لاہور (ویب ڈیسک )زمانہ بدل گیا،دُنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، عوام کا شعور جوان ہو گیا، سب کچھ تبدیل ہو رہا ہے، مگر ہمارے سیاسی رہنما ابھی تک خمارِ شب میں مبتلا ہیں، آج بھی وہ عوام کو بے وقوف اور لائی لگ سمجھتے ہیں،اُن کا خیال ہے آج بھی وہ جس طرح چاہیں گے
نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔عوام کو سبز باغ دکھا کر رام کر لیں گے، پرانی شکلیں نئی بنا کر میدان میں آئیں گے اور پھر سے اپنا تماشا جاری رکھیں گے،کوئی ان کوڑھ مغزوں کو سمجھائے کہ اب یہ شعبدہ بازی نہیں چلے گی۔یہ ڈرامے پٹ جائیں گے، اُن کی یہ قلا بازیاں کچھ کام نہیں آئیں گی۔آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ میرا روئے سخن کس طرف ہے۔یہ جو صوبہ محاذ کے نام پر جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ(ن) سے منحرف ہونے والوں نے نیا کھیل کھیلا ہے، مَیں اُن کا ذکر کر رہا ہوں۔غضب خدا کا پورے پانچ برس تک حکومت کے وسائل سے اپنا گھر بھرنے والوں کو آخری تیس پینتیس دِنوں کے لئے صوبہ بھی یاد آ گیا ہے اور یہ بھی کہ مسلم لیگ(ن) نے جنوبی پنجاب کو بُری طرح نظر انداز کیا ہے۔پہلے یہ لوگ اِس بات کا تو حساب دیں کہ ان پانچ برسوں میں اُنہیں کتنے سرکاری فنڈز ملے اور وہ کہاں گئے؟ان سب کے دبئی میں کاروبار اور پلازے کھڑے ہیں۔یہ سب مال تو وہاں چلا گیا ہے، اگر اسے وہ جنوبی پنجاب کے عوام پر لگاتے توبہت زیادہ نہیں، مگر بہت حد تک پسماندگی اور محرومی میں کمی آ سکتی تھی۔ یہ پٹا ہوا سکرپٹ دوبارہ لا کر وہ کسے بے وقوف بنانا چاہتے ہیں۔جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا اصل سبب تو یہی کردار ہیں،
جو موقع پرستی کے ماہر ہیں اور جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو سب سے پہلے چھلانگ لگا دیتے ہیں۔سوشل میڈیا پر عوام نے جس طرح ان لوگوں کو کھری کھری سنانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، وہ اس امر کی گواہی ہے کہ عوام انہیں بُری طرح مسترد کر چکے ہیں، یہ بدترین منافقت کی ایک شکل ہے، آپ پانچ برس تک اسمبلی میں موجود رہیں، علیحدہ صوبے تو کیا اُس کی محرومی تک کا ذکر نہ کریں اور ایک دن اچانک آپ کو یہ خواب ستائے کہ جنوبی پنجاب میں بڑی پسماندگی ہے، اُسے حقوق نہیں دیئے جا رہے، اِس لئے ہم حکومت سے الگ ہو کر نیا صوبہ بنانے کے لئے جدوجہد کریں گے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ سارے فنڈز آپ کھا جائیں اور محرومی کا ڈھنڈورا بھی پیٹیں۔ اب جبکہ مسلم لیگ(ن) پر ایک زوال آیا ہوا ہے، نواز شریف کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے، حالات مشکل کی طرف جا رہے ہیں تو آپ نے بڑی ڈھٹائی سے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کر لی ہے کہ مسلم لیگ(ن) نے جنوبی پنجاب کے لئے کچھ نہیں کیا۔جنوبی پنجاب سے جتنے ارکانِ اسمبلی مستعفی ہوئے ہیں، ان کا اسمبلی ریکارڈ منگوا کر دیکھ لیں،انہوں نے ایک بار بھی یہ کہا ہو کہ حکومت جنوبی پنجاب کو نظر انداز کر رہی ہے،کبھی شہباز شریف پر تنقید کی ہو کہ وہ پنجاب کا سارا بجٹ لاہور پر کیوں لگا رہے ہیں؟ اُس وقت تو مُنہ پر ٹیپ لگا کر فنڈز لیتے رہے اور اب عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے میدان میں آ گئے ہیں
