آخر کیا وجہ تھی کہ جو آزادی جون 1948 میں دی جانی تھی وہ اگست 1947 میں ہی دے کر جان چھڑا لی گئی؟
عامر ریاضاپ ڈیٹ اگست 24, 2017
وسط اگست 1947 میں برِصغیر کے نو آبادیاتی آقا نے اپنی پارلیمنٹ کے ذریعے ایک قانون منظور کیا تھا جسے ‘قانونِ آزادیءِ ہند 1947’ یا انڈین انڈیپینڈینس ایکٹ 1947 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس قانون کی منظوری کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر دو ملک بنے تھے جو یوں تو برطانیہ سے آزادی حاصل کر چکے ہیں، مگر آج بھی سیاسی و قانونی نظام میں اپنے آقا سے مراجعت کو تیار نہیں۔
اس قانونِ ‘آزادی’ کے پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے سے لے کر منظوری تک جو کچھ بحثیں و تقاریر ہوئیں ان کو جاننا اور سمجھنا آج کے نوجوانوں کے لیے ازحد ضروری ہے۔ اپنے اقتدار اور اپنی طاقت کو باقی رکھنے کے لیے جو بیانیہ اور تعصب و تفاخر دیسی و بدیسی حکمرانوں نے پھیلایا ہے، اس کا شافی علاج یہ ہے کہ اصل دستاویزات کا مطالعہ کیا جائے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ 1937 سے 1946 کے 9 برسوں میں برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں اتھل پتھل نے سیاست کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ اگر آپ کی نظر اس دور میں برطانیہ، روس، چین، جاپان، جرمنی، فرانس اور امریکا پر بھی ہو، تو آپ کو اس سیاسی اتھل پتھل کی زیادہ سمجھ آجاتی ہے۔
وہ کون سا دباؤ تھا جس کی وجہ سے فرانس و برطانیہ کو نوآبادیاں خالی کرنے پر مجبور ہونا پڑا، جرمنی و جاپان کو شکستیں ہوئیں اور جاپان مخالف چین آگے بڑھا اور مشرقِ بعید (فار ایسٹ) نے نئی دنیا میں قدم رکھا؟
آل انڈیا مسلم لیگ اکتوبر 1937 کے سکندر جناح معاہدے اور شیرِ بنگال اے کے فضل الحق کی مسلم لیگ میں شمولیت (1938) کے بعد عملاً ایک عوامی جماعت بننے کی طرف گامزن ہوگئی تھی۔ بنگال و پنجاب وہ دو بڑے صوبے تھے جہاں مسلمانوں کی اکثریت رہتی تھی مگر معاہدہءِ لکھنؤ (1916) کی وجہ سے ان کی اکثریت کو زبردستی کم کیا ہوا تھا۔
23 مارچ 1940 کو جب شہرِ لاہور میں قراردادِ لاہور منظور ہوئی تو اس جدوجہد کا سنگ میل نصب کردیا گیا جس کی منزل پاکستان ٹھہری۔ دسمبر 1945 کے انتخابات اس جدوجہد پر مہر تھے۔ مسلم لیگ نے سندھ، بنگال اور پنجاب میں ہی کامیابی حاصل نہ کی بلکہ صوبہ سرحد میں بھی 50 میں سے 17 نشستیں جیتیں اور مسلم اقلیتی صوبوں میں بھی مکمل حمایت حاصل کی۔
انگریزوں نے انتخابات کے بعد تقسیمِ ہند کو مؤخر کرنے کے لیے کیبنٹ مشن پلان بھی دیا جو کمزور مرکز اور مضبوط صوبوں کی علامت تھا۔ زیرک قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اسے قبول کر کے یہ ثابت کردیا کہ وہ علیحدگی پسند نہیں بلکہ مسئلوں کو حل کرنا چاہتے ہیں، مگر کانگریس نے اس منصوبے کو مسترد کر کے یہ بتا دیا کہ کانگریس مضبوط مرکز کی حامی ہے۔
اس منصوبے کی ناکامی کے بطن سے 3 جون کے معاہدے نے جنم لیا جس پر نہ صرف کانگریس و مسلم لیگ کے لیڈروں نے بادل نخواستہ دستخط کیے بلکہ کمیونسٹ پارٹی اور جمعیتِ علمائے ہند سمیت کسی نے بھی اس کی مخالفت نہ کی۔ اس 3 جون کے منصوبے کو سامنے رکھ کر ہی آزادی ایکٹ 1947 تیار کیا گیا۔
