اسلام آباد(ویب ڈیسک)سرائیکی صوبے یا جنوبی پنجاب کے نام سے نئے صوبے کی تحریک ایک دفعہ پھر زور پکڑ گئی ہے۔ یہ تحریک نئی نہیں،بلکہ70ء کی دہائی میں اس کا خاصہ غلغلہ تھا اور تاج محمد لنگاہ اور کئی اصحاب اِس کے نمایاں لیڈروں میں شامل تھے۔اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو
کا طوطی بول رہا تھا،لیکن انہوں نے بھی اِس مطالبے کو پذیرائی نہیں بخشی،کیونکہ شاید اُنہیں احساس تھا کہ نئے صوبے کے اعلان سے انہیں جنوبی پنجاب میں تو مقبولیت حاصل ہو جائے گی، لیکن اِس کا باقی پنجاب پر منفی اثر پڑے گا،جبکہ پیپلز پارٹی کی کامیابی کا دارو مدار پنجاب پر ہی تھا۔اب انتخابات کے قریب جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں نے مسلم لیگ(ن) اور پارلیمینٹ سے استعفے دے دیئے ہیں۔تقریباً پونے پانچ سال وہ حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے رہے۔ خسرو بختیار تو ایک حکومت میں خارجہ امور کے وزیر مملکت بھی رہے،لیکن اُن کے منہ سے جنوبی پنجاب کا کبھی ذکر نہیں سُنا۔زمینداری اور جاگیرداری اب صرف سندھ اور سندھ سے ملحقہ علاقے جنوبی پنجاب میں موجود ہے، باقی پنجاب میں اس کا کوئی وجود نہیں رہا۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ زمینداروں نے (میرا اپنا تعلق ایک زمیندار خاندان سے ہے) بے اُصولی کو ایک اُصول بنا لیا ہے۔وقت بہت آگے نکل گیا ہے،لیکن زمیندار طبقہ ابھی تکStatus Quo اور ابن الوقتی کا سمبل بنا ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ اقتدار کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ملک میں چار دفعہ مارشل لاء لگ چکا ہے،لہٰذا عام آدمی بھی سونگھ لیتا ہے کہ اقتدار میں کس
نے آنا ہے اور کس کی منزل کھوٹی ہونی ہے۔لہٰذا وہ ادھر کا ہی رُخ کر لیتا ہے۔مسئلہ نئے صوبے کی تشکیل تھا، بات کہیں اور نکل گئی۔ہر باشعور انسان سمجھ سکتا ہے کہ ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل کی ضرورت ہے،لیکن یہ کہاں سے شروع ہو اور بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔صوبے بنانا کوئی آسان کام نہیں۔اس مقصد کے لئے ملک میں سیاست دانوں اور رائے عامہ کے لیڈروں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے،لیکن اس وقت تو سیاسی میدان میں تلخی عروج پر ہے لہٰذا کسی اتفاق رائے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔نئے صوبے کے لئے مطالبہ کرنے والے بھی شاید اس میں مخلص نہیں۔ انہیں بھی ڈوبتے ہوئے جہاز سے چھلانگ لگانے کے لئے کوئی بہانہ چاہئے تھا۔افسوس کہ ایسے سنجیدہ مسائل پر سیاست ہو رہی ہے۔مسلم لیگ(ن) کے صدر شہبازشریف نے کہا ہے کہ نئے صوبوں کے لئے قومی سطح پر کمیشن بنانے کی ضرورت ہے۔ مَیں نے پچھلے سال 25نومبر کو ’’نئے صوبوں کا قیام‘‘ کے موضوع پر ایک کالم لکھا تھا، جس میں تفصیل سے اس مسئلے کا جائزہ لیا گیا تھا اُس میں مَیں نے اِسی قسم کے کمیشن کی تشکیل کا آئیڈیا پیش کیا تھا۔کمیشن ملک کے
