اذیت ناک مفاہمت ولسانیت کے شکارشہر کا چشم کشا احوال

…تنویرارشاد…

اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد ملک کے حکمران سیاستدانوں نے عوام کو سبز باغ دکھانا شروع کردیے اورسیاستدانوں نے ملک میں عوام کی بالادستی کے نعرے لگانا شروع کردیے۔
18 ویں ترمیم کی منظوری کے وقت سب سے اہم مسئلہ صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی تھی جس پر ملک کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) نے اعتراضات کیے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا مطالبہ تھا کہ سرحد کا نام تبدیل کرکے پختونخواہ رکھ دیا جائے۔ اس معاملے پر کئی دن کے مذاکرات کے بعد بالآخر سیاسی جماعتیں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خواہ رکھنے پر رضا مند ہوگئیں۔ 18 ویں ترمیم کے اس فیصلے کو ہزارہ کی عوام نے مسترد کردیا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ صوبہ سرحد میں ہندکو بولنے والوں کی بھی کثیرتعدادموجود ہے اور اسلئے پختونوں کے نام پر صوبہ کا نام رکھنا ہزارہ کی عوام سے زیادتی ہوگی۔ جس کے بعد ہزارہ میں علیحدہ صوبہ کی جدوجہد شروع ہوگئی اور اس میں ابتداء میں ہی 7 افراد کا خون شامل ہوگیا۔ تحریکوں کی کامیابی کے لیے کہا جاتا ہے کہ خون کی ضرورت ہوتی ہے اور ہزارہ کے عوام نے ابتداء ہی میں اپنی تحریک میں اپنا خون شامل کرلیا ہے۔کاکول اکیڈمی میں آرمی پریڈ کے باعث ہزارہ تحریک کچھ عرصے کے لیے ٹھنڈی تو ہوئی لیکن لاوا تیار ہوتا رہا ۔ اسی دوران کسی بھی تحریک کے آغاز یا حکومتوں کے خاتمے میں اہم کردار سمجھا جانے والا شہر کراچی نے بھی ہزارہ تحریک کے لیے اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا، عدلیہ کی آزادی کی تحریک ہو یا حکومتوں کے خاتمے کے لیے لانگ مارچ سب ہی کا آغاز ملک کا معاشی حب کہلانے والا شہر کراچی ہی کہلاتا ہے۔

Leave a Reply