اس ایکٹ کو پڑھنے سے یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ جب پنجاب و بنگال کو تقسیم کرنے کی بات ہوئی تو کیوں اس تقسیم کو مذہبی منافرت سے الگ رکھنے کے بارے میں غور نہ کیا گیا؟ برٹش اسمبلی میں وہ کون تھے جنہوں نے اسے مذہبی رنگ دینے کا پہلے سے فیصلہ کیا ہوا تھا۔ خصوصی طور پر پنجاب میں مسلم و غیر مسلم آبادی کا مکمل انخلاء اک ایسا المیہ ہے جس کے بارے میں آج بھی مؤرخ برٹش اسمبلی کے اعلیٰ اذہان سے سوال کرتا نظر آتا ہے۔
پنجاب کو تقسیم کرنے کے لیے ہندوؤں اور سکھوں کو ملا کر ایک گروپ بنایا گیا اور پھر اس کا موازنہ پنجابی مسلمانوں سے کیا گیا جو بذات خود بدنیتی کا بڑا ثبوت ہے۔ اگر یہ مذہبی تقسیم تھی تو بھر سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کو الگ الگ رکھ کر موازنہ کیا جاتا۔ ایسا کیوں نہ کیا اس بارے میں بھی جانیں گے۔ اس مضمون میں یہ کوشش کی جائے گی کہ اس سوال پر بھی بات کی جائے۔
اس تحریر کے لیے میں نے جس کتاب سے مدد لی ہے وہ Indian Independence and British Parliament 1947 vol.1 ہے۔ اس کتاب کو نسیم احمد باجوہ نے مرتب کیا ہے۔ ایکٹ کی تحریر پڑھنے سے جو بات سب سے پہلے چونکا دیتی ہے وہ ہے اس ایکٹ کا ضمیمہ نمبر 2 کہ جس میں مغربی پنجاب کے اس نئے صوبے میں شامل ہونے والے ان اضلاع کے نام ہیں جو پاکستان کا حصہ بننے والے تھے۔
ضمیمے میں لاہور ڈویژن کے جن اضلاع کے نام شامل ہیں ان میں لاہور، شیخوپورہ، سیالکوٹ، اور گوجرانوالہ کے ساتھ ساتھ گرداس پور کا نام بھی واضح لکھا ہوا ہے۔ گرداس پور وہ ضلع ہے جو کشمیر کے ساتھ مشرقی پنجاب کو زمینی طور پر ملاتا تھا مگر تمام اعداد و شمار کے مطابق یہ اک مسلم اکثریتی ضلع تھا۔
1941 کی مردم شماری میں اس کی مسلم آبادی 50 فی صد تھی جبکہ 1947 تک اس میں اضافہ ہوچکا تھا۔ اس ضلعے کو ہندوستان میں شامل کرنے کا فیصلہ کیوں اور کب ہوا کی کہانی حقیقت میں برطانوی افسر سیرل ریڈ کلف کی بدنیتی کی داستان ہے۔ یہ باؤنڈری کمیشن جولائی 1947 میں تب بنایا گیا تھا جب برٹش اسمبلی نے اس قانون کی منظوری دی تھی۔
پاکستان و ہندوستان کے قیام کو مذہبی رنگ دینے کے لیے بنگال و بہار سے سندھ و پنجاب تک جو ہندو مسلم سکھ فسادات کروائے گئے ابھی اس بارے میں زیادہ تحقیق نہیں ہوئی کہ سارے تجزیے مسلم لیگ، کانگریس یا انگریزوں کے پھیلائے بیانیوں کی عینک ہی سے کیے جاتے ہے۔ مگر ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ جمہوریت کی ماں کہلوانے والی برطانوی پارلیمنٹ میں اس بارے میں کیا کہا گیا اور کیا نہیں کہا گیا۔
20 فروری 1947 کو برطانوی پارلیمنٹ میں وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے یہ بتایا کہ برٹش انڈیا کے آخری گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہوں گے اور جون 1948 تک برطانیہ والے برٹش انڈیا کو خیر آباد کہہ دیں گے۔ تاہم محض چار ماہ بعد جب جولائی 1947 میں وزیر اعظم نے آزادی ایکٹ 1947 برٹش اسمبلی میں بحث کے لیے پیش کیا تو یہ تاریخ وسط اگست 1947 ہوچکی تھی۔
