مولوی مسجد کو اپنی دکان سمجھتے ہیں،اسلام میں مولوی ازم نہیں ہے ہمارے ہاں تومولوی چندہ جمع کرکے مسجد بھی بنا لیتے ہیں
پاکستان میں مذہب کی طرف گہرا رجحان تو اور بھی کرکٹروں کے ہاں دیکھنے میں آیا، لیکن مذہب کو جس طریق سے شیخ فضل الرحمان نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔
مذہب کی طرف راغب ہونے کے بعد انھوں نے اساتذہ سے پانچ برس باقاعدہ قرآن، حدیث اور فقہ کا علم حاصل کیا۔ عربی سیکھی۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کیا۔ ایم اے عربی میں گولڈ میڈل کے حق دارٹہرے۔ شریعہ کورس کے لیے مصرکی معروف درس گاہ جامعۃ الازہر گئے۔ 35 برس مبارک مسجد ریلوے روڈ لاہور میں خطیب رہے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ریڈیو پر 17 برس اسلام سے متعلق موضوعات پردرس دیا۔ مضامین مذہبی رسالوں میں برابرشایع ہوتے ہیں۔ گذشتہ کئی برس سے قرآن حکیم کی تفسیرکررہے ہیں، اور جب تک سانس میں سانس ہے، اسے جاری رکھنے کا عزم باندھے بیٹھے ہیں۔ تبلیغ کے لیے بیرون ممالک بھی جانا رہا۔ مذہب کو کاروبار کا ذریعہ چوں کہ نہیں بنایا، اس واسطے گزربسرکے لیے اپنا کاروبارکیا، تاکہ کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا پڑے۔
1968 سے قبل وہ اپنی وضع قطع کے اعتبارسے ماڈرن آدمی تھے۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ موصوف جوانی میں ایسا زبردست ڈانس کرتے کہ دیکھنے والے اُن کی مشاقی پردنگ رہ جاتے، لیکن ہم نے جب اُنھیں اس بابت کریدا تو وہ کھلے نہیں کہ اب اِس قصۂ ماضی کا ذکر اُنھیں گوارا نہیں۔ کرکٹر کی حیثیت سے اپنے اصل نام شیخ فضل الرحمان کے بجائے ایس ایف رحمان کے نام سے معروف رہے۔ عالم کی حیثیت سے فضل الرحمان بن محمد الازہری کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اُن کی قلب ماہیت کے بارے میں آگے چل کر بات کریں گے، اب کچھ بیان اُن کی ذاتی زندگی سے جڑے کچھ واقعات اورکرکٹ کا۔
11جون 1935 کو امرتسر کے کاروباری خاندان میں میاں محمد کے ہاں آنکھ کھولنے والے شیخ فضل الرحمان کو کرکٹ کا شوق بچپن میں بڑے بھائی ایس ا ے رحمان کی دیکھا دیکھی ہوا، جو خود بڑے اچھے کرکٹر اور 1948 میں سیلون جانے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم کا حصہ تھے۔ آٹھویں جماعت تک کے تعلیمی مدارج امرتسر میں رہ کر طے کیے۔ تقسیم کے بعد اُن کا خاندان پاکستان اٹھ آیا۔ 1950 میں سینٹرل ماڈل اسکول لاہور سے میٹرک کیا۔ اُس دور میں گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج کی کرکٹ ٹیموں میں کانٹے کا جوڑ پڑتا۔
