مدثر اقبال بٹ….(آوازِ پنجاب)
مادری زبانوں کا عالمی دن ہر ملک‘ ہر قوم میں پرجوش انداز میں منایا جاتا ہے تقریبات ہوتی ہیں۔ سیمینار ہوتے ہیں۔ جلسے جلوسوں میں اپنی اپنی زبان پر فخر بھی ہوتا ہے اور اس کے تحفظ کا عزم بھی ظاہر کیا جاتا ہے لیکن پنجاب کے بارہ کروڑ عوام کتنے بدقسمت ہیں کہ وہ اپنی کسمپرسی اور جان کنی کی حالت میں مادری زبان پر نوحہ خوانی بھی نہیں کرتے اور اس سازش کےخلاف صدائے احتجاج بھی بلند نہیں کرتے جو انگریز سامراج نے شروع کی‘ زبانوں کو مذاہب میں تقسیم کیا اور مسلمانوں پر وہ زبان غالب کردی جس کا تعلق پنجاب کی تہذیب‘ ثقافت اور تاریخ سے نہیںتھا۔ یہ دہلی کے اس پار آباد افغانیوں اور ایرانیوں کی یجاد کردہ وہ لشکری زبان تھی جس کو حکمرانوں نے عوام سے رابطے کیلئے تحفظ بھی دیا تھا اور اس کی سرپرستی بھی کی تھی۔ اس زبان میں عربی اور فارسی کے ساتھ مقامی زبانیں شامل کی گئی تھیں۔ اس اردو زبان میں ستر فیصد سے زائد پنجابی کے الفاظ شامل ہوئے۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے اس پر تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے مگر ایک اور حقیقت تو یہ بھی ہے کہ اردو کی جتنی خدمت پنجابیوں نے کی ہے علامہ اقبال سے فیض احمد فیض احمد اور منشی پریم چند سے احمد ندیم قاسمی تک شاید خود افغانیوں اور ایرانیوں نے بھی نہیں کی بلکہ آج کی سچائی تو یہ ہے کہ ہمارے پختون بھائیوں نے 73ءکے آئین میں ملنے والے ”لسانی حق“ کو استعمال کر کے اپنے صوبہ میں تو پشتو زبان کو نصابی تحفظ دے کر تعلیمی زبان بھی بنا لیا ہے۔ ایسی ہی صورتحال سندھ اور بلوچستان کی ہے لیکن جب کبھی پنجابی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی بات ہوتی ہے تو انگریز کی باقیات پنجابی اشرافیہ کے ساتھ وہ بھی کھڑی ہو جاتی ہے۔ سیاسی تنظیمیں اور بیورو کریسی میں شامل عناصر بھی پنجاب دشمن پنجابی بیورو کریسی کے ہمنوا ہو جاتے ہیں ہمارے بعض اداروں کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے۔ سیاسی تنظیمیں اور بیورو کریسی کے درمیان اس پس منظر میں رابطے بھی ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کر رہے ہیں تاکہ بارہ کروڑ سے زائد عوام اپنی زبان سے محروم رہیں اور وہ اپنی تہذیب‘ ثقافت اور تاریخ سے حقیقی آشنائی حاصل نہ کر سکیں۔ وہ اسی گمراہی اور الجھن میں ہی جکڑے رہیں۔
”پنجاب“ اور پنجابی سامراج کے نام پر پنجاب کے بارہ کروڑ سے زائد عوام کےخلاف وہ سازش ہے جس کا کوئی نہ کوئی پہلو عین اس وقت سامنے آتا ہے‘ جب پنجابی زبان اور ثقافت کے حوالے سے حکمران کوئی اہم فیصلہ کرنے والے ہوتے ہیں ایک اخبار نویس کی حیثیت سے علم ہے کہ شرح خواندگی میں بتدریج ہونے والی کمی کی وجہ سے مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے پر غور ہو رہا تھا۔ سرائیکی صوبہ کی تحریک لسانی بنیادوں پر شروع کر دی گئی۔ اس میں میڈیا بھی شامل ہو گیا اس کا غور طلب پہلو ٹائمنگ بھی ہے اور اس کے مابعد اثرات بھی ہیں کہ اس تحریک کے باعث پنجابی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا فیصلہ التوا میں چلا گیا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ اس کا فائدہ کس کو ہوا؟ سرائیکیوں کے نمائندوں کو یا پھر اردو کا تسلط برقرار رکھنے والوں کو؟
لہٰذا پنجاب حکومت پنجابی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی خواہش سے دستبردار ہو چکی ہے کہ اگر وہ پنجابی زبان پر توجہ مرکوز کرے گی تو پھر سرائیکی کے دعویداروں کو کیا جواب دیا جائے گا، ہم سمجھتے ہیں کہ سرائیکی تحریک والے نہیں بلکہ اس تحریک کو انگلیوں پر نچانے والے پنجابی زبان کے دشمن کامیاب ہوئے ہیں۔
بہرحال عالمی دباﺅ کا ہی نتیجہ ہے کہ پالیسی سازوں نے متبادل راستہ تلاش کیا ہے۔ ڈویژن اور اضلاع کی سطح پر میوزیم اور لائبریریوں کے ساتھ ثقافتی مراکز بنانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس کا فائدہ عوام کو کیا ہوگا؟ جو اپنی مادری زبان کی ترقی و ترویج اور بالادستی بھی چاہتے ہیں۔ اسے ذریعہ تعلیم بھی دیکھنا چاہتے ہیں مگر ہمارے حکمران سیدھے ہاتھ سے کان پکڑنے کوتیار نہیں۔ اگر انہوں نے یہ کام بہت پہلے کر لیا ہوتا۔ بدنیتی اور عوام دشمنی کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا۔ پنجاب کی تاریخ اور تہذیب‘ ادب اور ثقافت کےخلاف سازش نہ کی ہوتی تو آج اسے اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ مہرے خودسری کا مظاہرہ کرتے اور نہ ہی وہ خود مخمصے کا شکار ہوتے۔ انہیں فیصلوں میں تذبذب کا شکار ہونا پڑتا اور نہ ہی وہ پنجاب کے بارہ کروڑ عوام کے اعتماد سے محروم ہوتے۔
بہرحال حرف آخر کی صداقت یہی ہے کہ دیگر قومیں پنجابیوں سے زیادہ سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے سازشوں کے ذریعے پنجابیوں کواپنی زبان سے محروم رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ 60 فیصد سے زائد پاکستانی جب زبان کے توسط سے اپنی دھرتی سے تعلق پیدا کریں گے تو وہ زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوگا۔ اسے مجروح کرنا بھی ناممکن ہوگا۔
February 22, 2017 Daily Khabrain