(1)
انسان ہمیشہ سے اپنے سے پہلوں کی بڑی دلچسپی اور توجہ سے کھوج کرتا آ رہا ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کے بڑے فکری معاشی اور معاشرتی حوالہ سے کہاں کھڑے تھے۔ ان کی نفسیات کیا تھی۔ اس ذیل میں وہ اپنا اور ان کا موازنہ بھی کرتا آ رہا ہے۔ انسان اپنے پرکھوں کی عزت کرتا ہے۔ ان کی اخلاقیات کی تحسین کرتا ہے۔ ان کی بہت سی باتوں پر فخر کرتا ہے۔ اس ضمن میں ان کو خود سے بہترسمجھتا آ رہا ہے۔ ان کی بعض کوتاہیوں کو صرف نظر کرتا ہے۔ ان کوتاہیوں کی نشاندہی کرنے والے کو برداشت نہیں کرتا۔ یہ اس کی نفساتی کمزوری ہی نہیں اپنے ماضی سے پیار اور اس سے اٹوٹ رشتہ ہونے کی دلیل بھی ہے۔ گویا انسان کی مثل زنجیر کی سی ہے۔ اگر وہ ماضی کے کسی شخص کو برا سمجھتا ہے تو بھی یہ اس سے متعلق ہونے کا ثبوت ہے۔
مورکھ (مورخ) ہو کہ واقعہ نگار‘ اس کو زندہ ہو کہ صدیوں پہلے کا مردہ بادشاہ عزیز رہتا ہے۔ کچھ ہی دن ہوے اخبار میں مع تصور خبر چھپی کہ جہانگیر بادشاہ کے مقبرے کی حالت بڑی بری ہے۔ خبر یوں لگی جیسے اس بر توجہ نہ دی گئ تو سماجی معاشی اور سیاسی دنیا برباد ہو جاءے گی۔ ککھ نہیں رہے گا۔ مجھے دکھ اور افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ قصور میں موجود سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب کا ستیاناس مار کر رکھ دیا گیا ہے۔ باقی ماندہ آثار کی گردن مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کسی کو پرواہ تک نہیں۔ میں نے کسی بادشاہ کی قبر مبارک کا سراغ لگانے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔ چاہے دین الہی کا سا مذہب ایجاد کرنے والا مسلمان تاریخ میں شامل بادشاہ ہی کیوں نہ ہوتا۔ میں نے تلاش کا عمل ابھی ختم نہیں کیا۔ ایک نہ ایک دن کوئ بادشاہ ضرور تلاش لوں گا کیونکہ مغلیہ عہد کی کچھ چیزوں کا سراغ مل گیا ہے۔
جس سات سے نو ہزار سال پرانی تہذیب کے فتل عام سے متعلق اپنی معروضات پیش کرنے جا رہا ہوں اس کا ہلکا پھلکا تعارف پیش کر رہا ہوں اس علاقہ کے تاریخی ہونے کے حوالہ چند ابتدائ معلومات درج کر رہا ہوں تاکہ قاری کسی حد تک قصور* کو جان اور پہچان سکے۔
قصور حضرت بابا بلھے شاہ کی سرزمین ہے۔ حضرت فریدالدین گنج شکر نے یہاں چلہ کاٹا۔ ان کی چلہ گاہ آج بھی موجود ہے اور اس کی زیارت کے لیے لوگ یہاں آتے رہتے ہیں شہرہ عالم کی حامل پنجابی مثنوی “ہیر“ جو ہیر وارث کے نام سے جانی جاتی ہے‘ کے شاعر پیر وارث شاہ نے کسب علم اسی شہر سے حاصل کیا۔ حضرت پیرمہر علی شاہ صاحب اکثر یہاں تشریف لاتے رہتے تھے۔ میرا سوہنا شہر کی گاءک ملکہ ترنم نور جہان اسی شہر سے تعلق رکھتی تھیں۔ حضرت شاہ حسین کے پیر بھائ‘ صدر دیوان
یہاں اقامت رکھتے تھے اس لیے حضرت شاہ حسین لاہوری یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ حضرت غلام محی الدین داءم حضوری اور خواجہ غلام مرتضی کا تعلق قصور سے تھا۔
حضرت بابا گرو نانک دیو کے مسیر یعنی خالہ زاد رام تھمن قصور میں رہایش رکھتے تھے اس حوالہ سے وہ یہاں تشریف لاءے۔
راجہ ٹوڈر مل ماہر مالیات اور اکبر کا نورتن قصور سے تعلق رکھتا تھا۔ اکبر کے سرکاری گویے تان سین کو یہاں ( روہے وال) جاگیر عطا ہوئ۔ اپنی جاگیر پر آیا تو حضرت پیر اخوند سعید ان کا موزک سننے گءے۔گویا تان سین گویا ہی نہیں قصور کا جاگیردار بھی تھا۔ کہتے ہیں بادشاہ ہند رضیہ سلطان کی بادشاہی کو زوال آیا تو وہ قصور آگئ ۔ بڑے قبرستان میں آج بھی اس کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔
سنگیت کی دنیا کے بادشاہ استاد بڑے غلام علی اور استاد چھوٹے غلام علی شہر قصور کے رہایشی تھے۔ راگ جنگلہ قصور کی ایجاد ہے۔ معروف سنگر منظور جھلا قصور کا رہنے والا تھا۔ جہان فن کے مصنف ڈاکٹر ظہور احمد چوہدری کا تعلق کوٹ رادھا کشن‘ قصور ہے۔
مولانااحمد علی جنہیں کشف القبور میں مہارت حاصل تھی کی قصور بلھے اور کمال چشتی کے دربار پر حاضری ثابت ہوتی ہے۔
عبدالله عبدی خویشگی مصنف اخبارالااولیا‘ مفتی غلام سرور چونیاں جو آج قصور کی تحصیل ہے میں ملازمت کرتے رہے’ مولانا غلام الله قصوری‘ مولانا غلام دستگیر‘ علامہ شبیر احمد ہاشمی‘ علامہ مہر محمد خاں ہمدم (شاہنامہ اسلام ہمدم کے شاعر)‘ بانگ درا کا دیباچہ لکھنے والے سر عبدالقادر‘ تحریک مجاہدین کے سر گرم کارکن مولانا عبدالقادر وغیرہ قصور کے رہنے والے تھے۔
عبدالستار نیازی تحریک ختم نبوت کی پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لیے قصور کے مہمان بنے۔ صاحب خانہ کے صاحب زادے کی مخبری پر گرفتار ہوءے
سید نادر سمشی جنہیں ١٩١٩ کی مارشل کی خلاف ورزی اور تھانے کی توڑ پھوڑ کے الزام میں کالے پانی بھیجا گیا قصور کے بہادر سپوت تھے۔
ناموس رسالت کی پاسداری میں ١٩٣٥ میں پھانسی کی سزا پانے والے غازی
محمد صدیق کا تعلق قصور سے تھا۔
صوفی شاعر غلام حضور شاہ قصوری‘ سوہن سنگھ سیتل‘ احمد یار خاں مجبور(میرا ایم فل کا مقالہ ان کی شاعری پر تھا)’ آزر روبی معروف مصور‘ منیر احمد ساءنسدان‘ بھارت کی کسی ہاہیکورٹ کے چیف جسٹس ملہوترا‘ خواجہ محمد اسلام مصنف موت کا منظر‘ پروفیسر صحافی وزیر ارشاد احمد حقانی‘ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع‘ علیم نصری مصنف شاہ نامہ بالا کوٹ‘ سی ایل نارنگ‘ چنن سنگھ ورک محقق اقبال قیصر‘محقق اقبال مجدی‘محقق ڈاکٹر ریاض انجم‘ معروف صحافی اسدالله غالب‘ تنویر بخاری‘ عبدالجبار شاکر‘ صادق قصوری وغیرہ قصور کے رہایشی رہے ہیں۔ اسی طرح عالمی شہرت یافتہ کینسر مرض کے ماہر ڈاکٹر محمود‘ ڈاکٹر ہمایوں نیرو سرجن‘ ڈاکٹر نعیم قصوری‘ ۔ ڈاکٹر سید کنور عباس ماہر اقتصادیات قصور کے رہنے والے ہیں۔
آءین 1973 کے خالق میاں محمود علی قصوری کا تعلق قصور سے ہے۔ زیڈ اے بھٹو کو تختہ دار تک پہچانے والا بھی قصور سے تعلق رکھتا ہے۔ پنجاب کے پہلے وزیراعظم نواب افتخار احمد ممدوٹ قصور سے ہیں انکے والد نواب شاہ نواز ممدوٹ قاءداعظم کے دست راست تھے۔ معین قریشی سابقہ وزیراعظم پاکستان قصور سے تعلق رکھتے تھے۔ سردار آصف احمد علی‘ سردار عارف نکئ سباقہ وزیر اعلی پنجاب قصور کے ہیں ملک شوکت عزیز سابقہ وزیراعظم کا تعلق قصور سے ہے۔ پنجاب کا پہلا چیف سیکریڑی عبدالمجید شیخ کا تعلق قصور سے ہے۔
یوسف خاں اور ضیاء محی الدین قصور کے ہیں۔ بھگت سنگھ آزاد کے ننھیال قصور کے ہیں۔ ان کے ڈیتھ ورانٹ پر دستخط بھی ایک قصوری مجسڑیٹ نے کیے۔ کرانتی کار نظام لوہار اور ملنگی قصور کے ہیں۔ معوف ڈاکو جگت سنگھ المعروف جگا کا تعلق بھی قصور سے ہے۔
علامہ علاؤالین صدیقی، صوفی تبسم‘ سید عابد علی عابد‘ ڈاکٹر سید عبدالله‘ اشفاق احمد‘ اختر شمار وغیرہ قصور تشریف لا چکے ہیں۔
میتھی جوڑوں کے درد کی شفا اور بطور سبزی پوری دنیا میں اپنا الگ سے شہرہ رکھتی ہے۔ فالودہ اور اندرسے قصوری تحفہ ہیں۔ پیروں میں پورا نہ آنے کے سبب قصوری جتی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔3
قصور سے تعارف کے لیے یہ بہت ہی مختصر تفصیل کافی لگتی ہے۔ میں اسے یہاں ختم کرتا ہوں کیونکہ اس کے بعد کےانکشافات اس تفصیل سے کہیں زیادہ حیران کن ہوں گے۔
(2)