دونوں کالجوں میں کرکٹ کے انچارج صاحبان کی نظر باصلاحیت نوجوانوں پر ہوتی، اور وہ میٹرک کے بعد انھیں اپنے ادارے سے منسلک کرنے کے لیے زورلگاتے۔ یہ اسکول سے سرٹیفکیٹ لینے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ تو پروفیسر سراج لے گئے ہیں، جو ان دنوں گورنمنٹ کالج میں کرکٹ سے متعلق امور دیکھ رہے تھے۔ اسلامیہ کالج والے بھی انھیں گھیرنا چاہتے تھے، تھوڑی پس وپیش کے بعد انھوں نے جی سی کو ترجیح دی۔ گورنمنٹ کالج میں ان کے کپتان سلطان محمود کو ایف اے کے بعداسلامیہ کالج والے توڑنے میں کامیاب ہوگئے۔ اُن کے ایما پر فضل الرحمان نے بھی سیکنڈ ایئر میں اسلامیہ کالج مائیگریشن کرالی۔گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج کے درمیان ہونے والے میچوں میں تماشائیوں کے دیدنی جوش وخروش کی یاد ان کے ذہن میں اب بھی روشن ہے۔
فضل الرحمان کالج کے ساتھ فرینڈزکرکٹ کلب سے بھی کھیلتے۔ امیرالٰہی سے متاثر ہوکر انھوں نے لیگ اسپن بولنگ پر زیادہ توجہ مرکوز کی، اور اسی کے ذریعے وہ لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کام یاب ٹھہرے۔ 1952 میں میاں سعید کی کپتانی میں پاکستان ایگلٹس کے ساتھ انگلینڈ کے دورے میں عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا۔ ہم نے ان سے استفسارکیا،’’کیا میاں سعید کو کپتانی سے ہٹانے میں عبدالحفیظ کاردار کا ہاتھ تھا؟ اِس بات میں کس قدر صداقت ہے کہ باغ جناح میں ایم سی سی سے غیر سرکاری ٹیسٹ میں ہارکے بعد موٹے کو باہر نکالوکے نعرے کاردار کے حامیوں نے بلند کیے تھے؟‘‘اس سوال پر کہنے لگے،’’مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ میاں سعید فربہ تھے اور انھیں موٹا تو کراچی کے تماشائیوں نے بھی کہا تھا۔ وہ کپتان رہنا چاہتے تھے، اور انھوں نے محنت بھی بہت کی مگر ان کی عمرزیادہ ہوگئی تھی۔ ان کے مقابلے میں کاردارفٹ تھے۔ انگلینڈ میں رہنے سے ان کی جو بیک گراؤنڈ بن گئی تھی، وہ بھی ان کے کام آئی، اور پھر کاؤنٹی کی طرف سے ان کی اس سیزن میں کارکردگی بہت اچھی رہی، تو میرے خیال میں کاردار میرٹ پر کپتان بنے۔ باقی کرکٹ میں سیاست رہی ہے اور رہے گی ، میں بھی اسی کا شکار ہوا۔‘‘
فضل الرحمان 1958 میںدورہ ویسٹ انڈیز کے لیے اپنی عمدہ فارم کی بنا پر منتخب ہونے کے بارے میں خاصے پرامید تھے لیکن قسمت مہربان نہ ہوئی۔ دو ٹیسٹ میچوں کے بعد ان کی کمی محسوس ہوئی تو ویسٹ انڈیز کے لیے کال کرلیا گیا۔ یہ اس وقت بالکل آؤٹ آف پریکٹس تھے، اور ڈراپ ہونے پر دل شکستہ ہوکر کلب کرکٹ سے بھی کنارہ کرچکے تھے۔خیر! ویسٹ انڈیز پہنچے اور جارج ٹاؤن میں ہونے والے چوتھے ٹیسٹ میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزازحاصل کرلیا۔ افسوس! یہ پہلا ٹیسٹ، آخری بھی ثابت ہوا۔ منیجرسعید احمد خان نے ان کا حوصلہ خوب بڑھایا ۔ میچ کے دوران رات کو ایک فنکشن میں مینیجرکے ساتھ انھیں دیکھ کرکپتان عبدالحفیظ کارداربرا مان گئے، اور میچ میں ان سے زیادہ بولنگ نہ کرائی۔ فضل الرحمان کے خیال میں،’’ ڈسپلن کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ کاردار کا حسد تھا، ان کے لیے یہ ناقابل برداشت تھا کہ پبلک لائف میں کوئی ان کے سوا بھی مقبول ہوسکتا ہے۔ دوسرے وہ مینیجرکے ساتھ مجھ ایسے جونیرکی قربت ہضم نہ کرسکے۔‘‘ اگلے ٹیسٹ میں یہ ٹیم سے باہرتھے۔ ویسٹ انڈیز نے جوابی دورہ کیا، تو پشاور میں ہونے والے سائیڈ میچ میں انھیں موقع مل گیا۔ اس میچ میں کپتان وقارحسن نے ان کو اچھے طریقے سے استعمال کیاتو پانچ بیٹسمینوں کو انہوں نے پویلین کی راہ دکھائی۔ روہن کہنائی اور گیری سوبرز بھی ان کا شکار بنے۔
عبدالحفیظ کاردار کے بجائے اب قومی ٹیم کی زمام کار فضل محمود کے سپرد تھی۔ انھوں نے سائیڈ میچ میں عمدہ بولنگ کے باوجود فضل الرحمان کو لاہور ٹیسٹ میں نہ کھلایا، اور مشتاق محمد کو چانس دیا۔ فضل الرحمان کے خیال میں، فضل محمود کے اس فیصلے میں کاردارکی منشابھی شامل تھی، جو اس وقت ٹیم کا حصہ تو نہیں تھے، لیکن معاملات میںپوری طرح دخیل تھے۔
1959 میں آسٹریلین ٹیم رچی بینو کی قیادت میں پاکستان آئی ۔اس سیریز کے لیے اعلان کردہ سولہ کھلاڑیوں میں نام شامل ہونے سے امید کا چراغ روشن ہوا، جو کچھ عرصہ ٹمٹماکربجھ گیا۔ ڈھاکا اور لاہور میں ہونے والے ٹیسٹ میچوں میں صلاحیتوں کے اظہارکا موقع نہ ملنے سے بددل ہوکر دل چھوڑ بیٹھے۔ اس عالمِ مایوسی میں پریذیڈنٹ الیون کی طرف سے میچ کھیلنے سے انکارکردیا۔ ان کے بجائے انتخاب عالم کا انتخاب ہوگیا، جنھوں نے میچ میں سات وکٹیں لے کرتیسرے ٹیسٹ میں جگہ بنالی۔ فضل الرحمان کے بہ قول،’’اللہ کی رضا اسی میں تھی۔
یہ سب قسمت کی بات ہے،اللہ تعالیٰ نے میری لائن اور بنائی تھی۔‘‘ وہ اپنے اکلوتے ٹیسٹ میں تو ایک ہی وکٹ لے پائے، مگر29 فرسٹ کلاس میچوں میں 21.32کی بہترین اوسط سے 96 وکٹیں حاصل کیں۔چھ بارمیچ میں پانچ وکٹیں، جب کہ ایک باردس وکٹیں لینے میں کام یاب ٹھہرے۔ گگلی کے ہتھیار کا بھی عمدگی سے استعمال کرتے۔ بیٹنگ میں بھی ٹیم کو مشکل سے نکالتے۔ کرکٹ کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہنے سے قبل 1959-60 میں قائد اعظم ٹرافی میں لاہور کی طرف سے اُنھوں نے شاندار بولنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ ملتان کے خلاف میچ میں سینتیس رنزدے کرچھے وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان کمبائنڈ سروسزسے سیمی فائنل میں مقابلے میں انھوں نے بیٹسمینوں کو تگنی کا ناچ نچایا۔ مسلسل گیارہ اوورز میڈن کرکے سب کو حیران کردیا۔ 1951 میں شروع ہونے والا فرسٹ کلاس کیرئیر1961 میں انجام کو پہنچا۔کرکٹ چھوڑنے کے بعدویسٹ پاکستان اسکوائش فیڈریشن کے سیکرٹری کی حیثیت سے اس کھیل کے فروغ کے لیے سرگرم رہے۔
