11/02/2018 جامی چانڈیو
گوکہ سندھ میں ‘‘مہاجر نفسیات’’ اور اس بنیاد پر ‘‘مہاجر سیاست’’ قیامِ پاکستان سے مختلف صورتوں میں موجود رہی ہے لیکن اس کا بدترین روپ اور انتہاپسند شکل ایم کیو ایم تھی، جو کہ1985ء کے بعد سامنے آئی اور پروان چڑھائی گئی۔ چونکہ فاشزم اپنی بنیادی سرشت میں اندھا ہوتا ہے، اس لیے فاشسٹ صرف دہشت کے ذریعے وقتی ناجائز کامیابیوں پر خوش ہوتے ہیں، لیکن فاشسٹ یہ دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ یہ لہر دہشت کے ذریعے وقتی طور پرناجائز کامیابیاں تو حاصل کر سکتی ہے لیکن یہ آگ اس کے شعلوں کی زد میں آئے ہوئے معاشروں کے ادراک، عقل، احساس، انصاف پسندی اورمجموعی طورپر ان معاشروں کی روح کو جلا کر رکھ دیتی ہے۔
انیسویں صدی سے لے کر دنیا کے اندر جہاں کہیں بھی فاشسٹ تحریکیں پیدا ہوئیں اُن کا یہی انجام ہوا اور سندھ میں ایم کیو ایم اور اس کے حواریوں کی بھی یہ ہی صورتحال رہی، جس طرح ہٹلر کے عروج کے وقت جرمنی کےاکثریتی دانشور اور اکابرین بھی اس کے بدترین فاشزم کے نتائج کا ادراک کیے بغیر اس کے معاون بن گئے (حتیٰ کہ تھیوڈ ور ہیوس جیسا لبرل فلسفی نے بھی اس کو پارلیمنٹ میں ووٹ دیا، جو کہ اس کے بعد جرمنی کا پہلا چانسلر ربنا)، بلکل اسی طرح ہمارےیہاں کے اکثریتی اردو بولنے والے دانشور اور ادیب بھی ایم کیوایم کے خفیہ خواہ ظاہری طور پر حامی رہے، کم از کم سندھیوں نے کبھی بھی اپنی صفوں سے دہشتگرد اور فاشسٹ سیاست کو آگے بڑھنے اور پروان چڑھنے نہیں دیا۔ البتہ سندھیوں کے بھی کچھ افراد اور گرہوں میں انتہاپسند سوچ کی سیاسی صورتیں موجود رہی ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود کہ ایم کیو ایم کی اس طرح کی سیاست نے نہ صرف کراچی شہر، سندھ، سندھیوں، ملک کے جمہوری عمل اور مجموعی طور پر عوام اور دراصل سب سے زیادہ نقصان اپنی اردو بولنے والی آبادی کو دیا۔ برطانیہ میں مقیم اسکالر نکولا خان کی تحقیقی کتاب “Mohajir Militancy in Pakistan” پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ درحقیقت ایم کیو ایم نے گذشتہ ساڑے تین دہائیوں کے دوران پشتونوں کے بعد سب سے زیادہ اپنے اردو بولنے والے مخالفوں کو ہی قتل کیا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہٹلر نے اپنے مخالف جرمن اور مسولینی نے اپنے مخالف اطالویوں کو سب سے زیادہ مروایا تھا۔ سندھ میں ایم کیو ایم کی اس دہشتگرد سیاست کا عروج دیکھ کر لوگوں کو لگتا تھا کہ ریاست کی مدد سے پروان چڑھائی گئی اس دہشت کی طاقت کا سورج کبھی بھی غروب نہیں ہوگا، لیکن تاریخ کے ادراک کے حامل لوگ اس وقت بھی یہ جانتے تھے اور اب بھی انہیں معلوم ہے کہ اس قسم کی سوچ، نفسیات اور سیاست کو کوئی دوام اور اس کامستقبل نہیں ہو سکتا۔
ان گذشتہ تین دہائیوں کے دوران وقتی طور پر تو ایم کیو ایم نے اقتدارکے بے شمار مزے لوٹے ہیں اور کراچی میں دہشت کے ذریعے اپنی سیاست اور طاقت کو زندہ رکھا لیکن دیکھا جائے تو اس سیاست نے اردو بولنے والے لوگوں کی نسلوں کو ایسی مہلک ضرب لگائی جس سے باہر آنے یا اس کا سدِ باب کرنے کے لیے انہیں مزید دہائیاں درکار ہوں گیں۔ ان کے نچلے اور نچلے متوسط طبقے کی نئی نسل کے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ غیرقانونی اسلحہ اور دہشتگرد نفسیات اور اس کی نرگسیت اور علم، ادب اورانسانی تعمیر کے عوامل کی جگہ جرائم،دہشتگردی اورفاشزم جیسے عناصر نے لے لی۔ یہ ایم کیو ایم کی گذشتہ تین دہائیوں کی سیاست کا ہی نتیجہ ہے کہ آج اردو بولنے والی آبادی ملکی سیاست میں تنہائی کا شکار ہے۔ اردو بولنے والی آبادی اوربالخصوص ان کے نچلے اور نچلے متوسط طبقے میں پیدا ہونے والا احساسِ تنہائی کسی نئی اور مزید بدترین اور انتہاپسند سیاست کا روپ بھی لے سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی حقیقت پسندی کی طرف مثبت رخ میں بھی سفر کرے۔ میری نظر میں یہ ہی وہ سوال ہے جس پر نہ صرف اردو بولنے والے دانشوروں کو بلکہ خود ہمیں، سندھ کی قومی اور جمہوری سیاست کو اور ملک کے تمام روشن خیال افراد کو سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان سے آبادی کی نقل مکانی ناجائز تھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو بولنے والی آبادی کے حکمران طبقے خواہ دانشوروں کی اکثریت نے کبھی بھی سندھ کو دل سے اپنا وطن نہیں مانا اور وہ سندھیوں کے تاریخی حقوق کے لیے مطلوبہ حساسیت پیدا نہیں کر سکے، لیکن اب تاریخ کی یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو بولنے والی آبادی سندھ کی آبادی کا ایک مستقل حصہ ہے اور انہیں پس و پیش یہ سمجھنا اور تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کے مستقل جائز مفادات سندھ اورسندھیوں سے ہم آہنگی قائم رکھنے میں ہی محفوظ ہو سکتے ہیں اوریہ بے جا تضاد ان کے حکمران طبقے اور ریاست کے ناجائز مفادات کو تو پورا کرسکتا ہے لیکن ان کے اور ان کی آنے والی نسلوں کے مفادات ان کے ہرگز نہیں۔ اسی طرح یہ بات سندھیوں کو بھی سمجھنی ہوگی کہ یہ تضاد جہاں اردو بولنے والی آبادی کے حق میں نہیں وہاں پر یہ ہمارے حق میں بھی نہیں۔ ہمیں بھی یہ عالمی سیاسی اُصول سمجھنا ہوگا کہ دنیا کے تمام عوام میں تضادات عارضی ہوتے ہیں اور ان کا فائدہ پس و پیش حکمران طبقے کو ہوتا ہے۔
گذشتہ کچھ سالوں سے متحدہ ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے۔ پرویز مشرف کا دور ان کی روایتی دہشت انگیز سیاست کا عروج تھا لیکن بہت سے معروضی اسباب کی وجہ سے اب یہ سیاست سخت بحران کا شکار ہو چکی ہے اور مستقبل میں مزید توڑ پھوڑ کا شکار ہو جائے گی۔ کہنا چاہیے کہ یہ سیاست اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اردو بولنے والی آبادی کے بالائی یا بالائی متوسط طبقے کو اس کی پرواہ بھلے ہی نہ ہو کہ ان کے طبقاتی مفادات صرف ایم کیو ایم سے مشروط نہیں رہے اور وہ بدلے ہوئے حالات میں یا تو پی ٹی آئی جیسی جماعتوں میں جا سکتے ہیں یا اپنے نئے گروہ بنا سکتے ہیں لیکن اصل سوال اردو بولنے والے نچلے اور نچلے متوسط طبقے کے سیاسی مستقبل، ان کی سیاسی نفسیات یا نئے امکانی رجحانات ہے۔ بظاہر تو چاہے یہ دردِ سر سندھیوں کا نہ ہو لیکن میرا خیال ہے کہ اس سوال پر ہماری سیاسی جماعتوں، اہلِ فکر افراد یعنی مجموعی طور پر سول سوسائٹی کو ضرور سوچنا چاہیے، کیوں کہ اس سوال کا تعلق ہر حال میں سندھ اور سندھی کی سیاست اور سماج سے مشروط اور منسلک ہے۔ اور اردو بولنے والے ہمارے سماج کا اٹوٹ انگ ہیں، وہ سندھ کی مستقل آبادی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان کے معاملات اور مسائل کو مجموعی طور پر سندھ کے مسائل اور معاملات سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ سندھ اور سندھیوں کے مسائل، خدشات اور معاملات میں اردو بولنے والوں کو مثبت انداز میں دلچسپی لینی چاہیے اور اس طرح ہم ایک مشترکہ متنوع اور جمہوری معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