بابا جی بلھے شاہ کے مطابق قصور قصر سے ترکیب پایا ہے۔ قصر کی جمع قصور ہے۔ سترویں صدی میں یہ شہر آباد و شاداب تھا اور سکھوں کا تسلط تھا راجہ راءے سنگھ کا سکہ چلتا تھا اور اس شہر کا نام شکر پور تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ نام گنج شکر کے حوالہ سے ترکیب پایا ہو۔ بابا فرید شکر گنج کے مرید اور ان کے متعلق اوروں کا بھی یہ شہر بسیرا رہا ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ وہ یہاں خود تشریف لاءے۔ بابا صاحب کے دادا جان قاضی شعیب الدین بھی یہاں تشریف لاءے۔ گویا بابا فرید سے پہلے قصور سے ان کے خاندان کا تعلق واسطہ تھا۔
اس ذیل میں یہ روایت بھی موجود ہے
حضرت) رام چندر (جی) کے دو بیٹے‘ لاو اور کش تھے۔۔۔۔۔۔چوتھی صدی قبل مسیح میں لاو (یا لاہ) اور کش نے لاہور اور قصور شہر قاءم کءے۔ دوسرے بیٹے کا نام کس بھی بتایا جاتا ہے۔ (١) لو اور کش سیتا کے بطن سے تھے اور راجپوتوں کے دو خاندان خود کو ان کی اولاد بتاتے ہیں۔ (٢) اس روایت کے مطابق اس علاقے کو قاءم ہوءے چوبیس سو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ کسی رویت کو اس وجہ سے تسلیم نہ کرنا کہ وہ مخالف نظریہ کے شخص کی ہے‘ کسی بھی حوالہ سے درست نہیں۔ قصور اگرچہ اس سے پہلے بھی موجود تھا تاہم یہ نام ( کسور) اس دور میں ملا۔ اس سے پہلے اس کا نام کوئ اور رہا ہو گا۔
موجودہ قصور مختلف ولاءتوں پر مشتمل تھا۔ ہر ایک کا الگ سے نام اور نظام حکومت تھا۔ ان میں سے ایک ولایت کا نام قصور تھا۔ اب یہ صورت نہیں رہی۔ ولاءتوں کے الگ سے نام ہیں اور انہیں محلہ کوٹ وغیرہ سے ماسوم کیا جاتا ہے تاہم اب اس مجموعے کا نام قصور ہے۔
یہ کہنا کسی طرح درست نہیں لگتا کہ قصور کش نے آباد کیا اصل معاملہ یہ تھا کہ حضرت رام چندر جی نے لاہ کو لاہور والی ولایت اور کش کو قصور والی ولایت بطور جاگیر عطا کی۔ سکندر اعظم ویرانے میں ٣٢٦ یا ٣٢٩ میں نہیں آیا ہو گا علاقہ بیاس خوب آباد رہا ہوگا۔ یہی نہیں قصور پورے ہندوستان کی ذرخیز ترین ولایت تھی۔ گندم مکئ گنا سبزیات بشمول میتھی خصوصا جانوروں کا چارہ وغیرہ کی پیداوار کے حوالہ سے معروف رہا ہو گا۔ سکندری فوج نے خوب تباہی مچائ ہو گی۔ جوابا وہ بھی مرے ہوں گے۔ ان کی قبریں وغیرہ یہاں ہی ہوں گی۔ ہو سکتا ہے قبرستان جٹو میں ان کو دفنایا گیا ہو گا۔ چینی سیاح ہیون سانگ جو بدھ مت کا پرچارک بھی تھا‘ کے ہاں قصور کا ذکر موجود ہے۔ کپڑے کی صنعت کل پرسوںسے تعلق نہیں رکھتی۔ اسی طرح اسلحہ سازی میں کمال رکھتا تھا۔ اس ذیل میں کمال کے ہنرمند موجود تھے۔ پورس کی فوج کو آخر رسد کہاں سے دستیاب ہوتی ہو گی۔ یہ مانا نہیں جا سکتا رسد پوٹھوہار سے آتی ہو گی۔ علاقہ بیاس کے حوالہ سے رسد اور سپاہ اسی ولایت سے دستیاب ہوتی ہو گی۔
لاہور نام کے شہر افغانستان اور پشاور میں بھی بتاءے جاتے ہیں۔ راجپوتانہ میں شہر لوہار موجود ہے۔ لہارو بھی ایک جگہ کا نام ہے۔ اس طرح کے اور نام بھی ملتے ہیں۔ گویا لاہ کی دسترس دور دراز علاقوں پر رہی ہوگی۔ اسی طرح بقول سید محمد لطیف اور کنہیا لال تحریروں میں لاہور؛ لوہار‘ لوہر‘ لوہ آور‘ لھانور‘ راہ رو‘ لہا‘ لہانو‘ لوپور‘ لوہارپور بھی آتا ہے۔
ایک روایت کے مطابق لاہور کی بنیاد راجہ پریچھت نے رکھی اور اس کا نام پریچھت پور رکھا۔ اس راجے کا عہد شری شری رام چندر جی کے بعد کا ہے۔ یہ روایت درست نہیں کیونکہ لاہور علاقے کا وجود اس سے پہلے تھا۔ راجہ پریچھت نے اس ایریا میں کوئ الگ سے علاقہ آباد کیا ہو گا۔
راجے مہاراجے اپنی اولاد اور دیگر خدمت گاروں کو گزارے کے لیے جاگیریں دے دیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ فوج کے حوالہ سے اور انگریز کی عطا کی گئ جاگیروں والے لوگ ہمارے ہاں موجود ہیں۔ غالبا لوہے سے متعلق پیشہ کے کام کرنے والے کے لیے لوہار مستعمل ہو گیا ہو گا۔ لوہ بہت بڑے یودھا رہے ہوں گے اور لوہا میں اس حوالہ سے ڈوبے رہتے ہوں گے۔ ویسے ہمارے ہاں بلکہ پوری دنیا میں نام بگاڑنے کا عام رواج ہے۔ یہاں ایک صاحب کا نام مولوی چھوٹیرا تھا وقت گزرنے کے بعد نام بگڑ گیا مولوی بٹیرا نام معروف ہو گیا۔ فضل دین سے فجا جنت بی بی سے جنتے ایسے نام سننے کو ملیں گے۔
حضرت رام چندر جی کے خاندان کے لوگ دونوں ولاءتوں میں حکومت کرتے رہے۔ اس خاندان کے
ایک راجے نے لاہور پر حملہ کرکے اس پر اپنا تسلط حاصل کر لیا۔ (٣) لاہور اور قصور ایک ولایت ٹھہرے۔ گویا اس حوالہ سے سیاسی سماجی معاشی اور معاشرتی اختلاط وجود میں آیا۔ قصور اس حوالہ سے بہت بڑی مضبوط اور توانا ولایت ٹھہرتی ہے۔ اس امر کے ثبوت اس کے کھنڈرات سے‘ جو ابھی کسی حد تک باقی ہیں سے تھوڑی سی کوشش کے بعد دستیاب ہو سکتے ہیں۔ کچھ چیزیں ایسی بھی موجود ہیں جس سے اس عظیم الشان ولایت کے دفاعی نظام کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ش آواز کا س یا س کا ش میں تبدیل ہونا کوئ نئ بات نہیں۔ کس پر ور کی بڑھوتی ہوئ ہے۔ ور پور کا تبادل ہے۔ جیسے جبل پور‘ نور پور‘ وزیر پور‘ بجید پور وغیرہ۔ پور سے پورہ ترکیب پایا ہے۔ تاہم ور بھی مستمل ہے جیسے بجنور بجن ور‘ اخنور اخن ور‘ پشاور پشا ور‘ سنور سن ور‘ کلانور کلان ور وغیرہ ۔ ور پور اور پورہ لاحقے جگہوں کے لیے استعمال میں آتے ہیں۔
کش سے کس ہوا اور کس پر ور کا لاحقہ بڑھایا گیا اور اس سے کسور ترکیب پایا۔ اس رویت سے متعلق قصور کش والا قصور ہے۔ پٹھانوں کو جو علاقہ ملا اس پر انھوں نے عمارتیں تعمیر کیں اور یہ پٹھانوں کے دور سے نام مستعمل نہیں ہے۔ کثو بھی تحریروں میں آتا ہے اور اسی سے کثور ترکیب پایا ہو۔ ث کے لیے بھی رومن لکھتے ایس استعمال ہوتا ہے۔
حضرت امیر خسرو یہاں تشریف لاءے اوران کے مطابق یہ عمارتوں کا شہر تھا اب عمارتیں ختم ہو گئ ہیں۔ یہ سات سو سال پہلے کی بات ہے۔ گویا سات سو سال پہلے بھی کھنڈرات پر ہی شہر آباد تھا اور اس کا نام قصور (کسور) تھا۔
انگریز کے آنے سے رومن رسم الخط نے رواج پایا۔ ترقی پانے کے لیے رومن خط کا جاننا ضروری تھا۔ سپاہی سے آنریری کیپٹن تک ترقی پانے کے لیے فوج میں کلاسیں ہوتی تھیں اور یہ صورت پاکستان بننے کے بعد بھی موجود رہی حالانکہ اب اردو رسم الخط جاننے والے افسر آ گءے تھے۔ رومن خط میں
استعمال میں لاتے ہیں۔ K جبکہ ک کے لیے کےQ ق کیو
سے شروع ہوتا ہے K قصور کے
کا تلفظ لاہ ہی بنتا ہے۔ lah اور کس کا تلفظ kas
کس اور لاہ پر ور کی بڑھوتی ہوئ ہے۔ یعنی کس کا شہر لاہ کا شہر۔
قصور اگر قصر سے ہوتا تو کیو سے اس کا آغاز ہوتا ناکہ کے سے یہ لفظ تر کیب پاتا۔ زبانوں میں یہ کوئ نئ بات نہیں۔ لفظ غریب کو مفلس کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ اس کے معنی پردیسی کے ہیں۔ گویا غریب لکھ کر مفلس معنی لیے جاتے ہیں۔ اپنی اصل میں یہ گریب ہے۔ گریب کو غلط سمجھا جاءے گا۔ قفلی کو غلط جبکہ قلفی کو درست سمجھا جاتا ہے جبکہ قلفی کوئ لفظ ہی نہیں ہے۔
کسو (کیشو) بامعنی خوبصورت بالوں والا۔ روشن۔ درخشاں وشنو دیو کا ایک نام ہے۔ شری رام چندر جی کو وشنو دیو کا اوتار سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح سیتتا میا کو لکشمی کا اوتار خیال کیا جاتا ہے۔ کسر بامعنی دودھ‘ کسر ساگر کنیا لکشمی دیوی جو وشنو دیو کی پتنی ہیں کا ایک نام ہے۔ اس لیے کش کس کسو وغیرہ نام فرضی قرار نہیں دیے جا سکتے۔ یہ سب مسلمانوں کا عقیدہ ناسہی انہیں میتھ کا درجہ تو حاصل ہے۔ کسی میتھ کو بے معنی اور بےکار قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ہر میتھ غیر جانبدارانہ تحقیق کا تقاضا کرتی ہے۔ اس حوالہ سے انہوں نے اپنی سنتان کا نام کش بمعنی خوش شکل رکھا ہو گا۔
