2011
تحریر: نجیم شاہ
اٹھارہویں آئینی ترمیم کی تیاری کے دوران نئے صوبوں کے قیام کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ اس آئینی ترمیم کی تیاری سے قبل ہی صوبہ ہزارہ اور سرائیکی صوبہ کی تحریکیں جاری تھیں۔ ہزارہ صوبہ کی تحریک کوئی پچیس سال پہلے شروع ہوئی جبکہ سرائیکی صوبے کی تحریک بھی کافی پرانی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظوری کے بعد صوبہ سرحد کا نام تبدیل ہو کر خیبر پختونخواہ رکھ دیا گیا ہے۔ یہ آئینی ترمیم دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد اب پاکستان کے آئین کا حصہ بن چکی ہے۔ ماضی کے صوبہ سرحد کے 42فیصد علاقہ کو نظرانداز کرتے ہوئے جیسے ہی صوبے کا نام خیبرپختونخواہ رکھا گیا اس کے ساتھ ہی صوبہ ہزارہ کا مطالبہ کھل کر اور طاقت کے ساتھ سامنے آیا۔یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ صوبے کے نام کی تبدیلی کے ساتھ ہی تہہ میں بیٹھی سوچ ایک عوامی اُبھار کے ساتھ سامنے آ گئی۔
لڑاﺅ اور حکومت کرو کی پالیسی ہمارے سیاست دانوں کا مضبوط ہتھیار ہے۔ آج اسی طرح کی صورتحال صوبہ ہزارہ کی تحریک کو بھی درپیش ہے۔ یہ تحریک جو 1987ءمیں شروع ہوئی اپریل 2010ءمیں صوبے کے نام کی تبدیلی کے ساتھ ہی اس میں شدت آ گئی تھی آج صورتحال یہ ہے کہ تحریک صوبہ ہزارہ ہر طرف سے سازشوں کی لپیٹ میں ہے۔ہزارہ تحریک کی منفرد بات یہ تھی کہ مسلم لیگ ن اور اے این پی کے علاوہ ہزارہ سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی جماعتیں یک زبان ہو کر پوری طاقت سے ہزارہ صوبے کا مطالبہ کر رہی تھیں جبکہ آج معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ایک طرف ہزارہ صوبے کے قیام کیلئے متحرک جماعتوں کو آپس میں لڑا کراُن میں اختلافات پیدا کئے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اباسین ڈویژن کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ ہزارہ ڈویژن میں ایک سازش کے تحت پختونوں کے خلاف تعصب پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جاری ہے تاکہ نہ صرف اباسین ڈویژن کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے بلکہ ہزارہ کے پشتون علاقوں کو ہزارے وال عوام کے خلاف استعمال کرکے ہزارہ سے کاٹ دیا جائے۔
اٹھارہویں ترمیم کی منظوری سے جیسے ہی صوبے کا نام تبدیل ہو کر خیبرپختونخواہ رکھا گیا اس کے ساتھ ہی صوبہ ہزارہ کی تحریک بھی زور پکڑ گئی۔ جس طرح عوامی نیشنل پارٹی پختونخواہ کی صورت میں اپنی الگ شناخت چاہتی تھی اسی طرح ہزارہ کے عوام کا بھی دیرینہ مطالبہ صوبہ ہزارہ ہے۔ کیونکہ ہزارہ ایک معروف ڈویژن ہے اور پشتو کے بعد ہندکو صوبے کی دوسری بڑی زبان ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری سے قبل ہزارہ کی عوام یہ توقع رکھتی تھی کہ نواز شریف صوبے کے نام کی تبدیلی کی کھل کر مخالفت کرینگے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ہزارہ جسے مسلم لیگ نواز کا گڑھ سمجھا جاتا تھا وہاں اس جماعت کی ساکھ بُری طرح سے متاثر ہوئی۔ میاں محمد نواز شریف اگر صوبہ ہزارہ کی حمایت کرتے تو پھر اُنہیں سرائیکی صوبے کی بھی حمایت کرنا پڑتی جو سیاسی لحاظ سے مسلم لیگ نواز کیلئے ایک گھاٹے کا سودا تھا۔
