت کا کردار حیرت انگیز نظر آتا ہے۔ا نتہائی منظم اور سخت ڈسپلن اور مکمل نظریاتی کمٹ منٹ رکھنے والی سندھی ادبی سنگت 22برانچوں اور دس ہزار ممبروں کے ساتھ یہ سندھ ہی نہیں پوری دنیا تک پھیلی ہوئی ہے۔مثالی کردار کی حامل سندھی ادبی سنگت نے سندھ کے ادبی،فکری،نظریاتی،سیاسی اور تعلیمی میدان میں شاندار کارنامے انجام دیئے ۔اور اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے مسلسل اٹھنے والی تعلیم یافتہ سندھی نوجوانوں کی ترقی پسندانہ اور قوم پرستانہ قیادت،دانش،سیاست، فکر، نظریئے ، سوچ، جدوجہد اورتحریک نے سندھ کے سماج کو سب سے ذیادہ متاثر کیا ہے۔سندھی ادبی سنگت نے میرے بھائی اور میرے دوست یوسف سندھی کی قیادت میں جو سندھی تحریک کے ایک انتہائی انتھک ، مخلص اور committedورکر ہیں کی قیادت میں سندھی ٹوپی کا کامیاب دن منا کراور’’ سندھی بولی قومی بولی‘‘ کی تحریک شروع کر کے ثابت کردیا کہ یہ تنظیم سندھی زبان و ادب اور سندھ دھرتی سے اپنے کمٹمنٹ کے حوالے سے جاگ رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیم اپنے مثالی کردار کی وجہ سے سندھ کے گھر گھر میں انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ اور اسے سندھی عوام میںبھی مقبولیت حاصل ہے۔ یوں تو سنگت سارے سندھ پر چھائی ہوئی ہے مگر نوشہرو فیروز غالبا سندھی ادبی سنگت کا سب سے مضبوط گڑھ بلکہ قلعہ ہے .اور سندھی ادبی سنگت کو غالبا سب سے ذیادہ فخر اپنے اسی قلعے پر ہے۔سندھی ادبی سنگت کو یہ شاندار کامیابیاں مبارک ہوں۔میری دعا ہے کہ سندھی ادبی سنگت آنے والے دنوں میںکامیابی کی بڑی بڑی منزلیں طے کریں۔آمین۔
’’ سندھ میں رہنے والے سب سندھی ہیں،خواہ وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں ۔جو سندھ میں مستقل آباد ہیں انہیں سندھ مائی کا احسان مند
ہونا چاہئے ۔سندھ میں رہنے والے تمام لوگوںکا فرض بنتا ہے ۔ اور خاص کر سندھ میں رہائش پذیر پنجابیوں کا ۔سندھ میں ر ہنے والے تمام پنجابی سندھی بن جائیں ،وہ سندھی زبان سیکھیں ،سندھی لکھیں،سندھی پڑھیں اور سندھی بولیں،سندھی کلچر کو اپنائیں ، اپنے آپ کو سندھ کی دھرتی سے جوڑیں۔ مصیبت کی گھڑی میںپنجابی سندھیوں کو تنہا نہ چھوڑیں۔ان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے ہوں۔اور سندھیوں کے ساتھ ہو کر سندھ کے حق کے لئے لڑیں۔ اور کبھی وقت پڑے تو پنجابی سندھ کے لئے اپنا لہو دینے سے بھی دریغ نہ کریں۔پنجابی جس طرح اپنے دشمنوں سے لڑتے ہیں بالکل اسی طرح کِلا ٹھوک کر سندھ اور سندھیوں کے دشمنوں سے بھی لڑیں۔کہ سندھ مائی کے پنجابیوں پر بڑے احسانات ہیں۔ اور کوئی پنجابی احسان فراموش نہیں ہوتا۔ سندھ میں رواداری،بھائی چارے، امن اور خوشخالی اور سندھ میں سندھی بن کر رہنے میں سب کا مفاد ہے ۔وہ بدنصیب جنہیں اپنی دھرتی ماں سے محبت کر نے کی تہذیب نہیں آتی وہ سندھیوں سے سیکھ لیں۔
سندھ کے خون میں شاہ لطیف ہمیشہ گردش کرتا رہتا ہے ۔سندھ سب سے محبت کرتا ہے نفرت کسی سے نہیں کرتا۔اور جوابا محبت کا طلب گار ہے۔سندھ کسی کا دشمن نہیں ہے سب کا دوست ہے ۔ مگرجب دوست بھٹک جائیں اور دشمنوں کی ٖ صف میں کھڑے ہوجائیں تو پھر سندھ شاہ لطیف کے الفاظ میں پکار اٹھتا ہے ۔
ترجمہ:اے محبوب کمان کھینچ کر مجھ پر مت تیر چلا مجھ میں تو تو ہی ہے، ایسا نہ ہو کہ تیرا تیر تجھے لگے۔
جیئے سندھ۔