قصر مقامی لفظ نہیں ہے۔ جو پٹھانوں نے شہر آباد کیا وہ موجود قصور ہے۔ ق اور ص دیسی حروف نہیں ہیں۔ س دیسی ہے گو یہ آواز عربی اور فارسی میں بھی موجودہ ہے۔ تان سین کو کھنڈروں کی جاگیر نہیں ملی تھی کھنڈروں پر آباد علاقہ تھا۔ اسی طرح حضرت امیر خسرو بھی آباد علاقے میں آءے ہوں گے۔
(3)
قصور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کمال چشتی کے جو ٹیلے ہیں یہی پرانا قصور ہے۔ کمال چستی کے حوالہ سے ایک رویت عام ہے کہ راجہ راءے سنگھ سترویں صدی عیسوی میں یہاں کا حاکم تھا۔ وہ ہر دلہن کے ساتھ پہلی رات گزارتا۔ کمال چشتی کی ایک مریدنی جو دلہن تھی ان کے پاس بھاگ آئ اور سارا ماجرا سنایا۔ کمال چشتی نے اپنا پیالہ الٹا کر دیا۔ اس طرح یہ شہر غرق ہو گیا۔ انسانی تاریخ کے حوالہ سے یہ گزرے کل پرسوں کی بات ہے۔ امیر خسرو جو سات سو پہلے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے مطابق کھنڈرات اس وقت بھی موجود تھے۔ کمال چشتی کا مزار کھنڈر کے اوپر ہے۔ گویا سترویں صدی عیسوی میں شکرپور تباہ ہوا۔ کھنڈر پر موجود شہر برباد ہوا۔
کمال چشتی کی تاریخ موجود نہیں۔ احمد علی لاہوری جو کشف القبور کا علم رکھتے تھے انھوں نے حضرت بلھے شاہ کے متعلق راءے دی کہ یہاں نیک ہستی دفن ہے جبکہ کمال چشتی کے بارے کہا کہ انھیں اس قبر کے بارے کچھ سمجھ میں نہیں آ سکا۔ گویا انھوں نے بات کو گول مول رکھا اور یہ کہنے سے گریز کیا کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔
مردہ دفن کرنے کے علاوہ قبر سے چار اور کام بھی لیے جاتے رہے ہیں۔ یہاں کے حالات کبھی اندرونی اور کبھی بیرونی حملوں کی وجہ سے ناسازگار رہے ہیں۔ محلاتی سازشیں لوگوں کا سکون برباد کرتی رہی ہیں۔ ناساز گار حالات کے سبب انھیں مہاجرت اختیار کرنا پڑتی۔ ایسے میں صاحب جاہ اور اہل ثروت اپنی دولت قبر میں دفن کر دیتے اور معاملے کو قسمت کی یاوری پر چھوڑ دیتے۔ 1947 کی مہاجرت میں بھی ایسا ہوا۔ کئ ایک کو موقع مل گیا لیکن جنھیں موقع نہیں ملا ان کا خزانہ ابھی زیر زمین ہے یا کسی اور کا مقدر ٹھہرا۔
قبریں دفاع کے کام بھی آئ ہیں۔ اوپر سے دیکھنے میں قبریں ہیں لیکن ان کے اندر سرنگوں کا جال بچھا ہوا ہوتا تھا۔ عہد سلاطین کی اس قسم کی چیزیں ملتی ہیں ممکن ہے یہ سلسلہ پہلے سے رواج رکھتا ہو۔
مرشد کے کپڑوں وغیرہ کو دفن کر دیا اور اسے قبر کی شکل دے دی گءی۔ یہ ایک طرح سے مرشد کا احترام رہا ہے۔ اسے روزگار ذریعہ قرار دینا بھی غلط نہ ہو گا۔ اسے اس جگہ پر قبضہ کرنے کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔
چلہ گاہوں میں کسی بابے کی چھوڑی ہوئ چیز کو دفن کر دیا گیا ہے۔ بعد ازاں وہ ڈھیری قبر ٹھہری ہے۔
کمال چشتی کے حوالہ سے مختلف قسم کے قیافے اور مفروضے قاءم کیے جا سکتے ہیں تاہم انھیں حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثلا قاضی شعیب الدین صاحب کوئ چیز چھوڑ گیے ہوں اور اسے دفن کر دیا گیا ہو۔ اسے قاضی شعیب الدین صاحب کی چلہ گاہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ کمال عرفی نام ہو سکتا ہے یعنی چشتی کا کمال۔ قاضی شعیب الدین صاحب کوئ معمولی شخصیت نہیں تھے۔ ان کا دور راجہ راءے سنگھ سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ تو عہد سلاطین کی بات ہے۔ راجہ راءے سنگھ کے حوالہ سے غرق ہونے والے قصہ کو سچ مانتے ہیں تو یہ کوئ یہاں کہیں اور صاحب کرامت بزرگ موجود ہیں جن کے مقام دفن کی کوئ صاحب کشف ہی خبر دے سکتا ہے۔
یہ مقبرہ سڑک سے قریبا پچاس فٹ کی بلندی پر ہے۔ مقبرے تک ایک سو دوسیڑھیاں ہیں۔ شیر شاہ سوری نےٹیلے کاٹ کر یہ سڑک بنوائ تھی۔ اس کے بعد یہ سڑک کئ بار بنی۔ یہ سڑک اصل سڑک سے تقریبا تیس فٹ سے زیادہ بلندی پر ہے۔ اس طرح یہ ٹیلہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ دوسری بار یہ تاریخی ٹیلہ انگریز عہد میں تباہی کا شکار ہوا۔ اسی ٹیلے کو کاٹ کر وکیل خان کا مقبرہ تعمیر ہوا۔ بعد ازاں اس مقبرے سے دفاتر کا کام بھی لیا گیا اور اب یہ میوزیم ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل اور پولیس لاءن بھی ٹیلہ کاٹ کر بنائ گئ ہیں۔ اس کے بعد سڑک کے ساتھ موجود ٹیلوں کی مسماری کا کام شروع ہو گیا۔
مزار کمال چشتی سے دوسری طرف والے ٹیلے بلڈوذ کرکے سڑک کے برابر کر دیے گیے ہیں اور یہاں اب دوکانیں ہیں۔ ٹیلے شیر شاہ سوری سے پہلے بھی مسمار ہوءے ہیں لیکن اگلی شفٹ میں دوبارہ ٹیلے بنے ہیں۔ اس حوالہ سے متعلق گفتگو آگے آءے گی۔ انگریز راج میں ٹیلے کاٹ کر ریلوے لاءن بنائ گئ اس سے بھی پرانی تہذیب کے نشانات غارت ہوءے۔
(4)
یہ بڑا ذرخیز علاقہ تھا۔ ساتھ میں دریا بہتا تھا۔ ابتدا میں لوگ چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں دور نزدیک اقامت رکھتے تھے۔ آج بھی یہی صورت ہے تاہم آبادیاں چھوٹی نہیں ہیں۔ پہلے پان سات گھروں پر مشتمل آبادیاں رہی ہوں گی لیکن آج گھروں کی تعداد سیکڑوں تک چلی گئ ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر گاؤں اور بستیاں آباد ہیں۔ ان کا جیون بڑا سادہ تھا۔ بعد ازاں باہمی لین دین پر ان کے جھگڑوں کا آغاز ہو گیا ہو گا۔ طاقتور کمزور آبادی کو برباد کر دیتے۔ ایک عرصہ بعد یہ برباد علاقے اسی ٹیلے کو صاف کرکے دوبارہ سے آباد ہو جاتے۔ دریا مختلف اوقات میں قیامت توڑتا رہتا۔ بیرونی قسمت آزما بھی قسمت آزمائ کرتے رہتے تھے۔ چور راہزن ناصرف مال و دولت غلے وغیرہ پر ہاتھ صاف کرتے بلکہ توڑ پھوڑ سے بھی کام لیتے رہتے تھے۔ قریب کی مضبوط ولاءتیں
توسیع پسندی اور وساءل پر قبضہ کرنے کے لیے طاقت آزمائ کرتی رہتی تھیں۔ اس عمل
میں معاملہ قبضے تک محدود نہیں رہتا تھا بلکہ تباہی بربادی اور مسماری تک بڑھ جاتا۔
یہ کہنا کہ کچھ سو سال پہلے دریاءے بیاس نے اس علاقے کو کھنڈر میں بدل دیا درست نظریہ نہیں۔ دریا بار بار تباہی لاتا اس کے باوجود یہ علاقہ پھر سے آباد ہو جاتا۔ چونکہ پانی کے قریب آبادیوں کا رواج یا مجبوری تھی لہذا دوبارہ سے علاقہ آباد ہو جاتا۔ آج بھی یہ صورت موجود ہے بہت سے علقے موجود ہیں جہاں ہر سال سیلاب آتے ہیں۔ سیلاب کی ستم ظریفی کے باوجود یہ علاقے کبھی بے آباد نہیں ہوءے۔
حملہ آوروں کی تباہی وبربادی کے باوجود دوبارہ سے آبادکاری کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ عموم کو اہل جاہ سے نقصان ہوتا رہا۔ وہ خود بھی عموم کی کھال اتارتے رہتے تھے بیرونی ولاءتوں سے ان کی ذاتی اور سیاسی دشمنی کا خمیازہ عموم کو بھگتنا پڑتا۔ اسی طرح ان کی ذاتی اور آپسی دشمنی بھی لوگوں کا جینا حرام کرتی رہتی تھی۔ ان کی ذاتی اور آپسی دشمنی میں لوگوں کی املاک اور گھر بار تباہی سے دوچار ہوتے رہتے تھے۔ یہ سلسلہ آج بھی ملکی اور بین الاقوامی سطع پر موجود ہے۔
باہر سے بھی لوگ یہاں آتے جاتے رہے ہوں گے۔ ان آنے جانے والوں کی مختلف صورتیں رہی ہوں گی۔ اپنی ذرخیزی اور ترقی کے حوالہ سے دور نزدیک کی ولاءتوں میں معروف رہا ہو گا۔ معمولی علاقہ ہوتا تو اکبر اپنے نورتن تان سین کوجاگیرروہے وال میں نہ عطا کرتا۔ تان سین معمولی گویا ہوتا تو پیر اخوند سعید اس کا گانا سننے نہ جاتے اور خوش ہو کر ایک اشرفی انعام میں نہ دیتے۔ اسی طرح پیر صاحب موصوف کوئ معمولی شخصیت ہوتے تو تان سین واپسی ان کی خدمت میں دو اشرفیاں بطور نذر بصد احترام پیش نہ کرتا۔
اکبر نے اپنے بیٹے سلیم کو دو علاقے عطا کیے ان میں سے ایک شیخ پور کے نام سے آج بھی اس ایریا میں موجود ہے۔ جس کا نام شیخوپور تھا شیخ پور بعد میں ہوا۔ یہ کوئ بزرگ تھے ان کا گاؤں میں مزار موجود نہیں۔ ہو سکتا ہے حالات کا شکار ہو گیا ہو یا سرحد کے اس پار چلا گیا ہو۔
