افسر بھٹی بریلوی ہے اور کٹر قسم کا پیرپرست انسان ہے، اس بات پر وہ فخر کرتا ہے، اور اپنا وہ یار ہے۔ لفظ یار ہی سے اپنے اور بھٹی کے بیچ تعلق کا صحیح اور معقول ترین اظہار کیا جاسکتا ہے، بقول بھٹی، لبرلز، جمہوریت پسندوں اور روشن خیال پاکستانیوں کی کئی دنوں سے دیہاڑیاں لگی ہوئی ہیں، ان کے قلم ہیں کہ چلتے چلے جارہے ہیں ریاست کی کمزور عملداری کے غم میں یہ لبرلز خوامخواہ گھلے جارہے ہیں۔
یہ بے پر کی اڑانے کی کیا تک ہے کہ، ” ریاست عین دارلحکومت میں رسوا ہو گئی، کبھی کہتے ہیں کہ بریلویوں کو میلاد اور نعت خوانیوں کے چبوتروں سے اٹھاکر بے وقت دیوبندیوں اور وہابیوں کے ساتھ ہی میدان میں اتار دیا۔ کبھی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے مذہبی لیڈر کو موقع فراہم کیا کہ گذشتہ چند سالوں میں طالبان سے مزاحمت کے بعد حاصل شدہ قدرے امن اور جمہوری اداروں کے چند سالہ تسلسل کے بعد پیدا ہوتی امید کو پھر سے فیض آباد کے پل کے اوپر سے گردن کے بل گرادیا اور اس امید کے چیتھڑے بہتی ٹریفک سے براستہ جی ٹی روڈ پنجاب سے سندھ اور بلوچستان تک پہنچیں گے اور دوسری جانب اسی جی ٹی روڈ سے پشاور تک، اور یہی کلموہہ فیض آباد ہے کہ کشمیر اور گلگت جانا ہوتو یہاں سے گزرنا ہی پڑتا ہے اور تو اور حکومتی ایوانوں کو رستہ بھی ادھر سے گزرتا ہے۔ ہاں البتہ کسی نے راولپنڈی جانا ہو تو فیض آباد آنے کی ضرورت نہیں، پنجاب سے آتے ہوئے اسلام آباد ایکسپریس ہائی وے پر اترنے سے پہلے ہی بایئں ہاتھ راولپنڈی کی طرف خوبصورت کشادہ سٹرک آپ کو خوش آمدید کہے گی، اگر پشاور سے آنا ہوتو بھی فیض آباد کو بائی پاس کیا جاسکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں بھٹی نے، محمد حنیف، وجاہت مسعود، وسعت الہ خان، وصی بابا، پر اسرار بی بی سی، فرنود عالم، اور اسی قبیل کے دیگر اصحاب کی تحریروں سے کھل کر اپنا عناد ظاہر کیا اور تمام اصحاب کی ذہنی حالت پر شک کا دائرہ کھینچ دیا۔
بھٹی سے ہماری دوستی ان دنوں کی ہے جن دنوں غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھانے کا بہت رواج تھا۔ پہاڑ سے فون آتا تھا، پھر لاہور سے جنوبی پنجاب کی جانب بڑی بڑی گاڑیوں کے قافلے رواں ہوتے تھے، ہم ایک سکول کے میدان میں پانی کا چھڑکاؤ کر کے دریاں بچھاتے تھے، اور پھر جنازے سے پہلے لمبے وعظ ہوتے تھے، ہم وعظ سنتے تھے، آنکھوں میں آنسو ہوتے تھے لیکن اعصاب مضبوط۔ ان دنوں بھٹی ہم سے بڑا دبا دبا سا رہتا تھا، وہ کبھی جنازے میں شریک نہیں ہوتا تھا، اور نہ ہی ہمارے شعلہ بیاں مقرر کی تعریف کرتا تھا، حالانکہ ہمارے مقرر کے تعارفی پوسٹر پر غازی اور افغانستان جیسے سابقے اور لاحقے بھی لکھے ہوتے تھے، جو مقرر کے انٹرنیشنل ایکسپوژر کی واضح نشانی ہوا کرتے تھے، لیکن بھٹی پھر بھی کسی آستانے پر گزری شب کو ہی ہماری تمام تر سرگرمی پر ترجیح دیتا تھا۔ اور ہم بھٹی کے لوکل ہونے اور لوکل رہنے پر بضد رہنے کو بہت حد تک کبھی جاہلیت سے تشبیہ دیتے تھے تو کبھی مادر وطن سے دشمنی جیسی حد لگا دیتے تھے۔
