مزمل سہروردی
بدھ 25 جنوری 2017
یہ کوئی خبر نہیں کہ ملتان میٹرو کا افتتاح ہو گیا۔ ملتان میٹرو تو دو ماہ سے تیار تھی بس کسی نہ کسی وجہ سے اس کے افتتاح میں تاخیر ہو رہی تھی۔ اس لیے اس کا افتتاح کوئی سیاسی سرپرائز نہیں ہے۔یہ بھی کوئی بات نہیں کہ کیا ملتان میٹرو ملتان کے عوام کو پسند آئے گی۔
کیونکہ اس سے پہلے لاہور، راولپنڈی اسلام آباد کے عوام جس طرح میٹرو کی پذیر ائی کر چکے ہیں اس کے بعد یہ کوئی سوال ہی نہیں کہ ملتان کے عوام اس کو پسند کریں گے کہ نہیں۔ لیکن ملتان میٹرو پاکستان میں سیاسی فلسفہ پر کاربند رہنے کی عمدہ مثال ضرور ہے۔ جمہوریت میں مختلف سیاسی جماعتیں اپنی اپنی ترجیحات اور سیاسی فلسفہ عوام کے سامنے رکھتی ہیں اور عوام سیاسی جماعتوں کے سیاسی فلسفہ اور ترجیحات کو سامنے رکھ کر ہی ان کو ووٹ دیتے ہیں۔میٹرو منصوبے شہباز شریف کی پہچان بن گئے ہیں۔ ان کا سیاسی کریڈٹ بھی شہباز شریف کا ہے اور ڈس کریڈٹ بھی شہباز شریف کا ہی ہے۔
لاہور میں اس وقت اورنج لائن تکمیل کے تکلیف دہ مراحل سے گزر رہی ہے۔ ان تکلیف دہ مراحل میں عدالتی و سیاسی جنگ دونوں شامل ہیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ انتخابات سے قبل لاہور کا میٹرو منصوبہ مکمل کیا تھا۔ اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی کم از کم پنجاب میں انتخابی مہم میں لاہور کی میٹرو ایک بنیادی جزو تھی۔ اسی تناظر میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو یہ یقین کامل ہو گیا ہوا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں پنجاب میں ملنے والی بڑی کامیابی میں لاہور کے میٹرو منصوبہ کا بڑا حصہ ہے۔ ۔ اسی لیے انتخابات جیتنے کے بعد لاہور کے بعد دوسرے شہروں میں بھی میٹرو منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اور اب تک راولپنڈی اسلام آباد اور ملتان میں یہ منصوبہ مکمل کر لیے گئے ہیں۔ جب کہ فیصل آباد میں تکمیل کے مراحل میں ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ لاہور میٹرو کو مسلم لیگ (ن) کی مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کی کامیابی کے حوالہ سے شکوک شبہات پیداکر دیے گئے۔ جس قدر شد و مد کے ساتھ اس منصوبہ کی مخالفت کی گئی اس نے اس منصوبہ کو مسلم لیگ (ن) اور اس کے مخالفین کے درمیان ایک ٹیسٹ کیس بنا دیا۔ لیکن پھر لاہور میٹرو کا گزشتہ انتخابات سے قبل افتتاح ہو گیا اور روزانہ ڈیڑھ لاکھ لوگوں نے اس میں سفر شروع کر دیا۔ اس طرح اس کے خلاف ہونے والی تمام تنقید اور مخالفت عوامی پذیرائی تلے دب گئی اور مسلم لیگ (ن) کو اس طرح کے مزید منصوبے شروع کرنے کا حوصلہ ملا۔
تحریک انصاف نے بلا شبہ لاہور میٹرو اور راولپنڈی میٹرو کی بھر پور مخالفت کی۔ لیکن شاید اب وہ تھک گئے ہیں اسی لیے ملتان میٹرو کی مخالفت میں وہ طاقت نظر نہیں آئی۔ میٹرو مخالفین کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ یہ بہت مہنگے منصوبے ہیں اور یہ رقم صحت اور تعلیم کے شعبوں پر خرچ کی جانی چاہیے۔ اس دلیل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ میٹرو منصوبوں کے دونوں بڑے مخالفین تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی بھی ایک صوبہ میں حکومت ہے۔
یہ تو درست ہے کہ میٹرو مخالفت کی وجہ سے انھوں نے اپنے اپنے زیر کنٹرول صوبوں میں کوئی میٹرو منصوبہ نہیں بنایا۔ شاید اسی وجہ سے سندھ اور کے پی کے، کے عوام ان منصوبوں سے محروم رہ گئے ہیں۔بلکہ یہ لکھنا بھی جائز ہو گا کہ کے پی کے اور سندھ کے عوام وہاں کی حکمران جماعتوں کی سیاسی انا کا شکار ہو گئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے صوبوں میں نہ تو میٹرو کا متبادل ماس ٹرانزٹ کا کوئی منصوبہ دے سکی ہیں اور نہ ہی تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کوئی ایسا غیر معمولی کام کر سکی ہیں جس کو ان میٹرو منصوبوں کے متبادل کے طور پر پیش کر سکیں۔