کسی ایک شخص کے باہر سے آنے کا مطلب یہ ٹھہرتا ہے کہ وہ اپنی ولایت کی تہذیب ثقافت زبان معاشرت معاشی ضابطے نظریات وغیرہ لے کر آتا ہے۔ طالع آزما اپنا مقدر آزماتے رہے ہیں۔ اس طرح بہت سی عسکری رویات باواسطہ درآمد ہوئ ہیں۔ ایک عہد میں دو الگ والاءتیں تھیں پھر لاہور قصور کا علاقہ ٹھہرا ۔ اس کے بعد قصور لاہور کا علاقہ قرار پایا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ لاہور کی تحصیل تھا۔ لاہور ڈویژن جبکہ قصور ترقی کرکے ضلع ہوا اور لاہور ڈویژن میں شامل ہے۔
لاہور بعد کے ادوار میں پنجاب کا مرکز اور اہم ترین خطے کی حیثیت اختیار کر گیا اور ہر حوالہ سے ترقی کرتا گیا حالانکہ قصور اس سے کہیں بڑھ کر برصغیر کی ولایت تھی۔ یہ اہل جاہ کی آنکھ پر نہ رہ سکا نتیجہ کار بہترین اور تاریخی خطہ ہونے کے باوجود پس ماندگی کی دلدل میں چلا گیا۔ آج یہ مساءل اور پریشانیوں کا بدترین مجموعہ ہے۔
شیر شاہ سوری کے بعد تک ٹیلے کی ہاءٹ اس کی بنائ ہوئ سڑک سے اوپر اسی فٹ کے قریب بنتی ہے۔ شیر شاہ سوری نے زمین پر نہیں ٹیلے کو کاٹ کر سڑک تعمیر کی۔ یہی صورت وکیل خان کے مقبرے کے ساتھ ٹھہرتی ہے۔ اس طرح سڑک کے نیچے اسی فٹ سے زیادہ ٹیلا ہو گا۔ گویا یہ ایک سو ساٹھ سے دو سو فٹ کا یا اس سے زیادہ کا ٹھہرتا ہے۔
میں یہاں کمال چستی والے ٹیلے ٹبوں کی بات کر رہا ہوں۔ انگریز عہد میں اس علاقے کا اصل اجاڑہ ہوا۔ ان کے حوالہ سے قتل و غارت اور لوٹ مار تو الگ بات ہے اس نے ٹیلے کاٹ کر جیل خانہ تعمیر کیا‘ ریلوے لاءین بنائ‘ پولیس لاءین بنائ گئ۔ دفاتر تعمیر ہوءے۔ ان ٹیلوں کی آغوش سے دستیاب ہونے والے نوواردت کا کیا ہوا کوئ نہیں جانتا۔ انگریز لے گیا ہوگا۔ اس کے گماشتوں کے گھروں کی زینت ٹھہرے ہوں گے۔ ابھی قریب کی تباہی میں ٹیلے بلڈوز ہوے ہیں اور مٹی سڑک پر پڑی۔ اس طرح سڑک کافی اونچی ہو گئ ہے اور ٹیلوں سے ملنے والے نوادرات کا اتا پتا معلوم نہیں۔
حاجی گگن کا مزار آبادی سے بتتس فٹ کی بلندی پر ہے اور آبادی موجودہ زمین سے سترہ سے سنتیس فٹ ہے۔ حاجی گگن پٹھان ہیں اور ان کا دور سلاطین کا ہے۔ پیر بولنا کا مزار ٹیلے پر ہے۔ بقول احسان الله کیرءر ٹیکر گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور پیر بولنا کے قریب ٹیلا جو تعمیر شدہ مزار سے بلند تھا اسے ڈھا کر زمین کاشت کے قابل بنائ گئ ہے ۔ مزار آج بھی اوپر ہے۔ اس ٹیلے کے قدموں سے نیچے تیس سے پنتس فٹ پر زیر حوالہ زمین پر فصل بوئ گئ ہے۔ مزے کی بات یہ کہ یہ زیر کاشت زمین بھی ٹیلے پر ہے۔ اس طرح یہ کوئ بہتر فٹ بلندی بنتی ہے۔
پیر بولنا کے متعلق کچھ معلومات وہاں درج ہیں
نام حضرت عطا الله خان خویشگی تاریخ پیدایش 480 عیسوی وفات 550 عیسوی(4
آپ کا روضہ مبارک شہنشاہ شہاب الدین غوری نے تعمیر کروایا۔ حضرت خواجہ خواجگان معین الدین چشتی تبلیغ اسلام کے لیے آءے تو اس مزار پر حاضری دی۔ حضرت بابا فرید‘ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء‘ حضرت خواجہ علاؤالدین کلیر‘ حضرت علی احمد صابر حضرت امیر خسرو‘ حضرت خواجہ نصیر الدین‘ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے اس مزار پر حاضری دی۔
ان معلومات سے یہ واضع نہیں ہوتا کہ آپ کب‘ کہاں سے اور کس مقصد سے یہاں تشریف لاءے ۔ بڑے بڑے اہل تصوف کی تشریف آوری سے یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ آپ عظیم صوفی رہے ہوں گے۔ خویشگی سے واضح ہوتا ہے کہ افغانی ہوں گے۔ فتح خیبر کے موقع پر ان کے بڑے اسلام لاءے ہوں گے۔ یہ بھی طے ہوتا ہے کہ آپ کا تعلق عہد سلاطین سے ہے۔ آپ کا مزار ٹیلے پر ہے۔ صاف ظاہر ہے اس ٹیلے پر آبادی رہی ہو گی جنہیں وہ اسلام سے متعلق تعلیم دیتے رہے ہوں گے۔ آپ کے عمدہ کردار کی وجہ سے یہاں کے لوگ عزت دیتے ہوں گے۔ تب ہی تو سب کچھ مٹ گیا ہے لیکن ان کے دربار کو نقصان نہیں پنچایا گیا۔ یہ کوئ ضروری نہیں کہ یہ مسلمانوں کی آبادی رہی ہو۔ ان پیروں فقیروں اور اہل سلوک کو دیگر مذاہب کے لوگ بھی عزت دیتے آءے ہیں۔
پیر بولنا سے داءیں کچھ ہی فاصلے پر پنج پیر کا مزار ہے۔ یہ مزار بھی ٹیلے پر ہے۔ یہ ٹیلا بھی تقریبا اتنی ہی بلندی پر ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ ٹیلا وہی ٹیلا ہے اور یہاں بھی صرف مزار ہی باقی ہے۔ اس کے تھوڑے فاصلے پر ریلوے لاءین تھی۔ قرب و جوار میں آبادی موجود نہیں۔ صاحب مزار کا بسیرا یقینا آبادی میں رہا ہو گا۔ آبادی نابود ہو گئ لیکن مزار باقی ہے۔ مزار پر چھت نہیں۔ طرز تعمیر اور اس کا چونا گارا وغیرہ عہد سلاطین سے تعلق رکھتا ہے۔ صاحب مزار کا احترام رہا ہو گا تب ہی تو کسی بادشاہ نے اس دربار کی تعمیر کروائ ہو گی۔
مزار سے کچھ فاصلے پر ایک مختصر سا قبرستان ہے۔ یہ قبرستان ایک چوکھنڈی میں ہے۔ اس چوکھنڈی کے اندر پھر چار دیواری ہے۔ یہ چوکھنڈی بھی پرانی ہےاس چوکھنڈی کے اندر صاحب جاہ کو دفن کیا گیا ہو گا۔ سامنے دیوار کے ساتھ بڑے اہتمام والی قبر اس کی ہو گی۔ یہ قبر جھاڑیوں اور ایک درخت کے نیچے آگئ ہے۔ اندر کی چار دیواری میں اور بھی قبریں ہیں۔ یہ قبریں بعد کی ہیں‘ جو کچی ہیں۔ اندر کی چاردیواری کے باہر بھی قبریں بن گءیں۔ ان میں سے ایک قبر ١٩٢٣ کی ہے۔ یہ قبر کسی پیر صاب کی ہے۔ یقینی طور پر یہ پنج پیر صاحب کے مجاور کی رہی ہو گی۔ موجودہ مجاور جو کافی عمر رسیدہ ہے‘ کے کسی بڑے کی قبر نہیں۔
پنج پیر کے نام کی یہ پہلی قبر نہیں ہے۔ اس نام کی قبریں بہت سے علاقوں میں ملتی ہیں۔ اس ٹیلے کے آخری گاؤں سہجرہ میں بھی پنج پیر نام کی قبریں موجود ہیں۔ چار دیواری جو کافی پرانی ہے کے اندر پانچ قبریں ہیں۔ دروازے پر پنج پیر کی تختی آویزاں ہے۔ پنج پیر علامتی عرفی یا پھر معروفی نام ہے۔
بنو امیہ کے دور سے سادات ڈسٹرب ہیں۔ زمین ان پر تنگ کر دی گئ اس لیے انہیں وہاں سے مہاجرت اختیار کرنا پڑی۔ برصغیر مہاجر اور ستاءے ہوءے لوگوں کو بخوشی پناہ دیتا آیا ہے۔ منصورہ‘ کراچی میں فاطمی حکومت بھی رہی ہے۔ محمد بن قاسم ان ساادات کے تعاقب میں برصغیر آیا تھا۔ بعد میں اور بہت سی کہانیاں گھڑ لی گءیں۔ سادات کے حوالہ سے پنج پیر یا پنج تن فارسی مرکب ہوتے ہوءے تفہمی حوالہ سے مقامی بن گیا۔
برصغیر کے کچھ حصوں میں ایسے ہندو بھی رہے ہیں جو خود کو پنج پیر کا پیرو کار بتاتے ہیں۔ ہر بھگت خود ان پنج پیروں کا انتخاب کرتا ہے۔ بہر طور اس کی صورتیں یہ رہی ہیں۔
حضور اکرم‘ حضرت علی‘ حضرت فاطمہ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین
پانچ پانڈو
درگاہ دیوی‘ گرو‘ خواجہ سلطان‘ ‘ گگا پیر‘ اس عہد کا معروف پیر (٥)
شیخ سامیل‘ شاہ دولت‘ شخ فتح علی خاں اورشاہ مراد (6)
معین الدین چشتی‘ نظام الدین اولیاء‘ نصیر الدین ابو الخیر‘ خواجہ خضر‘ سید جلال الدین
خواجہ خضر‘ سید جالال الدین‘ زکریا ملتانی‘ لال شہباز قلندر‘ خواجہ فرید
سکھوں میں
خواجہ خضر‘ درگاہ دیوی‘ وشنو‘سخی سرور‘گرو گوبند سنگھ
گگا پیر‘ بالک ناتھ‘ ٹھاکر‘سخی سرور‘ شیو (7)
پنج پیر کی قبر پندرہ فٹ یعنی پانچ گز لمبی ہے۔ لمبی قبریں بنانے کا رواج عہد سلاطین میں نظر نہیں آتا۔ عہد سلاطین کی بہت ساری قبریں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ انٹرنیٹ پر سلاطین کی قبریں موجود ہیں‘ روٹین کی قبریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لمبی قبریں بنانے کے حوالہ سے زبانی کلامی مختلف روایات ملتی ہیں۔ مثلا
سردار یا کی بڑے آدمی کی قبر لمبی بنائ جاتی تھی۔ 1.