اس وقت ایم کیو ایم اور اس کی سیاست کے کثیرالطرفی سیاسی اورتنظیمی بحران کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہمیں نظر آتا ہے کہ اردو بولنے والی آبادی ایک نفسیاتی بحران اور سیاسی اضطراب کا شکار نظر آتی ہے۔ ایم کیو ایم کی سیاست نے انہیں ہمیشہ عدم سلامتی کے بے جا خوف کے احساس میں مبتلا رکھ کر انہیں ہمیشہ اپنے ناجائز گروہی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ ایک طرف انہیں اس بے جا خوف میں مبتلا رکھا گیا تو دوسری جانب ایم کیو ایم نے انہیں یہ شدید احساس دلایا کہ ریاست، حکومتیں اور مجموعی طور پر پاور سے ان کے تعلق کا واحد ذریعہ ایم کیو ایم ہے اور اگر وہ نہ رہی تو پھر ان کا پاور سے جو رابطہ ہے وہ کٹ جائے گا اور تیسری طرف ایم کیو ایم کی سیاست نے انہیں عملی طور پر ملکی سیاست میں گوشہ نشین بھی کردیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایم کیو ایم کے بحران نے اس نفسیاتی اور سیاسی اضطراب کو مزیدہ پیچیدہ کر دیا ہوگا۔ اس لیے ضرورت اس بات ہے کہ سندھ میں جمہوری اور قومی سیاست کرنے والے فریقین بھی ان پیچیدگیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے نہ صرف اپنی پالیسیوں اوررویوں کو از سر نور ترتیب دیں بلکہ اس ضمن میں عملی طور پر تدابیر اور حکمت عملیاں بھی بنائیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ایک دوسرے کے معاملات و مسائل ہمارا دردِ سر نہیں تو یہ سوچ غلط اورنقصاندہ ثابت ہوگی۔ سندھ کا ہر سیاسی اور کوئی بھی حساس معاملہ اور سوال ہمارا مشترکہ معاملہ ہے اور یہ ہماری ایجنڈ ا پر ہونا چاہیے۔
اردو بولنے والی آبادی کو پس و پیش یہ تسلیم کرنا ہوگا اور انہیں سمجھانا ہوگا کہ ان کے مستقل جائز مفادات سندھ اور سندھیوں سے منسلک ہیں اور سندھ کی تقسیم کا خیال نہ صرف دیوانے کا خواب ہے بلکہ وہ انہیں مزید تنہائی اور سیاسی بحران کی دلدل میں گرانے کا باعث بنے گا۔ انہیں یہ احساس ہوگا یا ان کے اندر یہ احساس بیدار کرنا ہوگا کہ یہ عجیب بات ہے کہ سندھ کے اصل باشندوں کی اکثریت انہیں نہ صرف اپنانا چاہتی ہے بلکہ ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، ورنہ اکثریت ہمیشہ جبر کے رجحانات کا شکار ہوجاتی ہے لیکن یہ عجیب ماجرا اور سندھ کا روادارانہ اور صوفیانہ مزاج ہے کہ ایک ثقافتی اور لسانی اقلیت کو دوسروں سے الگ ہونے کا گمراہ کن راستہ دکھایا گیا ہے تو دوسری جانب اکثریت یعنی سندھی انہیں مستقل طور پر اپنانا چاہتے ہیں اور اس کا عملی طور پر ثبوت بھی پیش کرتے ہیں۔
اس صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ سندھ میں ایک نئے سیاسی ڈسکورس کی ضرورت ہے، جس کے تین بنیادی نقاط ہوں۔ پہلہ نقطہ یہ ہو کہ سندھ میں مستقل طور پر آباد آبادیوں اور بالخصوص اردو بولنے والی آبادی کو سندھ کو اپنا وطن دل سے تسلیم کرنا ہوگا۔ وہ چاہے سیاسی طور پر سیاسی جماعتوں سے مدِ مقابل ہوں، اپنے جائز حقوق کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کریں لیکن ایک طرف انہیں سندھ کو اپنا وطن تسلیم کرنا ہوگا تو دوسری جانب وفاق اور ریاست سے سندھ کے حقوق لینے کی جدوجہد میں سندھیوں کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ سندھ کو اپنا آخری اور حتمی وطن سمجھنے سے وہ مستقل طور پر بے جا اور خود ساختہ عدم سلامتی کے احساس سے بھی باہر آجائیں گے۔ یہ عمل یک طرفہ انداز سے آگے نہیں بڑھ سکتا، سندھیوں کو بھی ہر سطح پر انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ یہ ان کا اور ان کی آنے والی نسلوں کا بھی وطن ہے۔ ان کے اندر اندرونی طور پر سیاسی طور پر مثبت مقابلے بازی تو ہو سکتی ہے لیکن یہ تضاد یا فرق سندھ کی وحدت کے خلاف کبھی بھی نہیں جانا چاہیے۔ دوسرا نقطہ یہ ہونا چاہیے کہ سندھی ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ اردو بولنے والی آبادی سندھ کو اپنا وطن تسلیم کرنے کے لیے اپنی زبان، کلچر، ادب، ثقافت، شناخت اور جائز گروہی مفادات سے دستبردار ہو۔
