…تنویرارشاد…
اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد ملک کے حکمران سیاستدانوں نے عوام کو سبز باغ دکھانا شروع کردیے اورسیاستدانوں نے ملک میں عوام کی بالادستی کے نعرے لگانا شروع کردیے۔
18 ویں ترمیم کی منظوری کے وقت سب سے اہم مسئلہ صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی تھی جس پر ملک کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) نے اعتراضات کیے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا مطالبہ تھا کہ سرحد کا نام تبدیل کرکے پختونخواہ رکھ دیا جائے۔ اس معاملے پر کئی دن کے مذاکرات کے بعد بالآخر سیاسی جماعتیں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خواہ رکھنے پر رضا مند ہوگئیں۔ 18 ویں ترمیم کے اس فیصلے کو ہزارہ کی عوام نے مسترد کردیا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ صوبہ سرحد میں ہندکو بولنے والوں کی بھی کثیرتعدادموجود ہے اور اسلئے پختونوں کے نام پر صوبہ کا نام رکھنا ہزارہ کی عوام سے زیادتی ہوگی۔ جس کے بعد ہزارہ میں علیحدہ صوبہ کی جدوجہد شروع ہوگئی اور اس میں ابتداء میں ہی 7 افراد کا خون شامل ہوگیا۔ تحریکوں کی کامیابی کے لیے کہا جاتا ہے کہ خون کی ضرورت ہوتی ہے اور ہزارہ کے عوام نے ابتداء ہی میں اپنی تحریک میں اپنا خون شامل کرلیا ہے۔کاکول اکیڈمی میں آرمی پریڈ کے باعث ہزارہ تحریک کچھ عرصے کے لیے ٹھنڈی تو ہوئی لیکن لاوا تیار ہوتا رہا ۔ اسی دوران کسی بھی تحریک کے آغاز یا حکومتوں کے خاتمے میں اہم کردار سمجھا جانے والا شہر کراچی نے بھی ہزارہ تحریک کے لیے اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا، عدلیہ کی آزادی کی تحریک ہو یا حکومتوں کے خاتمے کے لیے لانگ مارچ سب ہی کا آغاز ملک کا معاشی حب کہلانے والا شہر کراچی ہی کہلاتا ہے۔
عالمی قوتوں کی کوشش ہے کہ پاکستان کو کسی نہ کسی ذریعہ سے توڑا جائے اور اس کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کے دیے گئے پاکستان کے مشرقی پاکستان کے طرح کئی حصے کرنے کے لیے ان قوتوں نے ملک میں لسانیت کے فروغ پر کام شروع کردیا ہے۔ عوام کو زبانوں اور قومیتوں میں باٹنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے اور ملک میں زبان کی بنیاد پر صوبوں کے قیام کے لیے آوازیں بھی اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ اس سے قبل بھی کراچی میں لسانی بنیادوں پر فسادات میں ہزاروں افراد کو قتل کیا جاچکا ہے جبکہ ایک دور میں تو بوری بند لاشوں کا ملنا بھی عام تھا۔
ملک کو لسانی بنیادوں پرتقسیم کرنے کے لیے ایک بار پھر کراچی کا ہی انتخاب کیا گیا ہے اور اب ایک نئی پارٹی یا نئی تحریک کے کندھے پر گن رکھ کر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہزارہ تحریک کی جدوجہد ہزارہ کے بعد کراچی میں بھی شروع ہوئی کیونکہ کراچی میں بھی ہزاروں ہزارہ وال رہائش پذیر ہیں۔ ہزارہ قومی جرگہ کے نام سے ہزارہ وال کے لیے جدوجہد شروع کی گئی جس کی سربراہی ایک خاتون رہنما ” لیلیٰ پروین“ نے شروع کی تاہم وہ ہزارہ کی عوام کو اپنے ساتھ رکھنے میں ناکام رہیں کیونکہ تحریک صوبہ ہزارہ جس کے سربراہ بابا حیدرزمان ہیں نے ہزارہ تحریک سے ہزارہ قومی جرگہ کی لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ دوسری جانب کراچی ایک لسانی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے ہزارہ قومی جرگہ کو ہائی جیک کیا اور شہر میں عوامی نیشنل پارٹی کے مقابلے میں ہزارہ کی عوام کو لانے کی کوشش کی لیکن ہزارہ کی عوام نے لیلیٰ پروین کا ساتھ نہیں دیا۔ اس کے برعکس کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی کے جشن خیبر پختون خواہ کے کامیاب شو نے بھی متحدہ قومی موومنٹ کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجادیں جس میں عوامی نیشنل پارٹی نے شہر میں اپنی اکثریت کا واضح ثبوت دیا۔ دوسری جانب بابا حیدرزمان نے بھی کراچی میں تحریک صوبہ ہزارہ کی پرامن اور کامیاب ریلی وجلسے کا انعقاد کرکے بتادیا کہ صوبہ ہزارہ کے لیے چلائی جانے والی تحریک کسی کو ہائی جیک نہیں کرنے دیاجائے گا۔
