ہمارے سیاسی جسم میں سب سے بڑا ناسور جاگیردارانہ نظام ہے، اس نظام کے خاتمے تک سیاسی جسم میں نظر آنے والی بیماریاں ختم نہیں ہو سکتیں۔ مشکل یہ ہے کہ ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے کہ ہمارے ملک میں جاگیردارانہ نظام موجود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جاگیردار طبقہ ’’حالات کی نزاکت‘‘ کو محسوس کرتے ہوئے معیشت کے دوسرے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ آج بھی ایک ایک جاگیردار، ایک ایک وڈیرے کے پاس سیکڑوں ایکڑ زمین موجود ہے۔ ایسے کئی وڈیرے جاگیردار ہیں جنہوں نے ابھی تک سیکڑوں ایکڑ زرعی زمین پر قبضہ جما رکھا ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ ایوب خان اور بھٹو نے زرعی اصلاحات کرائیں اور سیکڑوں ایکڑ زمین وڈیروں، جاگیرداروں سے واپس بھی لی لیکن ایوب خان کے دور میں جاگیرداروں نے مسلم لیگ کنونشن بنا کر ایوب خان کی خدمت میں پیش کی اور اس خدمت کے عوض اپنی بہت سی زمینیں واپس لیں۔ بھٹو مرحوم کی زرعی اصلاحات کو نوکر شاہی کی مدد سے ناکام بنا دیا گیا۔ بھٹو کی زرعی اصلاحات اس بد نما حقیقت کا ثبوت بھی تھی کہ ایوب خان کی زرعی اصلاحات کے باوجود جاگیرداری موجود تھی اور آج بھی جاگیرداری موجود ہے۔ اس کا منہ بولتا ثبوت زرعی اصلاحات کے مطالبے ہیں۔ہمارے دوست (عابد حسن) منٹو اور ان کے ساتھیوں نے زمین کی حد ملکیت کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی تھی جو برسوں سے زیر سماعت ہے، افتخار محمد چوہدری نے یہ کیس ورثے میں اس طرح چھوڑا ہے جیسے وڈیرے اپنی زمینیں ورثے میں چھوڑتے ہیں۔ اس کیس سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں ابھی تک جاگیردار موجود ہیں۔ نئے چیف جسٹس نے اس کیس کی سماعت کے لیے ایک نیا لارجر بنچ تشکیل دیا ہے اور سماعت کی تاریخ بھی مقرر کر دی ہے۔ اﷲ کرے یہ بنچ منٹو صاحب کی پٹیشن کا اپنی حیات ہی میں کوئی منصفانہ فیصلہ کر دے اور اسے ورثے میں آنے والے چیف جسٹس کے حوالے نہ کرے۔
عابد حسن منٹو کی پارٹی پاکستان ورکرز پارٹی کے زیر اہتمام حیدرآباد میں ایک بڑی کسان ریلی کا انعقاد کیا گیا جس کے حوالے سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ابھی ہمارے ملک میں جاگیرداری موجود ہے اور سیاسی جماعتیں اس نظام جبر کے خاتمے کے لیے قانون اور انصاف کے راستے کے ساتھ ساتھ عملی جد و جہد کے راستے اختیار کرنا بھی ضروری سمجھتی ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں مختلف سیاسی جماعتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں زرعی اصلاحات کے لیے اپنی اپنی طاقت اپنے اپنے ایجنڈے کے مطابق جد وجہد کر رہی ہیں لیکن چونکہ ان میں مرکزیت نہیں ہے لہٰذا یہ جدوجہد سیاسی نقارخانے میں طوطی کی آواز بنی ہوئی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) مل جل کر اپنی افرادی طاقت اور وسائل کا استعمال ایک منصوبہ بند طریقے سے ایک مرکزی پلیٹ فارم سے کیوں نہیں کر رہی ہیں؟ اس کا جواب اگرچہ کہ بڑا تلخ ہے لیکن ہم اس تلخ جواب کو در گزر کرتے ہوئے اس حوالے سے دوسرا سوال یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ’’کیا یہ جماعتیں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے میں مخلص ہیں۔؟‘‘
زرعی اصلاحات کا مطلب جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہے اور یہ بات ہر سیاسی جماعت اور این جی اوز اچھی طرح جانتی ہیں کہ صدیوں پر پھیلا یہ نظام نہ کسی سخت بیان سے ختم ہو سکتا ہے نہ میڈیا میں کیے جانے والے مطالبوں سے نہ وقتاً فوقتاً کیے جانے والے مظاہروں اور ریلیوں سے بلکہ اس کے خاتمے کے لیے ایک منظم منصوبہ بند مسلسل اور ایک متحدہ پلیٹ فارم کے ذریعے سخت جدوجہد لازمی اور ناگزیر ہے۔ برسوں کے گیپ سے کی جانے والی جد وجہد کا مطلب سوائے ذہنی تسکین کے کچھ نہیں ہو سکتا جو پارٹ ٹائم جاب کی طرح کی جاتی ہے۔
