12 جنوری 2017
سیاست کو بے رحم کھیل کہاجاتا ہے مگر ہمارے ہاں اس بے رحم کھیل سے سیاستدانوں کے وارے نیارے رہے ہیں۔ جمہوریت اور سیاست کے نام پر مخصوص خاندانوں نے تجوریاں بھری ہیں مگر ملکی قانون، آئین ان کا بال بیکا بھی نہیں کرسکا۔ سیاستدان احتساب کا نعرہ تو بلند کرتے رہے مگر عملی طور پر احتساب کی جھلک دیکھنے کو نہیں ملی۔ صرف اعلیٰ اقتدار کے ایوانوں میں چہرے مہرے تبدیل ہوتے رہے‘ باقی سسٹم ویسے کا ویسا رہا‘ خاص طور پر دوسرے تیسرے درجے کے سیاستدان ہر دور میں پارٹیاں بدل کر صرف اپنے مفادات کی سیاست کرتے رہے اور تجوریاں بھرتے رہے۔ سیاست کو امیر طبقہ تک محدود کر دیا گیا۔ کوئی کتنا بڑا ہی لیڈر ،وژنری ہو پیسے کے بغیر وہ سیاست نہیں کرسکتا اور نہ بڑی سیاسی پارٹیاں اس کو لفٹ کراتی ہیں۔ یہ پورے ملک کا حال ہے۔ پورے ملک میں سیاست چند مخصوص جاگیردار‘ سرمایہ دار طبقہ کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے۔ جنوبی پنجاب کی بات کریں تو یہاں سب جماعتوں کے ٹکٹ ہولڈرز جاگیردار سردار طبقہ سے ہیں جو موقع محل، چڑھتے سورج کو سلام کرنے کیلئے پارٹیاں بدلنے میں دیر نہیں کرتے۔ جنوبی پنجاب میں جاگیرداری‘ سرداری سسٹم زیادہ ہے‘ اس لئے یہاں عام آدمی انتخابات میں کامیابی کا تصور ہی نہیں کرسکتا۔ جنوبی پنجاب سے اب تک صرف جمشید دستی ہی مڈل کلاس طبقہ سے ہیں جو ملکی سیاست میں نمودار ہوئے اور وہ بھی بینظیربھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کو ملنے والے بے پناہ ہمدردی کے ووٹ کی بدولت کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور اس کے بعد ان کی محنت تھی جس کی بدولت وہ دوسری بار بھی الیکشن جیت گئے مگر اب لگتا ہے کہ جمشید دستی اپنے اصلی ٹریک سے ہٹ چکے ہیں۔ ان کے حلقہ کے کام بھی پنجاب اور وفاقی حکومت آسانی سے نہیں ہونے دیتی چونکہ وہ برملا پنجاب اور وفاقی حکومت کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ جمشید دستی حلقہ کے کام نہیں کر پا رہے جس کی وجہ سے ان کے عوام میں پہلے جیسی پذیرائی نہیں رہی۔ جنوبی پنجاب کی سیاست میں اس وقت ہلچل مچی ہوئی ہے۔ فیصل صالح حیات اورخالدکھرل کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کے بعد امید ہے پی پی کچھ اور بھی بڑے نام پارٹی میں شامل کرانے میں کامیاب ہو جائے گی مگر ابھی بھی پیپلزپارٹی کی جنوبی پنجاب سے کسی بڑی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ تحریک انصاف کو جس قدر جنوبی پنجاب میں کام کرنا چاہتے تھا اس طرح سے جنوبی پنجاب میں فوکس نہیں رہا اور پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے چند شہروں میں ملے جلے رسپانس کے ساتھ موجود ہے مگر دیہی علاقوں میں پی ٹی آئی کا زیادہ اثر نہیں ہے‘ بڑے نام بھی پی ٹی آئی کے ساتھ نہیںپی ٹی آئی کو دیہی علاقوں میں خود کو مضبوط کرنا ہوگا۔ شاہ محمود قریشی‘ جہانگیر ترین کو جنوبی پنجاب کی سیاست کا بھرپور اندازہ ہے‘ اس لئے ان کو اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سیٹ جیتنے والے امیدواروں کا ابھی سے چناﺅ اور ہوم ورک پر کام شروع کر دینا چاہیے۔ جماعت اسلامی بھی جنوبی پنجاب سے ایک آدھ سیٹ سے زیادہ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں چونکہ اس کا ووٹ بکھرا ہوا ہے۔ جہاں تک بات ہے حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کی تو اس کا سارا فوکس یہاں کے جاگیردار سردار طبقہ پر ہے جو سیاہ کریں یا سفید مسلم لیگ(ن) کی قیادت وہ مانتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے سیاستدان اور وزراءعوام کے ساتھ مخلص نہیں‘ وہ ہمیشہ صرف اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ روایتی سیاست کی بدولت مسلم لیگ(ن) کے امیدوار جیتنے والے ہیں مگر آمدہ الیکشن میں انہیں محنت کرنا ہوگی چونکہ عوام کا مزاج حکومت کے خلاف ہے۔ ایم پی اے‘ ایم این اے اور وزراءبھی عوام کے مسائل حل نہیں کر رہے اور نہ ان کو وقت دیتے ہیں۔ اس لئے آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ(ن) بھی جنوبی پنجاب سے زیادہ سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ضلع مظفرگڑھ کے اہم سیاستدان عبداللہ شاہ بخاری کی وفات کے بعد ضلع کی سیاست میں کافی تبدیلی آگئی ہے۔ عبداللہ شاہ بخاری کی مسلم لیگ(ن) کے ساتھ دیرینہ وابستگی تھی اور وہ ہمیشہ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ کھڑے رہے۔ عبداللہ شاہ بخاری کی وفات پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف بھی تعزیت کیلئے کانڈھ شریف پہنچے۔ صوبائی وزیر ہارون سلطان بخاری کی لیگی قیادت کے ساتھ گہری وابستگی ہے۔ ہارون بخاری اور ایم این اے باسط بخاری کو اپنے مستقبل کی سیاست کیلئے محنت کرنا ہوگی‘ والد کی وفات کے بعدابھی تک ضلعی سیاست میں وہ خاصے کامیاب نہیں رہے۔ گزشتہ دنوں خادم اعلیٰ نے مظفرگڑھ میں پانچ سو بستر پر مشتمل رجب طیب اردگان ہسپتال کے توسیعی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا ۔کئی ترقیاتی منصوبوں کے باجود ن لیگ کی عوام میں پذیرائی نہ ہونے کی وجہ یہاں کے سردار ،جاگیردار سیاستدان ہیں جو سال بھر لاہور اسلام آباد میں براجمان رہتے ہیں جب بھی اعلیٰ قیادت جنوبی پنجاب کا رخ کرتی ہے یہ لوگ پہلے ہی پہنچ کر اعلیٰ قیادت کے سامنے سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس کے بعد یہ لوگ الیکشن کے دنوں میں عوام کو نظر آتے ہیں۔مگرجنوبی پنجاب کی عوام بے بس ہے کہ ووٹ انکو ہی دینا پڑتا ہے چونکہ انکے پاس آپشن نہیں۔اسمبلی میں بھی ان کی کاکردگی زیادہ موثر نہیں ہے اور نہ بڑے منصوبے علاقہ کیلئے منطور کرائے جاتے ہیں۔ن لیگ کی قیادت کو چاہیے کہ جنوبی پنجاب کی عوام سے رابطہ بڑھایا جائے اور یہاں کی پڑھی لکھی متوسط طبقہ کی قیادت کو سامنے لایا جائے جن کا عوام دل سے احترام کرتے ہوں تب ہی جاکر ن لیگ جنوبی پنجاب کے عوام کا دل جیت سکتی ہے۔