صدر آصف علی زرداری کے حالیہ دورے میں اتحادیوں کے درمیان کشیدہ صورتحال جو کہ وزیر اعظم کی جانب سے حیدرآباد ضلع کی پرانی حیثیت کی بحالی کے حوالے سے تھا پر کوئی کمی نہیں آسکی جبکہ ایم کیوایم نے صدر کی جانب سے اے این پی کے وفد کو خصوصی پروٹوکول دینے پر بھی سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ صدر کے دورے کے بعد اچانک کراچی میں حالات خراب ہونا شروع ہوگئے اور 4 روز کے اندر شہر کے مختلف علاقوں میں 40افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنادیا گیا ۔ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شاہ فیصل کالونی بلاک 2 شمع شاپنگ سینٹر پر موبائل دکان پر فائرنگ کرکے نبی داد خان کو قتل کردیا گیا جس کے بعد عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان تصادم شروع ہوگیا۔تصادم شہر کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا اور ٹارگٹ کلنگ کا ایک نیا دور شروع ہوگیا ۔
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات میں دو لسانی جماعتیں شامل تھیں تاہم ان واقعات کو متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے صوبہ ہزارہ کی تحریک کا رنگ دینے کی کوشش کی اور ہزارہ قومی جرگہ کو اس کے لیے استعمال کیا تاہم عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک صوبہ ہزارہ نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ حالیہ فسادات ہزارہ وال اور پختونوں کے درمیان ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اور ہزارہ تحریک نے ان واقعات کو لسانی جماعت کی جانب سے پختونوں اور ہزارہ وال کو آپس میں لڑوانے کی سازش قرار دیا اور کہا کہ ہزارہ وال اور پختونوں کا آپس میں کسی قسم کا کوئی جھگڑا نہیں جبکہ دوسری جانب ہزارے وال برادری کی کراچی میں کوئی ایسی منظم تنظیم یا گروہ بھی نہیں ہے کہ اس قسم کی پرتشدد تحریک چلائے ۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اے این پی اور ہزارہ وال دونوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا گیا اور نہ ہی ہزارہ وال برادری نے اب تک اپنے کسی کارکن کی ہلاکت کو تسلیم کیا ہے لیکن متحدہ قومی موومنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ شہر میں ہونے والا حالیہ جھگڑااے این پی اور ہزاراوال کے درمیان ہیں اور ہزارہ وال کو بھی کور آڈنینشن کمیٹی کے اجلاس میں بلایا جائے۔جس پر اے این پی کے رہنماء رانا گل آفریدی کا کہنا تھا کہ اگر ہزارہ وال کو بلایا جائیگا تو پھر مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے لوگوں کو بھی کور آڈنینشن کمیٹی کے اجلاس میں بلایا جائے ۔جس پر متحدہ نے ٹارگٹ کلنگ پر کنٹرول کرنے اور امن وامان کی صورتحال پر غور کے لئے اتحادی جماعتوں پر مشتمل کوآرڈینیشن کمیٹی کے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس سے بائیکاٹ کردیا ۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس کراچی میں سندھ حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں پر مشتمل کراچی کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس وزیر اعلیٰ ہاؤس کراچی میں ہوا جس سے متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کو عوامی نیشنل پارٹی اور ہزارہ وال کا جھگڑا قرار دے کر ہزارے وال کو اجلاس میں مدعو نہ کرنے پر اجلاس کا بائیکاٹ کردیا ۔اس سلسلے میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما رضا ہارون نے کہا کہ کراچی میں جھگڑا ہزارے وال اور اے این پی کے درمیان ہے اس لئے اس اجلاس میں ہزارے وال کو بھی مدعو کیا جانا چاہئے تھا ۔کیونکہ ہزارے وال متاثرہ فریق ہے اور فریقین کو بلائے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوسکتا اس لئے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے اور اس حوالے سے اپنے مؤقف سے وزیر اعلیٰ اور گورنر کو بھی آگاہ کردیا ہے اور اگر اجلاس میں دونوں فریقین ہوں گے تو بات ہوگی ورنہ اکیلے بات نہیں ہوگی۔متحدہ قومی موومنٹ کے بائیکاٹ کے بعد عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے اجلاس میں شرکت کی جس میں پیپلزپارٹی کی طرف سے پی پی کراچی ڈویژن کے صدر نجمی عالم ،سعید غنی،وقار مہدی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے امین خٹک،رانا گل آفریدی اور شبیر جان نے شرکت کی ۔ اس موقع پر اے این کے رہنمارانا گل آفریدی نے کہا کہ ہزارہ وال کو اگر اجلاس میں بلایا گیا تو پھر مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کو بھی اجلاس میں بلایا جائے۔اجلاس کے بعد بات چیت کرتے ہوئے پی پی کراچی ڈویژن کے صدر نجمی عالم نے کہا کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کرواکر صدر کے کراچی کے دورے کا تاثر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر وہ سازشی عناصر ناکام ہونگے۔انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس متحدہ قومی موومنٹ کی خواہش پر ہی طلب کیا گیا تھا اور ان کی شرکت نہ کرنے پر حیرت ہے ۔
تحریک صوبہ ہزارہ نے کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے پختون ہزارے وال تصادم کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرنے والوں کے گھناؤنے اقدام کی مذمت کی ہے، گزشتہ روز ہونے والی قتل و غارت گری سے صوبہ ہزارہ کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کا کوئی تعلق نہیں ہے ،نئے صوبہ کے قیام کے لئے ان کے مطالبے کو اے این پی بھی تسلیم کر چکی ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہزارے وال اور پختون آپس میں لڑیں،دونوں قوموں کے مابین لڑائی کا تاثر پیدا کرنے والوں کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ تحریک صوبہ ہزارہ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور اس کی آڑ میں رچائی جانے والی سازش کی بھرپور مذمت کرتی ہے، اگر پختون بھائیوں سے ہمارے اختلافات ہوتے ہم اپنے صوبہ میں لڑکر اسے حل کر سکتے تھے، کراچی میں ایسی حرکت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،دونوں قومیں صدیوں سے اکٹھی رہ رہی ہیں،خودہزارہ ڈویژن میں پختون اب بھی موجود ہیں وہ ہمارے بھائی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ایک مخصوص حلقے کی جانب سے دی جانے والی اسٹیٹمنٹ کہ ہزارے وال اور پختون آپس میں لڑرہے ہیں سراسرغلط اوردروغ گوئی پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر عقلی بھی ہے جس کی عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے بھی نفی کی جا چکی ہے۔
کراچی میں موجود تحریک صوبہ ہزارہ کی قیادت سے اپنے رابطوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مقامی قیادت نے ان واقعات سے مکمل طور پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی قیادت کو یقین دلایا ہے کہ بدھ کو ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں ہزارے والوں کاکوئی کردار نہیں ہے۔تحریک صوبہ ہزارہ کراچی کے کنوینر سردار اقبال خان نے کراچی میں 20افراد کو قتل اور متعدد کو زخمی کئے جانے کے واقعہ پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ ہزارہ کے قیام کے لئے چلائی جانے والی تحریک مکمل پرامن ہے ان کا کسی سے کوئی ایسا اختلاف نہیں ہے جس کا نتیجہ انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت سامنے آئے۔اس حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید نے کہا ہے کہ پختونوں کا ہزارے وال اور ہزارے والوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے ایک مخصوص گروپ ہزارہ والوں اور پختونوں کو آپس میں لڑوارہا ہے ،کراچی میں حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے ذمہ دار گورنر سندھ ہیں ،کراچی کے جاگیردار کراچی کو اپنی جاگیر سمجھنا چھوڑ دیں ،سندھ میں اتحادی حکومت تو قائم ہے مگر اصل حکومت متحدہ قومی موومنٹ کی ہے اس لئے انداز حکومت بدلنا ہوگا ورنہ مزدوروں کا انقلاب آئے گا اور خوف و ہراس کی پناہ گاہوں کو نیست و نابود کردے گا۔شاہی سید نے کہا کہ پختونوں کا ہزارے والوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے ہزارے وال ہمارے بھائی ہیں اور رہیں گے ایک مخصوص گروپ ہزارے والوں اور پختونوں کو آپس میں لڑوارہا ہے اور ہزارے والوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس لئے ہزارے والوں کو چاہئے کہ اگر انہیں کوئی بدنام کرنا چاہتا ہے تو وہ ان کا جواب دیں ۔انہوں نے کہا کہ جب سے اتحادی حکومت قائم ہوئی ہے تب سے ایسا لگتا ہے کہ اصل حکومت متحدہ قومی موومنٹ کی ہے اس لئے حکمرانی کا انداز بدلنا ہوگا اور کراچی کے جاگیردا رکراچی کو اپنی جاگیر سمجھنا چھوڑدیں اور جلد مزدوروں کا انقلاب آئے گا جو کراچی میں خوف و ہراس کی دیواروں اور دہشت کی پناہ گاہوں کو نیست و نابو د کردے گا۔انہوں نے کہا کہ نیا صوبہ ہزارے والوں کا حق ہے اور ہزارہ والے ہم سے بات کریں مسئلہ حل ہوجائے گا ۔