.یہاں سردار اپنے وزیروں کے ساتھ بیٹھ کر کچری لگاتا تھا .2
ہنگامی حالات میں مال و دولت دفن کر دیا جا تھا .3
۔ مرنے والے کے قد کے مطابق قبر بنائ جاتی تھی۔ 4
بعض اوقات اگلے زمانے کی کھیت کی وٹ کو قبر سمجھ لیا گی .5
میں ان میں سے کسی پواءنٹ پر گفتگو نہیں کروں گا۔
زیر حوالہ قبر کی عمارت عہد سلاطین کی ہے ہاں البتہ قبر کی تعمیری تجدید کی گئ۔ بتاتے ہیں قبر کی حالت خستہ ہو گئ تھی۔ عمارت کی حالت بھی بہتر قرار نہیں دی جا سکتی تاہم قابل رحم نہیں۔ عمارت بتاتی ہے کہ عمارت کسی مسلمان سلطان نے تعمیر کروائ ہو گی۔ عمارت کا ڈازاءن اسلامی تعمیرات سے تعلق رکھتا ہے۔ صاحب قبر کا احترام رہا ہو گا تب ہی تو عمارت تعمیر کی گئ ہو گی۔ اگر نام معروف ہوتا تو عرفی نام نہ دیا گیا ہوتا۔ سات آٹھ سو سال تاریخ میں کچھ زیادہ نہیں ہوتے۔ پیر بولنا کا اصل نام آج بھی لوگوں کو معلوم ہے۔ یہ قبر قبل مسیع سے تعلق رکھتی ہے۔ حضرت عیسی ابن مریم تک آتے قد نارمل ہو گیا تھا۔ بلکہ دو ہزار پانچ سو سال تک آدمی کا قد غیر معمولی نہیں رہا تھا۔
حضرت موسی کا قد تیس فٹ یا تیس گز یا تیس ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ عوج بن عنق بن آدم کا قد ناقابل یقین حد تک بتایا جاتا ہے۔ یہ بات تین ہزار سال پہلے کی ہے۔ ان کے عہد میں انسان کا عمومی قد اتنا ہی کہا جاتا ہے۔ ان سے پہلے کے لوگ اس بھی زیادہ قد والے تھے۔
مقامی انبیاء کے علاوہ دیگر ولاءتوں سے انبیاء نے تبیغ کی غرض سے یہاں تشریف لانے کی زحمت گوارا فرمائ۔ حضرت آدم کے بیٹے حضرت قنبط حضرت صفدان حضرت شیث وغیرہ یہاں تشریف لاءے۔حضرت قنبیط حضرت موسی حجازی حضرت طانوخ حضرت آمنون وغیرہ کی قبریں یہاں موجود ہیں۔ براس میں حضرت ہند بن حام بن عبدالغفار المعروف نوح کی قبر موجود ہے۔ یہ سب قبریں لمبی ہیں اور آج بھی ان کا احترام باقی ہے۔ لوگ زیارت کے لیے وہاں جاتے ہیں۔ ان حقاءق کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ زیر گفتگو قبر حضرت موسی کے عہد سے تھوڑا بعد کی ہے اور نسل در نسل احترام چلا آ رہا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ قبر کسی نبی کی ہے۔ اس ذیل میں کوئ صاحب کشف ہی کلام کر سکتا ہے تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے یہ رشد و ہدایت سے متعلق شخص ہیں اور ان کا زمانہ ستاءس یا اٹھاءس سو سال پہلے کا رہا ہو گا۔ قاری کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ یہ قبر ٹیلے کی بالائ سطع پر ہے۔ ٹیلا ایک سو ساٹھ سے دو سو فٹ نیچے جاتا ہے۔
روہے وال جہاں تان سین کی جاگیر تھی بلند و بالا ٹیلے پر ہے۔ اس آبادی کا بغور مطالعہ کیا جاءے تو یہاں عجاءبات کا کھلا پنڈر نظر آتا ہے۔ یہاں کم از کم چھ آبادیاں تھیں۔ علاقے کے آغاز سے تھوڑے فاصلے پر قبرستان آتا ہے۔ اس قبرستان میں بابا عبدالکریم جو پیر سید غلام نبی شاہ کی اولاد سے تھے کی قبر ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی پرانی قبریں ہیں۔ کچھ قبریں معدوم ہو چکی ہیں فقط نشان باقی ہیں۔ قبرستان کے اندر اور قبر کے قریب بہت مختصر دیوار بھی ہے بقیہ دیوار ختم چکی ہے۔ بابا عبدالکریم کا مقبرہ ہے اور اس پر مجاور بھی موجود ہے۔ موجود صورت میں یہ قبرستان مغلیہ عہد سے پیچھے نہیں جاتا۔ اس ذیل میں کوئ ایسی چیز دستیاب نہیں ہوتی۔ اس قبرستان کے پیچھے داءیں اور باءیں آبادی کے نشان موجود ہیں۔ یہ قبرستان بھی ٹیلے پر ہے تاہم بظاہر ٹیلا موجود نہیں پکی سڑک اور قبرستان برابر سطع پر آ گیا ہے۔
اس قبرستان سے آگے پرانا قبرستان ہے۔ یہاں شاہ عالم شیر کا مقبرہ ہے۔ مجھے یہ نام عرفی لگتا ہے۔ ان صاحب کا تعلق مغلیہ دور سے لگتا ہے۔ یہ حجرے میں ہے۔ یہاں اور بھی قبریں موجود ہیں۔ یہاں چار دیواری رہی ہو گی۔ اس چوکھنڈی کے اندر مقبرے کے علاوہ تین چیزیں اور بھی قابل توجہ ہیں۔ اس کے اندر ایک کنواں ہے۔ اب اس میں صرف بارش کا پانی ہے۔ اسے پر کرنے کے باوجود اس کی گہرائ ساٹھ فٹ ہے۔ یہ کنواں یہاں کی پوری آبادی کے استعمال میں رہا ہو گا۔ اس کنویں کا تعلق عہد سلاطین سے لگتا ہے۔ یہاں یقینا کسی دور میں بڑی رونق رہی ہو گی۔ یہ کنواں مغلیہ عہد میں بھی استعمال میں رہا ہو گا۔ اس چار دیواری سے باہر‘ جنوب میں قریب ہی ایک عمارت ہے۔ تجدید کے باوجود قدیم نشانات ابھی موجود ہیں۔ اب یہ جناز گاہ وغیرہ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ یہ عمارت مغلیہ عہد سے سے تعلق رکھتی ہے۔ عمارت کا محراب اب بھی قدیم ہے‘ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مغلیہ عہد سے متعلق ہے۔ اس کے داءیں اور پیچھے رہایشی ٹیلے ہیں۔ یہاں یقینا آبادیاں رہی ہوں گی۔
شاہ عالم شیر کے مقبرے کی چوکھنڈی کے اندر ایک قدیم حجرہ اور ایک برآمدہ ہے۔ برآمدے کو تجدید دی گئ ہے۔ اس کے سامنے والے حصے پر مہ عالم درج ہے۔ قریبا چار کلو میٹر پر گاؤں مہالم آباد ہے۔ قصور میں دو مہالم آباد ہیں۔ مہ عالم حقیقی نام نہیں‘ استعاراتی نام ہے۔ شاہ عالم کا مہ عالم سے کوئ ناکوئ تعلق ضرور ہے۔ مہ عالم صاحب کی نسل موجود ہے لیکن وہ تفصیلات سے آگاہ نہیں۔ یہ دونوں‘ شاہ عالم اور مہ عالم شیر یقینا مغلیہ عہد سے متعلق رہے ہوں گے۔
شاہ عالم شیر کی چوکھنڈی سے باہر مشرق میں ایک چوبترے پر چار دیواری میں قبر ہے۔ اس قبر پر چھت نہیں۔ یہ دربار شاہ عالم شیر سے پعد کا ہے۔ اس قبرستان میں نئ پرانی اور زیادہ پرانی قبریں ہیں۔ تین قبریں بناوٹ کے حوالہ سے دیگر قبروں سے بالکل الگ تر ہیں۔ چوروں نے سنے سناءے پر یقین کرتے ہوءے ایک قبر کھودی ہے۔ اندر سے مال ملا یا نہیں‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس حوالہ سے چور ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ اس کھولی ہولی ہوئ قبر کے اندر کوئ راز ضرور دفن ہے۔ دوسری قبر کو بھی کھولا گیا ہے لیکن سوراخ پر دوبارہ سے اینٹیں رکھ دی گئ ہیں۔ موباءل یا ٹارچ کی روشی سے اندر جھانکا گیا ہو گا۔ کچھ نہیں نظر آیا ہو گا تب ہی تو مزید تررد نہں کیا گیا۔
کھولی جانے والی قبر کم کمرہ زیادہ ہے۔ یہ ساڑھے چھے فٹ لمبا ساڑھے چار فٹ چوڑا اور پانچ فٹ سات انچ گہرا ہے۔ دونوں طرف دیا رکھنے کے لیے آلے سے بنے ہوءے ہیں۔ پہلے میں اسے سرنگ سمجھا تھا کیونکہ یہ اینٹ نئ لگتی ہے۔چھت پر عجیب گول سا آلہ بنایا گیا ہے بعد میں دیکھا تو معلوم ہوا داڑے ملے ہوءے ہیں۔ اندر آنے جانے کا رستہ موجود نہیں۔ اس کے قریب ہی زمین بوس چھوٹی سی چار دیواری ہے ۔ یوں لگتا ہے یہاں کوئ بیٹھتا ہو گا۔ قبر یقینا زمین سے اونچی ہو گی۔ اب زمین اور قبر کا نچلا حصہ برابر ہو گیا ہے۔ یہ تینوں قبریں اپنے عہد میں بڑی ہی خوبصورت اور شاہکار رہی ہوں گی۔ بالائ سطع پر قبر بر چونا استعمال کیا گیا جبکہ اندر چونے کے ساتھ گارے کا بھی استعمال کیا گیا۔ اس قبر کا سلاطیں کے عہد سے رشتہ معلوم ہوتا ہے۔
یہ قبر اور دوسری دو قبریں اپنے دامن میں ضرور کوئ بہت بڑا راز لیے ہوءے ہیں۔ میں نے اس کا کھوج لگانے کی سعی کی ہے لیکن بوڑھا لٹھ بردار مجاور آڑے آگیا۔ اس قبر کے شرقنا معقول آبادی رہی ہو گی۔ یہاں دو نو گزا قبریں بھی موجود تھیں چوروں نے انھیں بھی اڈھیڑ ڈالا ۔ اب وہاں صرف پر کیے ہوءے کھڈے باقی رہ گیے ہیں اس لیے ان کے بارے کچھ بھی عرض کرنے سے قاصر ہوں۔