۔یہ اپنے ماضی کی بُری کارکردگی پرپردہ ڈالنے کی ایک مذموم کوشش ہے، جسے علیحدہ صوبے کی آڑ میں چھپایا جا رہا ہے۔ کل ہی مجھے ایک سرائیکی قوم پرست لیڈر نے فون کر کے کہا ہے کہ ہم صوبہ محاذ کے ڈرامے کو مسترد کرتے ہیں۔ یہی تو وہ لوگ ہیں،جنہوں نے جنوبی پنجاب کو پسماندہ رکھا ہوا ہے،ان کے اثاثے دیکھے جائیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنا پیسہ کیسے آیا،مگر بات یہ عوام کی محرومی سے جوڑتے ہیں،ان لوگوں کو سرائیکی خطے کے عوام مسترد کرتے ہیں،ساری جدوجہد سرائیکی قوم پرست تنظیموں نے کی ہے اور اب چوری کھانے یہ لوگ آ گئے ہیں۔یہ سب سے پہلے اپنے اثاثے ڈکلیئر کریں۔ بتائیں کہ پانچ سال پہلے کیا تھے اور اب کیا ہیں، پتہ چل جائے گا، انہوں نے جنوبی پنجاب کو دیئے جانے والے اربوں روپے کے فنڈز کیسے لوٹے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) سے منحرف ہونے والے اِن ارکانِ اسمبلی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بلوچستان کی طرح جنوبی پنجاب میں بھی چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر اسے سیاسی طور پر تقسیم کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کی گئی ہے۔سنا تو یہ بھی جا رہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے کچھ ارکان اسمبلی مستعفی ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہوں گے، مگر یہ کانٹا آخر کس نے بدل دیا ہے کہ ٹرین تحریک انصاف کی طرف جانے کی بجائے صوبہ محاذ کی طرف مڑ گئی ہے۔کیا یہ تحریک انصاف کے خلاف بھی کوئی سازش ہے
کہ اس کے ووٹ بینک کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔ یہ پانچ لوگ آخر کیسے علیحدہ صوبہ بنا سکتے ہیں؟ ان کی سیاسی منظر نامے میں کیا اہمیت ہے؟ کیا یہ لوگ اپنی سیاسی شناخت رکھتے ہیں یا ان کی کامیابی کا باعث ہمیشہ کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت رہی ہے۔ یہ کٹھ پتلی کردار، جو پیچھے سے سکرپٹ ملتا ہے، بول دیتے ہیں یا واقعی ان میں کوئی جان ہے۔ پاکستان ہی میں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ کا کھیل جاری رہتا ہے۔ یہ کھیل اب زوروں پر ہے۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے۔ابھی تک بلوچستان میں جو کچھ ہوا، اس پر لوگ انگشت بدنداں ہیں۔ اب پنجاب میں عجائبات ہو رہے ہیں، تاہم ایک بات یقینی ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس کا تعلق عوام کے دُکھ درد کو کم کرنے سے ہرگز نہیں۔البتہ انہیں چکر دینے اور ان کے حالات بدلنے کے جھوٹے وعدوں سے ضرور ہے۔آج کل جسے دیکھو وہ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا راگ الاپ رہا ہے۔یہ کوئی نئی واردات نہیں ہے، اِس سے پہلے بھی انتخابات کے قریب آتے ہی کبھی علیحدہ صوبے اور کبھی تختِ لاہور کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے کے نام پر ایسے ڈرامے رچائے جاتے رہے ہیں، پٹی ہوئی فلاپ فلم کو بار بار دکھانے کا حوصلہ ہمارے اِن سیاست دانوں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ اب عوام ڈبہ فلم دیکھنے کو تیار نہیں۔مَیں تو بہت پہلے سے لکھ رہا ہوں کہ جنوبی پنجاب میں انتخابی مہم اب علیحدہ صوبے کے نام پر چلائی جائے گی، کیونکہ اب یہ اتنا بڑا ایشو بن گیا ہے
کہ اِسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔تحریک انصاف نے تو اسے باقاعدہ اپنے انتخابی منشور میں شامل کر لیا ہے اور اس کا اعلان بھی آئندہ چند دِنوں میں کر دیا جائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری بھی آج کل بلاول ہاؤس ملتان میں محفلیں سجا رہے ہیں، تو تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بھی پیپلز پارٹی ہی بنائے گی۔ مسلم لیگ (ن) اِس حوالے سے گومگو کا شکار ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ شہباز شریف نے جس طرح اپنی حکومت کو پورے پنجاب کی بجائے صرف صوبہ پنجاب اور لاہور تک محدود رکھا ہے، اس کی وجہ سے ان کے منہ پر جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی بات کچھ جچے گی نہیں، شاید یہی وہ کمی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے والے اب علیحدہ صوبے کا نعرہ لگاکر اس سے جدا ہو گئے ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) بھی علیحدہ صوبے کی بات کرتی تو ان کے لئے علیحدگی کا یہ جواز کم از کم نہ رہتا۔ یاد رہے کہ جنوبی پنجاب میں یہ بات بہت عام ہے کہ علیحدہ صوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہاں کے وڈیرے اور جاگیر دار ہیں۔مجھے ہنسی آ رہی ہے کہ صوبہ محاذ کا سرپرست میر بلخ شیر مزاری کو بنایا گیا ہے، جو بذاتِ خود ایک سردار ہیں۔ نجانے ان کا بڑھاپا خراب کرنے کی سازش کیوں کی گئی ہے؟ جو کام میر صاحب ساری زندگی نہیں کر سکے، اب پیرانہ سالی میں کیسے کریں گے۔ انہیں جب نگران وزیراعظم بنایا گیا تھا تو ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے لوگوں نے یہ امید باندھ لی تھی کہ وہ مختصر وقت میں کم از کم راجن پور جیسے پسماندہ ضلع کے لئے کچھ ضرور کر جائیں گے،
لیکن انہوں نے کچھ بھی نہ کیا۔وہ کیسے اس عادت کو خیر باد کہیں گے، جو عوام کے ساتھ مزارعوں جیسے سلوک سے عبارت ہے، جس بات کا خیال مزاری صاحب کو ساری زندگی نہیں آیا، اب ان پانچ منحرفین کا سرپرست بن کر کیسے آ سکتا ہے۔جیسے کسی نوجوان کا کوئی سرپرست نہ ہو تو اُسے رشتہ نہیں ملتا، اِسی طرح اِن لوگوں نے بھی اپنا اعتبار قائم کرنے کے لئے میر بلخ شیر مزاری کا کندھا استعمال کیا ہے، ناتواں کندھاجو خود سہارے ڈھونڈتا پھرتا ہے، وہ کسی دوسرے کو کیا سہارا دے سکتا ہے۔جمہوریت اور سیاست کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے ضرورت اِس بات کی ہے کہ ایسے فصلی بٹیروں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔پاکستان میں پہلے ہی چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے کھچڑی پکا رکھی ہے، جو دو چار سیٹیں لے کر بلیک میل کرتی اور اپنی قیمت لگواتی ہیں، اب مختلف علاقائی ایشوز کو بنیاد بنا کر ایسے گروپوں کا سامنے آنا سیاست کو مزید گدلا کر سکتا ہے۔ایسے لوگ جو اقتدار ختم ہوتا دیکھ کر اپنی جماعت کو چھوڑکر عوامی حقوق کے چیمپئن بننے کی کوشش کریں، اُن سے بڑا شعبدہ باز کوئی نہیں۔ ایسے لوگوں کا یہ پرانا ہتھکنڈہ ہے کہ وہ ہر قیمت پر اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔ پہلے ایسے لوگوں کو لوٹا کہا جاتا تھا، اب یہ منحرفین کہلانے لگے ہیں۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ لوٹا بننے کے الزام سے بچنے کے لئے یہ سابق ارکان اسمبلی پہلے ایک آزاد گروپ میں گئے ہیں اور انتخابات کے قریب جا کر تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گے۔ عمران خان آج کل ایسے لوگوں کو دھڑا دھڑ اپنی جماعت میں شامل کر رہے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ چلے ہوئے یہ کار توس تحریک انصاف پر بوجھ تو بن سکتے ہیں، بوجھ اُٹھا نہیں سکتے۔مفاد پرستوں کو تبدیلی کے دعوے والے قافلے میں شامل کرکے عمران خان خلقِ خدا کی امیدوں سے کھیل رہے ہیں، کیونکہ ان پٹے ہوئے مہروں کو عوام شاید اپنی نمائندگی کے لائق نہ سمجھیں، چاہے یہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا لبادہ اوڑھ کر ہی کیوں نہ سامنے آئیں۔ نیب کو چاہئے کہ پانچ برسوں کے دوران انہیں ملنے والے فنڈز کی تحقیقات کرائے، ان کے منحرف ہونے کی اصل کہانی سامنے آجائے گی۔
Source : https://tareekhiwaqiat.com/mutakhibcolumn_44466.html