حالیہ کچھ عرصے سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام اور امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے سندھ حکومت نے کراچی میں رینجرز کو خصوصی اختیارات دیے ہوئے تھے جن میں ہر ماہ بعد ایک ماہ کا اضافہ ہوتا تھا تاہم 3 مئی کو مدت پوری ہونے کے بعد رینجرز کے اختیارات میں اتحادیوں کے دباؤ پر اضافہ نہیں کیا گیا ۔ تاہم حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 40 بے گناہ افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد سندھ حکومت نے ایک بار پھر رینجرز کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ کیا۔اس سلسلے میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ٹارگٹ کلنگ روکنے کیلئے موثر اقدامات کئے جائینگے اور رینجرز کو چھاپوں، گرفتاریوں اور تفتیش کے مکمل اختیارات ہونگے۔ اجلاس وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی صدارت میں ہوا جس میں آئی جی سندھ، سی سی پی او کراچی، سیکریٹری داخلہ اور ڈی ڈی جی رینجرز نے شرکت کی۔ مختلف اضلاع کے ڈی آئی جیز نے اپنے اپنے اضلاع میں امن و امان کی رپورٹ پیش کی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ دو دنوں کے دوران 291 افراد گرفتار کئے گئے جس میں کراچی شرقی سے221 افراد، کراچی جنوبی سے7افراد، کراچی ویسٹ سے 2 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے281 کو ڈبل سواری کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ غیر قانونی اسلحہ اور ٹارگٹ کلنگ کے الزام میں صرف 2 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
کراچی میں ہونے والے حالیہ واقعات میں سیاسی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کراچی میں حالات کنٹرول کرنے میں بالکل ناکام ہوچکی ہے اور اپنے کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ پر بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
حساس اداروں کی جانب سے وفاقی حکومت کو لکھی گئی ایک رپورٹ میں بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کراچی کی لسانی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کا عسکری ونگ ملوث ہے جو کہ مخالف سیاسی جماعتوں کی ٹارگٹ کلنگ کررہا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت اپنے اتحاد کو بچانے کے لیے متحدہ کے دباؤ میں ہے۔
کراچی میں پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی اور چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ امور عبدالقادر پٹیل کے کوآرڈینیٹر ایدھی امین کو ایک ساتھی سمیت ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس پر قادر پٹیل نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ بھی دے دیا تاہم اس کے باوجود بھی پیپلز پارٹی خاموش تماشائی بنی نظر آرہی ہے۔ عبدالقادر پٹیل نے کوآرڈینیٹر کی ہلاکت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں کہا کہ اگر میں اب حکومت کا حصہ رہے تو سندھ میں اتحاد نہیں چل سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ استعفیٰ اس لیے دے رہا ہوں کہ مفاہمت کی پالیسی چلتی رہے اور دعا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی مدت پوری کرے۔انہوں نے کہا کہ مجھے اب اس سیاست کو اللہ حافظ کہنا پڑے گا جس میں مفاہمت اصولوں پر نہیں لاشوں پر، مذاکرات مسائل پر نہیں مقتولوں پر ہوں یہ برداشت نہیں کرسکتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ ان واقعات میں ملوث ہے۔
حساس اداروں کی رپورٹس اور اپنے مقامی رہنماؤں کی جانب سے واضح اشاروں کے باوجود پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت خاموش ہے جبکہ سندھ کی مقامی قیادت کی جانب سے رینجرز کے ذریعہ حساس علاقوں میں آپریشن کے آپشن کو بھی متحدہ قومی موومنٹ کے دباؤ پر وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کی مداخلت پر روک دیا گیا ہے۔ دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ سپریم کورٹ میں حکومت کو درپیش آتی ہوئی مشکلات کے باعث بھی پیپلز پارٹی سے فاصلے بڑھارہی ہے تاکہ حکومت کو کسی بھی قسم کے خطرے میں وہ با آسانی کسی بھی واقعہ کو سبب بناکر اتحاد سے علیحدہ ہوجائیں۔