یہ درست ہے کہ بعض حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اب وہ کلاسیکی جاگیردارانہ نظام نہیں رہا جو تاریخ میں صدیوں سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آج ہماری سیاست، ہماری معاشرت میں جاگیردارانہ نظام کے جو مظاہر نظر آتے ہیں کیا انھیں ہم اس نظام سے الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔؟ مثلاً سیاست اور اقتدار میں پائی جانے والی موروثیت۔ کیا یہ رجحان، یہ روایات، یہ ذہنیت جاگیردارانہ نظام کی دین اور پہچان نہیں ہے۔ صرف وہ سیاسی جماعتیں ہی وراثتی سیاست کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہیں جن پر جاگیرداروں کی بالادستی قائم ہے بلکہ درمیانے طبقات پر مشتمل سیاسی جماعتیں خواہ ان کا تعلق دائیں سے ہو یا بائیں سے یا وہ مذہبی جماعتیں ہوں۔ کیا موروثی قیادت کے نقش قدم پر نہیں چل رہی ہیں؟ یہ رجحان صرف سیاست ہی میں نہیں بلکہ ثقافت سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں موجود ہے۔ کیا اس ذہنیت، اس روایت کا تعلق جاگیردارانہ کلچر سے نہیں ؟ یہ صورت حال پاکستان تک محدود نہیں بلکہ تقریباً تمام پسماندہ ملکوں میں موجود ہے۔ بھارت جیسے ملک میں بھی جہاں جاگیردارانہ نظام آزادی کے فوری بعد قانوناً ختم کر دیا گیا موروثیت اور شخصیت پرستی کے مظاہرے عام ہیں۔
پاکستان اس حوالے سے منفرد اس لیے ہے کہ یہاں تقریباً تمام اہم سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں سیاسی گدی نشینی کا سلسلہ جاری ہے۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) یا (ق) اے این پی ہو یا جے یو آئی (ف) یا (س) ہر جگہ ولی عہدوں کی ایک لمبی قطار آپ کو نظر آئے گی۔ اس کلچر کو مضبوط بنانے کے لیے ہمارا حکمران طبقہ ولی عہدوں کو کروڑوں، اربوں کی عوامی اور سرکاری رقوم کے پروجیکٹ دے رہا ہے یا ان کے ہاتھوں اس قسم کے پروجیکٹ کا افتتاح کروا کر انھیں عوام میں مقبول بنانے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری طرف ایسے بڑے بڑے پروجیکٹ اپنے خاندان کے ناموں پر رکھ کر خواہ یہ افراد زندہ ہوں یا مر چکے ہوں جاگیردارانہ روایات کی تقلید نہیں کر رہا ہے۔؟ اس حوالے سے ذرا قانون ساز اداروں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں، سینیٹ اور مرکزی اور صوبائی کابینائوں پر نظردالیں تو ان تمام اداروں میں آپ کو وڈیروں، جاگیرداروں، ان کی اولاد حتیٰ کہ دامادوں تک کی فصلیں لہلہاتی نظر آئیں گی۔ جہاں درمیانہ طبقہ آپ کو آٹے میں نمک کی طرح نظر آئے گا۔
پچھلے دنوں ورکرز پارٹی کی طرف سے حیدرآباد میں کسان ریلی میں شرکت کے حوالے سے میں نے ایک ترقی پسند پارٹی کے کامریڈ سے بات کی جو حیدرآباد ہی میں رہتے ہیں تو موصوف نے کہا ’’بیدری صاحب! کیا یہ بے وقت کی راگنی نہیں ہے‘‘ ان کے خیال میں اور بھی دکھ ہیں زمانے میں جاگیردارانہ نظام کے علاوہ۔ مثلاً مہنگائی، بے روزگاری، گیس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی وغیرہ۔ موصوف کا یہ خیال بالکل درست ہے لیکن اس حوالے سے ہمارا جواب یہی ہے کہ یہ سب بیماری کی علامتیں ہیں اصل بیماری ہمارا وہ سیاسی قبضہ ہی ہے جسے ہم جاگیردارانہ نظام کہتے ہیں اور جب تک ہم اس ناسور کو ختم نہیں کریں گے اس کی علامتیں بھوک، بیماری، مہنگائی، بے روزگاری، گیس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتیں۔ یہ بیماری ہماری سیاسی معاشی اور معاشرتی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی دیوار بن کر کھڑی ہوئی ہے۔ جسے گرانا ضروری ہی نہیں لازمی بھی ہے۔ ہاں اس حوالے سے ہماری پاس مکمل اعداد و شمار نہیں کہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں کس وڈیرے، کس جاگیردار کے پاس کتنی بڑی تعداد میں زمینیں موجود ہیں۔؟ اس مسئلے پر ان سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر این جی اوز کو تحقیقی کام کرنا اور درست اعداد و شمار اکٹھے کرنا چاہییں جو زرعی اصلاحات کے مطالبے سے متفق ہیں اور اس کے لیے فرصت کے وقت کبھی کبھی مظاہرے، سیمینار، ورکشاپ اور کانفرنسیں وغیرہ کرتی رہتی ہیں۔!
سیاسی جد و جہد خاص طور پر نظام کی تبدیلی کے لیے نظام کی تبدیلی کا راگ الاپنے والوں میں نظریاتی اتفاق رائے اور نظریاتی ہم آہنگی ضروری ہے، جس کے لیے تمام جماعتوں پر مشتمل ایک دانشورانہ فورم آپ کی ضرورت ہے جو اس خصوصی اور قومی اہمیت کے حامل مسئلے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر سیاسی جماعتوں کو ایک گائیڈ لائن، ایک منصوبہ بند حکمت عملی فراہم کرے۔ اس بنیادی کام کے بغیر نہ یہ منتشر جدوجہد میں مرکزیت آ سکتی ہے نہ اس کا کوئی مثبت فائدہ ہو سکتا ہے۔
Source : https://www.express.pk/story/221136/