حالیہ آبادی کچھ سال پہلے روہے وال کے ٹیلے پر موجود پرانے مکانوں میں آباد تھی۔ چند ایک کے سوا باقی آبادی ٹیلے سے نیچے آ گئ ہے۔ یہ بھی پہلے ٹیلا تھا اب اونچا ہو گیا ہے۔ ٹیلے کی انچائ اب بھی تینتس فٹ سے انچاس فٹ ہے۔ تمام مکانوں میں ایک مکان خصوصی توجہ کا حامل ہے۔ دیواریں کسی قلعہ کی سی دیواریں ہیں۔ تنگ گلی اصل گلی سے اونچی ہو گئ ہے اور گلی موجودہ عہد کی اینٹوں سے تعمیر کی گئ ہے۔ دیوار کی چوڑائ اٹھارہ فٹ ہے۔ شرقی حصہ مسمار ہو گیا ہے۔ اس سے آگے ٹیلا بھی ختم ہو گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ اس ولایت کے مکھیا کا گھر رہا ہو گا۔ مکھیا کی رہایش گاہ اوروں سے الگ تر رہی ہے۔ ٹیلے پر آبادی بالکل ختم نہیں ہوئ۔ اترائ چڑھائ سے لگتا ہے ایبٹ آباد آگءے ہوں۔ مکان مسمار کرکے ایک مسجد ٹیلے پر بنا دی گئ ہے۔ موجودہ ٹیلا بھی عجاءبات کا مجموعہ ہے اور بہت سے راز رکھتا ہے۔
روہے وال سے کچھ آگے گاؤں شیخ پور بھی میرے مشاہدے میں آیا۔ پرانے اثار موجود ہیں لیکن بہت کم۔ یہ اصل میں شیخوپور تھا۔ شیخو اکبر کے بیٹے کا حضرت سلیم چشتی کے حوالہ سے فیملی نام تھا ا ور یہ علاقہ شیخو کو بطور جاگیر عطا ہوا ہو گا۔ بعد کے دنوں میں کوئ صاحب کرامت بزرگ یہاں تشریف لاءے ہوں گے اور شیخ ان کا عرفی نام رہا ہو گا اس لیے ان کے عرفی نام شیخ کے حوالہ سے شیخ پور ٹھہر گیا ہو گا۔ یہاں بابا گلزار شاہ کا مقبرہ ہے۔ یہ بزرگ نو مسلم تھے۔ ان کے متعلق بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے باپ سے لڑ کر یہاں آ کر آباد ہو گیے۔ ہو سکتا ہے نسلا ہندو بنیا ہوں۔ انہیں شیخ بھی کہا ہو گا۔ یہ صاحب 1947 میں فوت ہوءے۔ لوگ آج بھی وہاں جاتے ہیں اور یہاں گیارویں کا باقاءدگی سے ختم ہوتا ہے۔
کمال چشتی سے سہجرہ 8
تک بڑے عجیب وغریب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ۔سہجرہ ہے تو دیہات لیکن اسے گاؤں کہنا بڑا عجیب لگتا ہے۔ یہاں زندگی کی ہر چیز دستیاب ہے حالانکہ یہ قصور سے بہت دور واقع ہے۔ اس کے آگے انڈیا ہے۔ اس گاؤں کی تقریبا دو تہائ آبادی ٹیلے پر آباد ہے۔ یہ بھی ایبٹ آباد کی طرح اترائ چڑھای پر استوار ہے۔ یہ گاؤں روہے وال سے کہیں بڑا ہے۔ تاحد نظر ٹیلہ ہے۔ مکان نءے بھی ہیں اور پرانے بھی۔ کچھ مکان نءے ہیں لیکن ان میں پرانی اینٹیں بھی استعمال میں لائ گئ ہیں۔ روہے وال کے مکانات میں زیادہ تر پرانی اینٹیں استعمال میں لائ گئ ہیں۔ بالائ سطع کے مکان پرانے ہیں۔ چھت بدل دی گئ ہے اور دیواروں پر مٹی کے گارے سے لیپ کر دیا گیا ہے لیکن اندر وہی پرانی دیواریں ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے گھر کے اندر گلی بناتے یا کسی قسم کی کھدائ کرتے انسانی ہڈیاں ملتی ہیں۔ پرانے برتنوںں کے ٹکڑے وغیرہ ملتے رہتے ہیں۔ ٹیلے سے نیچے بھی اس طرح کی چیزیں ملتی رہتی ہیں۔ ہڈیاںہاتھ لگاتے ہی مٹی ہو جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے بعض درختوں کے ٹکڑے پتھر کی طرح سخت ہو گءے ہیں بلکہ پتھر کا ٹکڑا معلوم ہوتے۔ نچلی سطع پر یہ صورت ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن بالائ سطع پر اس قسم کی صورت ہو تو اس کے سوا کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ٹیلہ مزید تیرہ سے باءیس فٹ اونچا تھا جو کھار یا زمین کی سطع برابر کرنے کے لیے تین سے زیادہ بار مسماری کا شکار ہوا ہے۔ ایک عام آدمی کو پرانے برتنوں کے ثکڑوں یا ہڈیوں وغیرہ سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ زمین میں حل چلاتے یا سہاگہ کرتے بھی اکثر ہڈیاں وغیرہ ملتی رہتی ہیں۔ قیمتی اشیاء وغیرہ کوئ کیوں بتاءے گا۔ زیورات بھی ملتے ہوں گے۔
اوپر ٹیلے پر ایک مکمل چار دیواری کے اندر پانچ قبریں ہیں اور باہر پنج پیر کی تختی آویزاں ہے۔ یہ پانچ قبریں کن کی ہیں کوئ نہیں جانتا۔ اس چار دیواری کے باہر ایک مغلیہ عہد کی قبر ہے۔ اس چار دیواری کی دوسری طرف ایک کھائ ہے۔ کھائ کے دونوں طرف نءے پرانے درخت ہیں۔ بہت پرانے درختوں کی جڑیں نظر آتی ہیں۔ یہ جڑیں پتھر کی طرح سخت ہو گئ ہیں۔ کھائ سے تھوڑا فاصلے پر ایک چوکھنڈی ہے۔ اس میں دو قبریں سادات سے متعلق بہن اور بھائ کی ہیں جنہوں نے تاحیات شادی نہیں کی اور عمر عبادت الہی میں گزار دی۔ ایک قبر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ راتوں رات چل کر آئ ہے یعنی رات کو نہیں تھی لیکن صبح کو تھی۔ قریب ہی ایک قبر کا نشان باقی رہ گیا ہے قبر ختم ہو گئ ہے۔ یہ مرحومہ ١٣ فٹ لمبی ہے۔ بہت ہی پرانا قبرستان یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ قبریں ختم ہو گئ ہیں۔ قبروں کی اینٹیں وغیرہ بکھری پڑی ہیں۔ ان چیزوں کا رشتہ ابتدائ مغلیہ عہد سے بلاتامل جوڑا جا سکتا ہے۔ کچھ چیزیں عہد سلاطین سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ میں نے ان کی تصاویر لی ہیں انہیں دیکھ کر آپ ان کے زمانے کا بخوبی اندازہ کر سکیں گے۔
ٹیلے کی بالائ سطع پر قبرستان کی قبریں مسمار کرکے ایک ڈیرہ سا بنایا گیا ہے۔ یہ ڈیرہ دو کنال زمین سے کم نہیں ہو گا۔ اس کے چاروں طرف لوہے کی تار سے باڑ بنا دی گئ ہے۔ اندر آلو کے بیج کی بوریاں وغیرہ رکھی ہوئ ہیں۔ سامنے بابے حاکم شاہ کا مقبرہ ہے۔ مقبرے سے باہر ایک نو فٹ لمبی قبر ہے۔ بابے حاکم شاہ کے مقبرے کا مجاور بھلا آدمی ہے۔ جب میں بتایا کہ میں سید زادہ ہوں تو بڑے ہی احترام سے پیش آیا۔ اس نے مجھ ناچیز کو ایک چادر اور ایک سو رویہ نذر کیا۔ میرے ساتھ میں میرا منہ بولا بیٹا فاروق اور میرے گھر والے کچھ کھانے کو بیٹھ گءے۔ میں نے دو روٹیاں صادق حسین مجاور مقبرہ ہذا کو بھواءیں۔ اس نے دو بسکٹ کے پیکٹ رکھ کر چنگیر واپس بھجوائ۔ اس سے مجھے خوشی ہوئ کہ صادق حسین حفظ مراتب سے خوب آگاہ ہے۔ میری دعا ہے الله اس پر آسانیوں کے دروازے کھولے۔اس طرح میں نے کمال چستی کے شرقی ٹیلے کا کئ نشتوں میں سفر تمام کیا۔ قاری کو باور رہنا چاہیے کہ میں نے ٹیلے کی بالائ سطع کے احوال بیان کیے ہیں۔
کمال چشتی کا غربی ٹیلا مسمار کر دیا گیا ہے۔ سٹرک کے ساتھ مختلف اشیاء کے متعلق دوکانیں بن گئ ہیں۔ یہ زمین سرکاری ہے یا ان دوکانوں والوں کو رجسٹرڈ ہو گئ ہیں‘ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ سڑک سے کافی پیچھے جا کر ٹیلے موجود ہیں۔ ان ٹیلوں پر اور ان ٹیلوں سے نیچے آبادی موجود ہے۔ ٹیلوں کی بلندی سترہ سے چھتیس فٹ رہ گءی ہے۔ ان ٹیلوں کو ڈھانے کا عمل ابھی تک جاری ہے۔ یہ مٹی مختلف علاقوں کو بھرتی کے لیے سپلائ ہوتی ہے۔ اس مسلسل عمل کی وجہ سے کمال چشتی کے غربی ٹیلے ختم ہو رہے ہیں۔ اگلے پانچ دس سالوں میں سب کچھ ختم ہو جاءے گا۔ کوئ بھی نہیں جان سکے گا کہ یہاں کبھی ٹیلے بھی تھے۔ معاملہ سنا ہے کے حصار میں چلا جاءے گا۔ مجھے ان ٹیلوں میں سے مٹی کے برتنوں کے ٹوٹے ٹکڑے‘ ہڈیاں‘ پرانے درختوں کی لکڑی کے ٹکڑے وغیرہ ملے ہیں۔ درختوں کی لکڑی کے ٹکڑے لوہے کی ماند ہو چکے ہیں۔
غربی ٹیلوں میں رستے بنے ہوءے ہیں۔ ایک رستہ کوٹ حلیم خان کو جاتا ہے۔ ریلوے لاءین والا رستہ اسلام پورہ (٩) سے ہوتا ہوا بابا فرید صاحب کی چلہ گاہ کی طرف جاتا ہے۔ چلہ گاہ والے علاقہ کو مائ جوائ کہا جاتا ہے۔ کوٹ حلیم خان کا بیرونی علاقہ جٹو کے قبرستان تک جاتا ہے۔ یہی صورت اسلام پورہ اور کوٹ مراد خان کی ہے۔ پچھلے پچاس سال میں صورت حال ہی بدل گئ ہے۔ یہ سب میری آنکھوں کا دیکھا ہوا ہے۔ مائ جوائ والا علاقہ بلند ہو گیا ہے۔ تمام پرانی قبریں صاف ہو گئ ہیں۔ یہاں علاقہ بڑی بلندی پر تھا اور عہد سلاطین کی قبریں عام دیکھنے کو ملتی تھیں۔ کامل شاہ والا قبرستان بھی باقی نہیں رہا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ بابا صاحب کی چلہ گاہ محفوظ ہے۔ چاردیواری میں پرانا ون کا درخت بھی محفوظ ہے۔
اسلام پورہ جہاں میرا بچپن کھیلتا کودتا رہا ہے کچھ کا کچھ ہو گیا ہے۔ میں خود کو یہاں اجنبی محسوس کر رہا تھا۔ دو بار تو مجھے رستہ پوچھنا پڑا۔