1968 کے بعد کھیل سے متعلق سرگرمیوں سے ناتا ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا۔ ہم عصروں میں وقارحسن واحد کرکٹرہیں، جن سے ہمدمی بعد میںبھی قائم رہی۔ان کا جب بھی لاہور آنا ہواپنے اس ہمدم دیرینہ سے ملنے ضرورآتے ہیں۔ کرکٹ سے ہٹ کر ان کے حلقۂ احباب میں دیگرشعبوں کی نمایاں شخصیات بھی شامل رہیں، جن میں سپریم کورٹ کے سابق جج سعد سعود جان بھی شامل تھے۔ ان کا ذکرچھڑا تو یادوں کا دیا جلنے لگا۔ سعد سعود جان کے بارے میں دو ایک باتیں ایسی بھی انھوں نے گوش گزار کیں ، جن سے تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورحکومت میں سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج ہونے کے باوجود سعد سعود جان چیف جسٹس بننے سے محروم رہے، اور ان سے کہیں جونیئر جج سجاد علی شاہ کومنصب عطا کردیا گیا۔ آخرایسا کیوں ہوا؟ اس بارے میں فضل الرحمان بتاتے ہیں،’’سعد سعود جان میرے بڑے اچھے دوست تھے۔ہم دس سال جم خانہ کی طرف سے اکٹھے کھیلتے رہے۔
انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ بے نظیربھٹو نے ان سے کہاکہ ہم نے آپ کو چیف جسٹس بنانے کا فیصلہ کیا ہے، اس پرانھوں نے کہا کہ اچھی بات ہے۔اس کے بعد بے نظیر نے اُن افراد کی فہرست دی، جنھیں وہ جج تعینات کرانا چاہتی تھیں، فہرست میں درج نام پڑھ کر سعد سعود جان نے کہا کہ ان میں سے ایک بھی جج بننے کے لائق نہیں ، اس پر بے نظیرنے کہا کہ پھر، ہم آپ کو چیف جسٹس نہیں بناتے۔(یہ وہی زمانہ ہے، جب محترمہ نے جہانگیر بدر کو چیف جسٹس بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ سعد سعود جان کی جگہ سجاد علی شاہ کوچیف جسٹس بنایا گیا، جنھوں نے لکھا ہے کہ اس منصب پران کی تعیناتی سے قبل آصف علی زرداری ان کا استعفیٰ جیب میں لائے تھے کہ وہ اس پردستخط کردیں، تا کہ ان سے حکومت کو اختلاف ہو تو اسے ٹی وی پراناؤنس کردیا جائے۔ اس مضحکہ خیز مطالبے کو سجاد علی شاہ نے ماننے سے انکارکردیاتھا) اُس وقت انھوں نے مجھ سے مشورہ مانگا، تو میں نے کہا کہ اصول پرسمجھوتے سے بہترہے، آپ چیف جسٹس نہ بنیں، اور پھر انھوں نے ایسا ہی کیا۔
1968 میں حج کے بعد وہ سعودی عرب سے لوٹے تو واپسی پردل پھر چکا تھا۔ مسجد قدس چوک دالگراں میں مولانا عبدالرشید کے حلقۂ درس میں چارسال شامل رہے۔ ایک برس مولانا عطاء اللہ حنیف سے سنن ابی داؤد ، صحیح مسلم اور صحیح بخاری سمیت دیگر کتابیں پڑھیں۔ جامعۃالازہر سے1986 میں شریعہ کورس کیا۔ 1973ء میں مسجد مبارک کے خطیب بنے ۔ چھتیس برس اس ذمے داری کو بہ طریق احسن نبھایا۔ رمضان کی تراویح میں جو قرآن پڑھا جاتا، تیس برس اس کی تفسیر کا خلاصہ سلیس اور سہل زبان میں کرتے رہے۔ برسوں ریڈیو پاکستان کے لیے ’’ قرآن حکیم اور ہماری زندگی‘‘ نامی پروگرام میں قرآنی آیات کی تفسیر کا فریضہ انجام دیا۔ ’’الا عتصام ‘‘کے لیے بھی تفسیر لکھی۔