یہ بات تادم تحریر صیغہ راز ہے کہ ان چار ماہ میں وہ کون سا طوفان آگیا تھا جس کی وجہ سے جلدی جلدی دونوں ریاستوں کو بنایا گیا۔ 25 فروری 1947 کو ہاؤس آف لارڈز میں تقریر کرتے ہوئے وسکاؤنٹ ٹیمپل ووڈ اس بات کا اقرار کرچکے تھے کہ ایشیا خصوصاً مشرق بعید میں بڑھ چکی قوم پرستی نے برطانیہ کی تمام سیاسی جماعتوں کو نو آبادیات چھوڑنے کی حمایت کرنے پر مجبور کیا ہے۔
تقسیم ہند پر لکھی جانی والی لاتعداد کتب و تحقیقی مقالوں میں اکثر اس دباؤ کا ذکر کم ملتا ہے جو 14 اگست 1947 سے تاج برطانیہ پر تھا کہ جس سے نمٹنے کے لیے تاج برطانیہ کو پہلے کرپس، پھر کیبنٹ مشن اور بعد ازاں ماؤئنٹ بیٹن کو بھیجنا پڑا۔ ایک طرف امریکی دباؤ تھا جو معاہدہءِ اٹلانٹک کے بعد بڑھ رہا تھا تو دوسری طرف 98 برسوں میں پہلی دفعہ رائل برٹش انڈین آرمی میں سبھاش چندر بوس کی قیادت میں بڑی دراڑ پڑی.
اس کھلی بغاوت میں پنجاب سے بڑی تعداد میں فوجیوں نے برطانوی میڈل اتار پھینکے تھے۔ یہی نہیں بلکہ مشرق بعید میں بسنے والے تاملوں نے بھی سبھاش کی فوج میں شرکت کی تھی اور مالی مدد بھی دی تھی۔ چینی انقلاب کی دھمک 1946 میں دور دور سے سنی جا رہی تھی۔ 3جون 1947 کو برطانوی وزیراعظم ایٹلی نے ہاؤس آف کامنز سے خطاب کیا جس میں انڈیا کے حوالے سے مستقبل قریب کا نقشہ پیش کردیا گیا۔
اس خطاب میں نہ صرف پنجاب و بنگال کی تقسیم کی بات کی گئی بلکہ صوبہ سرحد اور سلہٹ کے ریفرنڈم کا ذکر بھی اس میں موجود تھا۔ اس کے علاوہ ایک وائٹ پیپر کا تذکرہ بھی کیا گیا جس کو محققین کو تلاش کرنا چاہیے. یہ کہا گیا تھا کہ 1941 کی مردم شماری کو سامنے رکھتے ہوئے پنجاب و بنگال کے اضلاع کی تقسیم کا فیصلہ ہوگا۔
وزیرِ اعظم کی تقریر کے جواب میں حزبِ اختلاف کے لیڈر چرچل نے بھی یہ بتایا کہ تمام ممبران کو وائٹ پیپر کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ ہمارا بڑا المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش میں اس بحث کو تو 70 برسوں میں ہندی، پنجابی، اُردو، بنگالی وغیرہ میں ترجمہ تک نہ کیا گیا، پھر نوجوان نسل سے یہ گلہ کیسے کیا جائے کہ وہ اپنے ماضی سے لاتعلق ہیں؟
وزیرِ اعظم کی تقریر کے جواب میں پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی آف گریٹ بریٹین کے بانی رکن ولیم گلاچر نے یہ تک کہہ ڈالا کہ اس منصوبے پر حزبِ اختلاف کے لیڈر چرچل کا راضی نامہ اک ایسے شخص کی طرف سے ہے جو پہلے سے برٹش انڈیا کے حوالے سے برا ریکارڈ رکھتا ہے۔
4 جولائی 1947 کو آزادی ایکٹ 1947 ہاؤس آف کامنز میں پیش کر دیا گیا۔ وزیرِ اعظم نے 10 جولائی کو اس پر اپنا مؤقف ممبران کے سامنے رکھا۔ حسبِ معمول انہوں نے ہندوستان کے مسائل کے حل نہ ہونے کا الزام ہندوستانی سیاستدانوں پر ڈالا. یہ وہی وطیرہ ہے جسے پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کی سول و ملٹری افسر شاہی آج بھی ملحوظِ خاطر رکھتی ہے۔ اپنی اس تقریر میں ایٹلی نے کہا کہ ہندوستانی رہنماؤں میں باہمی اتفاق اور برداشت کی سخت کمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دشمن یہ بات کہتے ہیں کہ ہندوستانی رہنماؤں میں اس نفاق اور بداعتمادی کی وجہ ہم (انگریز) ہیں کیوں کہ ہم اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے انہیں لڑاتے تھے جو کہ ‘سفید جھوٹ’ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ “یہ انڈین مشن کی تکمیل کا مرحلہ ہے۔ اگر ہم نے اس عمل میں رکاوٹ ڈالی یا دیر کی تو ہماری کامیابیاں داغدار ہوجائیں گی۔ یہ تو حالات کا دباؤ ہے جس کی وجہ سے ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔”
انہوں نے ہاؤس سے اپیل کی کہ ہمیں بہت جلدی ہے اس لیے اس قانون پر بحث کو بہت جلدی سمیٹنا ہوگا۔ جلدی کیوں ہے؟ کس نے جلدی کا حکم دیا ہے؟ اس بارے میں نہ انہوں نے بتایا اور نہ ہی تقریر کے جواب میں کیے گئے سوال و جواب یا جوابی تقاریر میں اس بارے پوچھا گیا۔ یوں لگتا ہے کہ کچھ باتیں پارلیمنٹ سے باہر طے کرلی گئی تھیں۔
ایٹلی کی 10 جولائی کی تقریر سے پتا چلتا ہے کہ مستقبل کے لیے دو گورنر جنرل ہی بنائے جانے تھے اور یہ بھی طے ہوچکا تھا کہ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے نئے گورنر جنرل ہوں گے۔ علاوہ ازیں سر سیرل ریڈکلف بھی باؤنڈری کمیشن کے لیے راضی نامہ دے چکے تھے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیرِ اعظم نے بتایا کہ اپریل میں ہم نے وائٹ پیپر شائع کردیا تھا۔ اس جواب میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایک پارٹیشن کمیٹی بنا دی گئی ہے جو بعد ازاں پارٹیشن کونسل کہلائے گی اور اس کے سربراہ ماؤنٹ بیٹن ہوں گے۔ کونسل 27 جون سے کام شروع کر چکی ہے۔
وزیراعظم کی تقریر کے جواب میں حسب دستور حزبِ اختلاف کے رہنما ونسٹن چرچل کو تقریر کرنی تھی مگر وہ موجود نہ تھے، اس لیے ہیرولڈ میک ملن، جو بعد میں برطانیہ کے وزیرِ اعظم بھی بنے، نے تقریر کی۔ ان کی یہ تقریر ویسی ہی رعونت کا بھنڈار تھی کہ جیسے برطانوی پارلیمنٹ کی لاتعداد تقاریر۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ہندوستان سے 300 سالہ ‘رشتہ’ ہے۔ وہ ایک قبضے کو بڑی سہولت سے رشتہ کہہ گئے کہ جو معنی خیز حد تک حقائق کے خلاف بات ہے۔
پاکستانی فوجی آمروں کی طرح اس تقریر میں ہیرولڈ صاحب نے انڈیا پر قبضے کی وجہ مقامی جھگڑوں کو قرار دے ڈالا کہ ہر طاقتور اپنے ناجائز کام کا جواز خوب ڈھونڈتا ہے۔ وہ جولائی 1947 میں بھی لارڈ کلائیو کی عظمت کے قائل نظر آئے کہ جن پر رشوت ستانی کا مقدمہ خود برطانیہ میں چلا گیا تھا اور ان کی اسمبلی کی رکنیت بھی منسوخ ہوئی تھی۔
حزبِ اختلاف کے اس رہنما کا استدلال تھا کہ 1858 کے بعد تاج برطانیہ نے ہندوستان کی بہت خدمت کی۔ اگر کوئی برطانوی پارلیمنٹ کو 1872 کے کریمینل ٹرائبز ایکٹ (‘جرائم پیشہ قبیلوں’ سے متعلق قانون) کی کاپی ہی بھیج دے تو معلوم ہوجائے گا کہ اودھ سے پنجاب تک اس قانون کے تحت ایک شخص کی غلطی پر کس طرح پورے پورے قبیلوں اور گروہوں کو مجرم گردانا جاتا تھا اور غیر انسانی سزائیں دی جاتی تھیں.