کیا کے پی کے، کے اسپتال پنجاب سے مختلف ہو گئے ہیں۔ کیا کے پی کے، کے سرکاری اسکول پنجاب سے مختلف منظر پیش کر رہے ہیں۔ کیا تحریک انصاف کے پی کے میں کوئی ایک بھی ایسا معیاری اسپتال قائم کر سکی ہے جس کو پنجاب کے لیے بطور مثال پیش کیا جا سکے۔ کہ دیکھو اگر تم میٹرو نہ بناتے تو یہ بنا سکتے تھے۔
اس لیے میٹرو مخالفین عوام کے سامنے اپنا مقدمہ شاید اس لیے بھی ہار گئے ہیں کہ وہ عوام کے سامنے اس سے بہتر عوامی فلاح کا کوئی منصوبہ نہیں پیش کر سکے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بھی لاہور میٹرو کی بھر پور مخالفت کی تھی اور آج کراچی سرکلر ریلوے جو میٹرو کی ہی ایک شکل ہے کہ لیے سر جوڑ کر بیٹھی ہے۔ اس لیے میٹرو کے مخالفین بھی میٹرو کے پیروکار ہو چکے ہیں اور میٹرو منصوبوں پر ایمان لا رہے ہیں ۔
جہاں تک جنوبی پنجاب اور اس کی سیاست کا تعلق ہے تو یہ درست ہے کہ جنوبی پنجاب کے عوام میں احساس محرومی موجود ہے۔ وہاںقیدی تخت لاہور کے، کا نعرہ بھی لگایا جاتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ملتان والے جب اپنا مقابلہ لاہور سے کرتے ہیں تو ان میں احساس محرومی بڑھ جاتا ہے۔ اسی لیے پیپلزپارٹی سرائیکی صوبہ کا نعرہ بھی لگاتی رہی ہے۔ کیونکہ پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ شائد سرائیکی صوبہ کا نعرہ انھیں جنوبی پنجاب میں سیاسی حمایت دلوا سکتا ہے لیکن گزشتہ انتخابات میں جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی کی شکست نے کم ازکم یہ ثا بت کر دیا کہ جنوبی پنجاب کے عوام کسی سیاسی نعرہ کو نہیں بلکہ کام کو ووٹ دینے پر یقین رکھتے ہیں اور انھوں نے پیپلز پارٹی کو بھی سرائیکی صوبہ کے نعرہ پر ووٹ نہیں دیے۔
اگلے انتخابات میں جنوبی پنجاب کا کردار بہت اہم ہو گا۔ پیپلزپارٹی کو بھی وسطی یا شمالی پنجاب سے کوئی امید نہیں لیکن وہ جنوبی پنجاب میں امیدیں لگا کر بیٹھی ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف بھی جنوبی پنجاب میں بڑے بڑے نام اپنے ساتھ شامل کر رہی ہے کیونکہ انھیں بھی وسطی پنجاب سے زیادہ جنوبی پنجاب سے ہی امیدیں ہیں۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) بھی جنوبی پنجاب کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ کیا ملتان کی میٹرو جنوبی پنجاب کے عوام کا دل جیت لے گی۔ یقینا اس کے لیے مزید کام کرنا ہو گا۔ میٹرو اس کا ایک جزو تو ہو سکتا ہے لیکن ساری گیم اس اکیلی میٹرو کے گرد بھی نہیں گھوم سکتی۔ تاہم ملتان میٹرو نے مسلم لیگ (ن) کے مخالفین کے لیے بھی خطرہ کی گھنٹیاں بجا دی ہیں کہ اگر ملتان کے عوام نے میٹرو پر ووٹ دے دیے تو ان کا بستر پھر گول ہے۔
جیسے کہ میں نے شروع میں لکھا ہے کہ جمہوریت میں سیاسی جماعتیں اپنے نظریہ اور عوامی ترجیحات کے ایجنڈا پر عوام سے ووٹ مانگتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ترقیاتی منصوبوں کے نام پر ووٹ مانگتی ہے۔ لیکن ان ترقیاتی منصوبوںکے مخالف کیا صرف ترقیاتی منصوبوں کی مخالفت پر ہی ووٹ مانگیں گے یا ان کے پاس کے پی کے اور سندھ میں کچھ ایسا ہو گا جو وہ ان ترقیاتی منصوبوں کے متبادل کے طور پر پیش کر سکیں۔ میٹرو منصوبوں کی مخالفت سے تھک جانے والوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ان کے پاس متبادل بھی کچھ نہیں۔ اسی لیے ویلڈن شہباز شریف کہنے کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔
Source : https://www.express.pk/story/719388/