مختلف شعبوں کے ممتاز افراد پر مشتمل ہونا چاہئے اور اُسے ایک سال کا وقت دیا جا سکتا ہے،لیکن ایسے کمیشن کی تشکیل کو بھی تمام پارٹیوں کی حمایت ہونی چاہئے۔اب تک پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) جنوبی پنجاب کے نام سے نیا صوبہ بنانے پر اتفاق کر چکی ہیں،لیکن اسے صرف ایک صوبہ بنانے تک محدود نہیں کرنا چاہئے۔نئے صوبوں کے لئے کئی علاقوں سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں،انہیں بھی نظر انداز کرنا مشکل ہو گا،مثلاً خیبرپختونخوا میں تو اِس مسئلے پر کئی شہادتیں بھی ہو چکی ہیں۔سندھ میں ایم کیو ایم بھی شدید فرسٹریشن کا شکار ہے،کیونکہ نہ تو نئے صوبے کے مطالبے کو پذیرائی دی جاتی ہے اور نہ ہی اُن کا نمائندہ وزیراعلیٰ بن سکتا ہے، اب اگر جنوبی پنجاب کا صوبہ وجود میں آ جاتا ہے تو دوسرے صوبوں سے اِس مقصد کے لئے مطالبہ میں شدت پیدا ہو جائے گی، لہٰذا نئے صوبوں کے مطالبے کو بیک وقت ایڈریس کرنا ہو گا۔نئے صوبوں سے ملک میں انتظامی اختیارات اور آبادی کی تقسیم میں توازن پیدا ہو جائے گا اور لوگوں کے روزمرہ مسائل آسانی سے حل کرنے میں مدد ملے گی،پھر نئے صوبوں کے عوام کو اختیار اور اقتدار میں شرکت کا بھرپور احساس ہو
گا۔اس سے قومی یکجہتی کے احساس کو تقویت ملے گی۔یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے،لیکن اس کا حل آسان نہیں۔اِس کے لئے وسیع النظری اور سیاسی تدبّر کی ضرورت ہے۔پیپلزپارٹی نے اپنے پچھلے دورِ حکومت میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی ایک بھونڈی کوشش کی تھی،جو ظاہر ہے ناکام ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے اقتدار کے آخری دِنوں میں یہ مسئلہ اِس خیال سے اٹھایا کہ اُسے نئے صوبے میں مقبولیت حاصل ہو گی اور وہ شاید آئندہ وہاں حکومت بنانے کے قابل ہو سکے۔پیپلزپارٹی نئے صوبوں کی تشکیل کے معاملے میں ویسے بھی دوغلی پالیسی کا شکار ہے وہ پنجاب کی تقسیم کرنے کی تو حمایت کرتی ہے،لیکن انہی دلائل پر سندھ کی تقسیم اُس کے لئے قطعاً قابلِ قبول نہیں۔ جنوبی پنجاب کا کیس یہ ہے کہ یہ علاقہ صوبائی دارالحکومت لاہور سے طویل فاصلے پر ہے، لہٰذا ٹیل پر ہونے کی وجہ سے حکومت کی توجہ اور ضروری وسائل سے محروم ہے اور یہاں کے لوگوں کو اپنے مسائل کے لئے لاہور تک سفر کرنا پڑتا ہے، لیکن کیا لاڑکانہ کا فاصلہ کراچی سے اتنا ہی نہیں، کیا وہاں نیا صوبہ بننے سے لوگوں کو فائدہ نہیں ہو گا، لیکن افسوس کہ اتنے سنجیدہ قومی مسئلے سے نمٹنے کے لئے جس خلوص، دور اندیشی اور اخلاقی جرأت کی ضرورت ہے اُس کا مظاہرہ سیاسی لیڈروں میں نظر نہیں آتا۔ اگر ہم واقعی آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سیاسی مصلحتوں سے بلند ہونا ہو گا۔(ذ،ک)