وقت گزرتا گیا، بھٹی اپنی لگن میں مگن رہا۔ ہم ان دنوں کالج میں پڑھتے تھے جب، پہاڑ سے دریاں لپیٹنے کا کام شروع ہوا۔ اور پھر رفتہ رفتہ ہمارے مقررین نے بھی آنا چھوڑ دیا، ہم نے جنوب سے مشرق، اور پھر مغرب کی مسافت کی تب ہمیں پتہ چلا، ہمارے مقررین، وہ جو ہمارے روحانی باپ قرار پائے تھے، سب کے سب کسی اور کے لے پالک نکلے۔ ایک دن بھٹی کو بتایا، بھٹی اس بات پہ خوب ہنسا، اس دن اس کے ساتھ ایک آستانے پر خشکی کے رستے پرواز کی۔
کوئی تین ہفتہ پہلے بھٹی نے بتایا کہ وہ اسلام آباد جا رہا ہے، ہم نے پوچھا کیوں؟ کہا، شامل ہونا ہے اصل اور حقیقی لڑائی میں، ایک عظیم تر اور محسن ترین ہستی کے لئے، میں نے کہا بھٹی، معاملہ تو حل ہو چکا۔ تو نے دیکھا نہیں جو حشر ہمارا اور ہماری حقیقت کا ہوا، بھٹی نہیں مان رہا، بقول بھٹی کے وطن عزیز میں ”ہم جیسے ہیں یا آپ جیسے، تو پھر کونسا لبرل ازم، کونسی روشن خیالی، کونسی جمہوریت۔ ؟
بھٹی کی بات میں دم ہے، اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک میں اسلامی دینی اصول کی پاسداری کی بات نہیں ہوگی تو کہاں ہوگی؟ بھٹی اسی لئے بادی النظر میں چھپا لبرل ازم پہچان لیتا ہے، بھٹی کو اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں کہ آپ کس ڈکشنری سے لبرل ازم کی تعریف لے کر آئے ہیں، بھٹی کا سادہ پیغام ہے کہ، لبرل ازم یا سیکولرازم کی جو تعریف ہماری مجلد کتابوں مہں لکھی ہے، بس اس کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ اور یقین کیجئے اس ملک کا ہر شہری چند حقیقی اقلیتوں کو چھوڑ کر پوری طرح سے مسلمان ہے۔
جن شہ سواروں پر پنجاب کی جمہوریت کا تاج رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، اپنے اندر سے باہر سے، گدیوں، مجاوروں، قادریوں، سلفیوں، نقشبندیوں، رضویوں، گیلانیوں، ہاشمیوں اور لدھیانویوں میں بری طرح سے گندھے ہو ئے ہیں۔ یہ ان میں سے ہیں اور وہ ان میں سے۔ موجودہ پاکستان کی حد تک تو یہ نوشتہ دیوار ہے۔ جہاں تک بات ہے منصور کے نعرہءِ انالحق کی، پنجابی سیاستدانوں کو بخوبی خبر ہے، استعارے کیسے بیچے جاتے ہیں، سیاست جب عسکریت سے نبرد آزما ہوتی ہے تو، پنجابی دانشور کا قلم بھرپور انگڑائی لیتا ہے، اور حق ادا کرتا ہے، اب کے بار سیاست گروں کی پگڑی گدی نشینوں کے گنبد میں جھول رہی ہے، اور دانشوروں کو ایک نئے بیانیے کی نوید سنا دی گئی ہے، کہ جس کا مطالبہ تھا۔ ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت غالب
Source, http://www.humsub.com.pk/89004/abdul-rauf-6/?print=print