کراچی میں18 اکتوبر ،9 اپریل،نومبر 2008ء، اپریل 2009 ء سمیت کراچی میں کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جس میں سے صرف 18 اکتوبر کے بم دھماکے کے علاوہ تمام واقعات ایسے ہیں جن میں خود کش حملے اور کسی بم دھماکے کے بغیر ہی ہر واقعہ میں 40 سے 50 افراد کو قتل اور کئی کو زندہ جلادیا گیا۔
کراچی میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی استقبالی ریلی کو ناکام بنانے کے لیے 12 مئی کا واقعہ ہوا، 18 اکتوبر کو بے نظیر کے استقبالی پروگرام کو ناکام بنانے کی سازش ہو ، سانحہ نشتر پارک میں سنی تحریک سمیت کئی علماء کو شہید کرنے کا اندونہاک واقعہ، 9 اپریل کو وکلاء کو زندہ جلانے کا واقعہ یا 28 نومبر کو ممبئی حملوں کے ردعمل میں کراچی میں لسانی فسادات کا رنگ دیکر 50 سے زائد بے گناہوں اور پھر لینڈ مافیا کے تنازعے میں اپریل 2009ء میں سینکڑوں لوگوں کا کراچی کی شاہراؤں پر قتل عام ہو نا ،ان تمام واقعات کے مجرم تاحال سامنے نہیں آسکے ہیں۔ تاہم اب بھی کراچی میں روزانہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہورہے ہیں جس میں سیاسی جماعتوں کے کارکنان بے دردی سے قتل کردیے جاتے ہیں اور اب تک ملزمان گرفتار نہیں ہوسکے ہیں۔
کراچی میں سال 2010ء کے ابتدائی112 دنوں میں290 افراد نامعلوم دہشت گردوں کی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ شہر میں ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام کے لئے رینجرز کو خصوصی اختیارات سونپے جانے کے باوجود پولیس اور سی پی ایل سی کے ریکارڈ کے مطابق112 دنوں میں 290افراد دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ ٹارگٹ کلنگ دہشت گردی اور دیگر وارداتوں کا نشانہ بنائے جانے والوں میں ختم نبوت پاکستان کراچی کے امیر مفتی مولانا سعید احمد جلال پوری ،اہلسنت الجماعت کے رہنما مولانا غفور ندیم بھی شامل ہیں۔ سال نو کے پہلے 31 دنوں میں مختلف سماجی، مذہبی سیاسی جماعتوں کے 29 کارکنان اور61 عام شہری نامعلوم قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ماہ فروری کے 28 دنوں میں خون کے پیاسے دہشت گردوں نے 118 معصوم شہریوں کا خون سڑکوں پر بہایا۔ مارچ کے 31 دنوں میں 40 افراد کو قتل کردیا گیا ماہ اپریل کے ابتدائی 22 دنوں میں 42 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔دہشت گردی کے زیادہ تر وارداتیں موٹر سائیکلوں پر سوار ملزمان نے کی جس سے ڈبل سواری پر پابندی بھی شہریوں کے تحفظ کیلئے کارگر ثابت نہ ہوسکے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
اسٹریٹ کرائم اور قتل کی وارداتوں کی روک تھام کیلئے رینجرز اور اہلکاروں کو اضافی موٹر سائیکلیں بھی فراہم کی گئی تاہم اسکے باوجود دہشت گردوں کو رنگے ہاتھوں پکڑنے میں رینجرز اور پولیس ناکام ہے۔
اگر حالیہ اور گذشتہ ایک دو سال میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ پر نظر ڈالی جائے تو اس میں بے گناہ پختونوں کو قتل کیا گیا جن میں اکثریت کی تعداد مزدور طبقہ سے ہے جوکہ رکشہ ،ٹیکسی ڈرائیور، موچی، مزدور، سبزی وفروٹ کی ریڑھی لگانے والوں کی ہوتی ہے جبکہ جواب میں بھی عام لوگوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ این اے پی یا متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں یا پارٹی کے خلاف ٹارگٹ کلنگ نہیں ہے بلکہ عام پختون، عام اردو بولنے والے اور عام شہری کے خلاف ہے جو کہ غیر مسلح ہوتا ہے اور اس کا کسی واقعہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے ۔تاہم ٹارگٹ کلنگ کا نام دیکر ان واقعات کو لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا اور اسلحہ مافیا کا نام دے دیا جاتا ہے یا حکومتی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتی ہیں۔
Source, https://dosrarukh.wordpress.com/tag/%DB%81%D8%B2%D8%A7%D8%B1%DB%81-%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%DA%A9/