کھوج 32، ششماہی تحقیق میگزین ۔ شعبہ پنجابی زبان و ادب، یونیورسٹی آف پنجابی ایڈیٹر ڈاکٹر شہباز ملک۔ صفحہ 126 قیمت 33 روپیہ۔ ناشر پنجاب یونیوسٹی، اوریئنٹل کالج لاہور۔ خواجہ غلام فرید کا انتقال 27 جولائی 1901ء کو ہوا اور اس وقت تک ان کی کافیوں کا ایک مختصر مجموعہ جسے میاں محمد عارف نے ترتیب دیا تھا ڈیرہ غازی خان سے شائع ہوا تھا۔ یہ صرف بیس صفحوں کا مختصر غیر مجلہ رسالہ تھا اور 1881ء میں منظر عام پر آیا۔ پنجابی کتابیات (فارسی رسم الخط میں لکھی ہوئی پنجابی کتابوں کی فہرست) کے مطابق جس کی ترتیب ڈاکٹر شہباز ملک نے دی ہے بیس صفحوں کا ایک کتابچہ کافیاں کے عنوان سے 1886ء میں بریلی سے شائع ہوا تھا۔ پنجابی / سرائیکی کے تحقیق دانوں کا خیال ہے کہ کافیوں کا سب سے پہلا مجموعہ 1902ء میں جلال پور پیروالہ سے منظر عام پر آیا۔ اس 244 صفحہ کی کتاب کا عنوان ’’اسرار فریدی‘‘ تھا۔ اسے دیوان فرید بھی کہا جاتا تھا اور شاعری کے انتقال کے ایک برس بعد اسے خدا بخش غوث بخش نے شائع کیا تھا۔ خواجہ فرید کا اور ان کی ذاتی مہر لکھنئو سے شائع ہونے والے ان کی سب سے اولین کتاب مثنوی میدان عشق کے آخری صفحہ پر ثبت ہے۔: لیکن مقابیس ال مجالس کے مصنف جہنوں نے خواجہ فرید کے کلمات اور تقریرات کو فارسی میں قلمبند کیا ہے کہا ہے کہ 27 شوال 1312 الحجر (885A.D) کو خود خواجہ فرید نے اپنے کلام کے کچھ شاعرانہ اور تکنیکی پہلو اپنے ایک مرید کو بتلائے تھے۔ اپنی کافیوں کی ترتب کے متعلق بھی انہوں نے کچھ ذکرکیا تھا۔ اب اس میں کوئی شک باقی نہیں رہے گا خواجہ فریدنے اپنی زندگی میں ہی اپنے کلام کی اشاعت کی تھی لیکن جس کے متعلق مولانا عزیز الرحمن 1943ء مولانا نور احمد خان فریدی (978-79ئ)ڈاکٹر مہر عبدالحق (987ئ) صدیق طاہر (988ئ) اور قیس فریدی (992ئ) جیسے ایڈیٹر صاحبان اور علمائے زباں خاموش ہیں۔ یا تو یہ ان کی لا علمی ہے یا انہوں نے دیدہ دانستہ جو مواد شاعر کی زندگی ہی میں شائع ہوا تھا اسے چھپانے کی کوشش ہے۔ جنوبی پنجاب کے ہمعصر علماء نے کم از کم دو الفاط تو ضرور تبدیل کئے یں … “میرا” اور “نوں” جو کہ خواجہ فرید نے اکثر استعمال کئے ہیں۔ انہوں نے میرا کہ جگہ میڈھا اور ’’نون‘‘ کی جگہ ’’کوں‘‘ لگا دیا ہے تاکہ اس کی مشابہت سرائیکی سے زیادہ معلوم ہو۔ ایک ایسے ہی عالم کیفی جام پوری نے ڈیرہ غازی کان کے شاعر امام بخش شیروی کی مندرجہ ذیل لائن بالکل ہی بدل دی ۔ (باغ و بہار 1897( ’’ہُن بولی پنجابی جڑیم قصے بہت پرانے” لفظ پنجابی کی جگہ لفظ ملتانی لگا دیا گیا۔ ’’ہُن بولی ملتانی جوڑیم قصے بہت پرانے”خواجہ فرید نے خود بھی بالواسطہ یہ تسلیم کیا تھا کہ وہ اپنی شاعری میں پنجابی زبان استعمال کرتے ہیں (مقابیس ال مجالس صفحہ 703) لیکن سرائیکی کے علمبردار اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے شرماتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے جنوبی پنجاب کے پنجابی زبان کے قدیم شعراء کی عبارت کو بدنیتی سے تبدیل کر دیتے ہیں جیسا کہ کیفی جام پوری نے اپنی کتاب ’’سرائیکی شاعری‘‘ میں کیا ہے۔ بہاولنگر کے فضل فرید لالیکا نے خواجہ فرید کی چھپی ہوء کافیوں کا سب سے قدیم نسخہ دریافت کر لیا ہے۔ 92ء صفحوں پر مشتمل یہ کتاب ملتان کے ناشر خیر محمد نے882ء میں شائع کی تھی اور لکھنئو میں اس کی طباعت ہوئی تھی خدا کا شکر ہے کہ لاہور کے کسی ناشر کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا ورنہ نام نہاد سرائیکی علماء اکثر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ لاہور کے ناشر اکثر سرائیکی الفاط کو مسخ یا تبدیلی کر کے خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہوں ان اس کی جگہ پنجابی الفاظ لگا دیتے ہیں۔ سیٹھ عبدالرحمن کی کتاب ’’سرائیکی کتابیں‘‘ میں بھی اس کتاب کا ذکر ہے اور اس کتاب کا نام ’’مدان عشق معروف بیہ کافیاں‘‘ دیا ہے۔ خواجہ فرید کی نایاب کافیوں کی کتاب کے ساتھان کے ایک خط بھی ہمراہ ہے جس پر ان کی ذاتی مہر بھی لگی ہوئی ہے۔ اس میں انہوں نے ناشر خیر محمد کو اشاعت کے جملہ حقوق دے دیئے تھے۔ خط پر تاریخ ذی قعد 1299الہجر (881 A.D) دی ہوئی ہے۔ جب خواجہ فرید کی عمر 39 برس تھی تب اس کی اشاعت ہوئی تھی۔ اس مجموعہ کی اشاعت کے 19 برس بعد ان کا انتقال ہو گیا اور اس مجموعہ میں ان کی طرف 133 کافیاں تھیں عزیز الرحمن کے ترتیب دئے ہوئے مجموعہ میں 272 کافیاں ہی۔ جو نواب آف بہاولپور صادے محمد خان کے حکم کے تحت تیار کیا گیا حالیہ ایڈیشن 1994ء میں بھی جسے محمد آصف خان نے مرتب کیا ہے اور پنجابی ادبی بورڈ نے شائع کیا 272 ہی کافیاں ہی ہیں۔ کافیوں کے اس اضافہ میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ 1992ء میں 133 کافیوں کی اشاعت کے بعد آئندہ 19 برسوں میں خواجہ فرید نے اور بھی کافیاں لکھی ہوں گی اور ان کی پہلی کتاب کی اشعت کے بعد خود انہوں نے ان کے قریبی ساتھیوں اور مریدوں نے اُن کی موت کے بعد ان تحریروں کو خوصوصی احتیاط سے ریکارڈ کے طور پر محفوظ رکھا ہو گا۔ دبیر الملک مولانا عزیز الرحمن نے 1882ء کی کے ورژن کا کوئی حوالہ نہیں دیا ہے۔ لیکن جب وہ خود عبارت کو مرتب کر رہے تھے تب شاعر کی زندگی میں اشاعت کی ہوئی عبارت میں بہت سی تحریفات تبدیلیاں اور اضافے کر دئیے۔ مثنوی مدان عشق پر فضل فرید لالیکا نے کھوج کے حالیہ اشاعت میں جو مقالہ لکھا ہے اس میں 94 ایسی جگہوں کی نشاندہی کی ہے جہاں مولانا عزیز الرحمن نے خواجہ فرید کے کام میں تبدیلیاں کی ہیں۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق اور دیگر ایڈیٹر صاحبان نے اس میں مزید ردوبدل کئے ہیں۔ فضل فرید لالیکا ایک مانے ہوئے بہاولپوری عالم ہیں۔ انہوں نے صرف مولانا عزیز الرحمن کی غاصبانہ مداخلت کی نشاندہی کی ہے جن کی عبارت کی بنیاد پر مولانا نور احمد اور مہر عبدالحق نے اپنی عبارتیں لکھی ہیں۔ مہر عبدالحق کو حال ہی میں اعلیٰ کارکردگی کا سرکاری نعام حسن کارکردگی بھی ملا ہے۔ مرحوم صدیق طاہر اور قیس فریدیکا دعویٰ ہے کہ ان کی عبارت کی بنیاد دیوان فرید کا قلمی نسخہہ ہے جس کی خطاطی سردار پیر بخش خان کو رائی نے کی تھی۔ یہ صحیح ہے کہ غلط۔ ابھی اس کی تصدیق ہونا باقی ہے لیکن ایک بات صاف ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ قیس فریدی اور مہر عبدالحق نے خواجہ فرید کی شاعری میں دیدہ دانستہ تبدیلیاں کی ہیں تاکہ اس کو سرائیکی بنایا جا سکے۔ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ایک ایسا شاعر جیسے انتقال کئے ہوئے ابھی صرف 93برس گزرے ہیں کہ کلام متنازعہ بحث و اختلاف رائے کا موضوع بنے اور کچھ الفاظ اور اصطلاحات جو انہوں نے استعمال کئے ہیں۔ یہ ان تمام سکالرز نے مسخ کئے یا غلط تشریح دا استعمال میں لائے اور توڑ مروڑ کر پیش گئے ہیں۔ تاکہ خواجہ فرید کی شاعری خالص سرائیکی نظر آئے۔ اس مقصد کے لئے ان لوگوں نے دیدہ دانستہ ان الفاظ کو بگاڑا ہے جو خواجہ فرید نے مثنوی مدان عشق میں استعمال کئے ہیں اور جو خواجہ فرید کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھی اور اس پر خواجہ فرید کی ذاتی مہر بھی ثبت ہے۔بشکریہ ڈان ۔ ترجمہ: نذیر کہوٹ