یہ قانون بدنام زمانہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کی ماں تھا کہ عملاً 1858 کے بعد پورے برصغیر کو فاٹا بنایا ہوا تھا۔ جس محدود حق رائے دہی کی بنیاد پر کونسلوں کے بندوبست کو 1890 کے بعد بتدریج متعارف کروایا گیا، اس پر یہ حضرت بہت اتراتے ہوئے اپنی تقریر میں کہتے ہیں “ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں یہ منفرد مثال ہے کہ حاکم قوم نے محکوم قوم کو از خود اقتدار میں شرکت کی دعوت دی۔”
پاکستانیوں پر ایسے احسانات ایوب، ضیاء اور مشرف بھی کرچکے ہیں جنہوں نے بلدیاتی انتخابات کو اپنے اقتدار کی خاطر بطور سیاسی نرسریاں بار بار استعمال کیا۔ یہ سب انگریزوں کی برکات کا ہی تسلسل تھا جو لندن سے برٹش انڈیا تک مختارِ کُل تھے۔ ہماری اشرافیہ میں رعونت کہاں سے آئی ہے، ان تقاریر و بحثوں کو پڑھ کر یہ بات آسانی سے سمجھ آجاتی ہے۔
ہیرولڈ نے اپنی تقریر میں ایٹلی کے 20 فروری 1947 کے بیان پر تنقید کی اور کہا کہ اس عمل کو سب سے زیادہ نقصان تو ڈیڈ لائن کی تاریخ دینے سے پہنچا ہے۔ ان کا استدلال تھا کہ 250 سال بعد اگر آج ہمیں ہندوستان چھوڑنا پڑرہا ہے تو اس کے لیے دس سے بیس سال کا وقت ہونا چاہیے تھا۔ اگر جلدی کی گئی تو یہاں ایسا طوفان آ سکتا ہے کہ آپ آئرلینڈ، پولینڈ اور چیکوسلواکیہ کی اقلیتی لڑائیوں کو بھول جائیں گے۔
یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم سے صورتحال خطرناک ہوسکتی ہے۔ اس بات کا خطرہ بھی ہے کہ پہلے دو حصّے بنیں اور بعد میں مزید ٹکڑوں سے بٹ جائے۔ ہیرولڈ کو اس قانون کا نام ‘آزادی ایکٹ’ رکھنے پر بھی اعتراض تھا۔ 250 سال حکومت کرنے والوں کو یک دم یہاں رہنے والے ماڑے طبقات کی فکر لاحق ہوگئی کہ تقریر میں ان کے مخدوش مستقبل کا ذکر بھی موجود ہے۔
بل پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستانی ریاستوں کو تن تنہا یا بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ انہوں نے وزیرِ اعظم کے اُس بیان کو سراہا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ریاستیں پاکستان اور ہندوستان میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کا خود فیصلہ کریں گی اور اگر وہ چاہیں تو آزاد بھی رہ سکتی ہیں۔
ریاستوں کو آزاد رہنے کا اختیار کم از کم آزادی ہند قانون میں نہیں لکھا۔ کیا وزیرِ اعظم نے یہ بیان ریاستوں کے حکمرانوں اور برطانیہ کے قدامت پسندوں کو خجل کرنے کے لیے دیا تھا؟ کئی ریاستیں اس چکر میں آگئیں مگر اس کا نتیجہ مار دھاڑ کے سوا کجھ نہ نکلا۔
ہیرولڈ نے اس تقریر میں اک ایسی بات کہی جو پاکستان میں اسلام پسند بھی کہتے ہیں۔ قدامت پسند پارٹی کے اس رہنما نے کہا کہ یہ تقسیم نہ تو جغرافیائی ہے، نہ معاشی بلکہ مذہبی تقسیم ہے۔
اب ذرا اس پر غور کریں کہ ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کی جب بھی بات کی جائے گی تو اس میں جغرافیہ تو لامحالہ آجائے گا۔ البتہ مذہبی حلقے اسلام کی بات کرتے ہیں۔