جٹو والا قبرستان آج سے کوئ پچاس پچپن سال پہلے سطع زمین سے اڑتیس سے باسٹھ فٹ پر تھا۔ نیچے روہی نالہ بہتا تھا۔ پرانی اور پرانی ترین قبریں یہاں موجود تھیں۔ اب سب سطع زمین کے برابر آ گیا ہے۔ مکانات بن گءے ہیں نالے والی جگہ پر سڑک نما گلی بن گئ ہے۔ قبرستان میں کھیل کا میدان بن گیا ہے۔ قبرستان دو حصوں میں بٹ گیا ہے درمیان میں بڑی ہی فراخ سڑک بن گئ ہے۔ قبرستان میں بھی جگہ جگہ کچی سڑکیں بن گئ ہیں۔ کوٹ حلیم خان اور کوٹ مراد خان کے حوالہ سے اس قبرستان کا تعلق کمال چشتی کے ٹیلے سے بنتا ہے۔ جٹو والا قبرستان بہت ہی پرانا ہے۔ اس کے اطراف میں آبادیاں رہی ہوں گی۔ بذات خود یہاں آبادی رہی ہو گی۔
خواجہ صاحب والا قبرستان بڑا پرانا بتایا جاتا ہے لیکن میرے خیال میں یہ جٹو والے قبرستان سے زیادہ پرانا نہیں۔ رضیہ سلطان کی قبر کے حوالہ سے اس کا تعلق عہد سلاطین سے بنتا ہے۔ پیر اخوند سعید اسحاق ترک اور حافظ سعد الله قادری العروف ڈیھے شاہ کے حوالہ سے شیر شاہ سوری اور اکبری عہد سے رشتہ بنتا ہے۔ رضیہ سلطان کی قبر کا طرز تعمیر مغلیہ عہد سے متعلق نہیں۔اس نمونہ کی ایک اور قبر بھی یہاں موجود ہے۔ اسی نمونہ کی تین قبریں روہے وال کے قبرستان میں ملتی ہیں۔ یہاں نو گزا قبریں بھی تھیں جنہیں مسمار کرکے خواجہ صاحب کی چار دیواری میں شامل کر دیا گیا ہے۔ چالیس سال پہلے وہ صحیح اور بہتر حالت میں تھیں۔ اگر آج وہ موجود ہوتیں تو زمانے کے تعین میں آسانی رہتی۔
(5)
آرین کی برصغیر میں آمد کے حوالہ سے مختلف باتیں پڑھنے سننے کو ملتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق وہ ٣٢٠٠ سے ٣٥٠٠ سال پہلے برصغیر میں داخل ہوءے۔ وہ ایک ہی نشت میں یہاں نہیں آءے۔ وہ کئ نشتوں میں یہاں آءے۔ چارہ اور سبزیات ہمیشہ سے انسان کی ضرورت رہی ہے۔ اس علاقے سے بڑھ کر اس حوالہ سے کوئ ولایت نہیں رہی۔ ان کی آمد سے مقامی آبادیاں متاثر ہوتی رہی ہیں۔ ۔پہلے آرین یہاں سٹ ہو پاتے تو دوسرے چلے آتے اس طرح مقامی اور مہاجر مقامی بھی متاثر ہوتے۔ خون ریزی کا بازار گرم ہوتا۔ املاک تباہ وبرباد ہو جاتیں۔ رہاءیش گاہیں مسمار کر دی جاتیں۔ جو بچ جاتے مہاجرت اختیار کر جاتے۔ اس طرح کسی دوسرے علاقوں میں نئ آبادیاں وجود میں آ جاتیں۔
اب یہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے کہ آرینز نے پچیس ہزار سال پہلے آنا شروع کیا اور ایک لمبے عرصے تک برہما ورت یعنی پنجاب کو اپنا ٹھکانا بناءے رکھا۔ (١٠) ان کی آبادی کا گڑھ بیاس کنارہ رہا ہے۔ وہ جگہ کاٹتے نہیں تھے بلکہ جگہ صاف کرکے رہایش اختیار کر لیتے تھے۔ گویا وہ وقفے وقفے سے یہاں آتے رہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کا تعلق خشک علاقے سے رہا ہو گا۔ بارانی اور خشک علاقے میں آبادیوں کا بہت کم رجحان رہا ہے۔ یہاں پانی اور ہریالی کی آج کے سوا کبھی کمی نہیں رہی۔ ہم ہمیشہ اگلی کتاب لکھنے کے لیے پرانی کتابوں سے ناصرف استفادہ کرتے آءے ہیں بلکہ کٹ پیسٹ کی بیماری بھی ہمیں لاحق رہی ہے۔ حرام ہے جو کسی نے موقع پر جا کر دیکھا بھی ہو۔ اگر ہم موقع پر جا کر دیکھنے کی زحمت اٹھاءیں تو شاید نتاءج برعکس یا بہتر ہاتھ آ سکیں گے۔ دن بدن آثار ختم ہو رہے ہیں اس لیے اس معاملہ میں تساہل کسی بھی حوالہ سے درست نہیں۔
سندھ سات دریاؤں کی دھرتی سمجھا جاتا تھا اور اس حوالہ سے دنیا کی بہترین ولاءتوں میں سے ایک ولایت تھی۔ ان سات دریاؤں میں ایک بیاس بھی تھا۔ بیاس یا ویاس دراصل Vipasha کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ ویپسا ویپشا وریکا اسی دریا کے نام رہے ہیں۔ اس دریا کے حوالہ سے بےشمار کہانیاں تاریخ میں موجود ہیں۔ یہ دریا بربادیاں لاتا رہا ہے۔ بیسیوں بار اس نے اپنے مکینوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اس کے باوجود لوگوں نے اس سے بےوفائ نہیں کی۔ بار بار اس کے کناروں کو اپنا مسکن بنایا۔ اصل حقیقت یہ رہی ہے کہ اس کا پانی فصلوں کے حوالہ سے اپنا بدل نہیں رکھتا تھا دوسرا اس کا پانی کھارا نہیں میٹھا اور صحت مند تھا۔
اس حوالہ سے بیاسی خطے کی قدیم تہذیب کو سندھی تہذیب سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں ملنے والی قدیم تہذیب کے بہت سے آثار یہاں بھی باآسانی تلاشے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اس خطے کے اثرات وہاں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اس بیان کو صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تہذیب پچیس ہزار سال پرانی ہے۔ کھدائ میں ساڑھے تین سے چار فٹ بعد زمانہ ہی بدل جاتا ہے تاہم ان زمانوں میں کچھ مماثلتوں کا مل جانا حیرت کی بات نہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ پہلی آبادی کی باقیات رہی ہوں۔ پہلوں کے ساتھ نءے لوگوں کی اکثریت بھی موجود رہی ہے۔
بیاس کی 470 کلو میٹر یعنی 290 میل لمبائ تھی ۔ اس کے قرب وجوار میں سیکڑوں چھوٹی بڑی بستیاں آباد تھیں۔ ہر آبادی کا اپنا مکھیا ہوا کرتا تھا جسے راجہ مہاراج بادشاہ وغیرہ کا درجہ حاصل ہوتا تھا۔ تکڑا بادشاہ دوسری بستیوں پر قبضہ جما کر اپنی سلطنت میں اضافہ کر لیتا تھا۔ ہر ریاست یعنی بستی کے اپنے اصول طور انداز اور نام ہوتے تھے لہذا اس عہد کے حساب سے ساری ولاءتوں کو قصور کا نام نہیں دیا جا سکتا گو کہ وہ آج قصور کا حصہ ہیں۔ آج کی زبان میں اور آسانی کے لیے اسے قصور کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس بات کا تعلق ہزاروں سال سے نہیں بلکہ سیکڑوں سال سے جڑی ہوئ تاریخ سے بھی ہے۔ ابچیترا ناتک از گرو گوبند سنگھ کے مطابق قصور کشا بن شری رام نے بنایا جبکہ لاہور لاوا (لوہ) بن شری رام نے بنایا۔ یہ اس ایریا کی الگ الگ دو ولاءتیں تھیں ناکہ پورا ایریا۔ یہ دونوں بڑے زبردست یودھا تھے۔ انھوں نے اور بعد میں ان کی اولادوں نے دور نزدیک کے ممالک پر تسلط حاصل کر لیا۔ اس حوالہ سے انھیں بھی قصور یا لاہور کہا جانے لگا۔ بعد ازاں قصور کے راجے نے لاہور پر قبضہ جما لیا اور لاہور قصور کا حصہ قرار پایا۔ ہیون سانگ (٦٤٦) بیاس تک آیا اور اس کے ہاں ملک قصور کا ذکر آتا ہے لاہور کا ذکر نہیں ملتا کیونکہ لاہور اس کا محض ایک علاقہ تھا۔ ہیون سانگ سیاح نہیں بدھ مت کا پرچارک تھا۔ میری اس بات کا ثبوت اس کی یادداشت جسے سفرنامہ قرار دیا جاتا ہے‘ میں مل جاءے گا۔
نمرود کے گودام میں ذرخیز ترین علاقہ ہونے کے سبب بیاسی علاقے (قصور) کا غلہ سب سے زیادہ جاتا تھا۔ 1798 ق م میں حضرت سلیمان (ع) کشمیر تشریف لاءے۔ تین شہزادے ہشک‘ کنشک اور زشک بھی تھے۔ ان کا تعلق ترکستان سے تھا۔ ان میں سے ایک کے حصہ میں بیاسی علاقہ آیا۔ اس میں موجودہ قصور بھی شامل تھا۔ حضرت زرتشت اور حضرت مہا آتما بدھ کے پرچارک اس علاقہ میں آءے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ یہاں کی معقول ترین اقلیت تھے۔ یہ صورت محمد بن قاسم کے حملے تک رہی۔ محمد بن قاسم کے حملے تک سندھ تہذیب اور اس کا ایریا موجودہ جہلم سے آگے تک تھا اور اس ایریا کا حاکم راجہ داہر تھا۔
ایران کے بادشاہ کرش کی حکومت بیاس تک رہی۔ اس میں موجودہ قصور بھی شامل تھا۔ حضرت بدھ کی پیدایش سے پہلے علاقہ بیاس میں
university Takshashila
موجود تھی۔ یہاں مذہبی تعلیم کا انتظام واہتمام بھی موجود تھا۔ حضرت بدھ کی تعلیم کا مرکز بھی یہاں رہا۔ لفظ سہجرہ جو اب قصور کے باڈر کا شہر نما قصبہ ہے۔ کسی زمانے میں یہ بیاس کی بہت بڑی ولایت تھی اور تعلیم کا اہتمام تھا۔ یہاں بلند آواز میں تعلیم دینے کے تین مرکز رہے ہوں گے۔
ق م 326
میں سکندر اعظم کو دریاءے بیاس پر بڑی مشکل پیش آئ۔ وہ تین دن اپنے خیمے میں بند رہا اس کے باوجود اس کی فوج نے اپنا ارادہ نہ بدلا۔ اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے صاف انکار کر دیا اسے واپس جانا پڑا۔ اس علاقے کے لوگ بڑے شہ زور بڑے ہنر مند یودھا اور مشکل سے مشکل حالات سے گزرنے کے عادی تھے اور آج بھی ہیں‘ عین ممکن ہے اس نے یہاں زخم کھایا ہو اور یہی زخم اس کی موت کا سبب بن گیا ہو۔
