چند دن قبل ان باکس میں کسی نے ویڈیو بھیجی۔ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ فرانسیسی چینل پر دنیا کے تیسرے درجے کے ملک کی ایک طلبہ تنظیم کے حوالے سے پیکیج چل رہا ہے۔ اس کے فورا بعد ایک عدد تجزیہ نگار صاحب انسانی حقوق کے علمبردار کی حیثیت سے دنیا کو تجزیہ نما نفرت سے نواز رہے تھے۔ پیکج میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان کے تعلیمی ادارے ایک ”دہشت گرد” تنظیم کے زیر تسلط ہیں۔ چونکہ یہ پیکج ایک مقامی صحافی کے ہاتھوں بنا تھا، اس لیے پاکستانی صحافت کے تمام اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دلائل مخالف ہونے کے باوجود یہ ثابت کیا گیا کہ اسلامی جمعیت طلبہ شاید جلد ہی تمام جامعات کو بموں سے اڑا دے گی۔
آپ وہ ویڈیو دیکھ کر خود ہی اندازہ کر لیں کہ کتنی باکمال اور اعلیٰ پائے کی رپورٹنگ کی گئی ہے۔ اس میں جمعیت کے ناظم صاحب کہہ رہے ہیں کہ اسلامی جمعیت طلبہ نئے اسٹوڈنٹ کو ویلکم کرتی ہے اور نظریہ پاکستان کا پرچار بھی، تو رپورٹر صاحب کے خیال میں طلبہ کو خوش آمدید کہنا یا نظریہ پاکستان کا پرچار کرنا گویا از خود دہشتگردی کا اعتراف کرنے کے مترادف ہے۔
دو دن بعد خبر آئی کہ چند قوم پرست عناصر نے اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک فیسٹیول کو تہس نہس کرتے ہوئے اسٹیج اور ایک شعبے کی لائبریری کو آگ کی نظر کر دیا۔ خبر سنتے ہی وہاں کے لوگوں سے تصدیق یا تردید کے لیے رابطہ کیا اور ساتھ ہی مسلسل الیکٹرانک اور سوشل میڈیا مانیٹر کرنا شروع کر دیا۔ الیکٹرانک میڈیا نے قدرے بہتر رپورٹنگ کی، لیکن سوشل میڈیا کی وہ دیواریں جو ہر وقت تاک لگائے بیٹھی رہتی ہیں کہ کب پاکستان کی اکلوتی جامعہ کے اندر کوئی مسئلہ ہو، اور وہ قوم کو اپنی دانشوری کی گولی دے کر اس کے مسائل کم کر سکیں، وہ ماضی کے برعکس خاموشی کی چادر اوڑھے کومے کی کیفیت سے دوچار نظر آئیں۔ یہ خاموشی تب بھی طاری ہوتی ہے جب وفاقی دارالحکومت میں واقع اور قائداعظم کے نام سے منسوب پاکستان کی بہترین یونیورسٹی میں ہفتوں قومیت کی بنیاد پر سر پھاڑے جا رہے ہوتے ہیں اور جامعہ کئی روز بند رہتی ہے اور داعیان علم و امن تبلیغ کے لیے شرق سے غرب کی جانب کوچ کر جاتے ہیں۔
آپ تجربے کے طور پر ایک کام کریں، جمعیت مخالف رپورٹنگ، مخالف صحافی یا پھر کسی فیس بک پیج کو اٹھا کر دیکھ لیں، تھوڑی محنت سے معلوم ہو جائے گا کہ کس فکر کے نمائندہ لوگ ہیں۔ راقم الحروف کی تحقیق یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ اس کے پیچھے لازمی قادیانی لابی کے لوگ یا پھر ماضی کے سرخ انقلاب کے سپاہی ہوتے ہیں۔ تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ ان دو گروہوں کا جمعیت کی مخالفت کرنا فطری امر ہے۔
لہٰذا ڈرائنگ روم میں بیٹھے تجزیہ نگاروں سے یہ امید لگانا کہ وہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کریں گے، ایسا ہی ہے جیسے کوئی ن لیگ کو جمہوری جماعت اور زرداری صاحب کو صادق و امین قرار دے دے۔ ان سے بہتری کی امید رکھنے والے سادے لوگوں کی خدمت میں چند گزارشات پیش ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ کون کیوں مخالفت کر رہا ہے؟
١۔ قادیانی لابی جمعیت اور جماعت کی مخالفت نہ کرے گی تو اور کیا کرے گی؟ تاریخ سے شغف رکھنے والے احباب بخوبی واقف ہیں کہ ختم نبوت تحریک کا آغاز اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان پر حملہ کے ردعمل میں ہوا۔ اس کے بعد جو قادیانیوں کے ساتھ ہوا، تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا ہے۔
٢۔ سرخ انقلاب کے پرچارکوں کا معاملہ بھی قادیانی لابی کی طرح ہے۔ ظاہر ہے سوویت یونین کی تحلیل اور انقلاب کے فضاؤں میں گم ہوجانے کے زخم ابھی بھرے نہیں ہیں۔
٣۔ رہا معاملہ قوم پرستوں کا؟ تو یہ معاملہ اتنا آسان نہیں، جتنا نظر آتا ہے۔ قوم پرستوں کا ایک مسلہ تو یہ ہے کہ وہ قومیت کی بنیاد پر اپنے حلقہ اثر کی ہمدردیاں لینا چاہتے ہیں، لہذا ایسے پھڈے بازی کرنا ان کے لیے سود مند ہے۔
دوسرا پہلو ان کے بیک وقت حکومتی اور سرخوں کے استعمال کا ہے۔ چونکہ بعض حکومتی عناصر کی شدید خواہش ہے کہ جامعہ پنجاب ان کی ایک لونڈی کی طرح رہے، اور انتظامیہ ان کے کارندے کے طور پر کام کرے، لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ جمعیت ہے۔ اس کی زندہ مثال مجاہد کامران کا کئی سالوں تک وی سی رہنا اور پھر کوٹہ سسٹم رائج کر کے بلوچستان میں بڑی تعداد میں ایسے طلبہ کو لانا، جن کا تعلیم سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ خیر پنجاب یونیورسٹی کے ٹھیکہ اس کے علاوہ ہیں۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ لمحہ موجود تک قوم پرست طلبہ جامعہ پنجاب میں اسی طرح استعمال ہو رہے ہیں، جیسے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں انھیں استعمال کیا جاتا ہے۔
حکومتی اداروں کے ساتھ اسلامی جمعیت طلبہ کی یہ بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس معاملے کو اس جانب جانے سے روکے، جس طرف چند شرپسند عناصر اسے لے جانا چاہتے ہیں۔ چند روز قبل یہ عناصر نقیب قتل کیس کو پنجاب کے کھاتے میں ڈال کر اپنے پوشیدہ عزائم حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں حکمت ہی مؤمن کی بہترین رہنما ہو سکتی ہے۔