دوسری اہم بات جو خطبہ الہٰ آباد اور 23 مارچ 1940 کی قرارداد میں سب سے زیادہ زور دے کر کہی گئی تھی وہ تھا مسلم اکثریتی صوبوں میں خود مختاری کا سوال۔ اس تمام تر تحریک میں جغرافیائی و معاشی عنصر کو باہر رکھا ہی نہیں جا سکتا۔
پھر کم از کم جولائی 1947 تک بھی اس قدر بڑے پیمانے پر مذہبی بنیادوں پر انتقال آبادی کا کسی کو خیال بھی نہ تھا۔ اگر مذہبی منافرت نہ پھیلتی تو آبادی کا اس قدر بڑے پیمانے پر انخلاء بھی نہ ہوتا۔ اسی طرح ہندوؤں کے حقوق کی بات کرنا اور ہندوتوا میں بڑا فرق تھا۔
مگر ہیرولڈ صاحب جولائی 1947 ہی میں اسے مذہبی تقسیم گردان رہے تھے۔ 50 سال آگے دیکھنے والے اعلیٰ اذہان اور انتظامی امور میں ماہر سول و ملٹری بیوروکریسی کے باوجود دنیا نے 1947 میں سب سے بڑے مذہبی دنگوں کو دیکھا مگر جولائی 1947 میں جمہوریت کی ماں کہلانی والی پارلیمنٹ کا ریکارڈ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کو بھانپنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی تھی۔
پارلیمنٹ کو اس بات کی فکر زیادہ تھی کہ شیڈیول کاسٹ کا کیا بنے گا؟ اینگلو انڈین کیا کریں گے؟ یا پھر نئی دونوں ریاستیں دولت مشترکہ کا حصّہ بنیں گی یا نہیں؟ ہیرولڈ تقریر ختم کرتے ہوئے مطمئن نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جا تو رہے ہیں مگر یہاں انگریزی زبان چھوڑے جارہے ہیں جواب ہندوستانی زندگی کا مستقل حصّہ ہے۔
یہاں ہندوستانی سے ان کی مراد ہندوستانی اشرافیہ ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ سائنس اور دیگر علوم کا تعلق بھی برطانوی اداروں ہی سے جڑے گا۔ انہیں اس پر بھی اطمینان تھا کہ وہ اپنا عدالتی بندوبست بھی چھوڑے جارہے ہیں۔
اس چند دن کی بحث کے دوران برطانوی پارلیمنٹ میں بہت سے دبی دبی آوازیں بھی تھیں، جن میں ایک شمال بریڈ فورڈ کی موریئل ایڈتھ نیکول بھی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ “کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم ہندوستان کو الوداع تو کہہ رہے ہیں مگر مجھے ایسا نہیں لگتا کہ اس کے بعد ہندوستان آزاد و خود مختار ہو جائے گا۔ اس مختصر سے قانون کے ذریعے، جس پر دو دن بحث ہوئی، ہندوستان کو اس آزادی کا پروانہ بخشا گیا جس کے لیے مجھ جیسے پچھلے 25 برسوں سے جدوجہد کررہے ہیں۔ انڈیا کو آزادی تو گلیوں، محلوں سے ہونے والی جدوجہد کی وجہ سے مل رہی ہے جو طویل عرصے سے جاری ہے۔ ان تقریروں میں جو یہاں ہو رہی ہیں، ان میں بہت سے اچھے کاموں کا ذکر بھی ہے جو ہم نے بجا طور پر کیے۔ مگر ہمیں ان باتوں کا ذکر بھی کرنا چاہیے جو ہم نے ان لوگوں سے چھین لیں۔ میں پچھلے سال ہی انڈیا گئی تھی۔ وہاں اسکولوں کی ناگفتہ بہ حالت دیکھی نہیں جاتی۔”
