ہفتہ 30 جمادی الاول 1436هـ – 21 مارچ 2015م
ایاز امیر
تقسیم کے وقت انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
(1) شہر کے پوش علاقوں ، جیسا کہ کلفٹن، باتھ آئی لینڈ، PECHS اور بعد میں ڈیفنس میں آباد ہونے والی اشرافیہ اور
(2) قدرے کم صاحب ِ حیثیت افراد جوناظم آباد، لیاقت آباد اور بعد میں کورنگی میں آباد ہوئے۔ طبقاتی فرق کے باوجودانڈیا سے ہجرت کرکے آنے والا یہ طبقہ مجموعی تعلیم یافتہ، مہذب، باصلاحیت اور کئی ایک حوالوںسے پنجابی کسان، سندھی ہاری، پٹھان مزدور اور بلوچ شتر بان سے زیادہ نفاست پسند تھا۔ اُس وقت ٹی وی نہیں تھا، صرف اخبارات تھے اور وہ بھی صرف بڑے شہروں، لاہور اور کراچی، تک محدود تھے۔ لاہور سے شائع ہونے والے اخبارات میں پنجاب کے رجحانات غالب تھے۔ کراچی سے شائع ہونے والے اخبارات، جن کی اشاعت دیگر شہروںسے شائع ہونے والے اخبارات سے کہیں زیادہ تھی، میں اردو بولنے والوں کے رجحانات کی عکاسی ہوتی تھی۔
اُس وقت حکمران اشرافیہ،جو پنجابی بولنے والے جاگیردار طبقے پر مشتمل تھی، کو صرف اپنے مفاداور جاگیر کا تحفظ عزیز تھا۔اپنی روایتی سوچ کی وجہ سے یہ سرد جنگ کے زمانے میں مغربی ممالک کی طرف جھکائو رکھتی تھی۔ اگر بھارت کی طرف سے سیکورٹی خدشات لاحق نہ ہوتے تو بھی پنجابی جاگیردار طبقہ تاریخی اور سماجی طور پر ماسکو کی بجائے لندن اور واشنگٹن کے ساتھ ہم آہنگی رکھتا کیونکہ اس کی سوچ کا زاویہ ماسکو کے انقلابی پیغام کو قبول کرنے کے لیے نہیں بنا تھا۔ تاہم جب نئی ریاست نے ترقی کے مراحل طے کیے تو اردو بولنے والے طبقے نے نظریات اور عقائد پر اپنا اثر ڈالنا شروع کردیا۔ دہلی، لکھنو، بھوپال اور حیدر آباد دکن کی تہذیب کا امین یہ طبقہ زیادہ فصیح اور ذہین تھا، ان کے پاس ایک اخلاقی اسٹینڈنگ پوائنٹ بھی تھا کہ وہ تحریک ِ پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے افراد کی اولاد ہیں۔
بے شک علامہ اقبالؒکے خطبہ الہ آباد میں پاکستان کے تصور کی جھلک ملتی ہے لیکن درحقیقت ایک الگ ریاست حاصل کرنے کی تحریک شمال، جنوب اور وسطی بھارت میں موجود اردو بولنے والے طبقات نے چلائی۔
تاہم تقسیم ِ ہند میں وحشیانہ خونریزی پنجاب میں دیکھنے میں آئی جہاں ایک طرف مسلمانوں نے ہندئووں اور سکھوں کا خون بہایا تو دوسری طرف ہندئووں اورسکھوں نے مسلمانوں کا قتل ِعام کیا۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آنے والے افراد سامان کے گٹھے اُٹھا کر آتے دکھائی دئیے جبکہ دہلی ،لکھنو اور دکن سے آنے والے تصورات اورنظریات کی دولت سے مالا مال تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ گروہ جہاں تصورات لائے وہاں ان کے کچھ تعصبات بھی تھے۔ ان کے تصورات اور تعصبات کے امتزاج کا اس نئی ریاست کے فکری خدوخال پر اثر انداز ہونافطری بات تھی۔ اس اشرافیہ کی وجہ سے ہم بھارت سے خوف کے خبط میں مبتلا ہوگئے اوراس طرح ریاست کی سیکورٹی اہم ترین مسئلہ بن کر سامنے آگئی۔ ہمیں اپنی سلامتی کے خلاف قدم قدم پر سازشوں کے تانے بانے بنے جاتے دکھائی دینے لگے۔ اس دوران مشرقی پاکستان، جس کے ایک طرف بھارت اور دوسری طرف سمندر تھا، کو زیادہ خطرے کا سامنا ہوسکتا تھا، لیکن یہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ تھی جو بھارت سے زیادہ خطرہ محسوس کرتی تھی۔ جہاں تک بنگال کے ذہین افراد کا تعلق تھا تو وہ مغربی پاکستان کے معاشی اور سیاسی تسلط کوزیادہ محسوس کرتے تھے۔ اس طرح پاکستان کے دونوں حصوں کے اپنے اپنے مسائل تھے۔