آقا کریم کے صحابی دنیا کےچپے چپے پر گءے۔ کاشغر اور گلبرگہ میں ان کی یاد گاریں موجود ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی گنجان آباد آبادی ان کی نظر عطا سے محروم رہی ہو۔ یہاں اس ضمن میں صرف اور صرف حضرت عطا محمد المعروف بہ پیر بولنا 480 ہجری تا 550 ہجری کے نشان ملتے ہیں۔ پاک پتن قصور کی قریبی ولایت تھی وہاں حضرت عزیز مکی تشریف لاءے۔ کہا جاتا ہے ان کی عمر چھ سو سال تھی۔ ان کی قبر چھبیس فٹ لمبی ہے جو ان کے مقام و مرتبہ کو واضح کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح لاہور میں پیر مکی کی قبر ہے۔
(6)
زمانہ قدیم سے انسان خود حفاظتی تدابیر اختیار کرتا آیا ہے۔ اسلحہ وغیرہ کی ایجاد اس کا واضح ثبوت ہے۔ شروع میں آگ بھی حفاظتی ذریعہ رہی ہے۔ جب اس نے جھونپڑے وغیرہ بنانا شروع کیے تو ناصرف دروازے کا اہتمام کرتا بلکہ گھر کے باہر کانٹے دارجھاڑیوں کی مضبوط باڑ بھی لگاتا۔ اس طرح وہ جانوروں کے حملہ سے محفوظ ہو جاتا۔ بعد ازاں گروپ کی شکل میں رہایش کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ساتھ ساتھ گھر تعمیر کرنے لگا۔ اس سے ناصرف باہمی روابط کا آغاز ہوا بلکہ حفاظتی معاملات میں ارتباط کی بہت سی صورتیں نکل آءیں۔ وہ حملہ آور کا مل کر مقابلہ کرتا اور مل کر حملہ کرنے کے رویے نے بھی جنم لیا۔ تجربے کی روشنی میں مزید طریقہ ہاءے کار اختیار کرتا۔ ترقی اور ضرورت کے پیش نظر علاقہ کی رہایش گاہوں کے چاروں طرف دیوار بنا کر اس کا ایک گیٹ رکھ دیا جاتا اور رات کو یہ گیٹ مقفل کر دیا جاتا۔ باری باری پہرہ داری کا اہتمام بھی ہونے لگا۔ یہ طور بہت بعد تک رہا۔ لوگ اپنے علاقہ کی گشت کرتے اور ساتھ میں آواز بھی لگاتے جاتے تھے۔
علاقہ کے چاروں طرف دیوار بنانے کا رواج کوئ نیا انوکھا اور دنیا کی کسی ایک ولایت میں نہیں رہا۔ دنیا میں قدم ترین قلعے موجود ہیں۔ یہ قلعے صرف افواج کی رہایش تک محدود نہیں تھے آبادی بھی ان کےاندر موجود رہتی تھی۔ چار دیواری کے اندر موجود آبادی کے لیے یہ چاردیواری ان کے لیے قلعہ کا درجہ رکھتی تھی۔ اس کا قلعہ جات کی تعمیر سے پہلے رواج عام ہوا ہو گا۔ اول اول ساری آبادی چاردیواری کے اندر اندر اقامت رکھتی ہو گی بعد ازاں یہ انداز خصوص کے مخصوص ہو گیا ہو گا۔ عموم کی رہایش گاہیں چاردیواری سے باہر رہی ہوں گی۔ حملہ کے وقت وہ مارے جاتے ہوں گے یا ادھر ادھر بھاگ کر جان بچاتے ہوں گے۔
موجودہ قصور کے متعلق آج تک یہی سنتے آ رہے ہیں کہ اصل قصور برباد ہو گیا اور بہت بعد کا موجودہ قصور ہے۔ میں پہلے کہیں عرض کر چکا ہوں کہ سارے علاقے کا نام قصور ( کسور) نہیں تھا۔ پورے علاقے کی فقط ایک ولایت کا نام قصور ( کسور) تھا۔ وہ کون سا علاقہ تھا اس کا بعد میں ذکر آءے گا۔ یہاں صرف اتنا واضح رہے کہ موجودہ قصور بہت بعد کا نہیں ہے ہاں حسب روایت آبادی وہ نہیں رہی یعنی یہ اگلوں کی نسل نہیں ہے۔ نسل در نسل اقامت کا سلسلہ کبھی بھی نہیں رہا۔ بہت سارے حوالوں سے پہلی آبادیاں ختم یا پھر مہاجرت اختار کرتی رہی ہیں۔ بیاسی علاقے کی ذخیزی بھی آبادیوں کی تبدیلی یا بربادی کا موجب رہی ہے۔
موجودہ قصور جسے بہت بعد کا کہا جاتا ہے‘ کا تجزیہ پیش کرتا ہوں۔ پکا قلعہ ذرا غور کریں تو واضح ہو گا بلندی پر واقع ہے۔ بڑے دروازے کے اندر مکانات اگرچہ دوبارہ سے تعمیر کر لیے گیے ہیں لیکن اس کا ناک نقشہ آج یا آج سے پان سات سو سال کا نہیں ہے۔ یہ علاقہ ٹبہ کمال چشتی غربی کا حصہ ہے۔ شہر میں ہونے کے باعث جدید محسوس ہوتا ہے لیکن عہد قدیم میں یہ ولایت ٹیلے پر آباد ہوئ ہو گی۔ یہ ٹیلا ہزاروں سال کی عمر رکھتا ہے۔ کوٹ پکا قلعہ کے شمال میں کوٹ پیراں آباد ہے۔ کوٹ پکا قلعہ کی طرح یہ کوٹ بھی یک دروازے کا حامل ہے۔ دونوں قریب قریب ہیں لہذا ان کا باہمی ربط رہا ہوگا۔ چونکہ یہ دونوں اپنے اصل نقشہ کے مطابق ہیں اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان ولایتوں میں تباہ کن تصادم نہیں ہوا ہوگا۔ دونوں کوٹ ٹیلے پر تعمیر ہوءے ہیں گو اب محسوس نہیں ہوتے۔
کوٹ پکا قلعہ کے جنوب اور ٹیلہ کمال چشتی کے مغرب میں کوٹ حلیم خاں واقع ہے۔
یہ بھی چار دیواری کے اندر واقع ہے۔ دونوں طرف دروازے ہیں۔ بیرونی دروازے** کے آگے بلندی نہیں ہے بلکہ اترائ ہے۔ دروازے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرف بھی ایسی ہی کوئ ولایت رہی ہو گی جو بیاس یا کسی تصادم کے حوالہ سے ہمیشہ کے لیے بے نام ونشان ہو گئ۔ اگر یہ انگریز یا اس سے تھوڑا پہلے تباہ ہوئ ہوتی تو اس کے نشانات ضرور باقی ہوتے۔ اس دروازے سے باہر کا علاقہ تو کئ سالوں سے ویرانہ دیکھ رہے ہیں آبادی تو پچھلے چالیس پچاس سال میں ہوئ ہے۔ چالیس پچاس سال پہلے یہاں کچھ بھی نہ تھا۔
گورنمنٹ کالج قصور کے ساتھ ہی دو کوٹ یعنی کوٹ اعظم خان اور کوٹ فتح دین اسی انداز کے ہیں۔ دونوں کے دونوں طرف دروازے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے اطرف میں اور ولاتیں موجود تھیں۔ کوٹ فتح دین کے شمالی دروازہ سے چند قدموں کے فاصلے پر کوٹ اعظم خاں کا دروازہ ہے گویا یہ ایک دوسرے کے پڑوس میں واقع دو حکومتیں تھیں۔ کوٹ اعظم کے غربی دروازے کی ناک کی سیدھ میں پندرہ منٹ کے پیدل فاصلے پر کوٹ رکن دین واقع ہے۔ کوٹ رکن دین ساخت کے لحاظ سے متذکرہ چہار ولاءتوں سے کسی طرح مختلف نہیں۔اس کے خارجی دروازے کے سامنے اس قسم کوئ ولایت موجود نہیں۔ یہ کوٹ بھی ٹیلے پرواقع ہے۔
چوک شہیداں سے جنوب میں تھوڑا دور اندر کو ایک آبادی ہے آج دوسرے کوٹوں کی طرح دروازے والا علاقہ نہیں رہا لیکن ایک سنجیدہ سوچ کے نتیجہ میں اسے بھی ان کوٹوں میں شمار کریں گے۔ آج دروازے وغیرہ نہیں رہے۔ یہ ایریا نیا نہیں بہت پرانا ہے۔ قبرستان جٹو اس کو لگتا ہے جبکہ شہر کا ایک دروازہ بھی اس کو لگتا ہے۔ پرانے قبرستانوں کو دیکھتے ہوءے اندازہ ہوتا ہے مسمانوں سے پہلے بھی مردے دفنانے کا رواج موجود تھا۔ ہندو برادری کے ساتھ ساتھ عیسائ زرتشتی بدھ متی وغیرہ اقلیتیں موجود تھیں۔
مرکزی شہر کے باہر کرشنا نگر ہے۔ اس کے دونوں طرف دروازے ہیں۔ مرکزی شہر رقبہ کے لحاظ سے درج بالا ولایتوں سے سب بڑا ہے۔ گمان گزرتا ہے کہ یہ الگ سے مختلف ولایتیں رہی ہوں گی اور ہر ولایت کا اپنا حاکم رہا ہو گا۔ یہ حصہ تجارت گاہ رہا ہو گا۔ یہاں خرید و فروخت کا کام ہوتا ہو گا۔ آج بھی رہایش گاہوں کے علاوہ ہر قسم کا بازار لگتا ہے۔ آج اس کے سات دروازے ہیں۔ ہر دروازے کے ساتھ کوئ نہ کوئ کوٹ ضرور لگتا ہے۔ یہی صورت قبرستانوں کی ہے۔
محمد غلام کوٹ
بقول پروفیسر نیامت علی قبرستان پر بنایا گیا ہے۔ یہ قبرستان ٹیلے پر تھا۔ یہ صورت نئ نہیں۔ قبرستانوں کو مسمار کرکے تعمیرات کا سلسلہ نیا نہیں۔ جیسے کوٹ اعظم خان اور کوٹ فتح دین کے قبرستان کو ڈھا کر عمارتیں بنا لی گئ ہیں۔ زیر حوالہ محلوں کوٹوں اور شہر سمیت تعمیرات ٹیلے پر ہوئ ہیں اور یہ بلندی ٹیلے کمال چشتی شرقی کی بالائ سطع کے مطابق ہے۔ اب یہ علاقے ٹیلے پر محسوس نہیں ہوتے۔ یہ تعمیرات سیکڑوں سال سے تعلق رکھتی ہیں۔ بہت ولاءیتوں کے مٹ جانے میں بیاس کا ہاتھ نہیں۔ یہ باہمی جنگ و جدل کا نتیجہ ہیں۔
ان چاردیواری کے باہر کے علاقوں کی آبادی چاردیواری کے اندر کی آبادی کا تقریبا ٩٨ فیصد ہے۔ یہ بیرونی آبادی بہت بعد کی ہے۔ اسے نیا یا بعد کا قصور کہا جا سکتا ہے۔ چار دیواری کے اندر کا قصور پنج پیر‘ پیر بولنا‘ حاجی گگن وغیرہ کے مزاروں کی طرح پرانا ہے۔ چونکہ وہ علاقے شہر سے دور دراز ہیں اس لیے ٹیلے پر آباد لگتے ہیں ۔ اگر وہ علاقے شہر میں ہوتے تو ٹیلے نام و نشان سے محروم ہو گءے ہوتے۔ اسی طرح اندرونی آبادی پر پہلے کا یا بعد کا‘ کا سابقہ نتھی کیا جا سکتا ہے لیکن جگہ کا مطالعہ اور معاءینہ کرکے ہی