اس موقع پر ارل ونٹرٹن نے مداخلت کی اور تکنیکی سوال اٹھاتے ہوئے بتایا کہ تعلیم تو صوبائی مسئلہ ہے اور صوبائی اسمبلی پچھلے 22 برسوں سے اس کی ذمہ دار ہے۔ ان کا اشارہ چیمسفورڈ اصلاحات 1919 کے بعد بننے والی اسمبلیوں کی طرف تھا جن کا کوئی وزیر اعلیٰ ہی نہیں ہوتا تھا اور اسمبلی کا فیصلہ مسترد کرنے کا اختیار بھی گورنر کے پاس تھا۔ یہ اسمبلیاں محدود حق رائے دہی پر بنتی تھیں۔
نیکول نے کہا، “یہ درست ہوسکتا ہے مگر جب بھی کوئی اجنبی ہندوستان جاتا ہے تو اسے بھوک اور ننگ ہر طرف نظر آتی ہے۔ ہندوستانی لوگوں کی بڑی اکثریت پرائمری تک بھی نہیں پڑھ سکتی۔ اگر صحت کی بات کریں تو وہاں اس سے بھی برا حال ہے۔ ہم نے کچھ کام کیے ہوں گے مگر بہت سے کام ہم نے نہیں کیے۔”
اس کے جواب میں ونٹرٹن نے کہا جن باتوں کا الزام ہمیں دیا جا رہا ہے وہ تو ہندوستانیوں کے اپنے اختیار میں تھے۔
اس کے جواب میں نیکول خاموش نہیں رہیں اور کہا، “کیا ہماری بھی کوئی ذمہ داری تھی؟” ونٹرٹن ہاں کہنے پر مجبور ہوئے۔ نیکول نے کہا کہ “یہ 40 کروڑ لوگ، جنہیں ہم آزادی بخش رہے ہیں، ہماری حکومت کا حصّہ تھے۔ اج وہ جیسے بھی ہیں اس کے ہم ذمہ دار ہیں۔ اب انہیں ایک موقع مل رہا ہے اور میں ان کے ساتھ ہوں۔”
اس ‘کھلے ترجمے’ سے چند نمونے پڑھنے کے بعد آپ کو یہ اندازہ ہو گیا ہوگا کہ دیگ میں کیا کچھ ہے۔ یہ تقاریر و مباحث ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ 70سال گزرنے کے باوجود ابھی ہم نے اپنی تاریخ کو جاننے کے کام کا آغاز کرنا ہے۔ جو تاریخ تعصب تفاخر میں ہم جنوبی ایشیائی ریاستوں میں لکھ پڑھ رہے ہیں اس بارے میں بہت سے سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔
یہ تو محض برطانوی پارلیمنٹ میں آخری دنوں کی بحث سے چند نمونے تھے۔ اگر آپ لینڈ اینڈ لیز ایکٹ پر ہونے والے امریکا کے ایوانِ نمائندگان کی داستانیں پڑھ لیں کہ 1937 سے 1942 تک جو کایا کلپ وہاں ہوئی اس کا ہم سمیت دیگر ممالک پر کیا اثر پڑا تو آپ کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ اس وقت جرمن، روسی، فرانسیسی، ہمارے بارے میں کیا لکھ پڑھ رہے تھے وہ اپنی جگہ اہم ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کو بنے 70سال ہوگئے۔ بنگلہ دیش کو بنے بھی 46 سال ہوچکے مگر ہماری یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو ریاستی بیانیوں کو چلانے سے فرصت ملے تو کہیں جا کر تحقیق کا باب کھلے۔ بھلا ہو رضا ربانی جیسوں کا کہ اب کم از کم پاکستان کی قومی اسمبلی کی تقاریر و بحثیں 1947 سے آج تک آن لائن، رکھ دی گئی ہیں۔ اب تو ہماری یونیورسٹیوں کو ان پر تھیسز کروانے چاہیئں۔
اگر ہمارے نوجوان ان اسمبلیوں میں ہونے والی بحثوں کو خود بخود پڑھ ڈالیں گے تو یہ سب پرانے بیانیے خود بخود ریت ہوجائیں گے۔ نسیم احمد باجوہ نے تو ابھی ایک ہی جلد مرتب کی ہے کہ اس موضوع پر تو دفتر لکھے جاسکتے ہیں۔ اس سے قبل باجوہ صاحب نے تقسیم پنجاب کا خفیہ ریکارڈ ترجمہ کروا کے چھپوایا تھا۔