ہزارہ میں ایک طرف ق لیگ پر یہ الزام ہے کہ وہ نواز لیگ سے بدلہ لینے کیلئے نہ صرف اُس کی ساکھ خراب کر رہی ہے بلکہ ہزارہ تحریک کو پرتشدد بنانے میں بھی مصروف ہے۔ دوسری طرف نواز لیگ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرکے ہزارہ میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانا چاہتی ہے۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ تحریک صوبہ ہزارہ کو ناکام بنانے کے لئے پوری قوت کے ساتھ متحرک ہے۔ ہزارہ کے پختون علاقوں کی طرف سے اباسین ڈویژن کا مطالبہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ ہزارہ صوبے کے قیام کا راستہ روکا جا سکے۔ اس وقت یوں لگتا ہے کہ تحریک صوبہ ہزارہ کے نام پر ایک کھچڑی سی پک رہی ہے۔ ایک طرف تحریک سے وابستہ قائدین مختلف گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں جبکہ دوسری طرف مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے مقاصد کے لئے مقامی صحافیوں کو بھی استعمال کر رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے اپنے اپنے مفادات کی اس جنگ میں براہ راست نقصان صوبہ ہزارہ کیلئے شروع کی گئی تحریک کو پہنچ رہا ہے۔
ہزارہ کی سیاسی پارٹیوں اور تحریک سے وابستہ جماعتوں کا صوبے کے حق میں مضبوط موقف کی بناءپر نواز شریف کو بھی ایبٹ آباد میں جلسہ کرکے ہزارہ کے عوام کی حمایت کا اعلان کرنا پڑا۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ نواز شریف نے ہزارہ کے عوام کی صوبہ کے حق میں تحریک کی کھل کر حمایت نہیں کی بلکہ اس جلسہ کا مقصد ہزارہ میں ن لیگ کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانا تھا۔ نواز شریف اگر ہزارہ تحریک کی کھل کر حمایت کرتے ہیں تو پھر یہ سوال بھی اہمیت اختیار کر جائے گا کہ کیا اُن کی پارٹی سرائیکی صوبے کی بھی حمایت کرے گی یا نہیں؟ کیونکہ تحریک صوبہ ہزارہ کی طرح سرائیکی صوبے کی تحریک بھی کافی عرصے سے موجود ہے۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی جو خود کو پختونوں کی نمائندہ جماعت کہلوانے کی دعویدار ہے ایک طرف صوبہ پنجاب میں سرائیکی صوبے اور بلوچستان میں پختونوں کے حقوق اور اُن کی شناخت کا مطالبہ کرتی ہے جبکہ دوسری طرف اگر اپنے صوبے میں بسنے والے غیر پختونوں کی بات آئے تو وہاں اس جماعت کا مﺅقف تبدیل ہو جاتا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے کسی بھی طرح کی لچک دکھانے سے انکار کرتے ہوئے اپنے مﺅقف پر ڈٹے رہنے کا اعلان کیا ہے۔
ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو کر ہزارہ صوبے کے لئے اُٹھنے والا مطالبہ روز بروز اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ صوبہ ہزارہ کی تحریک مختلف گروپوں میں بٹ چکی ہے ۔ اس طرح کی صورتحال میںجہاں تحریک صوبہ ہزارہ کو نقصان پہنچ رہا ہے وہیں اس کا براہ راست فائدہ عوامی نیشنل پارٹی اُٹھا رہی ہے۔ اباسین ڈویژن کا مطالبہ اپنی جگہ درست سہی مگر موجودہ صورتحال میں ایسے مطالبے سے یوں لگتا ہے کہ ہر طرف سے صوبہ ہزارہ تحریک کو ناکام کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ہزارہ صوبے کی حمایت یافتہ جماعتوں اور سیاست دانوں کو سوچنا ہوگا کہ اُن کے اختلافات سے کونسے عناصر فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ الگ صوبے کا مطالبہ ہزارہ کے عوام کا آئینی اور جمہوری حق ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک سے وابستہ جماعتوں اور سیاست دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا پڑے گا۔ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کی بجائے اگر صوبہ ہزارہ کی حمایت کرنے والے سیاست دان اور نظریاتی تنظیموں میں اختلافات کا سلسلہ یونہی جاری رہا اور نئے نئے گروپ وجود میں آنے لگے تو پھر اس تحریک کا انجام انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے
Source, https://www.urdupower.com/C_Column/Najeem%20shah/NajeemShah-40.htm