بہاول پور سے مشرق کی جانب صرف11 کلومیٹر فاصلے پر صوفی محکم دین سیرانی کا مزار ہے۔ میں ان کے ورثے پر بات کرنا چاہتی ہوں لیکن میرا ذہن اس مزار کے اطراف اور اس قصبے کی گلیوں میں جابجا بکھرے کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے۔مقامی میونسپل ادارے 60 ہزار سے زیادہ آبادی کے اس قصبے میں کوئی بھی سہولت فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ قبل ازیں میں نے اس قدر بڑے پیمانے پر کوڑا کرکٹ امرتسر میں دیکھا تھا۔ اگر آپ مقامی لوگوں سے بات کریں تو معلوم ہوگا کہ قیادت کو عوام کی کوئی پروا نہیں ہے۔خطے میں صدیوں پر محیط آمریت کا ایک اثر یہ ہے کہ لوگ اس امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے جو اس عہدے کے لیے موزوں ترین دکھائی دیتا ہو۔ اس کے بجائے وہ یہ دیکھتے ہیں کہ سیاسی حالات کس کے لیے سازگار ہیں۔مثال کے طور پر 2013 کے انتخابات میں خانقاہ شریف کے عوام نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا تھا جنہوں نے 2008 کے بعد علاقے میں سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے اپنے حریفوں کی نسبت کہیں زیادہ کام کیا بلکہ انہو ں نے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر صوبے میں برسراقتدار مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو ووٹ دیا کیونکہ سیاسی حالات اسی کے
حق میں تھے۔جنوبی پنجاب کے دیگر حلقوں میں بھی صورتِ حال کچھ مختلف نہیں ہے۔ بہت سے معاملات میں منتخب ارکان یا ان کے حامیوں کا ردِعمل یہ ہوتا ہے کہ شہباز شریف کی صوبائی حکومت وسائل کو صرف مرکز تک ہی محدود رکھتی ہے۔ چونکہ ترقیاتی فنڈ باآسانی دستیاب نہیں ہیں اسی لیے ارکان کارکردگی بھی نہیں دکھا پاتے۔تعمیرات پر زیادہ توجہ کے باعث نچلی سطح پر ترقیاتی سرگرمیاں شروع کرنے پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ عام لوگ شمسی توانائی کے منصوبوں کے علاوہ بھی بہت کچھ چاہتے ہیں۔ انہیں سڑکیں، صفائی، پینے کے صاف پانی، سکولوں اور اپنے رہنماو¿ں تک رسائی کی ضرورت ہے جن کے توسط سے وہ ریاستی افسر شاہی (ان کے ہرکارے نہیں) سے رابطہ کر سکیں۔لوگ اس شیطان پر تو یقین کرلیں گے جس سے وہ بات کرسکتے ہوں لیکن اس شخص پر نہیں جس تک کوئی رسائی نہ ہو۔لیکن کیا یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے جنوبی پنجاب سے منتخب ہونے والے ارکان پارلیمان کے ارکان کو وسائل نہیں ملے؟بہاولپور میں پنجابی آبادی کے علاقوں کو سرائیکی علاقوں کی نسبت زیادہ ترقیاتی فنڈ دیے گئے ہیں۔ پنجاب حکومت کی قبائلی یا لسانی ذہنیت کے باعث تعصب کا واضح اظہار ہوتا ہے جس سے سرائیکی آبادی ناخوش ہے۔ غیر مطمئن حلقے اپنے منتخب نمائندوں کے ہرکاروں سے یہ استفسار کرتے ہیں کہ پنجابی ارکان فنڈ حاصل کر سکتے ہیں تو دوسرے کیوں نہیں؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے اور اس سے مسلم لیگ (ن) کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔مقامی تاثر موجودہ وزیروں کے حق میں نہیں ہے۔ بہت سوں کے دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات بھی نہیں ہیں۔ کچھ وزرا اپنے حلقوں میں نہیں جا رہے کیوں کہ وہ ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے قابل ہی نہیں ہو پائے۔یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ مرکزی پنجاب کی شہری سیاسی قیادت جنوبی پنجاب کے زرعی طبقے کی قیمت پر پنجابی تاجر کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ یہ عیاں ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کی نسبت جنوبی پنجاب کو زیادہ فوائد فراہم کیے گئے۔بھٹو زرداری پارٹی کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ نچلی سطح پر ان کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ ہی موجود نہیں ہے۔رحیم یار خان کے پنجابی اور سرائیکی عوام میں کشمکش واضح ہے۔ کہنے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پیپلز پارٹی اگلے انتخابات میں مکمل طور پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے لیکن اس نے جنوبی پنجاب میں ایک بار پھر اپنی جگہ بنانا شروع کردی ہے۔ نچلی سطح پر زیادہ کام، نیا صوبہ بنانے کے حوالے سے واضح پالیسی کا اظہار، جنوبی پنجاب کی ترقی کے حوالے سے منصوبوں کی تشکیل اور درست طور پر ازسرِنو تنظیم سازی حالات تبدیل کر سکتی ہے۔اس وقت کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ خطے سے پیپلز پارٹی کا مکمل طور پر صفایا ہو چکا ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی موجود ہیں جو خوش ہیں کہ انہوں نے آصف علی زرداری سے مکمل طور پر لاتعلقی اختیار نہیں کی۔فطری طور پر پنجاب کے دیگر علاقوں کی شہری آبادی یہ سوال پوچھے گی کہ پی
ٹی آئی کیوں نہیں؟اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں عمران خان کی پارٹی بھارتی پنجاب میں اروند کجریوال کی پارٹی کی طرح ہی ہے، یہ شہری علاقوں میں تو مضبوط ہے لیکن دیہی علاقوں میں اس کو خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہیں ہو پائی۔تحریک انصاف نے 2013 کے انتخابات میں شراکت کے حوالے سے بہتر فیصلے نہیں کیے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے تمام ذمہ داری ملتان کے مخدوم شاہ محمود کو سونپ دی تھی جو لوگوں تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور انہوں نے اپنے خاندانی تعلقات پر زیادہ انحصار کیا۔جنوبی پنجاب میں کسی بھی شخص سے بات کریں تو وہ اندرون سندھ کے لوگوں کی طرح یہ کہتا دکھائی دے گا کہ ان کے علاقوں میں پی ٹی آئی کا کوئی وجود نہیں ہے۔مبصرین ان لوگوں کی ‘پسماندگی’ اور ‘ناخواندگی’ پر ناپسندیدگی کا اظہار کریں گے۔ لیکن درحقیقت ناپسندیدگی کا اظہار ان لوگوں کی نخوت اور انحطاط پذیر سیاست پرکیا جانا چاہیے جنہوں نے لوگوں اور سماج کے گرد بعد ازنوآبادیاتی عہد کا سیاسی منظرنامہ تخلیق کیا ہے۔عام لوگوں نے بڑے پیمانے پر معاونتی نظام کی حمایت کی ہے کیوں کہ حکمرانوں (جن میں افسرِ شاہی بھی شامل ہے) نے کبھی ریاست کو عوام کے تابع نہیں کیا۔مروج فارمولے کی بنیاد اس تمہید پر ہے کہ لوگ ریاست کے لیے ہیں اور ریاست لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ لیکن اس منظرنامے میں رہتے ہوئے بھی لوگ بہترین فوائد کی تلاش میں ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اگلے انتخابات میں جنوبی پنجاب کے عوام کا جھکاو¿ کس جانب ہوتا ہے۔