ڈان کے مرحوم ایڈیٹر احمد علی خاں کے بقول مسلم اقلیتی صوبوں سے تو محض 5 فیصدی لوگ ہی پاکستان آئے تھے، باقی وہیں رہے اور بنگال میں بسنے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد مشرقی بنگال ہی رہی تھی، جبکہ پنجابی مسلمان پورے صوبے میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرقی پنجاب کے کسی بھی ڈویژن میں پنجابی مسلمانوں کا تناسب 28 فیصد سے کم نہ تھا۔
ایسے میں آل انڈیا کانگرس ہی وہ جماعت تھی جس نے مارچ 1947 میں پنجاب کی مذہبی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا۔ راج موہن گاندھی نے کانگریس کی اس قرارداد کو ایک ‘ہمالیائی غلطی’ قرار دیا ہے۔ ہندو اور سکھ پنجابیوں کا مغربی پنجاب سے اور مسلم پنجابیوں کا مشرقی پنجاب سے مکمل انخلاء ایک ایسا دردناک باب ہے جس سے تاریخ لہولہان ہے، مگر جولائی 1947 میں اس ایکٹ پر بحث کرنے والوں کو اس کی چنداں خبر نہ تھی جبکہ پاکستان میں ایسے لیڈر موجود جو آج بھی ان کے گن گاتے ہیں۔
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ 1940 کی دہائی کے دوسرے نصف میں اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، اور آئی ایم ایف ہی نہیں بنائے جا رہے تھے بلکہ کیمونسٹ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کے آغازکا زمانہ بھی یہی ہے۔ ایم آئی سکس کی 1909 سے 1949 تک کی تاریخ لکھنے والے کیتھ جیفری کے بقول برطانوی خفیہ ادارے 1920 کی دہائی سے مذہبی شدت پسندوں کو کیمونزم کے خلاف اس نظریے کے تحت مدد دے رہے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اسلام کو کیمونزم کو روکنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے یہ بات پھیلانی ضروری ہے کہ کیمونزم مذہب اور خدا مخالف ہے۔
اس پالیسی کو میکارتھی ازم میں فٹ کردیا گیا تھا اور بعدِ ازاں یہ ‘گھما’ پاکستانی سیاست میں خوب چلا۔ پنجاب کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم سے پنجاب ہی نہیں بلکہ کشمیر،خیبر پختونخواہ، فاٹا، کراچی اور بلوچستان پر بھی اثر پڑا اور جس مذہبیت کا ابھار ہوا، وہ قائدِ اعظم کی مسلم لیگ کی سیاست کا حصہ نہیں تھا۔
جون 1948 میں جو آزادی دی جانی تھی، اسے یکدم دس مہینے پہلے عملی شکل دینے کے فیصلے کا کھرا بھی اسی سیاست سے جڑتا ہے کیوں کہ مذہبی بنیادوں پر آبادیوں کی منتقلی یا عوام کی ہجرت کا سوال تو کسی بھی ہندوستانی جماعت کے ایجنڈے پر مارچ 1947 تک نہیں تھا۔ مگر پنجاب میں مذہبی بنیادوں پرمکمل انخلا کو یقینی بنایا گیا۔ خود بانی پاکستان اپنی مشہور 11 اگست 1947 کی تقریر میں اس اندوہناک مار دھاڑ پر خون کے آنسو رو رہے تھے جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔
آزادیءِ ہند ایکٹ 1947 اپنے اندر بہت سی کہانیاں چھپائے ہے کہ اب 70 سال بعد اس بارے میں بھی بات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تحریر پاکستان کی 70ویں سالگرہ پر اس لیے لکھی گئی ہے کہ شاید پڑھنے والوں میں سے کوئی نئے سرے سے اس نامکمل باب کو لکھنے پر آمادہ ہو۔
Source : https://www.dawnnews.tv/news/1062916