اردو بولنے والے اس طبقے کا ایک تحفہ ایک سوچ تھی ، جسے عمومی زبان میں نظریۂ پاکستان کہا جاتا ہے۔ دوسرا تحفہ کچھ سالوں بعد سامنے آیا۔ دنیا کے ہمارے حصے میں اس کا نام ایم کیو ایم ہے۔ یہ ایک قابل ِ بحث معاملہ ہوسکتا ہے کہ کیا نظریہ زیادہ سخت جان ثابت ہوا یا ایم کیو ایم، لیکن فی الحال ان دونوں سے فرار ممکن نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دنیا کی دیگر اقوام دولت کمانے اور اپنے عوام کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے کوشاں ہوں، لیکن پاکستان میں گزشتہ 67 سالوں سے اس کی تخلیق کے معانی طے نہیں کیے جاسکے۔ اسی طرح ایم کیو ایم کی اصل جہت کا تعین بھی ایک معمہ رہا ۔ لگاتار کئی ایک حکومتوں،جن میں سویلین بھی تھیں اور فوجی بھی، نے اسے دبانے یا بے اثر کرنے اور اس کا ڈنگ نکالنے کی کوشش کی، لیکن بے سود۔ تاہم تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسا ہونے جارہا ہے۔
میں ایک چیز فراموش کررہا ہوں۔ اس گروہ کی طرف سے دو مزید تحائف بھی ملے۔
(1) ایک اردو ٹی وی ڈرامہ تھا جو بہت مقبول رہا۔ اس کے موضوعات ناکام شادی یا ساس بہو کے مسائل اور کچھ ہلکا پھلکا عشق بھی۔
(2) دوسرا تحفہ جماعت ِ اسلامی تھی۔ مولانا ابواعلیٰ مودودی بھی انڈیا سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ اگر وہ پاکستان تشریف نہ لاتے اور بھارت میں ہی تبلیغ کرتے رہتے تو آج شاید پاکستان کے حالات بہت مختلف ہوتے۔ تاہم بھارت کی قسمت اچھی تھی اور مولانا پاکستان آگئے۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد پاکستان میں پنجابیوں کو اکثریت حاصل ہوگئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجابی بہت سی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں لیکن زیادہ باریک بینی اور سوچ بچار ان کی وجہ شہرت ہرگز نہیں۔ تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل اُنہیں جگانے یا جھنجھوڑنے میں ناکام رہے۔یہ بات دیکھنے میں آئی تھی کہ جب پاکستان حاصل کرنے کا مطالبہ اُس مقام پر پہنچ گیا جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی تو یہ دراصل پنجاب کی تقسیم ہونے جارہی تھی، تاہم پنجاب اس کے مضمرات کو بھانپنے میں ناکام رہا۔ اس تقسیم کا عمل شروع ہوا تو یہ سرزمین خون سے سرخ ہوگئی۔ بہرحال اس بات کا کریڈٹ پنجاب کو دینا پڑے گا کہ اس نے نئی صورت حال کے مطابق خود کو بہت جلد ڈھال لیا۔ اسے بہت حدتک ایک کامیابی کہا جاسکتا ہے۔
تاہم جو چیز اپنا مطلب واضح کرنے میں ناکام رہی ، وہ نظریہ تھا۔ نظریے کو تراشنے میں پنجاب کا عملی کردار نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن آزادی کے بعد پنجاب اشرافیہ نے اس نظریے کوگود لے لیا۔ یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ ایساعوامی سطح پر نہیں ہوا تھا۔ عام پنجابی کو نظریے سے کوئی سروکار نہ تھاتاوقتیکہ اس نظریے کواسلام کا لبادہ نہ پہنا دیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن، دنیا بہت آگے چلی گئی ہے لیکن ہم آج تک اسی موڑ پر کھڑے ہیں ۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ بہت سے ذہین اور باصلاحیت اردو بولنے والے افراد خلیجی ممالک، کینیڈا اور امریکہ چلے گئے لیکن ان کا نظریاتی الجھائو پاکستان اسٹیبلشمنٹ نے مستعار لے کر قومی سلامتی کے تصور کو تقویت دینا شروع کردی۔
اس دوران ایم کیو ایم ایک ایسا معاملہ بن کر پوری توانائی کے ساتھ سامنے آئی جس کو نہ تو نظر انداز کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی اس سے چھٹکارا ممکن تھا۔اس کی سکت بہت مواقع پر آزمائی گئی اور ہر مرتبہ یہ استقامت سے بھرپوردکھائی دی۔ تاہم اس مرتبہ اس سے نمٹنے کے لیے ایک مختلف اپروچ سامنے آئی ہے۔ ایجنسیوں نے خودکو پس ِ منظر میں رکھا ہے اور ’’قطرہ قطرہ بہم دریا شد‘‘ کی طرح اس پر نفسیاتی وار کرنے کی پالیسی اپنالی۔اس نے ایم کیو ایم کو پچھلے قدموں پر جانے پر مجبور کردیا۔