قرآنی آیات کی ریڈیو اوررسالے کے لیے تفسیرسے ہی انھیں باقاعدہ قرآن پاک کی تفسیر لکھنے کا خیال آیا، جس کی اب تک چھے جلدیں شایع ہوچکی ہیں۔ ’’تفسیر فضل القران ‘‘ کا آغاز کرنے سے قبل انھوں نے معروف تفاسیرکا غائر مطالعہ کیا۔ اسلام میں عورت کی حکم رانی کے موضوع پرمبسوط کتاب لکھی۔ ’’ انکم ٹیکس کی شرعی حیثیت‘‘ کے نام سے مقالہ بھی سپرد قلم کیا۔ ’’جنازے کے مسائل‘‘ اور’’سوانح حیات مولانا ثناء اللہ امرتسری‘‘ سمیت کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ 1977 میں پی این اے تحریک کے دوران یہ جس مسجدمبارک کے خطیب تھے، وہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکزبنی، اس تحریک کے تمام راہ نماؤں سے اُن کا اس دور میں متواترملنا جلنا رہا۔عملی سیاست میں حصہ لینے کے لیے بیرون سے بھی ان پردباؤ پڑا اور اندرون ملک سے بھی، پرطبیعت ادھرنہیں آئی۔
ہم نے ان سے پوچھا:ایک عالم دین کی حیثیت سے وہ معاشرے میں انتہاپسندی کا ذمے دارکس کو گردانتے ہیں؟ ’’رسول پاکؐ نے منتشرمعاشرے کو دنیا کا مثالی معاشرہ بنادیا۔ خون کے پیاسے،آپس میں ایثار و قربانی کا مجسمہ بن گئے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ تم سب میری رسی کو مضبوطی سے تھام لو،اور تفرقے میں نہ پڑو۔ لیکن ہمارے ہاں اس کے الٹ ہوتا ہے۔گروہ بندی کو پروان چڑھایا جاتا ہے اور اسی پرفخر ہوتا ہے۔اللہ، رسول اور کتاب پرکیا کوئی اختلاف ہے؟دشمن جب مارتا ہے تو کیا وہ سنی ،شیعہ کی تفریق کرتا ہے؟ ہمارے آئین کے مطابق ہرگروہ کو اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کا حق حاصل ہے، لیکن کسی فرقے کو کسی کے مذہبی جذبات پامال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ انتہا پسندی کی بڑی وجہ خود مولوی حضرات ہیں۔
مولوی مسجد کو اپنی دکان سمجھتے ہیں۔اسلام میں مولوی ازم نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو مولوی چندہ جمع کرکے مسجد بھی بنا لیتے ہیں، پھراس کے اوپرمکان بنالیتے ہیں، جو بعد میں ان کی اولاد کے تصرف میں آجاتا ہے۔ انتہا پسندی کی ذمے داری ہماری حکومتوں پربھی عائد ہوتی ہے، اپنی جومرضی سے فیصلے کرنے کے بجائے امریکا کا کہا مانتی ہیں۔‘‘ معاشرے میں پھیلی نفسا نفسی انھیں آزردہ کرتی ہے۔ کہتے ہیں،’’سب ایک دوسرے کو اپنے مطلب اور مفاد کے لیے ملتے ہیں، کوئی اللہ کے لیے دوسرے سے نہیں ملتا۔‘‘ کرکٹر اور عالم دین کے فرق کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کھیل میں عمرجوں جوں بڑھتی جاتی ہے، وقعت کم
Source : http://justmehmoodulhassan.blogspot.com/2016/06/blog-post_71.html