اگست 21, 2017
مملکت خداد پاکستان میں متنوع و مختلف زبانوںاور قومیتوں کے باسی موجود ہیں ۔ریاست کی ذمہ داری کہ تمام ملکی شہریوں کو مساوی حقوق کی فراہمی بغیر کسی تفریق و امتیاز کے یقینی بنائی جائے۔ملک کے طول و عرض فاٹا،اندرون سندھ ،بلوچستان کے شہریوں کو بنیادی سہولیات زندگی میسر نہیں ہیں کہ تعلیم و تربیت اور صحت کا شعبہ اور روزگار کی عدم دستیابی،نان نفقہ و گھر سے محرومی،اعلیٰ تعلیم کے حصول میں روکاوٹ و حجاب ،قومیت و لسانیت کی بنیادپر انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کا عدم تحفظ کا عوام کو سامنا ہے اور یہی وہ مسائل ہیں
جن کی کثرت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے اکثریتی علاقہ جنوبی پنجاب جہاں سرائیکی و بلوچی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے ۔ان کی صورتحال بھی قابل رحم ہے کہ حکومت نے وہاں کے سیاستدانوں کووزیر و مشیر اور ڈپٹی سپیکر جیسے بڑے عہدوں پر تو براجمان کردیا ہے مگر امر واقع میں کیا یہ سیاستدان اپنے حلقوں میں عوامی مسائل کو حل کررہے ہیں یا ان کے مسائل میں اضافہ ۔اس بات کا بھی نوٹس نہیں لیا جاتاکہ غربت و افلاس کی چکی میں پسنے والے بے روزگار لوگوں کو سردار و وڈیرے ہی انتہاپسندی و دہشت گردی اور بدامنی پر ابھارتے ہیں کہ وہ چند ٹکوں کی خاطر اپنے عزت و عصمت کو سرداروں کے گھروں میں گروی رکھ کر مسلح ہوجاتے ہیں یا معاشرے میں فتنہ پروری پھیلاتے ہیں ۔جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والا اول تو تعلیم سے ہمکنار نہیں ہوسکتاکیونکہ خود ڈیرہ غازیخان میں انڈس یونیورسٹی جو کہ ایک ایم این اے کی ملکیت ہے نے کس قدر طلبہ کا استحصال کیا اس پر کوئی بھی حکومت و عدالت اور فوج نے ایکشن نہیں لیا بلکہ وہ وزارت کے منصب سے فیضیاب ہوئے۔اور جب کوئی تعلیم حاصل کرجائے تو ان کو روزگار کے حصول کیلئے سرداروں اور وڈیروں کی کاسہ لیسی کرنا پڑتی ہے بجز اس کے انہیں کوئی بھی ادنیٰ سے ادنیٰ ملازمت نہیں مل سکتی ،افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی ووٹر ماسوائے کاسہ لیسوں کی مدد کے منتخب عوامی نمائندوں تک اپنی دہائی نہیں پہنچا سکتا۔اسی طرح راجن پور کی عوام سرداروں کے دام فریب میں بری طرح کسی جاچکی ہے کہ وہاں پر اکیسویں صدی میں بھی تعلیم و صحت،پانی و بجلی اور روزگار کی سہولت فراہم
ہیں کی گئی۔جبکہ جنوبی پنجاب سے گزرنے والے دریا اور برساتی نالوں کا پانی سالہاسال سے ضائع ہورہاہے کسی بھی نمائندے نے سنجیدہ بنیادوں پر عوام کی فلاح و بہبود کے پیش نظر لاکھوں ایکٹر اراضی کو آباد کرنے یا بسانے کا خواب نہیں دیکھا ۔اگر کچھ ہوابھی ہے تو صرف اتنا کے اپنی زمین کی قیمت بڑھانے یا اپنی ذاتی سہولت کیلئے ائیرپورٹ،سرکٹ ہائوس،فورٹ منرو کے مقام پر جزوی کام کرایا گیاہ۔جو کہ روڑوںغریب و نادار افرادکی داد رسی کیلئے عشرے عشیر کا کام بھی نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گورچانی،لغاری، مزاری ،کھوسہ اور دریشک سمیت تمام قومیتی جماعتوں کے سربراہوں کا کڑا محاسبہ کیا جائے تاکہ جنوبی پنجاب کی عوام ان کے مظالم سے نجات حاصل کرے اور وہیں پر حکومت ،عدلیہ اور پاک فوج بے بس و بے کس مظلوم شہریوں کی داد رسی کرتے ہوئے ان کو شعبہ زندگی کے بنیادی حقوق فراہم کرے۔جس کے نتیجہ میں جنوبی پنجاب کے تمام مسائل کا خاتمہ ہوجائے گا اور عوام و حکمران سکھ چین کا سانس لینے میں کامیاب ہوں گے۔
تحریر: عتیق لرحمن
Source : http://www.dailymuballigh.pk/columns/2017/08/21/11437