جب سندھی یہ کہتے ہیں کہ اردو بولنے والی آبادی کو سندھ میں ضم ہونا چاہیے یا سندھی ہونا چاہیے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ کو وہ اپنی ذیلی شناخت، جائز گروہی مفادات، زبان سے دستبردار ہوں، اس کا مطلب سیاسی ہونا چاہیے۔ مطلب وہ شہریت کی معنیٰ میں سندھی ہوں۔ سندھیوں کو اس بات سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کہ اردو بولنے والی آبادی اپنی زبان، کلچر، ادب اور شناخت سے پیار کرے اور اسے قائم رکھے۔ اس قسم کے موقف سے ایم کیو ایم جیسی قوتوں کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ اپنی آبادی کو گوشہ نشین کر کے اپنی لسانی، نسل پرست اور فاشسٹ گروہی سیاست کی بنیاد پر زیادہ عرصے تک اپنی آبادی کو عدم سلامتی یا تنہائی کی احساس میں رکھ سکے۔ ہمارے بہت سے لوگوں اور گروہوں کو یہ بات بظاہر عجیب یا ناگوار گزرے گی لیکن میرا یہ خیال ہے کہ سندھ کی سیاسی جماعتوں کو اپنے تنظیمی دروازے اردو بولنے والی آبادی کے لیے کھولنے چاہییں۔ ان میں سے ہم خیال لوگوں کو اپنے قریب لانا چاہیے اور ہر فورم پر اردو بولنے والے لوگوں کی شرکت کو یقینی بنانا چاہیے۔ سندھ کی قومی سیاست کا مطلب ہرگز نسل پرست یا لسانی بنیادوں پر قومی سیاست نہیں ہونا چاہیی۔ قومی سیاست سیاسی طور پر کثیرالانسلی ہو سکتی ہے، اس میں سندھ کے مستقل طور پر آباد گروہ شامل ہو سکتےہیں اور شامل ہونے چاہییں۔ اردو بولنے والی آبادی کی طرح میں غلام محمد بیراج کے دؤ ر سے لے کر سندھ میں مستقل طور پر آباد سیٹلر پنجابیوں کو بھی مکمل طور پر سندھی سمجھتا ہوں اور وہ خود بھی اس طرح سمجھتے ہیں، پنجابی شناخت اب ان کی قومیت نہیں بلکہ ذات کی طرح ہے۔
اکیسویں صدی نسلی، لسانی یا مخصوصی ثقافتی دائروں میں قید نام نہاد یکسانیت پر مبنی معاشروں کی صدی نہیں۔ جدید معاشرہ متنوع (Diverse) ہے۔ نام نہاد یکسانیت پر مبنی معاشروں کا تصور زرعی اور جاگیردارانہ سماج کی حقیقت اور باقیات ہے۔ موجودہ اور مستقبل کامعاشرہ رنگ، نسل، زبان اور یکسانیت پر مبنی ثقافت کی بنیاد پر نہیں بلکہ شہریت کے اُصولوں پر قائم ہے اورقائم ہوگا۔ ہمیں بھی یہ ادراک رکھتے ہوئے اپنے وطن، زبان اور آبادی کے جائز مستقل مفادات کے تحفظ کے لیے رواجی سوچوں کے دائروں سے باہر آنا ہوگا۔ سندھی زبان کے علاوہ دیگر زبانیں بولنے والے لوگ بھی سندھ کے وطن دوست شہری ہو سکتے ہیں، ان سے ذیلی سطح پر تضاد اور مقابلے کی صورتیں تو موجود رہیں گی لیکن مجموعی طور پرسندھ کے وسیع تر مفادات کے خیال سے انہیں ایک مسلسل عمل اور سوچ کےذریعے ہم آہنگ کرنا ممکن ہے۔ درحقیقت ایم کیو ایم کی دہشت انگیز سیاست اور خود ہمارے کئی گروہوں کے انتہاپسند موقف کےباوجود گذشتہ دو دہائیوں میں سندھی اور اردو بولنے والے افراد ایک دوسرے سے دور ہونے کی بجائے سماجی، معاشی اور ثقافتی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہوئے ہیں اور یہ عمل مزید آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ ہی ایم کیو ایم کی سیاست کا جواب اور اس مخصوص متعصب سیاست کا حل اور سندھ کی وحدت کی ضمانت ہے۔